Dure-Mansoor - Al-Baqara : 128
رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ١۪ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَیْنَا١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
رَبَّنَا : اے ہمارے رب وَاجْعَلْنَا : اور ہمیں بنادے مُسْلِمَيْنِ : فرمانبردار لَکَ : اپنا وَ ۔ مِنْ : اور۔ سے ذُرِّيَّتِنَا : ہماری اولاد أُمَّةً : امت مُسْلِمَةً : فرمانبردار لَکَ : اپنا وَاَرِنَا : اور ہمیں دکھا مَنَاسِکَنَا : حج کے طریقے وَتُبْ : اور توبہ قبول فرما عَلَيْنَا : ہماری اِنَکَ اَنْتَ : بیشک تو التَّوَّابُ : توبہ قبول کرنے والا الرَّحِيمُ : رحم کرنے والا
اے ہمارے رب اور بنادے ہم کو تو اپنا فرمانبردار، اور بنا دے ہماری اولاد میں سے ایک امت جو تیری فرمانبردار ہو، اور ہمیں بتادے ہمارے حج کے احکام، اور ہماری توبہ قبول فرما، بیشک تو ہی توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے .
(1) ابن ابی حاتم نے عبد الکریم (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ربنا واجعلنا مسلمین “ کے بارے میں روایت کیا کہ مسلمین سے مراد مخلصین ہے۔ (2) ابن ابی حاتم نے سلام بن ابی مطیع (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا وہ (دونوں یعنی ابراہیم و اسماعیل) پہلے ہی مسلمان تھے لیکن ان دونوں نے اللہ تعالیٰ سے ثابت قدم رہنے کا سوال کیا تھا۔ (3) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ اس قول لفظ آیت ” ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک “ سے عرب کے لوگ مراد ہیں۔ واما قولہ تعالیٰ : وارنا مناسکنا : (4) سعید بن منصور، ابن ابی حاتم الازرق نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا اے ہمارے رب ہم کو حج کے احکام بتلا دیجئے۔ جبرائیل ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو بیت اللہ کے پاس کے آئے (پھر) ان سے فرمایا (اس کی) بنیادوں کو اونچا کرو انہوں نے بنیادوں کو اونچا کیا اور دیواریں مکمل کیں پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے گئے اور صفا پر لے جا کر فرمایا کہ یہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں پھر ان کو مروہ کی طرف لے گئے اور فرمایا کہ یہ بھی اللہ کے شعائر میں سے ہے۔ پھر منی کی طرف لے گئے جب (یہ لوگ) عقبہ میں تھے تو شیطان درخت کے پاس کھڑا ہوا تھا جبرائیل نے فرمایا آپ تکبیر پڑھو اور اس کو کنکری مارو آپ نے تکبیر پڑھی اور اس کو کنکری ماری ابلیس وہاں سے چلا اور جمرہ وسطی کے پاس کھڑا ہوگیا جب جبرائیل اور ابراہیم اس کے برابر پر پہنچے تو جبرائیل نے فرمایا تکبیر پڑھئے اور اس کو کنکری مارئیے آپ نے تکبیر پڑھی اور کنکری ماری۔ ابلیس وہاں سے چلا اور جمرہ قصوی پر آگیا جبرائیل نے آپ سے فرمایا تکبیر پڑھیئے اس کو کنکری مارئیے آپ نے تکبیر پڑھی اور کنکری ماری۔ ابلیس وہاں سے چلا گیا اور خبیث کا ارادہ تھا کہ حج (کے احکام) میں کوئی چیز (اپنے پاس سے) داخل کر دے مگر نہ کرسکا۔ پھر جبرائیل نے ابراہیم کا ہاتھ پکڑا یہاں تک کہ ان کو (مزدلفہ) مشعر الحرام لے آئے اور ان سے فرمایا یہ مشعر الحرام ہے پھر ان کو عرفات (کے میدان میں) لے آئے اور جبرائیل نے پوچھا جو (مقامات) میں نے دکھائے ہیں کیا آپ نے ان کو پہچان لیا ہے ؟ تین مرتبہ ایسا کہا جواب دیا ہاں (پہچان لیا) پھر کہا لوگوں میں حج کا اعلان کرو فرمایا کیسے اعلان کروں ؟ انہوں نے کہا کہ اے لوگو ! اپنے رب کا حکم مانو یہ آپ نے تین مرتبہ کہا بندوں نے جواب دیا ” لبیک اللہم لبیک “ جس نے مخلوق میں سے ابراہیم کی پکار پر اس دن لبیک کہا وہ حج کرنے والا بن گیا۔ (5) ابن جریر نے ابن المسیب سے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوگئے تو عرض کیا اے میرے رب میں نے وہ کام پورا کرلیا (جو آپ نے حکم فرمایا تھا) اب ہم کو مناسک حج دکھا دیجئے ہمارے لئے وہ ظاہر دیجئے اور ہم کو سکھا دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو بھیجا انہوں نے ان کے ساتھ حج کیا۔ (6) سعید بن منصور الازرق نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) نے پیدل حج کیا۔ (7) ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ مقام کعبہ کی بنیاد میں تھا اس پر ابراہیم (علیہ السلام) کھڑے ہوئے تو یہ پہاڑ ابو قیس اور اس کے ساتھ (یعنی ساتھ والے پہاڑ) سب نظر آگئے۔ پس اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مناسک حج دکھا دئیے پھر ان سے پوچھا عرفت (کیا آپ نے پہچان لیا) انہوں نے فرمایا ہاں ! اس لئے اس کا نام عرفات رکھ دیا گیا۔ (8) ابن ابی شیبہ نے ابو مجلز (رح) سے اللہ تعالیٰ کا قول لفظ آیت ” واذ یرفع ابرہم القواعد من البیت واسمعیل “ کے تحت روایت کیا کہ ابراہیم جب بیت اللہ (کی تعمیر) سے فارغ ہوگئے تو ان کے پاس جبرائیل تشریف لائے ان کو بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ دکھایا پھر دونوں عقبہ (گھاٹی) کی طرف چلے شیطان ان کے سامنے آیا جبرائیل نے سات کنکریاں اٹھالیں اور ابراہیم کو بھی دیں جبرائیل نے وہ کنکریاں ماریں اور تکبیریں کہیں پھر ابراہیم سے فرمایا کنکری مارئیے اور تکبیر پڑھئیے ہر کنکری کے سات یہاں تک کہ شیطان اکتا گیا پھر دونوں جمرہ وسطی کی طرف چلے تو (پھر) شیطان اس کے سامنے آیا جبرائیل نے کنکریاں اٹھائیں (اور ابراہیم کو بھی پیش کیں) پھر دونوں نے کنکریاں ماریں اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہی یہاں تک کہ شیطان اکتا گیا۔ پھر دونوں جمرہ قصوی کے پاس آئے ان کے سامنے شیطان پھر آیا جبرائیل نے سات کنکریاں اٹھائیں اور ابراہیم (علیہ السلام) کو دے کر کہا مارئیے اور تکبیر پڑھئیے تو انہوں نے کنکریاں پھینکیں اور اللہ اکبر کہا اور رمی کے ساتھ یہاں تک کہ شیطان اکتا گیا۔ پھر ان کو منی کی طرف لے آئے اور کہا کہ یہاں لوگ اپنے سروں کا حلق کریں گے پھر مزدلفہ لے آئے اور کہا کہ یہاں لوگ نمازوں کو جمع کریں گے پھر ان کو عرفات لے آئے کہا ” عرفت “ آپ نے پہچان لیا ! عرض کیا ہاں اس وجہ سے ان کا نام عرفات رکھا گیا۔ حج کے احکام سکھانے کی دعاء (9) الازرقی نے زبیر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ جب ابراہیم بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو فرمایا اے ہمارے رب میں نے وہ کام کرلیا (جس کا آپ نے حکم فرمایا تھا) اب ہم کو ہمارے حج کے احکام سکھا دیجئے اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیجا انہوں نے ان کے ساتھ حج کیا یہاں تک کہ جب دسویں الحج کا دن تھا شیطان سامنے آیا جبرائیل نے کہا کنکریاں مارئیے انہوں نے سات کنکریاں ماریں پھر دوسرے دن پھر تیسرے دن بھی اسی طرح ہوا دو پہاڑوں کے درمیان کا خلا بھر دیا پھر آپ منبر پر چڑھے اور اعلان کیا اے اللہ کے بندو اپنے اب کا حکم مانو آپ کی دعوت کو سمندر کے درمیان ہر اس شخص نے سن لیا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان تھا (جواب میں) لوگوں نے کہا ” لبیک اللہم لبیک “ اور زمین پر سات مسلمان یا اس سے زیادہ باقی رہے اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین اور زمین پر رہنے والے ہلاک ہوچکے ہوتے اور سب سے پہلے جنہوں نے آپ کے اعلان کا جواب دیا اہل یمن تھے۔ (10) الازرقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وارنا مناسکنا “ میں مناسکنا سے مراد مذابحنا ہے۔ یعنی ہماری قربان گاہیں۔ (11) الجندی نے مجاہد سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) سے فرمایا کھڑے ہوجائیے اور میرے لئے گھر بنائے عرض کیا اے میرے رب کہاں بناؤں ؟ فرمایا عنقریب میں تم کو بتاؤں گا اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ایک بادل بھیجا جس کا ایک سر تھا اس نے کہا اے ابراہیم کہ تیرا رب تجھ کو حکم دیتا ہے کہ اس بادل کے برابر خط کھینچ لو۔ ابراہیم نے بادل کی طرف خط کھینچے گئے بادل نے پوچھا کیا خط کھینچ لیا کہا ہاں۔ بادل چلا گیا تو ابراہیم نے (وہاں) بنادیں کھودیں زمین میں سے بنیاد ظاہر ہوگئی تو (اسی پر) ابراہیم نے بیت اللہ کی تعمیر شروع کردی۔ جب تعمیر سے فارغ ہوئے تو عرض کیا اے میرے رب میں نے کام (پورا) کرلیا اب ہم کو حج کے احکام سکھا دیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کو بھیجا تو آپ نے جبرائیل کے ساتھ حج کیا جب دس ذی الحجہ کا دن تھا تو ابلیس سامنے آیا جبرائیل نے ان سے کہا ان کو کنکری مارئیے۔ انہوں نے سات کنکریاں ماریں پھر اسی طرح دوسرے دن، تیسرے دن اور چوتھے دن بھی ایسا ہوا پھر جبرائیل نے کہا کہ ثبیر (پہاڑ) پر چڑھ جاؤ۔ دونوں ثبیر پہاڑ پر چڑھ گئے اور ابراہیم نے اعلان فرمایا کہ اے اللہ کے بندو اپنے رب کا حکم مانو اے اللہ کے بندو اللہ کی اطاعت کرو دونوں سمندوروں کے درمیان ہر اس شخص نے ان کی آواز کو سن لیا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان تھا۔ ان لوگوں نے کہا ” لبیک اللہم لبیک “ اے اللہ ہم نے تیری اطاعت کی، اے اللہ ! ہم نے تیری اطاعت کی اور یہ وہ احکام تھے جو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو سکھائے تھے ” لبیک اللہم لبیک “ ہمیشہ زمین پر سات مسلمان یا اس سے زیادہ ہوں گے اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین اور زمین والے ہلاک ہوجاتے۔ مناسک حج کی ادائیگی میں شیطان کی رکاوٹ (12) ابن خزیمہ، طبرانی، حاکم انہوں نے اسے صحیح بھی کہا ہے اور امام بیہقی نے الشعب الایمان میں حضرت ابن عباس ؓ سے مرفوع روایت نقل کی فرمایا کہ ابراہیم نے حج کے احکام کو ادا فرمایا تو شیطان جمرہ عقبہ کے پاس آپ کے سامنے آیا تو انہوں نے اس کو سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا پھر دوسرے جمرہ کے پاس ظاہر ہوا تو انہوں نے اس کو سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا پھر تیسرے جمرہ کے پاس ظاہر ہوا تو انہوں نے اس کو سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا شیطان کو تم رجم کرتے رہو اور تم اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کی اتباع کرتے ہو۔ (13) امام الطیالسی، احمد، ابی حاتم اور بیہقی نے الشعب میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب ابراہیم نے حج کے مقامات کو دیکھا تو شیطان سعی کرنے کی جگہ کے پاس سامنے آیا اس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو ابراہیم اس سے آگے بڑھ گئے پھر جبرائیل ان کے لے کر چلے یہاں تک کہ ان کو منیٰ دکھایا اور کہا یہ لوگوں کے اونٹ بٹھانے کی جگہ ہے جب جمرہ عقبہ پر پہنچے تو شیطان پھر سامنے آیا انہوں نے اس کو سات کنکریاں ماریں تو وہ بھاگ گیا پھر جبرائیل حضرت ابراہیم کو ساتھ لے کر جمرہ وسطی پر لے آئے وہاں شیطان پھر سامنے آگیا تو انہوں نے سات کنکریاں ماریں تو وہ بھاگ گیا پھر ان کو جمرہ قصوی پر لے آئے شیطان پھر سامنے آگیا تو اس کو سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ بھاگ گیا پھر ان کو مزدلفہ لے آئے اور کہا یہ مشعر ہے پھر ان کو عرفہ میں لے آئے اور جبرائیل (علیہ السلام) نے ان سے کہا کیا (عرفت) آپ نے ان کو پہچان لیا اسی وجہ سے اسود کو عرفہ کہتے ہیں کیا تم جانتے ہو تلبیہ کس طرح سے ہوا ؟ جب ابراہیم کو حکم ہوا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کرو تو پہاڑوں کو حکم کیا گیا کہ اپنے سروں کو نیچا کرلیں ان کے لیے سارے شہروں کو اونچا کردیا گیا پھر آپ نے لوگوں میں حج کا اعلان فرمایا۔ (14) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” وارنا مناسکنا “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں (یعنی ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام) کو حج کے ارکان سکھائے وقوف عرفات مزدلفہ سے لوٹنا جمرات کو کنکری مارنا بیت اللہ کا طواف کرنا صفا مروہ کے درمیان سعی کرنا۔
Top