Dure-Mansoor - Al-Baqara : 127
وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُ١ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَ : اور اِذْ : جب يَرْفَعُ : اٹھاتے تھے اِبْرَاهِيمُ : ابراہیم الْقَوَاعِدَ : بنیادیں مِنَ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کی وَ : اور اِسْمَاعِيلُ : اسماعیل رَبَّنَا : ہمارے رب تَقَبَّلْ : قبول فرما مِنَّا : ہم سے اِنَکَ : بیشک اَنْتَ : تو السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
اور جب اٹھا رہے تھے ابراہیم کعبہ کی بنیادیں اور اسماعیل بھی۔ اے ہمارے رب قبول فرما لے ہم سے بیشک تو ہی خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا واقعہ (1) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ قواعد سے مراد بیت اللہ کی بنیادیں ہیں۔ (2) احمد، عبد بن حمید، بخاری، ابن جریر، ابن ابی حاتم، الجندی، ابن مردویہ، حاکم اور بیہقی نے دلائل میں سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ اے نوجوانوں کی جماعت مجھ سے پوچھ لو بلاشبہ مجھے شک ہے کہ میں تمہارے درمیان سے چلا جاؤں لوگوں نے آپ سے بہت سے سوال کئے ایک آدمی نے ان سے عرض کیا اللہ تعالیٰ آپ کی اصلاح فرمائے آپ مقام کے بارے میں بتلائیے کیا وہ ایسا ہی ہے جیسا ہم بیان کرتے ہیں انہوں نے پوچھا تم کیا بیان کرتے تھے۔ عرض کیا ہم یہ کہتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) جب تشریف لائے تو اسماعیل (علیہ السلام) کی بیوی نے ان سے (سواری سے) اترنے کو کہا تو انہوں نے اترنے سے انکار کردیا تو وہ اس پتھر کو اٹھا کرلے آئیں انہوں نے کہا ایسا نہیں ہے (پھر) سعید بن جبیر نے کہا کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا سب سے پہلے عورتوں میں سے اسمعایل کی والدہ نے نطاق (یعنی کمر بند) اس لئے باندھا تھا تاکہ حضرت سارہ ؓ کے جو جذبات تھے وہ ٹھنڈے ہوجائیں پھر حضرت ابراہیم حضرت حاجرہ اور ان کے لڑکے اسماعیل کو لے کر بیت اللہ کے پاس پہنچے اور وہ اپنے بچے کو دودھ پلاتی تھیں یہاں تک کہ مسجد کے اوپر والے حصے میں زم زم کے اوپر والے درخت کے نیچے دونوں کو بٹھایا۔ اور ان دنوں مکہ میں کوئی بھی نہیں تھا اور نہ وہاں پانی تھا حضرت ابراہیم نے ایک خورجین جس میں چھوارے تھے اور ایک مشکیزہ پانی سے بھرا ہوا ان دونوں کے پاس رکھ دیا پھر لوٹ پڑے تو اسماعیل کی والدہ نے ان کا پیچھا کیا اور کہنے لگیں اے ابراہیم ! آپ ہم کو اس ویران وادی میں جہاں نہ انسان ہے نہ کچھ کھانے پینے کی چیز ہے چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو حضرت ہاجرہ نے یہ بات کئی بار کہی مگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کی طرف توجہ نہ کی آخر حضرت ہاجرہ نے کہا کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے ؟ فرمایا ہاں کہنے لگیں تو اللہ ہم کو ضائع نہیں کرے گا پھر لوٹ آئیں حضرت ابراہیم چل دئیے جب وہ گھاٹی میں پہنچے جہاں سے وہ نظر نہیں آتے تھے تو بیت اللہ کی طرف منہ کرکے دونوں ہاتھ اٹھا کر ان الفاظ میں دعا کی لفظ آیت ” ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم۔ ربنا لیقیموا الصلوۃ فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیہم وارزقھم من الثمرت لعلہم یشکرون “ (سورۃ ابراہیم آیت 37) ۔ اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ حضرت اسماعیل کو دودھ پلاتی رہیں اور اس پانی کو پیتی رہیں یہاں تک کہ جو کچھ مشکیزے میں تھا وہ ختم ہوگیا اب پیاس لگی اور بچہ بھی پیاسا ہوگیا۔ بچہ کی طرف نظر اٹھائی تو بچہ پیاس کی وجہ سے زمین پر پاؤں مارہا ہے یہ منظر دیکھ کر بےتاب ہوگئیں اور چل پڑی انہوں نے صفا کو زمین کے پہاڑوں میں سے قریب پایا جو اس سے ملا ہوا تھا صفا پر چڑھ کر وادی کی طرف دیکھنے لگیں کہ شاید کوئی شخص نظر آجائے جب کوئی نظر نہ آیا تو صفا سے اتر کر وادی میں پہنچی اور اپنی چادر کو ایک طرف کو اٹھا کر ایک محنت کش انسان کی طرح تیز چلنے لگیں یہاں تک کہ وادی سے گزر کر مروہ پہاڑی پر چڑھ گئیں اس پر کھڑے ہو کر نظر دوڑائی کہ شاید کوئی شخص نظر آجائے لیکن کوئی دکھائی نہ دیا اسی طرح سات چکر لگائے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اسی لئے حاجی لوگ صفا ومروہ کے درمیان دوڑتے ہیں۔ (آخری مرتبہ) جب مروہ پر چڑھی تو ایک آواز سنی اور خود اپنے آپ سے کہنے لگیں ٹھہرو پھر کان لگا کر اس آواز کو سنا فرمایا کیا تو نے سنا ہے کہ تیرے پاس ایک مددگار ہے اچانک زم زم کے مقام پر ایک فرشتہ نمودار ہوا اور اس نے زمین کو اپنی ایڑی یا پر مارا یہاں تکہ کہ پانی نکل آیا حضرت ہاجرہ پانی کو ہاتھ کے ساتھ جمع کر رہی تھیں اور اپنے ہاتھ سے چلو بھر بھر کر مشکیزہ میں ڈال رہی تھیں جونہی چلو بھر کر اٹھاتی تھیں اور ابل آتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسماعیل کی والدہ پر اللہ کی رحمت ہو اگر وہ زم زم کو یونہی چھوڑ دیتیں یا یہ فرمایا کہ اگر وہ چلو نہ بھرتیں تو زم زم ایک جاریہ چشمہ ہوجاتا غرض ہاجرہ نے خود پانی پیا اور اپنے بچہ کو دودھ بھی پلایا۔ فرشتے نے کہا تم ضیاع کا اندیشہ نہ کرو کہ اللہ کا گھر ہے جسے یہ لڑکا اور اس کے والد تعمیر کریں گے اللہ تعالیٰ اس کے رہنے والوں پر ضائع نہیں کرتا کعبہ اس زمانہ میں ٹیلہ کی شکل پر زمین سے اونچا تھا سیلاب اس کے دائیں بائیں کناروں سے گزر جاتے تھے حضرت ہاجرہ اسی حال میں رہتی رہیں آخر جرھم اتر پڑے (قبیلہ) کا ایک قافلہ ادھر سے گزرا اس راستے سے آتے ہوئے اور مکہ کے نچلے حصے میں اتر پڑے انہوں نے پرندوں کو منڈلاتے ہوئے دیکھا کہنے لگے یہ پرندہ یقیناً پانی پر گھوم رہا ہے۔ لیکن ہم تو اس وادی سے گزر چکے ہیں یہاں تو پہلے کوئی پانی نہ تھا انہوں نے ایک یا دو آدمی (تفتیش حال کے لیے) بھیجے اچانک وہ پانی (موجود) تھا لوٹ کر آئے اور ان کو پانی کی خبر دی۔ (اس کے بعد) قافلہ والے آئے تو اسماعیل کی والدہ پانی کے پاس موجود تھیں ان سے کہا کیا تو ہم کو اجازت دیتی ہے کہ ہم تیرے پاس قیام کرلیں فرمایا ہاں لیکن پانی پر تمہارا کوئی حق نہ ہوگا قافلہ والوں نے کہا ٹھیک ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اسماعیل کی والدہ نے یہ ان کے حق کو کم کرنے کے لیے کہا حالانکہ آپ انسانوں سے انس رکھتی تھیں۔ قافلہ والے یہاں رہنے لگے اور انہوں نے اپنے اہل و عیال کو بھی بلا لیا وہ بھی ان کے ساتھ رہنے لگے یہاں تک کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے گھر بنا لئے اسماعیل بھی جوان ہوگئے اور انہوں نے ان کے لوگوں سے عربی بھی سیکھ لی۔ اور جب جوان ہوئے تو آپ کی حیران خوش کن تھی۔ قبیلہ جرھم نے اپنی ایک عورت کا نکاح ان سے کردیا اور اسماعیل کی والدہ کی وفات ہوگئی تھی اسماعیل کی شادی کے کچھ عرصہ بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تشریف لائے تاکہ وہ اپنے اہل و عیال کا حال معلوم کریں۔ مگر اسماعیل کو (گھر میں) نہ پایا ان کی بیوی سے ان کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ ہمارے لئے خوراک کی طلب میں گئے ہیں پھر آپ نے اس سے زندگی کے حلالت پوچھے اس نے کہا ہم بشر ہیں ہم انتہائی تکلیف میں ہیں رزق کی بہت تنگی ہے اور بھی ان کی طرف شکایت کی۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے سن کر فرمایا جب تمہارا خاوند آئے تو میری طرف سے سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ بدل دو ۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی بیوی کا واقعہ جب اسماعیل (علیہ السلام) آئے تو انہوں نے کوئی چیز محسوس کی اور پوچھا کیا کوئی تمہارے پاس آیا تھا کہنے لگی ہاں ایک بوڑھا اس طرح اور اس طرح آیا تھا مجھ سے تیرے بارے میں پوچھا تو میں نے ان کو بتایا (کہ وہ شکار پر گئے ہیں) پھر مجھ سے پوچھا کہ تمہاری زندگی کے حالات کیسے ہیں ؟ میں نے ان کو بتایا کہ ہم بڑی مشکل حالات سے دو چار ہیں پھر پوچھا کیا انہوں نے تجھے کسی چیز کی وصیت کی تھی ؟ کہنے لگی ہاں مجھے حکم دیا تھا کہ میں تجھ کو سلام پہنچا دوں اور یہ بھی کہا تھا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ کو بدل دو اسماعیل (علیہ السلام) نے فرمای کہ وہ میرے والد تھے اور مجھ کو حکم دے گئے ہیں کہ میں تجھ کو اپنے سے جدا کر دوں اس لئے تو اپنے گھر چلی جا آپ نے اس کو طلاق دیدی اور ان میں سے ایک دوسری عورت سے نکاح کرلیا ابراہیم (علیہ السلام) ان سے (ایک مدت تک) ٹھہرے رہے جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا (یعنی ان کے پاس نہ آئے) پھر اس کے بعد ان کے پاس آئے مگر پھر بھی اسماعیل کو (گھر میں) نہ پایا۔ اس کی بیوی سے اس کے بارے میں پوچھا کہنے لگی کہ ہمارے لیے رزق کی طلب میں گئے ہیں پوچھا تمہارے حالال کیے ہیں ؟ اور تمہاری گزر کیسی ہے ؟ تو ان کی بیوی نے کہا ہم خیر اور فراخی میں ہیں (یعنی ہر چیز کی فروانی ہے) اللہ کا فضل و احسان ہے۔ پھر پوچھا تمہارا کھانا کیا ہے ؟ اس نے کہا گوشت پوچھا تمہارا پینا کیا ہے ؟ اس نے کہا پانی۔ فرمایا اے اللہ ! ان سے گوشت اور پانی میں برکت عطا فرما۔ نبی اکرم صلی اللہ ﷺ نے فرمایا ان دنوں ان کے پاس غلہ نہیں تھا اگر ان کے پاس غلہ ہوتا تو اس بارے میں دعا فرماتے پھر فرمایا سو اس وجہ سے مکہ کے سوا اور کسی جگہ جب تیرا خاوند آئے تو اس کو میرا سلام کہنا اور اس سے یہ بھی کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو ثابت رکھنا۔ جب اسماعیل (علیہ السلام) تشریف لائے تو پوچھا کوئی تمہارے پاس آیا تھا اس نے کہا ہاں ہمارے پاس ایک بورھے آدمی حسین و جمیل اجلے لباس میں اور حسن خلق والے آئے تھے اس نے کہا آپ کے بارے میں مجھ سے پوچھا تو میں نے ان کو بتادیا پھر مجھ سے پوچھا تمہاری گزران کیسی ہے ؟ میں نے کہا ہم (خوب) خیر میں ہیں (یعنی ہمارے حالات بہتر ہیں) پھر پوچھا کیا تجھے کسی چیز کی وصیت کی تھی۔ کہنے لگی ہاں ! وہ آپ کو سلام فرما رہے تھے اور یہ حکم دے رہے تھے کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو ثابت رکھنا۔ اسماعیل نے فرمایا وہ میرے والد گرامی تھے اور تو چوکھٹ ہے مجھ کو حکم فرمایا ہے کہ میں تجھ کو روکے رکھوں (طلاق نہ دوں) پھر (ایک مدت تک) ان سے ٹھہرے رہے جب تک اللہ نے چاہا پھر اس کے بعد تشریف لائے اس وقت اسماعیل زم زم کے قریب ایک درخت کے نیچے تیر تراش رہے تھے باپ کو دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے اور دونوں نے وہ کچھ کیا جو بیٹا اپنے والد کے ساتھ کیا کرتا ہے اور والد اپنے بیٹے کے ساتھ کیا کرتا ہے پھر فرمایا اے اسماعیل ! اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک کام کا حکم فرمایا ہے عرض کیا اس کام کو کیجئے جس کا آپ کو حکم فرمایا گیا فرمایا اور تم میری مدد کرو گے ؟ عرض کیا میں آپ کی مدد کروں گا فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں یہاں ان کا گھر بناؤں اور اس اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ فرمایا جو اس کے اردگرد پر (جگہ) تھی پھر اسی جگہ پر اللہ کے گھر کی بنیادوں کو اٹھایا اسماعیل پتھر لاتے تھے اور ابراہیم (دیواریں) بناتے تھے۔ جب دیواریں بلند ہوگئیں تو اس پتھر (یعنی مقام ابراہیم) کو لائے اور اس کے نیچے رکھ دیا ابراہیم اس پر کھڑے ہوگئے اسماعیل پتھر لاتے رہے ابراہیم (علیہ السلام) تعمیر کرتے رہے دعا مانگتے رہے۔ لفظ آیت ” ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم “۔ معمر (رح) نے فرمایا اور میں نے ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ابراہیم (علیہ السلام) ان کے پاس (یعنی اسماعیل کے پاس) براق پر (سوار ہو کر شام سے) آئے تھے۔ معمر نے فرمایا کہ میں نے آدمی کو ایسا کہتے ہوئے سنا کہ جب دونوں (باپ بیٹے ابراہیم اور اسماعیل) آپس میں ملے تو رونے لگے یہاں تک کہ پرندے بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیت اللہ کی طرف ہجرت (3) ابن سعد نے طبقات میں ابو جہم بن حذیفہ بن عانم (رح) سے روایت کیا کہ اللہ عزوجل نے ابراہیم کی طرف وحی بھیجی اور ان کو بلد الحرام کی طرف چلنے کا حکم فرمایا ابراہیم براق پر سوار ہوئے اور اسماعیل کو اپنے آگے بٹھایا جو دو سال کے تھے اور اپنی بیوی ہاجرہ کو اپنے پیچھے بٹھایا ان کے ساتھ جبرائیل (علیہ السلام) بھی تھے جو ان کو بیت اللہ کی جگہ بتا رہے تھے یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ ابراہیم نے اسماعیل اور اس کی والدہ کو بیت اللہ کی ایک جانب اتار دیا اور خود شام کی طرف چل پڑے پھر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کی طرف وحی بھیجی کہ میرے گھر کو بناؤ۔ اس دن ان کی عمر سو سال کی تھی اور اسماعیل کی عمر تیس سال کی تھی ابراہیم نے (اپنے بیٹے اسماعیل) کے ساتھ مل کر بیت اللہ کو بنایا اسماعیل نے اپنے والد کے بعد وفات پائی اور اپنی والدہ ہاجرہ کے ساتھ حطیم کے اندر دفن ہوئے جو کہ کعبہ کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ اپنے باپ (حضرت اسماعیل) کی وفات کے بعد ان کے بیٹے ثابت بن اسماعیل اپنے مامؤوں قبیلہ جرھم کے ساتھ بیت اللہ کے متولی بنے رہے۔ (4) امام دیلمی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے اس آیت ” واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت “ کے بارے میں فرمایا کہ ایک چوکور بادل آیا جس کا سر تھا اور وہ کلام کر رہا تھا کہ گھر کی بلندی میرے چاروں کونوں کے برابر کرو تو انہوں نے کعبہ کو اس کے چاروں کونوں کے برابر بلند کیا۔ (5) ابن ابی شیبہ، اسحاق بن راہو یہ نے اپنی سند میں، عبد بن حمید، الحرث بن ابی اسامہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم، الازرقی، حاکم (انہوں نے اسے صحیح بھی کہا ہے) امام بیہقی نے دلائل میں حضرت خالد بن عرعرہ سے انہوں نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ان سے کہا مجھے (اس) گھر کے بارے میں بتائیے کیا یہ زمین پر پہلا گھر ہے ؟ فرمایا نہیں۔ لیکن یہ پہلا گھر ہے جو لوگوں کے لیے بنایا گیا اس میں برکت ہے اور ہدایت ہے اور مقام ابراہیم ہے اور جو آدمی اس میں داخل ہو وہ امن میں ہوگا آپ نے فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو جب بیت اللہ کے بنانے کا حکم ہوا تو پریشان ہوئے یہ نہیں جانتے تھے کہ کیسے اس کو بنایا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سکینہ بھیجی اور وہ تیز ہوا تھی اس کے دو سرے تھے اور کعبہ کے اردگرد طوق کی مانند ہوگئی (پھر) ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ جہاں سکینہ ٹھہر گئی وہاں تک تعمیر کر دو تو ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر فرمائی جب مقام ابراہیم کی جگہ پر پہنچے تو اسماعیل (علیہ السلام) سے فرمایا جاؤ اور میرے لئے ایک پتھر تلاش کرکے لاؤ جو میں یہاں رکھوں اسماعیل (علیہ السلام) گئے پہاڑوں کا چکر لگایا جبرائیل (علیہ السلام) پتھر لے کر نازل ہوئے اور اس کو رکھ دیا اسماعیل (علیہ السلام) آئے تو انہوں نے پوچھا یہ پتھر کہاں سے آیا فرمایا وہ شخص اس کو لایا جو میرے بیٹوں پر بھروسہ نہیں کرتا پھر جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا یہ عمارت ٹھہری رہی پھر منہدم ہوگئی پھر قوم عمالقہ نے اس کو (دوبارہ) بنایا پھر منہدم ہوگئی تو قبیلہ جرہم والوں نے اس کو بنایا پھر منہدم ہوگئی تو قریش نے بنایا جب انہوں نے حجر اسود رکھنے کا ارادہ کیا تو اس کے رکھنے میں جھگڑنے لگے (پھر) انہوں نے (آپس میں کہا) کہ جو آدمی اس دروازہ سے پہلے آئے گا وہ اس کو رکھے گا رسول اللہ ﷺ باب بنی شیبہ سے (پہلے) تشریف لائے تو آپ نے ایک کپڑا لانے کا حکم فرمایا اسے بچھایا اور آپ نے اس پتھر کو اٹھا کر اس کے درمیان رکھ دیا پھر آپ نے قریش کے قبیلوں میں سے ہر قبیلہ کے ایک آدمی سے فرمایا کہ کپڑے کے ایک کونے کو پکڑ لے اور اس کو اوپر اٹھاؤ تو انہوں نے اس کو اوپر اٹھایا (پھر) رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر اس کی جگہ میں رکھ دیا۔ بیت اللہ بنیاد کی طرف رہنمائی (6) سعید بن منصور، عبد بن حمید نے ابن المنذر، ابن ابی حاتم الازرقی حاکم نے سعید بن مسیب کے واسطہ سے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ارمینیہ سے تشریف لائے اور ان کے ساتھ سکینہ بھی تھی جو بیت اللہ کی جگہ کو بتارہی تھی (اس طرح) جس طرح مکڑی اپنا جالا بناتی ہے پھر آپ نے سکینہ کے نیچے کھودا اور بیت اللہ کی بنیادوں کو ظاہر فرمایا اس میں سے کوئی بنیاد تیس آدمیوں سے کم (کی طاقت سے) حرکت کرتی تھی۔ میں نے پوچھا اے ابو محمد (جو حضرت علی ؓ کی کنیت ہے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” واذ یرفع ابرہم القواعد من البیت “ انہوں نے فرمایا یہ پھر بعد میں ہوا۔ (7) عبد الرزاق، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یرفع ابرہم القواعد “ میں بنیادوں سے مراد بیت اللہ کی وہ بنیادیں مراد ہیں جو اس سے پہلے تعمیر تھیں۔ (8) عبد الرزاق، ابن جریر، ابن المنذر اور الجندی نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے فرمایا اے میرے رب ! مجھ کو کیا ہوگیا کہ میں فرشتوں کی باتوں کو نہیں سن رہا ہوں۔ فرمایا وہ تیری خطا کی وجہ سے لیکن تم زمین کی طرف اتر جاؤ اور (وہاں) میرا گھر بناؤ پھر تم اس کا طواف کرنا جیسے تم نے فرشتوں کو دیکھا کہ وہ میرے اس گھر کا طواف کرتے ہیں جو آسمان میں ہے لوگوں نے یہ خیال کیا کہ انہوں نے (یعنی آدم (علیہ السلام) نے) اس کو پانچ پہاڑوں کے (پتھروں سے) بنایا (یعنی) حرا، لبنان، طورزینا، طور سینا اور جودی سے یہ حضرت آدم کی تعمیر تھی حتی کہ بعد میں ابراہیم نے (پھر) بنایا۔ بیت اللہ کو جنت سے اتارا گیا (9) ابن جریر، ابن ابی حاتم اور طبرانی نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو جنت سے اتارا تو فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ گھر کو بھی اتارنے والا ہوں۔ اس کے گرد طواف کیا جائے گا۔ جیسے میرے عرش کے گرد طواف کیا جاتا ہے۔ اور اس کے پاس نماز پڑھی جائے گی جیسے میرے عرش کے پاس نماز پڑھی جاتی ہے۔ جب طوفان کا زمانہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھالیا۔ انبیاء اس کا حج کرتے تھے لیکن اس کی جگہ کو نہیں جانتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد ابراہیم کو وہاں ٹھہرایا اور ان کو اس کی جگہ بتائی۔ انہوں نے اس کو پانچ پہاڑوں سے بنایا حراء، لبنانی، شیر، جبل طور اور جبل الحمر اور یہ پہاڑ (بیت المقدس) میں ہے۔ (10) ابن جریر اور ابو الشیخ نے العظمہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو پانی کے چار کناروں پر رکھا دنیا کے دو ہزار سال پیدا کرنے سے پہلے پھر بیت اللہ کے نیچے سے زمین کو پھیلایا گیا۔ (11) عبد الرزاق الازرقی نے تاریخ میں الجندی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے بیت الحرام کی جگہ کو زمین میں سے کسی چیز کو پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے پیدا فرمایا اور اس کے کنارے ساتویں زمین میں ہیں۔ (12) ابن ابی حاتم نے علیا بن أحمر (رح) سے روایت کیا کہ ذوالقرنین مکہ مکرمہ میں آیا تو اس نے ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کو اس حال میں پایا کہ وہ پانچ پہاڑوں سے بیت اللہ کی بنادیں تعمیر کر رہے تھے کہنے لگے میری زمین میں یہ تم کیا کر رہے ہو ؟ دونوں حجرات نے فرمایا ہم تو (اللہ کے) بندے ہیں اور (اللہ کی طرف سے اس) کام پر لگائے گئے ہیں ہم کو اس کعبہ کے بنانے کا (اللہ تعالیٰ نے) حکم فرمایا ہے ذوالقرنین نے کہا اپنے اس دعوی پر کوئی دلیل لے آؤ۔ (کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کام پر لگائے گئے ہیں) (اس وقت) پانچ مینڈھے (اپنی جگہ سے) کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اسماعیل اور ابراہیم (علیہما السلام) دونوں (اللہ کے) بندے ہیں جن کو اس کعبہ کے بنانے کا حکم دیا گیا ہے اس پر ذوالقرنین نے کہا میں اب (آپ کے کام سے) راضی ہوگیا اور میں اسلام لے آیا پھر وہ چلا گیا۔ (13) ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات بتائی گئی کہ بلاشبہ حرم برابر عرش تک حرم ہے۔ اور ہم کو یہ بھی بتایا گیا کہ بیت اللہ آدم (علیہ السلام) کے ساتھ اتارا گیا جب وہ اترے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) سے فرمایا میرا گھر تیرے ساتھ نیچے اترے گا اس کے گرد طواف کیا جائے گا۔ جیسے میرے عرش کے گرد طواف کیا جاتا ہے۔ اسی لئے آدم (علیہ السلام) نے اور ان کے بعد مؤمنین نے اس کا طواف کیا۔ یہاں تک کہ جب طوفان کا زمانہ تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کو غرق فرما دیا تھا تو بیت اللہ کو اوپر اٹھالیا اور اس کو اہل زمین کی سزا نہ ملی تھی۔ پھر آدم (علیہ السلام) نے اس کے پرانے نشانوں کو تلاش کیا اور ان نشانات پر دوبارہ تعمیر فرمائی۔ (14) ابن عساکر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ بیت اللہ کو چار پہاڑوں سے بنایا گیا ہے حمرا، طور زینا، طور سینا اور لبنان سے۔ (15) امام بیہقی نے دلائل میں سدی (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) جنت سے (جب) نکالے گئے تو ون کے ایک ہاتھ میں ایک پتھر تھا اور دوسرے ہاتھ میں پتے تھے وہ پتے ہندوستان میں بکھیر دئیے اس سے تم خوشبو دیکھتے ہو لیکن وہ پتھر سفید یاقوت کا تھا اس سے روشی نکلتی تھی۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ بنایا اور حجر اسود کی جگہ پر پہنچے تو اسماعیل (علیہ السلام) سے فرمایا کہ ایک پتھر کو میرے پاس لے آؤ میں اس کو یہاں رکھوں گا۔ وہ ایک پہاڑ سے پتھر لے آئے۔ ابراہیم نے فرمایا اس کے علاوہ کوئی اور لے آؤ اسی طرح کئی مرتبہ (پتھروں کو) لوٹا دیا جو وہ پتھر لے آتے تھے وہ آپ کو پسند نہ آتا تھا ایک دفعہ (پھر) آگئے جبرائیل (علیہ السلام) ہندوستان سے وہ پتھر لے آئے جس کو آدم (علیہ السلام) جنت سے لے کر آئے تھے ابراہیم نے وہ پتھر لگا دیا جب اسماعیل آئے تو پتھر کو دیکھ کر فرمایا اس (پتھر) کو کون لایا فرمایا جو تجھ سے زیادہ چست ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی زبان عربی تھی (16) ثعلبی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابو القاسم حسن بن محمود بن حبیب (رح) سے سنا اور وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابوبکر محمد بن احمد قطان بلغی سے سنا جو قرآن کے عالم تھے کہ ابراہیم (علیہ السلام) سریانی زبان میں بات کرتے تھے اور اسماعیل عربی زبان میں بات کرتے تھے اور ان دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کی بات کو سمجھتا تھا لیکن اس کی زبان بول نہیں سکتا تھا۔ ابراہیم نے اسماعیل سے فرمایا کہ لفظ آیت ” ہل بی کثیبا “ یعنی مجھے پتھر اٹھا دو اسماعیل نے ان سے فرمایا لفظ آیت ” ہاک الحجر فخذہ “ یعنی یہ ہے پتھر اس کو لے لو پھر جب صرف ایک پتھر کی جگہ باقی رہ گئی تو اسماعیل پتھر لینے چلے گئے جبرائیل (علیہ السلام) آسمان سے ایک پتھر لے آئے جب اسماعیل آئے تو ابراہیم اپنی جگہ پر اس کے اوپر کھڑے تھے انہوں نے پوچھا اے میرے ابا جان ! یہ پتھر کون لایا ؟ فرمایا اس پتھر کو وہ لے آیا جو تیری تعمیر پر بھروسہ نہیں کرتا دونوں نے بیت اللہ (کی تعمیر) پوری کی۔ اللہ جل شانہ کے اس ارشاد لفظ آیت ” واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت واسمعیل “ سے یہی مراد ہے۔ (17) امام بیہقی نے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ بلوغت کی عمر کو پہنچے تو کعبہ کی عورت نے آگ جلائی اس کی چنگاریاں اڑ کر کعبہ کے غلافوں پر جا پڑی تو ان لوگوں نے (یعنی قریش نے) کعبہ کو گرا دیا۔ جب دوبارہ بنانا شروع کیا اور حجر اسود کی جگہ تک پہنچے تو قریش آپس میں لڑنے لگے کہ حجر اسود کے بارے میں کون قبائل اس کو اٹھا کر لگائیں (پھر) کہنے لگے آجاؤ جو شخص ہم پر پہلے نمودار ہوگا اس سے ہم فیصلہ کرائیں گے رسول اللہ ﷺ (پہلے) تشریف لائے اس وقت آپ کا لڑکپن تھا اور آپ دھاری دار چادر پہنے ہوئے تھے انہوں نے آپ کو فیصلہ کرنے والا بنایا آپ نے حجر اسود کے بارے میں حکم فرمایا اور اس کو ایک کپڑے میں رکھو پھر ہر قبیلہ کے سردار کو کپڑے کے کنارے پکڑوا دئیے انہوں نے اوپر اٹھا کر رکن (کی جگہ) لے گئے۔ اور آپ نے اس کو (اس جگہ پر) رکھ دیا پھر زبانوں پر آپ کی تعریفیں جاری ہوگئیں۔ قریش آپ کو وحی کے نازل ہونے سے پہلے امین (کے لفظ سے) پکارتے تھے اور وہ لوگ جب بھی کوئی اونٹ ذبح کرنا شروع کرتے تھے تو آپ کو تلاش کرتے تاکہ آپ اس میں برکت کی دعا فرمائیں۔ (18) ابو الولید الازرقی نے تاریخ مکہ میں سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ کعب احبار نے بیان فرمایا کہ کعبہ پانی پر جھاگ (کی شکل میں) تھا اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کے چالیس سال پیدا کرنے سے پہلے پھر اسی سے زمین پھیلائی گئی۔ (19) الازرقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمینوں کے پیدا کرنے سے پہلے اس بیت اللہ کو پیدا فرمایا۔ (20) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب عرش پانی پر تھا زمین و آسمان کے پیدا کرنے سے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے تیز ہوا کو بھیجا اس ہوا نے پانی بند کردیا تو بیت اللہ کی جگہ پر ایک چھوٹا سا گول جزیرہ قبہ کی مانند ظاہر ہوا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے نیچے سے زمین کو پھیلا دیا پھر اس کو پھیلایا پھر اس کو پھیلایا (اور) اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو زمین پر گاڑ دیا سب سے پہلا پہاڑ جو زمین پر رکھا گیا وہ ابو قیس تھا۔ اسی لئے (اس شہر کا نام) ام القری رکھا گیا (کیونکہ یہ شہر سب سے پہلے وجود میں آیا) ۔ (21) عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بیت اللہ چار ستونوں پر پانی کے اوپر تھا زمین و آسمان کے پیدا کرنے سے پہلے (پھر) زمین کو اس کے نیچے سے پھیلا دیا۔ (22) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ کعبہ کے نیچے سے زمین کو پھیلایا گیا۔ (23) الازرقی نے علی بن حسین (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ان سے سوال کیا کہ اس گھر کے طواف کی ابتدا کیسے ہوئی۔ کب سے ہوئی اور کہاں سے ہوئی انہوں نے فرمایا اس کی ابتداء اس طرح ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا لفظ آیت ” انی جاعل فی الارض خلیفۃ “ تو فرشتے کہنے لگے اے ہمارے رب ہمیں چھوڑ کر آپ اس کو خلیفہ بنا رہے ہیں جو اس میں فساد کریں گے اور خون کو بہائیں گے اور آپس میں حسد کریں گے اور آپس میں بغض رکھیں گے اے ہمارے رب ہم میں سے خلیفہ بنا دے ہم اس میں نہ فساد کریں گے نہ خونوں کو بہائیں گے اور نہ ہم آپس میں بغض رکھیں گے نہ ہم آپس میں حسد کریں گے اور نہ اجازت کریں گے اور ہم آپ کی تعریف کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں اور ہم آپ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور ہم آپ کی اطاعت کرتے ہیں اور ہم آپ کی نافرمانی نہیں کرتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” انی اعلم مالا تعلمون “ (یعنی بلاشبہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اللہ کے اس فرمانے پر فرشتوں نے گمان کیا کہ جو کچھ ہم نے اللہ کی بارگاہ میں رض کیا ہے وہ رد کردیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ (یہ بات سمجھتے ہوئے) فرشتے عرش سے چمٹ گئے انہوں نے اپنے سروں کو اونچا کیا اپنی انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے آہ وزاری کرنے لگے اور رونے لگے اس کے غصہ پر شفقت اور مہربانی کو طلب کرنے لگے (پھر) انہوں نے تین گھنٹے تک عرش کا طواف کیا اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف نظر فرمائی اور ان پر رحمت نازل فرمائی (اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عرش کے نیچے ایک گھر رکھ دیا زبرجد کے چار ستونوں پر اور ان کو سرخ یاقوت سے ڈھانک دیا اور اس گھر کو الضراح کہا جاتا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا اس گھر کا طواف کرو اور عرش کو چھوڑ دو فرشتوں نے گھر کا طواف کیا اور عرش کو چھوڑ دیا اور یہ کام ان پر آسان ہوگیا اور وہ گھر بیت معمور تھا جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا۔ ہر دن اور رات میں ستر ہزار فرشتے اس میں داخل ہوتے ہیں پھر وہ فرشتے کبھی لوٹ کر واپس نہیں آتے پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بھیجا اور ان سے فرمایا میرے لئے ایک گھر زمین میں بنا کر اس کی مثل اور اس کی مقدار میں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے زمین میں جو مخلوق ہے اس کے گھر کے طواف کرنے کا حکم فرمایا جیسے آسمان والے بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں۔ (24) الازرقی نے لیث بن معاذ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ گھر پندرہ گھروں میں سے پانچواں گھر ہے ان میں سے سات آسمانوں میں ہیں اور ان میں سے سات نچلی زمین کی تہوں تک ہیں اور ان میں سے سب سے اونچا عرش کے ساتھ ملا ہوا ہے جو بیت المعمور ہے۔ ہر گھر کے لیے (اسی طرح) حرم ہے جیسے اس گھر کا حرم ہے اگر ان میں سے کوئی گھر گرپڑے تو ایک دوسرے کے اوپر ہی گریں گے نچلی زمین کی تہہ تک اور ہر آسمان والے اور ہر زمین والے اسی طرح ہر گھر آباد کرتے ہیں جس طرح اس گھر کو لوگ آباد کرتے ہیں۔ (25) الازرقی نے عمرو بن یسار مکی (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب فرشتوں میں سے کسی فرشتہ کو زمین میں سے کسی کام کے لیے بھیجنے کا ارادہ فرمایا تو اس فرشتے نے (زمین میں جاکر) بیت اللہ کے طواف کی اجازت بھی طلب کی تو وہ فرشتہ حالت احرام میں زمین پر اترا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کا سفر مکہ کی طرف (26) ابن المنذر اور الازرقی نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول فرمائی تو ان کو مکہ کی طرف چلنے کا حکم فرمایا اور ان کے لیے جنگلوں اور زمین کو لپیٹ دیا گیا ہر جنگل جس سے آپ گزرے وہ ایک قوم کی مسافت ہوگیا اور زمین میں جو دریا اور سمندر تھے ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی مسافت میں سکیڑ دیا اور آپ جس جگہ قدم رکھتے وہاں آباری اور برکت ہوجاتی تھی یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچے۔ اس سے پہلے ان کا رونا اور ان کا غم سخت ہوگیا تھا جب ان کو بڑی مصیبت پہنچی تھی۔ یہاں تک کہ فرشتے بھی ان کے رونے کی وجہ سے روتے تھے اور ان کے غم کی وجہ غم کرتے تھے (اس کے بدلہ میں) اللہ تعالیٰ نے ان کو جنت کے خیموں میں سے ایک خیمہ عطا فرمایا اور اس کو مکہ میں کعبہ کی جگہ پر رکھا۔ کعبہ (کے بننے) سے پہلے۔ اور یہ خیمہ جنت کے یاقوتوں میں سے سرخ یاقوت کا تھا اس میں سونے کے تین قنادیل تھے اس میں سے جنت کا نور جھلکتا تھا اس دن ان کے ساتھ حجر اسود بھی اترا تھا۔ اور وہ اس دن جنت کا سفید یاقوت تھا اور آدم (علیہ السلام) کے لیے کرسی تھی جس پر وہ بیٹھتے تھے۔ جب آدم مکہ میں تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت فرمائی اور اس خیمہ کی فرشتوں نے حفاظت کی فرشتے اس کی حفاظت کرتے تھے اور زمین کے رہنے والوں سے اس کو بچاتے تھے اور ان دنوں زمین میں جن اور شیاطین رہتے تھے اور ان کو یہ لائق نہیں تھا کہ وہ جنت کی کسی چیز کو دیکھیں اس لئے کہ اگر کوئی شخص جنت کی کسی چیز کو دیکھ لے تو جنت اس کے لیے واجب ہوجاتی ان دنوں زمین پاکیزہ صاف اور نجاست سے پاک تھی اس میں نہ خون ریزی کی نجاست تھی اور نہ اس میں گناہوں کی آلودگی تھی اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا مسکن اس کو بنا دیا اور ان کو اس جیسے وہ آسمان میں تھے زمین میں رات دن اللہ کی تسبیح بیان کرتے تھے (جیسا کہ وہ آسمانوں میں کرتے تھے اور وہ تھکتے نہیں تھے فرشتے حرم کی حدود پر صف باندھے کھڑے ہوئے تھے اور حرم کی طرف ان کی پیٹھ ہوتی تھی اور آگے سارا حرم ہوتا تھا کوئی جن اور شیطان تجاوز نہیں کرتا تھا فرشتوں کے ٹھہرنے کی وجہ سے آج تک یہ حصہ حرم ہے۔ ان کی نشانیاں رکھی گئیں ہو جہاں فرشتوں کا مقام تھا اور اللہ تعالیٰ نے حوا پر بھی حرم شریف میں داخل ہونا حرام کردیا تھا اور آدم کے خیمہ کی طرف دیکھنا بھی ان کے اس خطا کی وجہ سے جو ان سے جنت میں سرزد ہوئی۔ اس لئے انہوں نے مرتے دم تک یہاں تک کہ کوئی چیز نہیں دیکھی۔ اور جب آدم (علیہ السلام) نے ان سے کسی رات ملنے کا ارادہ کرتے تو سارے حرم سے باہر نکل کر ان سے ملاقات فرماتے تھے آدم کا خیمہ برابر اپنی جگہ پر قائم رہا یہاں تک کہ آدم کی وفات ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اس خیمہ کو اپنی طرف اٹھالیا۔ (پھر) آدم کی اولاد نے ان کے بعد اس جگہ پر مٹی اور پتھر سے گھر بنا لیا اور وہ لوگ اس گھر کو آباد کرتے رہے یہاں تک کہ نوح کا زمانہ یاد آگیا۔ تو سیلاب نے بیت اللہ کو اکھیڑ دیا اور اس کی جگہ کو چھپا دیا (کہ کہاں تھا) جب اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم کو پہلی بنیادوں کو تلاش کرنے کا حکم فرمایا جہاں آدم کے بیتوں نے مکان بنایا تھا وہ برابر (اس جگہ کو) کھودتے رہے یہاں تکہ کہ ان بنیادوں پر پہنچ گئے جو آدم کے بیتوں نے خمیہ کی جگہ پر رکھی تھیں۔ ابراہیم جب اس بنیادوں کی طرف پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی جگہ پر بادل کے ذریعہ سایہ کردیا جو پہلے گھر کی نشانات تھے وہ بادل ان نشانات پر چھائے رہے ابراہیم (علیہ السلام) پر سایہ کئے ہوئے تھے اور ان کی رہنمائی کی بنیادوں کی جگہ پر یہاں کہ آپ نے بنیادیں کھڑی کردیں پھر وہ بادل چھٹ گیا اسی بات کو اللہ جل شانہ نے فرمایا لفظ آیت ” واذ بوانا لابرہیم مکان البیت “ (حج آیت 26) اور وہ برابر اللہ کی حمد بیان کر رہا ہے جب سے اللہ تعالیٰ نے اس کو معمور فرمایا۔ وھب بن منبہ (رح) نے فرمایا کہ میں نے پہلی کتابوں میں سے ایک کتاب کو پڑھا جس میں کعبہ شریف کے بارے میں لکھا ہوا تھا میں نے اس میں یہ پایا کہ جب ابھی اللہ تعالیٰ کسی فرشتہ کو زمین کی طرف بھیجتا ہے تو اس کو بیت اللہ کی زیارت کا حکم بھی دیتا ہے وہ فرشتہ عرش کے پاس سے احرام باندھ کر لبیک پڑھتے ہوئے نیچے اترتا ہے یہاں تک کہ حجر اسود کا استلام کرتا ہے پھر بیت اللہ کے سات چکر لگاتا ہے اور کعبہ کے اندر دو رکعت پڑھتا ہے پھر اوپر چڑھ جاتا ہے۔ (27) الجندی نے فضائل مکہ میں وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی فرشتے یا بادل کو نہیں بھیجا مگر وہ وہاں گزرتا ہے جہاں بھیجا گیا یہاں تک کہ بیت اللہ کا طواف کرتا ہے پھر جو اس کو حکم ہوتا ہے اسے پورا کرتا ہے۔ (28) امام بیہقی نے دلائل میں حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو آدم اور حوا (علیہما السلام) کے پاس بھیجا تو ان دونوں کو گھر بنانے کا حکم فرمایا جبرائیل نے ان کو (جگہ کے یقین کے لیے) خط کھینچ دیا آدم گڑھا کھودتے تھے اور حوا مٹی کو دوسری جگہ منتقل کرتی تھیں یہاں تک کہ پانی پہنچ گئے ان کو نیچے سے آواز آئی اے آدم بس کافی ہے جب انہوں نے بیت اللہ کو تعمیر کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ اس کا طواف کریں اور ان سے کہا گیا کہ تم پہلے آدمی ہو اور یہ پہلا گھر ہے پھر زمانے گزرتے چلے گئے یہاں تک کہ نوح نے حج کیا پھر زمانے گزرتے چلے گئے یہاں تک کہ ابراہیم نے انہی بنیادوں پر (دوبارہ) بیت اللہ کو تعمیر کیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کا حج (29) ابن اسحاق الازرقی، بیہقی نے دلائل میں حضرت عروہ (رح) سے روایت کیا کہ کوئی نبی ایسا نہیں جس نے بیت اللہ کا حج نہ کیا ہو سوائے ھود اور صالح (علیہما السلام) کے (یہ انہوں نے حج نہیں کیا) نوح (علیہ السلام) نے حج کیا مگر جب زمین (سیلاب سے) غرق ہوگئی تو بیت اللہ کو بھی وہ سیلاب پہنچا جو زمین کو پہنچا اور بیت اللہ (اس وقت) ایک سرخ ٹیلہ کی مانند تھا تو اللہ تعالیٰ نے ھود (علیہ السلام) کو بھیجا وہ اپنی قوم (کی ہدایت) کے کام میں مشغول رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی روح قبض فرمالی وہ حج نہ کرسکے (اور) ان کو موت آگئی۔ جب اللہ یعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو (کعبہ کی جگہ) معین کردی تو انہوں نے اس کا حج کیا پھر اس کے بعد کوئی نبی باقی نہیں رہا جس نے حج نہ کیا ہو۔ (30) امام احمد نے الزہد میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ستر انبیاء نے بیت اللہ کا حج کیا ان میں موسیٰ بن عمران بھی تھے جو دو سوتی چغے پہنے ہوئے تھے اور ان میں یونس (علیہ السلام) بھی تھے جو یوں دعا مانگ رہے تھے ” لبیک کاشف الکرب “ (میں حاضر ہوں اے غم کو دور کرنے والے) (31) الازرقی، ابو الشیخ نے العظمہ میں اور ابن عساکر (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو جنت سے زمین پر اتارا تو ان کا سر آسمان میں تھا اور ان کے پاؤں زمین میں تھے وہ کشتی کی طرح ہچکولے کھا رہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ساٹھ ہاتھ تک پست کردیا۔ آدم نے عرض کیا اے میرے رب مجھے کیا وجہ ہے ؟ کیا میں فرشتوں کی آواز کو نہیں سنتا ہوں اور نہ ان کی آہٹ کو سنتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم تیری غلطی کی وجہ سے لیکن تم زمین میں جاؤ اور میرے لئے ایک گھر بناؤ پھر اس کا طواف کرو اور اس کے اردگرد میرا ذکر کرو جیسا کہ تم نے فرشتوں کو دیکھا جو میرے عرش کے اردگرد (میرا ذکر) کرتے ہیں۔ آدم چلے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے زمین کو لپیٹ دیا اور ان کے لیے صحرا کو قبض کر لیئا تو ہر صحرا سے گزر جاتے تھے ایک قدم رکھتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے دریائی گزر گاہوں اور دریا پر سب سکیڑ دئیے اور آپ کے لیے ان کو ایک قد کی مسافت بنا دیا۔ اور (جب) کوئی قدم زمین میں رکھتے تھے تو وہاں آبادی اور برکت بن جاتی تھی یہاں تکہ کہ آپ مکہ تک پہنچ گئے آپ نے بیت اللہ تعمیر فرمایا جبرائیل نے اپنا پر زمین پر مارا تو بنیاد ظاہر ہوگئی جو ساتویں زمین پر مضبوط تھی۔ فرشتوں نے اس (بنیاد) میں ایسی ایسی چٹانیں پھینک دیں اس کو پانچ پہاڑوں سے تعمیر فرمایا (جن کے نام یہ ہیں) لبنان، طور زینا، طور سینا، جودی اور حراء یہاں تک کہ زمین کی سطح کے قائم ہوگیا سب سے پہلے آدم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کی بنیاد رکھی اس میں نماز پڑھی اور اس کا طواف کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے نوح کے زمانہ میں طوفان بھیجا وہ ایک ناراضگی اور عذاب تھا طوفان ختم ہوا اور سندھ اور ہندوستان کی زمین کے قریب طوفان نہیں گیا۔ طوفان نے بیت اللہ کی جگہ کا نام و نشان مٹا دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کو بھیجا ان دونوں نے اس کی بنیادیں کھڑی کیں اس کی نشانیاں بنائیں۔ پھر قریش نے دوبارہ اس کی تعمیر کی اور یہ (بیت اللہ) بیت المعمور کی سیدھ میں ہے اگر بیت المعمور گرجائے تو سیدھا اسی پر آکر گرے۔ (32) الازرقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارا تو ان کو بیت الحرام کی جگہ پر اتارا اور وہ کشتی کی طرح حرکت کر رہے تھے پھر ان پر حجر اسود کو اتارا جو اپنی سخت سفیدی کی وجہ سے چمک رہا تھا آدم (علیہ السلام) نے اسے پکڑ کر سینے سے لگایا اور اس سے مانوس ہوئے پھر ان پر فیصلہ نازل کیا گیا اور ان سے کہا گیا اے آدم قدم اٹھاؤ انہوں نے قدم اٹھایا تو اچانک وہ ہندوستان یا سندھ کی زمین میں تھے پھر وہ وہاں رہے جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا پھر حجر اسود کی طرف اشتیاق بڑھا۔ ان سے کہا گیا حج کرو انہوں نے حج کیا تو ان سے فرشتوں نے ملاقات کی اور کہنے لگے اے آدم تیرا حج قبول اور ہم نے تجھ سے دو ہزار سال پہلے اس گھر کا حج کیا۔ (33) الازرقی نے ابان (رح) سے روایت کیا کہ بیت اللہ جو اتارا گیا وہ ایک یاقوت تھا ایک ذرہ تھا۔ (34) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بیت اللہ سرخ یاقوت سے تھا اور لوگ کہتے ہیں کہ سبز زمرد سے تھا۔ (35) الازرقی نے عطای بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ جب ابن زبیر ؓ نے کعبہ کو تعمیر کیا تو عمال کا حکم فرمایا کہ زمین میں اس کی بنیادوں کو بہت گہرائی تک لے چلو جب وہ نیچے پہنچے تو اونٹوں کی طرح بڑی بڑی چٹانیں آگئیں۔ زید (رح) نے فرمایا مزید کھودو جب زیادہ کھودا تو وہ آگ کا خلا تھا۔ اس نے کہا کیا وجہ ہے تو رک گیا ہے۔ کہنے لگے کہ ہم اس سے نیچے جانے کی طاقت نہیں رکھتے ہم نے آگے ایک عظیم منظر دیکھا ہے۔ (پھر) ان سے کہا اسی پر تعمیر کر دو عطا (رح) نے فرمایا کہ یہ وہ چٹانیں تھیں جس پر آدم (علیہ السلام) نے بنیاد رکھی تھی۔ (36) الازرقی نے عبید اللہ بن ابی زیاد (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو جنت سے نیچے اتارا تو ان سے فرمایا اے آدم میرے لئے گھر بناؤ اس میرے گھر کی سیدھ میں جو آسمان میں ہے اس میں تو عبادت کیا کر اور تیری اولاد جیسا کہ میرے فرشتے میرے عرش کے گرد عبادت کرتے ہیں آدم (علیہ السلام) کے پاس ایک فرشتہ آیا پھر بنیادیں کھودنے لگے کہ ساتویں زمین تک پہنچ گئے پھر اس میں فرشتوں نے بڑی بڑی چٹانیں رکھ دیں یہاں تک کہ وہ زمین اوپر تک تعمیر ہوگئی آدم (علیہ السلام) کے ساتھ سرخ یاقوت بھی رہتا تھا جو اندر سے کھوکھلا تھا اور اس کے چار سفید ارکان تھے آپ نے ان کو بھی بنیادوں پر رکھ دیا یہ اسی طرح اپنی جگہ پر رہا یہاں تک کہ (طوفان سے) جب غرق ہونے کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اوپر اٹھالیا۔ (37) الازرقی نے عثمان بن ساج (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو حضرت سعید ؓ نے بتایا کہ آدم (علیہ السلام) نے پیدل سفر حج کیا۔ پھر ان سے مازمین کے علاقہ میں فرشتوں نے ملاقات کی اور کہنے لگے اے آدم تیرا حج قبول ہے اور ہم نے بھی آپ سے دو ہزار سال پہلے حج کیا تھا۔ بیت اللہ کا طواف کرنا (38) الازرقی نے مقاتل (رح) سے مرفوع روایت کی ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا اے میرے رب بلاشبہ میں اپنی عبادت کا اعتراف کرتا ہوں گو کہ میں (زمین پر اترنے کے) بعد آپ کے نور کو ذرا بھی نہیں دیکھتا ہوں پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر بیت الحرام کو نازل فرمایا اس گھر کی سیدھ پر جو آسمان میں ہے اور اس کی بنیاد جنت کے یاقوت میں سے تھی لیکن اس کا طول آسمان و زمین کے درمیان تھا اور آدم کو اللہ تعالیٰ کا حکم فرمایا کہ اس کا طواف کرو۔ تو اس طرح سے ان سے وہ غم جاتا رہا جو اس سے پہلے تھا اس (گھر) کو نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں اٹھا لیا گیا۔ (39) الازرقی نے ابن جریج سے اور اس نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تو اس میں سب سے پہلے بیت الحرام کو رکھا اور وہ اس دن سرخ یاقوت کا تھا جو اندر سے خالی تھا اس کے دو دروازے تھے۔ ایک شرقی دوسرا غربی اس کو بیت المعمور کی سیدھ میں رکھ دیا اور یہ آپ سے دو ہزار سال پہلے کا واقعہ ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس دن بیت اللہ سرخ یاقوت کا تھا اندر سے خالی تھا اس کے دو دروازے تھے جو طواف کرتا تھا وہ بیت اللہ کے اندر (ہر چیز کو) دیکھ لیتا تھا اور جو بیت اللہ کے اندر ہوتا تھا وہ طواف کرنے والے کو دیکھتا تھا آدم (علیہ السلام) نے حج کے احکام پورے کئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی۔ اے آدم تو نے حج کے احکام پورے کر لئے عرض کیا ہاں اے میرے رب اللہ تعالیٰ نے فرمایا اپنی حاجت کا سوال کر تو دیا جائے گا عرض کیا میری حاجت یہ ہے کہ میرے گناہوں کو بخش دیا جائے اور میری اولاد کے گناہوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم تیرے گناہوں کو تو ہم اس وقت بخش دیا تھا جب تو نے گناہ کیا تھا اور تیری اولاد کے گناہ تو جو کوئی مجھ کو پہچائے گا مجھ پر ایمان لائے گا اور میرے رسول اور کتابوں کی تصدیق کرے گا میں اس کے گناہوں کو معاف کردوں گا۔ (40) ابن خزیمہ، ابو الشیخ نے العظمہ میں اور دیلمی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) اس گھر کی طرف ہزار مرتبہ آئے ہندوستان سے پیدا چل کر آئے کسی سواری پر سوار نہیں ہوئے اس میں سے تین سو حج اور سات عمرہ ہیں آدم (علیہ السلام) نے جب پہلا حج کیا اور وہ عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے تو جبرائیل ان کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا اے آدم تیرا حج قبول ہے آپ کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے ہم نے اس گھر کا طواف کیا تھا۔ (41) امام طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سب سے پہلے فرشتوں نے اس گھر کا طواف کیا حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان انبیاء (علیہم السلام) کی قبریں ہیں ان میں سے ایک نبی تھے جب ان کو قوم نے ستایا تو وہ ان کے درمیان سے نکل آئے اور انہوں نے بیت اللہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی۔ (42) الازرقی اور بیہقی نے شعب الایمان میں وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ جب آدم (علیہ السلام) کو زمین کی طرف اتارا گیا تو اس کی وسعت کو دیکھ کر گھبرا گئے اور اس میں اپنے سوا کسی کو نہ دیکھا عرض کیا اے میرے رب تیری اس زمین کو آباد کرنے والا جو اس میں تیری تسبیح بیان کرتا ہو اور تیری پاکی بیان کرتا ہو میرے علاوہ کوئی اور ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا عنقریب میں اس میں سے تیری اولاد کو پیدا کر دوں گا جو میری حمد بیان کرے گی اور میری پاکی بیان کرے گی۔ عنقریب میں اس میں ایسے گھر بناؤں گا جس میں میرا ذکر بلند کی اجائے گا اور میری مخلوق اس میں میری تسبیح بیان کرے گی عنقریب میں اس میں ایسا گھر بناؤں گا جس کو اپنی ذات کے لیے چنوں گا اور اپنی عزت کے لیے اس کو خاص کروں گا۔ اور اس کو زمین کے سارے گھروں پر اپنے نام کے ساتھ ترجیح دوں گا۔ اور اس کا نام بیتی (میرا گھر) رکھوں گا۔ میں ان سے بات کروں گا اپنی عظمت کے ساتھ اور ان کو جمع کروں گا اپنی حرمت کے ساتھ اور میں اس کو تمام گھروں میں زیادہ حق والا بنا دوں گا اور وہ اس کو ترجیح دیں گے میرے ذکر کے ساتھ میں اس کو رکھوں گا مبارک جگہ میں جس کو میں نے اپنی ذات کے لیے چن لیا ہے۔ بلاشبہ میں نے اس جگہ کو اس دن سے چن لیا تھا جس دن آسمان اور زمین کو میں نے پیدا کیا تھا۔ اور اس سے پہلے وہ میری خواہش والی جگہ تھی اور وہ گھروں میں میرا عمدہ حصہ میں اس میں نہیں رہوں گا اور میرے لئے یہ لایق نہیں ہے کہ میں ان گھروں میں رہوں۔ اور اس گھر کو بھی یہ لائق نہیں ہے کہ وہ مجھ کو اٹھائے اس گھر کو تیرے لئے اور تیرے بعد والوں کے لیے حرمت والا اور امن والا بنا دوں گا تو احرام باندھ اس کی حرمت کے ساتھ جو اس کے اوپر ہے جو اس کے نیچے ہے اور جو اس کے اردگرد ہے۔ اس کی عزت ہے میری عزت کے ساتھ تحقیق اس نے زیادہ کردی میری عزت کو اور جس نے حلال کرایا گھر کی عزت کو تو گویا اس نے میری عزت کو حلال کرلیا جس نے اس کے رہنے والوں کو امن دیا۔ میری امان بھی اس کے ساتھ واجب ہوگئی اور جس نے ان کو ڈرایا تحقیق میں حفاظت کروں گا اپنے دم میں جس نے اس کی شان کو بڑا کیا تو تحقیق وہ میری آنکھوں میں بڑا ہوگیا۔ اور جس نے اس کو حقیر جانا تو وہ میرے نزدیک چھوٹا ہوگیا (یعنی حقیر ہوگیا) غرق کے زمانہ میں (بیت اللہ کو) دوریشمی کپڑوں میں اٹھالیا گیا اور وہ قیامت کے دن انہی دونوں کپڑوں میں رہے گا اور اللہ تعالیٰ نے رکن کو ابو قیس (پہاڑ) کے پاس امانت رکھ دیا ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ (یہ رکن) سونے کا تھا جس کو غرق کے زمامہ میں اٹھا لیا گیا اور وہ آسمانوں میں ہے ابن جریج نے کہا کہ جویبر نے فرمایا بیت المعمور مکہ میں تھا غرق کے زمانہ میں اٹھا لیا گیا اب وہ آسمان میں ہے۔ (43) الازرقی نے عروہ بن زبیر (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ بیت اللہ کو آدم (علیہ السلام) کے لیے رکھا گیا وہ اس کا طواف کرتے تھے اور اس کے پاس اللہ کی عبادت کرتے تھے نوح (علیہ السلام) نے حج کیا اور بیت اللہ کے پاس آئے اور غرق سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کی۔ جب زمین (سیلاب سے) غرق ہوگئی اور جب اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کو ہلاک کردیا تو بیت اللہ کو بھی سیلان پہنچا جو زمین کو پہنچا تھا اور وہ سرخ ٹیلہ تھا اور اس کی جگہ مشہور تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ھود کو قوم عاد کی طرف بھیجا وہ اپنی قوم (کی اصلاح) کے کام میں مشغول رہے یہاں تک کہ (قوم) ہلاک ہوگئی اور وہ اس کا حج نہ کرسکے پھر اللہ تعالیٰ نے صالح کو قوم ثمود کی طرف بھیجا وہ بھی اپنی قوم (کی اصلاح) کے کام میں مشغول رہے یہاں تک کہ وہ وفات پاگئے اور وہ اس کا حج نہ کرسکے پھر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو وہاں ٹھہرایا انہوں نے اس کا حج کیا۔ حج کے احکام سکھائے اور (لوگوں کو) اس کی زیارت کے لیے بلایا پھر اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا ابراہیم کے بعد جس نے حج نہ کیا ہو۔ (44) الازرقی نے ابو قلابہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) سے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ اپنے گھر کو اتارنے والا ہوں جس کے اردگرد طواف کیا جائے گا جیسا کہ میرے عرش کے گرد طواف کیا جاتا ہے اور اس کے پاس نماز پڑھی جائے گی جیسے میرے عرش کے پاس نماز پڑھی جاتی ہے (یہ گھر) برابر قائم رہا یہاں تک کہ طوفان نوح کا زمانہ جب آیا تو اس کو اٹھا لیا گیا پھر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس جگہ پر پہنچایا تو انہوں نے اس کو پانچ پہاڑوں (کے پتھروں) سے تعمیر فرمایا حراء، ثبیر، لبنان، طور اور جبل الاحمد سے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی نے بھی بیت اللہ کا طواف کیا (45) الجندی نے معمر (رح) سے روایت کیا کہ نوح (علیہ السلام) کی کشتی نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے یہاں تک کہ جب قوم نوح غرق ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ اٹھا لیا اور اس کی بنادیں باقی رہ گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو اس جگہ ٹھہرایا تو انہوں نے اس کے بعد اس کی تعمیر فرمائی اور یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے لفظ آیت ” واذ یرفع ابرہم القواعد من البیت “ سے یہی مراد ہے اور رکن (حجر اسود) کو (جبل) قیس کو بطور امانت عطا فرمایا یہاں تک کہ جب ابراہیم نے (بیت اللہ) کو بنایا تو ابو قیس نے ابراہیم کو آواز دی اور کہا اے ابراہیم حجر اسود یہ اس کے پاس آئے اور اسے کھود کر نکالا اور پھر اس کو نیت اللہ میں لگا دیا جب اس کی (یعنی بیت اللہ) ابراہیم نے تعمیر فرمائی۔ (46) الاصبہانی نے اپنی ترغیب میں اور ابن عساکر نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی اے آدم اس گھر کا حج کرو پہلے اس سے کہ تیرے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجائے آدم نے عرض کیا کہ میرے رب مجھ پر کونسا حادثہ پیش آئے گا فرمایا جیسے تو نہیں جانتا اور وہ موت ہے عرض کیا موت کیا چیز ہے ؟ فرمایا عنقریب تو اس کا مزہ چکھے گا عرض کیا میرے اہل میں کون خلیفہ بنے گا ؟ فرمایا میں یہ (امانت) آسمان و زمین اور پہاڑوں پر پیش کروں گا آسمانوں پر پیش کیا تو انہوں نے انکار کردیا زمینوں پر پیش کیا انہوں نے بھی انکار کردیا۔ پہاڑوں پر پیش کیا انہوں نے بھی انکار کردیا لیکن ان کے بیٹے نے قبول کرلیا جس نے اپنے بھائی کو قتل کیا تھا آدم حج کرنے کے لیے ہندوستان کی زمین سے نکلے جس منزل پر اترے اس میں کھایا اور پیا مگر وہ آپ کے بعد آباد ہوگئی یہاں تک کہ مکہ مکرمہ پہنچے تو فرشتوں نے ان کا (مقام) بطحاء پر استقبال کیا اور کہنے لگے السلام علیک اے آدم تیرا حج قبول ہو ہم نے بھی اس گھر کا حج کیا تھا ہر ملک کی محفوظ جگہ ہوتی ہے اور بطن مکہ میری محفوظ جگہ ہے جس کو میں نے اپنی مخلوق کے علاوہ اپنی ذات کے لیے چن لیا ہے میں اللہ ہوں بکہ (مکہ کا دوسرا نام) والا ہوں اس کے رہنے والا میری حفاظت میں ہے اور میرے گھر کے پڑوسی اور اس کے آباد کرنے والے اور اس کی زیارت کرنے والے میرے وفد ہیں، میرے مہمان ہیں، میری ضمانت میں ہیں، میرے سپرد ہیں اور میرے پڑوسی ہیں۔ میں نے اس کو لوگوں کے لیے پہلا گھر بنایا ہے میں اس کو آسمان والوں اور زمین والوں سے آباد رکھوں کا فوج در فوج بکھرے ہوئے غبار آلود چہروں والے آئیں گے ہر دبلی پتلی سواریوں پر ہر دور دراز چوڑے راستوں سے اپنی آوازوں کو تکبیر کے ساتھ اور مل کر تلبیہ پڑھتے ہوئے پس جو آدمی اس (گھر) کا عمرہ کرے تو کریم ذات پر حق ہے کہ اپنے وفد کا اپنے مہمانوں کا اور اس کی زیادت کرنے والوں کا اکرام کرے اور جو کوئی ان میں سے حاجت لے کر آئے اس کی حاجت پوری کرے اے آدم ! جب تک تو زندہ ہے تو اس کو آباد رکھے پھر تیرے بعد امتیں قومیں اور انبیاء تیری اولاد میں سے آباد کریں گے ایک وقت کے بعد دوسری امت اور ہر قوم کے دوسری قوم اور ایک کے بعد دوسرا اسے آباد رکھے گا یہاں تک کہ یہ سلسلہ تیری اولاد میں سے اس نبی پر ختم ہوگا جس کو محمد ﷺ کہا جائے گا اور نبیوں کو ختم کرنے والے ہوں گے پس میں اس نبی کو اس کے آباد کرنے والوں سے اس کے رہنے والوں سے اس کی مدد کرنے والوں سے اس کا انتظام کرنے والوں سے اس کی دربانی کرنے والوں سے اور اس کے (حاجیوں) کو پانی پلانے والوں سے بنا دوں گا میرا امن ہوگا اس پر جب تک زندہ رہے گا۔ جب وہ میری طرف لوٹ کر آئے گا اور مجھ کو پائے گا اس حال میں کہ میں اس کے لیے اس کے ثواب میں سے اور اس کے نصیب میں سے ذخیرہ بنا چکا ہوں گا وہ مضبوط کرے گا اس کے ذریعہ میری طرف قریب ہونے سے اور میرے پاس تقرب حاصل کرنے سے اور دار المقاصد (یعنی جنت) میں افضل منزلوں میں ہوگا اور میں بنا دوں گا اس گھر کے نام کو اس کے ذکر کو اس کی عزت کو اور اس کی بزرگی کو اور اس کے بلندی کو باعث عزت و شرافت اس نبی کے لیے جو تیری اولاد میں سے ہوگا۔ اس نبی کی جماعت میں سے (ایک اور نبی ہوں گے اور وہ ان کا باپ ہوگا اس کا نام ابراہیم ہوگا۔ جو اس کی بنیادوں کو اٹھائے گا اور میں اس کے ہاتھوں پر اس کی عمارت کو پورا کروں گا اور پانی پلانے کا انتظام بھی اس کے سپرد ہوگا۔ اور دکھاؤں گا کہ اس کا حل اور اس کا حرم اور اس میں سواریوں کو ٹھہرانے کی جگہیں اور اس کو مشاعرہ مناسک حج سکھاؤں گا۔ اور بنا دوں گا ان کو ایک امت میرے حکم کے پابند اطاعت کرنے والا اور میرے راستے کی طرف بلانے والے۔ اور میں اس کو چن لوں گا اور اس کو ہدایت دوں تگا سیدھے راستے کی طرف۔ میں ان کو (مصیبتوں میں) مبتلا کروں گا۔ تو وہ صبر کرے گا میں ان کو عافیت دوں گا تو وہ شکر کرے گا اور ان کو حکم کروں گا تو وہ (اس حکم کی) تعمیل کرے گا۔ اور میرے لئے نذر مانے گا تو میں اس کو پورا کروں گا وہ میرے ساتھ وعدہ کرے گا تو اس کو پورا کرے گا میں قبول کروں گا اس کی دعاؤں کو اس کی اولاد کے بارے میں اور میں شکایت قبول کروں گا اس کی اولاد کے حق میں اور میں بنا دوں گا ان کو اس گھر کے رہنے والے اس کی حفاظت کرنے والے اور (حجاج کو) پانی پلانے والے اس کی خدمت کرنے والے اس کی چوکیداری کرنے والے اور اس کی دربانی کرنے والے یہاں تک کہ وہ ان تمام چیزوں کو خود ہی بدل ڈالیں گے۔ جب وہ ایسا کریں گے تو میں سب قدرت رکھنے والے لوگوں میں زیادہ قادر ہوں اس بات پر کہ ایک کو بدل کر دوسرے کو اس کے قائم مقام کردوں میں ابراہیم (علیہ السلام) کو اہل شریعت بناؤں گا۔ جنات اور انسان جو بھی اس جگہ آئے گا وہ ابراہیم کی اقتداء کرے گا۔ اور آپ کی سنت پر عمل پیدا ہوگا۔ اور اس میں ان کی ہدایت کی اقتداء کرے گا سو جو شخص ان میں سے ایسا کرے گا وہ اپنی نذر کو بھی پورا کرے گا اور اپنے حج کے احکام کو پورا کرے گا۔ اور اپنے مقصود کو بھی پالے گا۔ اور جو شخص ایسا نہیں کرے گا۔ ان میں سے وہ اپنے حج کے احکام کو ضائع کرے گا۔ اور اپنی مراد کو نہ پاسکے گا۔ اور اپنی نذر کو بھی پورا نہیں کرے گا۔ سو جس شخص نے مجھ سے اس دن سوال کیا تو میں آؤں گا میں بکھرے ہوئے بالوں والے غبار آلور (چہروں والوں) اپنے نذروں کو پورا کرنے والوں اپنے حج کے احکام کو پورا کرنے والوں اور ساری کائنات سے منہ موڑ کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہونے والوں کے ساتھ ہوں ان باتوں کو جو یہ لوگ ظاہر کرتے ہیں اور جو چھپاتے ہیں۔ عکرمہ اور وھب بن منبہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے اسی طرح روایت نقل کی۔ (47) ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں أنس بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ آدم (علیہ السلام) کے زمانہ میں بیت اللہ کی جگہ ایک بالشت سے زیادہ تھی۔ آدم (علیہ السلام) سے پہلے فرشتے اس کا حج کیا کرتے تھے۔ پھر (آدم (علیہ السلام) نے) حج کیا تو فرشتوں نے ان کا استقبال کیا کہنے لگے اے آدم آپ کہاں سے آئے ؟ فرمایا میں نے اس گھر کا حج کیا ہے ملائکہ نے کہا آپ سے دو ہزار سال پہلے فرشتوں نے حج کیا تھا۔ (48) امام بیہقی نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) ہندوستان میں اترے عرض کیا اے میرے رب مجھ کو کیا ہوگیا کہ میں فرشتوں کی آواز نہیں سنتا ہوں۔ جیسا کہ جنت میں سنا کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا اے آدم تیرے خطا کی وجہ سے (فرشتوں کی آواز نہیں سنائی دیتی) اب تم جاؤ اور میرے لئے ایک گھر بناؤ (پھر) اس کا طواف کرو جیسا کہ تم نے فرشتوں کو طواف کرتے دیکھا ہے۔ آدم (علیہ السلام) چلے یہاں تک کہ مکہ پہنچے اور بیت اللہ کو بنایا۔ (ہندوستان سے مکہ آتے ہوئے) آدم (علیہ السلام) کے ہر قدم کی جگہ آبادیاں اور نہریں اور سبزہ پیدا ہوگیا اور صحراء اور بیابان آپ کے ایک قدم کا فاصلہ بن گئے آدم (علیہ السلام) نے ہندوستان سے چل کر چالیس سال حج کئے۔ (49) امام بیہقی نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کی توبہ قبول فرمائی تو ان کو مکہ کی طرف چلنے کا حکم فرمایا ان کے لیے زمین کو لپیٹ دیا گیا یہاں تک کہ وہ مکہ تک پہنچے۔ ملائکہ نے ان سے ابطح کے مقام پر ملاقات کی اور ان کو خوش آمدید کہا اور ان سے کہا اے آدم ! ہم آپ کے انتظار میں تھے تیرا حج قبول ہو ہم نے بھی آپ سے دو ہزار سال پہلے اس گھر کا حج کیا تھا اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو حکم فرمایا کہ آدم کو حج کے احکام سکھائیں۔ جبرائیل ان کو لے کر چلے حتی کہ ان کو عرفات، مزدلفہ، منی اور جمار پر ٹھہرایا (اور سارے احکام سمجھائے) اور پر نماز، زکوۃ، روزہ اور غسل جنابت کے احکام نازل فرمائے۔ راوی حدیث نے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کے زمانہ میں بیت اللہ سرخ یاقوت کا تھا جنت کے اس یاقوت میں سے نور چمکتا تھا اس کے دو دروازے تھے مشرقی اور غربی جنت کے سونے کے پتریوں سے اور اس میں جنت کے سونے کی پتریوں سے تین فانوس تھے۔ اس پر نور نکلتا تھا یہ سارا نظام اسی طرح رہا حتی کہ نوح (علیہ السلام) کا زمانہ آیا تو اس میں (زمین) غرق ہوگئی تو اس کو غرق ہونے سے بچانے کے لیے اوپر اٹھا لیا گیا اور عرش کے نیچے رکھ دیا گیا اور زمین دو ہزار سال تک خراب رہی۔ یہ حالت اسی طرح رہی یہاں تک کہ ابراہیم کو اللہ تعالٰٰ نے حکم فرمایا کہ میرے گھر کو بناؤ تو سکینہ آئی گویا کہ وہ ایک بادل تھا اس میں ایک سر تھا جو باتیں کرتا تھا اس کا چہرہ انسان کے چہرہ کی طرح تھا وہ کہنے لگی اے ابراہیم ! میرے سایہ کی مقدار پر (اللہ کا گھر) تعمیر کرو اس سے نہ گھٹاؤ نہ بڑھاؤ۔ ابراہیم نے اس کے سایہ کی مقدار متعین کرلی پھر اسی جگہ پر ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) نے اللہ کا گھر بنایا اور اس کی اس وقت چھت نہیں تھی لوگ اس میں زیورات اور سامان ڈالتے تھے۔ یہاں تک کہ جب (اند کا حصہ) قریب تھا کہ (زیورات اور سامان سے) بھر جائے۔ پانچ آدمیوں نے نقب لگائی تاکہ اس میں سے زیوات اور سامان چرا لیں۔ ان میں سے ہر ایک کونے پر کھڑا ہوگیا اور پانچواں آدمی اند گھسا وہ سر کے بل گرا اور ہلاک ہوگیا اللہ تعالیٰ نے اس کے پاس سفید سانپ بھیجا جس کا سر اور دم سیاہ تھی اس نے پانچ سو سال تک اللہ کے گھر کی چوکیداری کی جو کوئی اس کے قریب آتا تھا وہ ہلاک ہوجاتا تھا۔ بیت اللہ اسی حال میں رہ ایہاں تک کہ قریش مکہ نے اس کی (دوبارہ) تعمیر کی۔ (50) الازرقی اور بیہقی نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے حضرت کعب ؓ سے کعبہ کے بارے میں پوچھا اور فرمایا کہ مجھے اس گھر کے بارے میں بتلاؤ اس کا کیا معاملہ ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ اس گھر کو اللہ تعالیٰ نے سرخ یاقوت کا بنا ہوعا (اور) اندر سے کھوکھلا آدم (علیہ السلام) کے ساتھ آسمان سے نازل فرمایا تھا اور فرمایا اے آدم ! یہ میرا گھر ہے اس کے گرد طواف کر اور اس کے گرد نماز پڑھ جیسے تو نے میرے فرشتوں کو دیکھا کہ میرے عرش کے گرد طواف کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور ان کے ساتھ فرشتوں کو اتارا انہوں نے اس کی بنیادوں کو پتھروں سے اٹھایا۔ پھر ان بنیادوں پر بیت اللہ کو رکھ دیا جب اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کو غرق فرما دیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو آسمان کی طرف اٹھا لیا اور اس کی بنیادیں باقی رہ گئیں۔ (51) امام بیہقی نے عطاء بن ابی رباح نے کعب احبار ؓ سے روایت کیا کہ کعبہ نے اپنے رب کی طرف شکایت کی اور آہ و بکا کی اور کہنے لگا اے میرے رب میری زیارت کرنے والے تھوڑے ہوگئے اور میرے ساتھ لوگوں نے ظلم کیا اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا میں انجیل بھیجنے والا ہوں اور تیری زیارت کرنے والا بنانے والا ہوں جو تیری طرف مشتاق ہوں گے جس طرح کبوتری اپنے انڈوں کی طرف مشتاق ہوتی ہے۔ (52) الازرقی اور بیہقی نے عبد الرحمن بن سابط سے عبد اللہ بن ضمرہ سلولی (رح) سے روایت کیا کہ مقام ابراہیم سے لے کر رکن تک اور زم زم کے کنویں سے لے کر حجر اسود تک کے درمیان ستر انبیاء کی قبریں ہیں وہ حج کرنے کے لیے آئے یہیں ان کی وفات ہوگئی اور یہیں ان کی قبریں بنا دیں گئیں۔ (53) امام بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ تبع (بادشاہ) کعبہ کو (گرانے کے لیے) آیا یہاں تک کہ جب وہ (وادی) کراع الغمیم پر پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک (تیز) ہوا بھیجی کہ جو کھڑا ہونے والے کے قدم اکھیڑ دیتی تھی اور جو کھڑا ہونے والا بیٹھنا چاہتا تھا اس کو بچھاڑ دیتی تھی یہ ہوا ان پر قائم رہی جس سے ان کو بہت تکلیفیں پہنچی۔ تبع نے اپنے دور کے علماء کو بلایا اور ان سے پوچھا یہ کیا (ہوا) ہے جو مجھ پر بھیجی گئی ان دونوں نے کہا کیا تو ہم کو امن دے گا ؟ اس نے کہا تم امن میں ہو۔ انہوں نے (پھر) کہا کیونکہ تو نے اس گھر (یعنی بیت اللہ) کا ارادہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو روک دیتے ہیں۔ جو اس کا ارادہ کرے پھر اس نے پوچھا مجھ سے یہ تکلیف کیسے دور ہوگی۔ علماء نے کہا وہ چادریں لپیٹ لے اور لبیک لبیک کہہ کر (حرم شریف) میں داخل ہوجا پھر اس گھر کا طواف کر اور کسی کو تکلیف نہ پہنچا اس نے کہا اگر میں اب ارادہ کرلوں تو کیا یہ ہوا مجھ سے دور ہوجائے گی انہوں نے کہا ہاں ! اس (بادشاہ) نے احرام باندھا پھر لبیک پڑھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا اندھیری رات کے ٹکڑے کی طرف ہوا فورا چلی گئی۔ (54) امام بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے کعبہ کی طرف دیکھا تو فرمایا خوش آمدید ہو تیری کتنی بلند عظمت ہے ؟ تیری حرمت کتنی بڑی ہے اور مؤمن (بندہ) کی عزت تجھ سے اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ ہے۔ (56) امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ جب نبی اکرم ﷺ نے مکہ فتح فرمایا اور اس کی طرف رخ انور کرتے ہوئے فرمایا تو عزت والا ہے اور تیری عزت کتنی بڑی ہے۔ تیری خوشبو کتنی پاکیزہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک تجھ سے زیادہ عزت وال مؤمن ہے۔ (57) ابن ابی زیبہ، الازرقی نے مکحول (رح) سے روایت کیا کہ جب نبی اکرم ﷺ نے مکہ میں داخل ہونے کے وقت بیت اللہ کو دیکھا تو اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر یوں فرمایا ” اے اللہ اس گھر کو زیادہ کر دے شرافت میں تعظیم میں، تکریم میں اور ہیبت میں جو اس کے شرف، تکریم، تعظیم اور نیکی کے ارادے سے اس کا حج اور عمرہ کرے اس کے شرف اور عزت کو زیادہ کر دے “۔ (58) امام شافعی نے الام میں ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ جب نبی اکرم ﷺ بیت اللہ کو دیکھتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر یوں فرماتے ” اے اللہ زیادہ کر دے اس گھر کی شرافت میں تکریم میں تعظیم میں اور ہیبت میں اور زیادہ کر دے اس کے شرف اور اس کی عزت میں جو اس کا حج کرے یا اس کا عمرہ کرے شرف، تکریم، تعظیم اور نیکی کا ارادہ کرتے ہوئے۔ (59) امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت جابر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ کعبہ کے دو ہونٹ اور ایک زبان ہے اس نے شکایت کرتے ہوئے کہا اے میرے رب ! میری طرف لوٹنے والے کم ہوگئے ہیں اور میری زیارت کرنے والے کم ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف وحی بھیجی بلاشبہ میں ایک ایسا انسان پیدا کرنے وال ہوں جس میں خشیت بھی ہو اور سجدہ کرنے والا بھی ہو۔ وہ تیرے پاس آنے کے لیے مشتاق ہوگا جیسے کبوتری اپنے انڈوں کی طرف آنے کی مشتاق ہوتی ہے۔ (60) الازرقی نے جابر جزری (رح) سے روایت کیا کہ کعب یا سلمان الفارسی ؓ بیت اللہ کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے اور فرمایا کہ کعبہ نے اپنے رب کی طرف شکایت کی کہ میرے اردگرد بت نصیب کر دئیے گئے اور تیروں کے نکالنے کی شکایت کی اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف وحی بھیجی میں نور کو اتارنے والا ہوں (یعنی کتاب کو) اور انسان کو پیدا کرنے والا ہوں جو تیرے پاس آنے کے لئے ایسے مشتاق ہوگا۔ جیسے کبوتری اپنے انڈوں کی طرف آنے کی مشتاق ہوتی ہے۔ اور وہ گدھوں کی طرف تیرے پاس آئیں گے کسی نے پوچھا کیا اس کی زبان ہے ؟ فرمایا ہاں دو کان اور ہونٹ بھی ہیں۔ (بقیہ حاشیہ آیت نمبر 131 پر ملاحظہ کریں)
Top