Dure-Mansoor - Al-Baqara : 137
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا١ۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍ١ۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُ١ۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ
فَاِنْ : پس اگر اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائیں بِمِثْلِ : جیسے مَا آمَنْتُمْ : تم ایمان لائے بِهٖ : اس پر فَقَدِ اهْتَدَوْا : تو وہ ہدایت پاگئے وَاِنْ : اور اگر تَوَلَّوْا : انہوں نے منہ پھیرا فَاِنَّمَا هُمْ : تو بیشک وہی فِي شِقَاقٍ : ضد میں فَسَيَكْفِيکَهُمُ : پس عنقریب آپ کیلئے ان کے مقابلے میں کافی ہوگا اللّٰہُ : اللہ وَ : اور هُوْ : وہ السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
سو اگر وہ ایمان لے آئیں ان چیزوں پر جن پر تم ایمان لائے تو وہ ہدایت پاجائیں گے اور اگر وہ روگردانی کریں تو بس وہ مخالفت ہی میں لگے ہوئے ہیں پس عنقریب اللہ آپ کی طرف سے ان کے لئے کافی ہوگا اور وہ سمیع ہے علیم ہے۔
(1) ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یوں نہ کہو لفظ آیت ” فان امنو بمثل امنتم بہ “ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کوئی مثل نہیں۔ لیکن تم یوں کہو لفظ آیت ” فان امنوا بالذی امنتم بہ “ (یعنی اگر وہ ایمان لائیں اس ذات کے ساتھ جیسا کہ تم اس ذات کے ساتھ ایمان لائے ہو) ۔ (نوٹ) حضرت ابن عباس ؓ کی قرأت میں لفظ مثل زائد ہے اس لئے انہوں نے یہ فرمایا کہ یوں کہو لفظ آیت ” فان امنو بالذی امنتم بہ “ مگر ہماری قرأت میں بمثل کا باء زائد ہے۔ جیسے لفظ آیت ” جزاء سیءۃ بمثلہا “ میں باء زائد ہے اب آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر وہ تمہارے ایمان لانے کی طرح ایمان لائیں۔ (2) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں خطیب نے اپنی تاریخ میں أبو جمرہ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ یوں پڑھا کرتے تھے لفظ آیت ” فان امنو بالذی امنتم بہ “۔ (3) ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فانما فی شقاق “ میں شقاق سے مراد فراق ہے۔ (4) امام حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں بیٹھا ہوا تھا اچانک حضرت عثمان ؓ تشریف لائے تو ان کو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اے عثمان ! تو قتل کیا جائے گا اس حال میں کہ تو سورة بقرہ پڑھ رہا ہوگا اور تیرے خون کا قطرہ لفظ آیت ” فسیکفیکہم اللہ “ پر گرے گا۔ ذھبی (رح) نے مختصر مستدرک میں فرمایا ہے کہ یہ خالص جھوٹ ہے اور اس کی سند میں احمد بن محمد بن عبد الحمید جعفی ہے جو متہم بالکذب ہے۔ حضرت عثمان غنی ؓ کی شہادت کا واقعہ (5) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں ابو القاسم، بن بشران نے امالی میں، ابو نعیم نے المعرفہ میں اور ابن عساکر نے ابو سعید مولی بنو أسد (رح) سے روایت کیا کہ جب مصری حضرت عثمان ؓ پر حملہ آور ہوئے تو ان کے آگے قرآن مجید رکھا ہوا تھا انہوں نے ان کے ہاتھوں پر تلوار ماری تو خون اس آیت ” فسیکفیکہم اللہ، وھو السمیع العلیم “ پر گرا انہوں نے اپنے ہاتھ کو پھیلاتے ہوئے فرمایا اللہ کی قسم یہ پہلا ہاتھ ہے جس نے مفصل سورتیں لکھیں تھیں۔ (6) ابن ابی حاتم نے نافع بن ابو نعیم (رح) سے روایت کیا کہ بعض خلفاء کی طرف حضرت عثمان بن عفان ؓ والا قرآن مجید بھیجا گیا میں نے ان سے کہا لوگ کہتے ہیں کہ ان کا یہ قرآن ان کی گود میں تھا جب ان کو قتل کیا گیا تو خون اس آیت لفظ آیت ” فسیکفیکہم اللہ، وھو السمیع العلیم “ پر واقع ہوگیا۔ نافع نے فرمایا کہ میں اپنی آنکھوں سے اس آیت پر خون کو دیکھا جو میرے آگے رکھا گیا تھا۔ (7) عبد اللہ بن احمد نے زوائد میں عمرہ بنت ارطاۃ عدویہ (رح) سے روایت کیا کہ میں حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ اسی سال جس میں حجرت عثمان شہید کئے گئے مکہ کی طرف روانہ ہوئے ہم مدینہ منورہ سے گزرے اور ہم نے وہ قرآن دیکھا جو ان کے شہید ہونے کے وقت ان کی گود میں تھا۔ تو ان کے خون کا پہلا قطرہ اس آیت ” فسیکفیکہم اللہ، وھو السمیع العلیم “ پر گرا۔ عمرۃ نے فرمایا کہ ان کے (قتل کرنے والوں) میں سے کوئی آدمی بھی صحیح موت نہیں مرا (بلکہ کسی نہ کسی عذاب میں مبتلا ہو کر مرا) ۔
Top