Dure-Mansoor - Al-Baqara : 143
وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًا١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ كُنْتَ عَلَیْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَیْهِ١ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِیْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ
وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح جَعَلْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں بنایا اُمَّةً : امت وَّسَطًا : معتدل لِّتَكُوْنُوْا : تاکہ تم ہو شُهَدَآءَ : گواہ عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ وَيَكُوْنَ : اور ہو الرَّسُوْلُ : رسول عَلَيْكُمْ : تم پر شَهِيْدًا : گواہ وَمَا جَعَلْنَا : اور نہیں مقرر کیا ہم نے الْقِبْلَةَ : قبلہ الَّتِىْ : وہ کس كُنْتَ : آپ تھے عَلَيْهَآ : اس پر اِلَّا : مگر لِنَعْلَمَ : تاکہ ہم معلوم کرلیں مَنْ : کون يَّتَّبِعُ : پیروی کرتا ہے الرَّسُوْلَ : رسول مِمَّنْ : اس سے جو يَّنْقَلِبُ : پھرجاتا ہے عَلٰي : پر عَقِبَيْهِ : اپنی ایڑیاں وَاِنْ : اور بیشک كَانَتْ : یہ تھی لَكَبِيْرَةً : بھاری بات اِلَّا : مگر عَلَي : پر الَّذِيْنَ : جنہیں ھَدَى : ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ وَمَا كَانَ : اور نہیں اللّٰهُ : اللہ لِيُضِيْعَ : کہ وہ ضائع کرے اِيْمَانَكُمْ : تمہارا ایمان اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ بِالنَّاسِ : لوگوں کے ساتھ لَرَءُوْفٌ : بڑا شفیق رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور جس قبلہ پر آپ تھے اسے ہم نے مقرر نہیں کیا مگر اس لئے کہ ہم جان لیں کون اتباع کرتا ہے رسول کا اس سے ممتاز ہو کر جو پیچھے لپٹ جاتا ہے اپنے الٹے پاؤں، اور بیشک یہ قبلہ بدلنا بھاری بات ہے مگر ان لوگوں پر جن کو اللہ نے ہدایت دی اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ ضائع کرے تمہارے ایمان کو، بیشک اللہ لوگوں کے ساتھ بڑا مشفق مہربان ہے
(1) سعید بن منصور، احمد، ترمذی، نسائی (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن حبان الاسماعیلی نے (اپنی صحیح میں) اور حاکم (انہوں نے اسے صھیح کہا ہے) نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ لفظ آیت ” وکذلک جعلنکم امۃ وسطا “ میں وسطا کا معنی ہے عدل انصاف کرنے والی۔ (2) ابن جریر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا لفظ آیت ” وکذلک جعلنکم امۃ وسطا “ کا مطلب ہے عدلا یعنی انصاف کرنے والی۔ (3) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” جعلنکم امۃ وسطا “ سے مراد ہے کہ تم کو انصاف کرنے والی امت بنایا ہے۔ امت وسط امت محمدیہ ﷺ ہے (4) امام ابن سعد نے قاسم بن عبدالرحمن سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ابن عمر ؓ سے پوچھا تم کون ہو ؟ انہوں نے فرمایا تم لوگ کیا کہتے ہو ؟ اس نے کہا ہم یہ کہتے ہیں کہ تم سبط ہو اور تم کہتے ہو کہ تم وسط ہو۔ ابن عمر نے فرمایا سبحان اللہ ! سبط بنی اسرائیل میں تھا اور امت وسط محمد ﷺ کی ساری امت ہے۔ (5) امام احمد، عبد بن حمید، بخاری، ترمذی، نسائی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نوح (علیہ السلام) کو قیامت کے دن بلایا جائے گا ان سے کہا جائے گا کیا تم نے (اللہ کا پیغام اپنی امت کو) پہنچا دیا تھا وہ جواب دیں گے ہاں (پہنچا دیا تھا) ان کی قوم کو بلا کر ان سے پوچھا جائے گا کیا نوح (علیہ السلام) نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ وہ کہیں گے ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا اور نہ اس کے علاوہ کوئی اور آیا۔ نوح (علیہ السلام) سے کہا جائے گا تیرا گواہ کون ہے ؟ وہ فرمائیں گے محمد ﷺ اور ان کی امت اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” وکذلک جعلنکم امۃ وسطا “ فرمایا الوسط سے مراد ہے العدل یعنی انصاف کرنے والی نے پھر تم کو بلایا جائے گا تم نوح (علیہ السلام) کی تبلیغ کی گواہی دوں گے اور میں تم پر گواہی دوں گا۔ (6) سعید بن منصور، احمد، نسائی، ابن ماجہ اور بیہقی نے البعث والمنثور میں ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک نبی کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اس کے ساتھ صرف ایک آدمی ہوگا (پھر) ایک اور نبی کو لایا جائے گا اس کے ساتھ دو آدمی ہوں گے اور اس سے زیادہ بھی ہوں گے اس کی قوم کو بلایا جائے گا ان سے پوچھا جائے گا کیا اس (نبی) نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچایا تھا وہ کہیں گے نہیں۔ پھر اس نبی سے پوچھا جائے گا کیا تم نے اپنی قوم کو (اللہ کا پیغام) پہنچایا تھا وہ فرمائیں گے ہاں۔ (پھر) ان سے کہا جائے گا تیرے لئے کون گواہی دے گا۔ وہ فرمائیں گے محمد ﷺ اور ان کی امت محمد ﷺ اور ان کی امت کا بلایا جائے گا ان سے پوچھا جائے گا کیا اس نبی نے اپنی قوم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا وہ کہیں گے ہاں ! (پہنچا دیا تھا) ان سے پوچھا جائے گا تمہیں کیسے علم ہے ؟ وہ کہیں گے ہمارے پاس نبی ﷺ تشریف لائے تھے اور انہوں نے ہم کو بتایا تھا کہ (سب) رسولوں نے (اپنی اپنی قوم کو) اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ اسی لئے فرمایا لفظ آیت ” وکذلک جعلنکم امۃ وسطا “ فرمایا وسط سے مراد عدلا یعنی انصاف کرنے والی لفظ آیت ” لتکونوا شھداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا “۔ (7) ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میں اور میری امت قیامت کے دن ایک ٹیلے پر مخلوق کو دیکھ رہے ہوں گے۔ لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جو یہ تمنا کرنا ہوگا کہ وہ ہم میں سے ہوتا اور ہر نبی کو اس کی قوم جھٹلائے گی تو ہم اس بات کو گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنے رب کا پیغام (اپنی امت کو) پہنچا دیا تھا۔ (8) ابن جریر نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وکذلک جعلنکم امۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس “ (اس بات کی گواہی دیں گے) کہ رسولوں نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا تھا اور لفظ آیت ” ویکون الرسول علیکم شھیدا “ (اور رسول بھی گواہی دیگا) جو کچھ تم نے عمل کیا ہوگا۔ عام مسلمانوں کی شہادت سے جنت کی بشارت (9) ابن المنذر اور حاکم (انہوں نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نبو سلمہ کے ایک جنازہ میں حاضر تھے اور میں آپ کے پہلو میں تھا ان کے بعض نے کہا للہ کی قسم یا رسول اللہ ! یہ اچھا آدمی تھا پاکدامن اور مسلمان تھا اور انہوں نے اس کی خیر کے ساتھ تعریف کی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم ایسا کہتے ہو عرض کیا یا رسول اللہ ! جو ہمارے لئے ظاہر ہے (ہم وہی کہتے ہیں) اور اللہ تعالیٰ رازوں کو زیادہ جاننے والے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” وجبت “ (اس پر جنت واجب ہوگئی) راوی نے کہا ہم آپ کے ساتھ تھے بنو حارثہ یا بنو عبد الاشھل کے ایک آدمی کے جنازہ میں ایک آدمی نے کہا بہت برا آدمی تھا جو کچھ ہم نے جانا یہ فحش کلام تھا ایسا تھا ویسا تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم ایسا کہتے ہو عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ رازوں کو جاننے والے ہیں ہم وہی کہتے ہیں جو ظاہر ہوتا ہے آپ نے فرمایا ” وجبت ‘ (اس پر دوزخ واجب ہوگئی) پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ لفظ آیت ” وکذلک جعلنکم ومۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس “۔ (10) امام الطیالسی، احمد، بخاری، مسلم، نسائی اور حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ وہ ایک جنازہ کے پاس سے گزرے اس میت کی بہت تعریف کی گئی نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تین مرتبہ فرمایا ” وجبت وجبت وجبت “ پھر ایک جنازہ سے گزرے لوگوں نے اس کی برائی بیان کی نبی اکرم ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا ” وجبت “ (واجب ہوگئی) پھر آپ نے فرمایا جس کی تم نے اچھی تعریف کی اس کے لئے جنت واجب ہوگئی اور جس کی تم نے برائی بیان کی اس کے لئے جہنم واجب ہوگئی۔ تم لوگ زمین میں اللہ کے گواہ ہو (تین مرتبہ فرمایا) ۔ ترمذی نے زیادہ کیا کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ لفظ آیت ” وکذلک جعلنکم ومۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس “۔ (11) ابن ابی شیبہ، احمد، بخاری، ترمذی، نسائی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا میت کی خیر کے ساتھ تعریف کی گئی عمر ؓ نے فرمایا واجب ہوگئی واجب ہوگئی۔ پھر دوسرا جنازہ گزرا اس کی برائی بیان کی گئی حضرت عمر ؓ نے فرمایا واجب ہوگئی۔ ابو الاسود نے عرض کیا کیا چیز واجب ہوگئی ؟ انہوں نے فرمایا میں نے ویسا ہی کہا جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس مسلمان کے لئے کوئی شخص خیر کی گواہی دے دیں۔ اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل فرما دیں گے ہم نے عرض کیا اگر تین مسلمان گواہی دیں آپ نے فرمایا اور تین (کا بھی یہی حکم ہے) پھر ہم نے عرض کیا اگر دو مسلمان گواہی دیں آپ نے فرمایا اور دو (کا بھی یہی حکم ہے) پھر ایک کے بارے میں ہم نے سوال نہیں کیا۔ (12) امام احمد، ابن ماجہ، طبرانی، البغوی، حاکم (فی الکنی) دار قطنی (فی الطراد) حاکم (فی المستدرک) اور بیہقی (فی السنن) ابو زھیر ثقفی ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب تم جان لوگے اپنے اچھے لوگوں کو اپنے برے لوگوں میں سے صحابہ نے عرض کیا وہ کس طرح یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا اچھی تعریف کے ساتھ اور بری تعریف کے ساتھ تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔ (13) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ ایک جنازہ نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا آپ نے اس پر نماز پڑھی لوگوں نے (میت کے بارے میں کہا) اچھا آدمی تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا واجب ہوگئی۔ (یعنی جنت واجب ہوگئی) (پھر) دوسرا جنازہ لایا گیا لوگوں نے کہا یہ برا آدمی تھا۔ آپ نے فرمایا واجب ہوگئی (یعنی دوزخ واجب ہوگئی) ابی کعب ؓ نے عرض کیا آپ کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” لتکونوا شھداء علی الناس “ (کہ تم لوگوں پر گواہ ہو) ۔ (14) امام احمد، ابو یعلی، ابن حبان، حاکم، ابو نعیم نے الحلیہ میں بیہقی نے شعب الایمان میں اور الضیاء نے المختارہ میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی مسلمان مرتا ہے اور اس کے پڑوس کے گھروں کے چار آدمی اس بات کی گواہی دے دیں کہ وہ اس کے بارے میں خیر کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تمہاری شہادت اس کے بارے میں قبول کرتی ہے۔ اور اس کے وہ گناہ بھی معاف کر دئیے گئے ہیں جن کو تم نہیں جانتے۔ (15) ابن ابی شیبہ، ہناد، ابن جریر، طبرانی نے سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت کیا کہ انصار میں سے ایک آدمی کا جنازہ نبی اکرم ﷺ کے پاس سے گزرا۔ اس کی خیر کے ساتھ تعریف کی گئی تو آپ نے فرمایا واجب ہوگئی۔ پھر دوسرا جنازہ آپ کے پاس سے گزرا اس کی برائی بیان کی گئی تو آپ نے فرمایا واجب ہوگئی۔ عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا چیز واجب ہوگئی آپ نے فرمایا کہ آسمان میں فرثتے اللہ کے گواہ ہیں اور تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔ (16) الخطیب نے اپنی تاریخ میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کوئی سلمان مرتا ہے اور اس کے قریبی پڑوسی میں سے دو آدمی گواہی دیتے ہوئے کہتے ہیں اے اللہ ! ہم اس کے بارے میں خیر کے سوا کچھ نہیں جانتے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتے ہیں تم گواہ ہوجاؤ کہ میں نے ان کی گواہی کو قبول کرلیا اور ان گناہوں کو بھی معاف کردیا جن کو وہ نہیں جانتے تھے۔ (17) الفریابی، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے حضرت کعب ؓ سے روایت کیا کہ اس امت کو تین چیزیں عطا کی گئی ہیں جو سوائے انبیاء کے کسی کو نہیں دی گئیں۔ نبی کو کہا جاتا ہے تبلیغ کرو کوئی حرج نہیں اور تو اپنی قوم پر گواہ ہے اور تو دعا کر تیری دعا قبول کروں گا اور اس امت کو بھی یہی کہا گیا لفظ آیت ” وجعل علیکم فی الدین من حرج “ (اور اس نے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی) اور فرمایا لفظ آیت ” لتکونوا شھداء علی الناس “ (تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ) اور فرمایا لفظ آیت ” ادعونی استجب لکم “ (مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا) ۔ (18) ابن جریر نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ امتیں قیامت کے دن کہیں گی اللہ کی قسم اس امت کے لوگ سارے کے سارے انبیاء ہوں گے جب اللہ تعالیٰ کی عنایات اور نوازشات کو دیکھیں گے۔ امت محمدیہ کی انبیاء (علیہم السلام) کے حق میں گواہی (19) ابن المبارک نے الزہد میں اور ابن جریر نے حبان بن ابی جبلہ (رح) سے روایت کیا کہ جو اپنی بات کو رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں کو جمع فرائیں گے تو سب سے پہلے اسرافیل کو بلایا جائے گا۔ اس کا رب اس سے پوچھے گا میرے عہد کے ساتھ کیا کیا گیا ؟ کیا تو نے میرا عہد پہنچا دیا تھا ؟ وہ عرض کریں گے ہاں اے میرے رب میں نے جبرائیل کو پہنچا دیا تھا۔ پھر جبرائیل کو بلایا جائے گا ان سے پوچھا جائے گا کیا اسرافیل نے تجھے میرا عہد پہنچایا تھا وہ عرض کریں گے ہاں تو اسرافیل بری ہوجائے گا پھر جبرئیل سے پوچھا جائے گا کیا تو نے میرا عہد پہنچا دیا تھا ؟ وہ عرض کریں گے ہاں میں نے رسولوں کو عہد پہنثا دیا تھا (پھر) رسولوں کو بلایا جائے گا۔ ان سے کہا جائے گا کیا جبرئیل نے تم کو میدا عہد پہنچا دیا تھا۔ وہ عرض کریں گے ہاں ! تو جبرائیل کو بھی چھوڑ دیا جائے گا۔ پھر رسولوں سے پوچھا جائے گا کیا تم نے میرا عہد پہنچا دیا تھا وہ عرض کریں گے ہاں ! ہم نے آپ کا پیغام امتوں کو پہنچا دیا تھا پھر امتوں کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کیا رسولوں نے میرا عہد تم کو پہنچا دیا تھا ان میں بعض امتیں جھوٹ بولیں گی اور بعض سچ بولیں گی۔ رسول کہیں گے ان پر ہمارے گواہ (موجود) ہیں پوچھا جائے گا وہ کون ہیں ؟ وہ کہیں گے محمد ﷺ کی امت۔ پھر امت محمد ﷺ کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ امتوں کو میرا پیغام پہنچا دیا گیا تھا ؟ وہ عرض کریں گے ہاں ! (دوسری) امتیں کہیں گی اے ہمارے رب یہ ہمارے اوپر کسی طرح گواہی دے رہے ہیں جنہوں نے ہمارا دور نہیں پایا ؟ اللہ تعالیٰ (امت محمدیہ) سے فرمائیں گے تم کس طرح ان پر گواہی دے رہے ہو حالانکہ تم نے ان کو نہیں پایا۔ وہ عرض کریں گے اے ہمارے رب آپ نے ہمارے پاس رسول کا بھیجا اور ہمارے اوپر کتاب نازل ہوئی اور اس میں (پہلی امتوں کے) قصے بیان فرمائے کہ رسولوں نے پیغام پہنچا دیا تھا سو ہم نے اس کے مطابق گواہی دی ہے جو آپ نے ہمیں بتایا تھا رب تعالیٰ فرمائیں گے تم نے سچ کہا اسی وجہ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا لفظ آیت ” وکذلک جعلنکم امۃ وسطا “ الوسط سے مراد ہے العدل یعنی انصاف والی۔ لفظ آیت ” وکذلک جعلنکم امۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس “ (تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول ﷺ بھی تم پر گواہ ہوجائیں) ۔ (20) ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ کے طریق سے أبی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت ” لتکونوا شھداء علی الناس “ کے بارے میں فرمایا کہ قیامت کے دن تم لوگوں پر گواہ ہوگے نوح (علیہ السلام) پر، قوم ھود پر، قوم صالح پر اور قوم شعیب پر اور امت محمدیہ پر گواہی دے گا کہ ان کے رسولوں نے ان کو (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا تھا اور وہ لوگ اپنے رسولوں کو جھٹلائیں گے۔ أبو العالیہ (رح) نے فرمایا کہ ابی کی قرأت میں یوں ہے ” لتکونوا شھداء علی الناس یوم القیمۃ “۔ (21) ابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے اس آیت ” ویکون الرسول علیکم شھیدا “ کے ماتحت روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ گواہی دیں گے کہ وہ ایمان لائے تھے جب ان کے پاس حق پہنچا اور انہوں نے اس کو قبول کیا تھا اور اس کی تصدیق کی تھی۔ (22) عبد بن حمید نے عبید بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ اللہ کی اجازت سے ایک نبی تشریف لائے گا جبکہ اس کے ساتھ کوئی ایک امتی بھی نہ ہوگا امت محمدیہ ﷺ اس کے حق میں گواہی دے گی کہ اس نبی نے اپنی امت کو (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا تھا۔ (23) عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ کہا جائے گا اے نوح ! کیا تو نے پیغام نہیں پہنچا دیا تھا ؟ وہ عرض کریں گے ہاں ! اے میرے رب اللہ تعالیٰ فرمائیں گے جون تیرے لئے گواہی دے گا وہ عرض کریں گے اے میرے رب احمد اور اس کی امت (یعنی محمد ﷺ کی امت) پھر فرمایا جب بھی کسی نبی کو بلایا جائے گا اس کی قوم اس کو جھٹلائے گی تو یہ امت (یعنی امت محمدیہ) اس کے لئے پیغام پہنچانے کی گواہی دے گی۔ جب اس امت سے سوال ہوگا تو نہیں پوچھا جائے گا ان کے بارے میں مگر اس کے نبی سے۔ (24) حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں حبان بن ابو جبلہ (رح) سے روایت کیا مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ امت محمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک ٹیلہ پر بلند کیا جائے گا وہ رسولوں کے حق میں ان کی امتوں کے خلاف پیغام پہنچا دینے کی گواہی دے گی اور ان میں سے وہ شخص گواہی دے گا کہ اس کے دل میں اپنے سلمان بھائی کے بارے کینہ نہ ہوگا۔ (25) امام مسلم، ابو داؤد، ترمذی نے ابو داؤد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن (دنیا میں) بہت زیادہ لعنت کرنے والے نہ گواہ ہوں گے اور نہ سفارش کرنے والے ہیں گے۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیہا “ الآیہ (26) ابن جریر نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیہا “ میں قبلہ سے مراد بیت المقدس ہے۔ لفظ آیت ” الا لنعلم من یتبع الرسول “ یعنی ان کو آزمایا گیا تاکہ (اس بات کو) جان لیں کہ کون اس کے حکم کی فرمانبرداری کرتا ہے۔ (27) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” الا لنعلم “ کا مطلب ہے تاکہ یقین والوں کو شک والوں سے ممتاز کر دے لفظ آیت ” وان کانت لکبیرۃ “ یعنی اس (قبلہ) کا پھیرنا شک کرنے والوں پر (بھاری ہے) ۔ (28) ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ لوگوں میں سے بعض وہ لوگ جو اسلام لے آئے تھے وہ (اسلام سے) پھرگئے اور کہنے لگے کہ قبلہ کبھی یہاں اور کبھی وہاں (یعنی کبھی ادھر اور کبھی ادھر) ۔ (29) عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وان کانت لکبیرۃ “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان کو بیت المقدس سے کعبہ کی طرف پھرجانے کا حکم دیا گیا تھا (یہ حکم ان پر بھاری تھا) ۔ (30) امام وکیع، الفریابی، الطیالسی، احمد، عبد بن حمید، ترمذی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن حبان، طبرانی اور حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا جب رسول اللہ ﷺ نے قبلہ کی طرف رخ فرمایا تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ان لوگوں کا کیا بنے گا جو مرگئے ہیں اور وہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” وما کان اللہ لیضیع ایمانکم “۔ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے پڑھی ہوئی نمازیں (31) سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما کان اللہ لیضیع ایمانکم “ سے مراد ہے کہ تمہاری نمازیں بیت المقدس کی طرف (پڑھی جانے والی اللہ تعالیٰ ان کے اجر کو ضائع نہیں فرمائیں گے) ۔ (32) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما کان اللہ لیضیع ایمانکم “ سے مراد ہے کہ وہ نماز جو تم نے قبلہ کی تبدیلی سے پہلے پڑھی ہے وہ ضائع ہوگئی اور ایمان والے لوگ اس بات سے ڈرتے تھے کہ جو ان میں سے بیت المقدس کی طرف نمازیں پڑھ کر وفات پاگئے ہیں۔ شاید کہ وہ نمازیں قبول نہ ہوں گی (تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی) لفظ آیت ” وما کان اللہ لیضیع ایمانکم “۔ (33) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ” رؤوف “ سے مراد ہے رؤوف بکم یعنی وہ تمہارے ساتھ بہت ہی مہربانی کرنے والا ہے۔
Top