Dure-Mansoor - Al-Baqara : 148
وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ١ؐؕ اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے وِّجْهَةٌ : ایک سمت ھُوَ : وہ مُوَلِّيْهَا : اس طرف رخ کرتا ہے فَاسْتَبِقُوا : پس تم سبقت لے جاؤ الْخَيْرٰتِ : نیکیاں اَيْنَ مَا : جہاں کہیں تَكُوْنُوْا : تم ہوگے يَاْتِ بِكُمُ : لے آئے گا تمہیں اللّٰهُ : اللہ جَمِيْعًا : اکٹھا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْر : قدرت رکھنے والا
اور ہر جماعت کے لئے ایک جہت ہے، جس کی طرف وہ اپنا رخ کرنے والے ہیں۔ لہٰذا تم نیک کاموں کی طرف آگے بڑھو، جہاں کہیں بھی تم ہو گے اللہ تعالیٰ تم سب کو لے آئے گا، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
(1) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” ولکل وجھۃ “ سے مراد ہے اہل ادیان پھر فرماتے ہیں ہر دین والوں کے لئے ایک قبلہ ہوتا ہے جو وہ پسند فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ادھر ہی قبلہ پھیر دیا جدھر ایمان والوں نے توجہ کی۔ (2) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولکل وجھۃ ھو مولیہا “ میں ” کل “ کو ” وجھۃ “ کی طرف مضاف کرتے ہیں پھر فرمایا کبھی انہوں نے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی جبکہ اس سے پہلے کعبہ کی طرف نماز پڑھی (3) ابو داؤد نے الناسخ میں قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولکل وجھۃ ھو مولیہا “ سے مراد ہے کہ ان کی نماز بیت المقدس کی طرف اور ان کی نماز کعبہ کی طرف۔ (4) ابن جریر، ابن ابی داؤد (المصاحف میں) نے منصور (رح) سے روایت کیا کہ ہم (اس آیت) کو (یوں) پڑھا کرتے تھے لفظ آیت ” ولکل وجھۃ ھو مولیہا “۔ (5) عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولکل وجھۃ ھو مولیہا “ سے مراد ہے کہ ہر دین والے کے لئے ایک قبلہ ہے اور وہ اسی کی طرف رخ کرتا ہے۔ (6) ابو داؤد نے الناسخ میں ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولکل وجھۃ ھو مولیہا “ سے مراد ہے کہ یہود کے لئے ایک سمت ہے وہ اسی کی طرف رخ کرتے ہیں اور نصاری کے لئے ایک سمت ہے وہ اسی کی طرف رخ کرتے ہیں اے امت محمدیہ اللہ تعالیٰ نے جس قبلہ کی طرف تم کو ہدایت دی وہی صحیح قبلہ ہے۔ (7) ابن الانباری نے المصاحف میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس کو لفظ آیت ” ولکل وجھۃ ھو مولیہا “ پڑھتے تھے۔ وأما قولہ تعالیٰ : فاستبقوا الخیرت : (الآیہ) (8) ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا انہوں نے فرمایا کہ لفظ آیت ” فاستبقوا الخیرت “ سے مراد ہے کہ تم اپنے قبلہ پر خوش نہ ہو دوسری نیکیوں کی طرف ہی جلدی کرو۔ (9) ابن جریر نے ابو زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فاستبقوا الخیرت “ سے مراد ہے کہ جلدی کرو تم نیک کاموں میں لفظ آیت ” اینما تکونوا یأت بکم اللہ جمیعا “ یعنی تم جہاں بھی ہوگے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تم کو لے آئے گا۔ (10) امام بخاری، نسائی اور بیہقی نے اپنی سنن میں انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے ہماری (طرح) نماز پڑھی ہمارے قبلہ کا استقبال کیا ہمارے ذبیحہ کو کھایا تو یہ مسلمان ہے اس کا ذمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ہے پس اللہ کے ذمہ کو نہ توڑو۔ بیت اللہ کی طرف رخ کرنا فرض ہے۔
Top