Dure-Mansoor - Al-Baqara : 158
اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا١ؕ وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الصَّفَا : صفا وَالْمَرْوَةَ : اور مروۃ مِنْ : سے شَعَآئِرِ : نشانات اللّٰهِ : اللہ فَمَنْ : پس جو حَجَّ : حج کرے الْبَيْتَ : خانہ کعبہ اَوِ : یا اعْتَمَرَ : عمرہ کرے فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں کوئی حرج عَلَيْهِ : اس پر اَنْ : کہ يَّطَّوَّفَ : وہ طواف کرے بِهِمَا : ان دونوں وَمَنْ : اور جو تَطَوَّعَ : خوشی سے کرے خَيْرًا : کوئی نیکی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَاكِرٌ : قدر دان عَلِيْمٌ : جاننے والا
بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، سو جو شخص بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے اس پر اس بات میں ذرا بھی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان آنا جانا کرے اور جو شخص خوشی سے کوئی نیک کرے تو اللہ تعالیٰ قدردان ہے جاننے والا ہے۔
صفا ومروہ کے درمیان سعی (1) امام مالک نے موطا میں امام احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، ابن ابی داؤد، ابن الانباری نے مصاحف میں، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ عروہ نے (جو ان کے بھانجے تھے) ان سے پوچھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ فمن حج البیت او اعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بھما “ کے بارے میں بتائیے میرا خیال یہ ہے کہ جو آدمی ان کا طواف نہ کرے اس پر کوئی گناہ نہیں کیا ؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا اے میرے بھانجے تو نے غلط کہا ہے اگر یہ مطلب ہوتا جو تو نے بیان کیا ہے تو عبارت اس طرح ہوتی ” فلا جناح علیہ ان یطوف بھما “ لیکن یہ آیت نازل ہوئی جب انصار اسلام لانے سے پہلے مناۃ بت کے لئے احرام باندھتے تھے جس کی وہ عبادت کیا کرتے تھے اور جو اس بت کے لئے احرام باندھتا تھا وہ صفا مروہ کی سعی کرنے سے اجتناب کرتا تھا۔ اس بارے میں ہم نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! کہ ہم زمانہ جاہلیت میں صفا ومروہ کی سعی کرنے سے اجتناب کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “ (الآیہ) حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے صفا ومروہ کی سعی کی سنت بنا دیا اب کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ صفا مروہ کی سعی کو چھوڑے۔ (2) عبد بن حمید، بخاری، ترمذی، ابن جریر، ابن ابی داؤد فی المصاحف، ابن ابی حاتم، ابن السکن اور بیہقی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے صفا مروہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم اس کو جاہلیت کے کام میں سے خیال کرتے تھے لیکن جب اسلام آیا تو ہم اس سے رک گئے پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “۔ (3) امام حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور ابن مردویہ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا فرماتی ہیں یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی زمانہ جاہلیت میں جب وہ لوگ احرام باندھتے تھے تو صفا مروہ کے درمیان طواف کرنا ان کے لئے حلال نہ تھا جب ہم (مدینہ منورہ) آئے تو انہوں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتائی۔ تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” ان الصفا والمرۃ من شعائر اللہ “۔ صفا ومروہ کے درمیان سعی واجب ہے (4) ابن جریر، ابن ابی داؤد، فی المصاحف، ابن ابی حاتم اور حاکم نے (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں شیاطین صفا مروہ کے درمیان ساری رات جمع ہو کر ہجویہ اشعار پڑھتے تھے صفا مروہ میں بت تھے جن کو وہ خدا سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو مسلمانوں نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ہم صفا مروہ کا طواف نہ کریں کیونکہ یہ ایک ایسا کام تھا جس کو ہم زمانہ جاہلیت میں کرتے تھے تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” فمن حج البیت او اعتمر فلا جناح علیہ ان یطوف بھما “ فرمایا کہ (صفا مروہ کا طواف کرنے میں) اس پر کوئی گناہ نہیں بلکہ اس کے لئے اجر ہے۔ (5) امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انصار (صحابہ) نے عرض کیا کہ صفا مروہ کے درمیان سعی کرنا جاہلیت کے کاموں میں سے ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “۔ (6) ابن جریر نے عمرو بن جیش (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ الآیہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ابن عباس ؓ کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو وہ زیادہ جاننے والے ہیں جو کچھ حضرت محمد ﷺ پر اتارا گیا۔ میں ان کے پاس آیا اور ان سے (اس بارے میں) پوچھا تو انہوں نے فرمایا ان (دونوں پہاڑوں پر) بت رکھے ہوئے تھے۔ (اس لئے) جب وہ لوگ اسلام لائے تو ان دونوں کے درمیان سعی کرنے سے رک گئے یہاں تک کہ (یہ آیت) ” ان الصفا والمروۃ “ نازل ہوئی۔ (7) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ لوگ صفا مروہ کے درمیان سعی کرنے سے رک گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ بتایا کہ دونوں اللہ تعالیٰ کے شعائر میں سے ہے۔ اور ان دونوں کے درمیان سعی کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ہے اب ان دونوں کے درمیان سعی کرنے کی سنت قائم ہوگئی۔ (8) سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر نے عامر شعبی (رح) سے روایت کیا کہ صفا پر ایک بت تھا جس کو اساف کہتے تھے اور مروہ پر ایک بت تھا جس کو نائلہ کہتے تھے۔ زمانہ جاہلیت میں جب بیت اللہ کا طواف کرتے تھے تو صفا مروہ کے درمیان بھی سعی کرتے ہوئے بتوں کو ہاتھ لگاتے تھے جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم بتوں کی وجہ سے صفا مروہ کی سعی کرتے تھے اور ان کے درمیان سعی کرنا شعائر میں نہیں ہے (اس پر) اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ “ (الآیہ) اور لفظ آیت ” الصفا “ کو مذکر فرمایا کیونکہ اس پر جو بت تھا وہ مذکر تھا۔ اور مروہ کو مؤنث ذکر فرمایا کیونکہ اس پر جو بت تھا وہ مؤنث تھا۔ (9) سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر مے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انصار نے کہا کہ ان پتھروں (یعنی صفا مروہ) کے درمیان سعی کرنا جاہلیت والوں کے کام میں سے ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “ فرمایا کہ یہ عمل خیر میں سے ہے جس کے بارے میں، میں نے تم کو بتایا ہے اس پر کوئی حرج نہیں جو ان دونوں (کے درمیان) سعی نہ کرے لفظ آیت ” ومن تطوع خیرا فھو خیرلہ “ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو بطور نفل کے کیا پس یہ سنن میں سے ہے۔ عطا (رح) فرمایا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو اس کی جگہ کو ستر کعبہ کے ساتھ بدل دیتے۔ (10) ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں تھامہ کے لوگ صفا ومروہ کے درمیان سعی نہیں کرتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “ اور ان کے درمیان سعی کرنا ابراہیم اور اسماعیل (علیہما السلام) کی سنت ہے۔ مشرکین صفاء مروہ پر بتوں کو پوجتے تھے (11) عبد بن حمید، مسلم، ترمذی، ابن جریر، ابن مردویہ، بیہقی نے اپنی سنن میں زہری کے طریق سے عروہ (رح) سے وہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا انصار میں سے کچھ لوگ مناۃ (بت) کے لئے زمانہ جاہلیت میں احرام باندھتے تھے اور مناۃ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک بت تھا انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! کہ ہم مناۃ کی تعظیم کرتے ہوئے صفا مروہ کی سعی کرتے تھے اب ہم پر سعی میں کوئی حرج ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “ عروہ (رح) نے کہا کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے عرض کیا کہ مجھے کچھ پرواہ نہیں اگر میں صفا مروہ کے درمیان سعی نہ کروں (کیونکہ) اللہ نے فرمایا لفظ آیت ” فلا جناح علیہ ان یطوف بھما “ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا اے میرے بھانجے ! کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “۔ زہری (رح) نے فرمایا کہ یہ بات میں نے ابوبکر بن عبد الرحمن بن الحرث بن ہشام کو بتائی تو انہوں نے کہا یہ علم ہے (اور) ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ میں نے اہل علم لوگوں کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جب اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کے طواف کے بارے میں (حکم) نازل فرمایا اور صفا مروہ کے درمیان طواف کا (حکم) نازل فرمایا تو نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ ہم زمانہ جاہلیت میں صفا مروہ کے درمیان سعی کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کے طواف کا تو ذکر فرمایا ہے اور صفا مروہ کے درمیان سعی نہ کریں تو اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “ (الآیہ) ابوبکر نے فرمایا کہ یہ آیت دونوں فریقوں کے بارے میں نازل ہوئی ان کے بارے میں بھی جنہوں نے سعی کی اور ان کے بارے میں بھی جنہوں نے سعی نہ کی۔ (12) امام وکیع، عبد الرزاق، عبند بن حمید، مسلم، ابن ماجہ اور ابن جریر نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ قسم ہے میری عمر کی اللہ تعالیٰ اس کے حج اور عمرہ کو پورا نہیں فرمائیں گے جو شخص صفا ومروہ کے درمیان سعی نہ کرے گا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “۔ (13) عبد بن حمید اور مسلم نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ انصار صفا مروہ کے درمیان سعی کو ناپسند کرتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “ پس ان کے درمیان سعی کرنا نفل ہے۔ (14) ابو عبید نے فضائل میں، عبد بن حمید، ابن جریہر، ابن ابی داؤد نے المصاحف میں، ابن المنذر اور ابن الانباری نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس آیت لفظ آیت ” فلا جناح علیہ ان لا یطوف بھما “ کو اس طرح پڑھتے تھے۔ (15) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ ابن مسعود ؓ کے مصحف میں اس طرح سے ہے۔ لفظ آیت ” فلا جناح علیہ ان لا یطوف بھما “۔ (16) حماد (رح) سے روایت ہے کہ میں نے والد کے مصحف میں (یوں) پایا لفظ آیت ” فلا جناح علیہ ان لا یطوف بھما “ (17) ابن ابی داؤد نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ وہ لفظ آیت ” فلا جناح علیہ ان لا یطوف بھما “ پڑھتے تھے۔ (18) امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ یوں پڑھتے تھے لفظ آیت ” فلا جناح علیہ ان لا یطوف بھما “ تشدید کے ساتھ پس جس نے اس کو چھوڑ دیا تو اس پر کوئی حرج نہیں۔ (19) سعید بن منصور اور حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں مروہ سے پہلے صفا سے شروع کرتا ہوں طواف کرنے سے پہلے نماز پڑھ لیتا ہوں یا نماز سے پہلے طواف کرتا ہوں اور ذبح کرنے سے پہلے حلق کرتا ہوں یا حلق کرانے کے بعد ذبح کرتا ہوں حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا یہ باتیں اللہ کی کتاب میں سے لے لو وہ یاد کرنے کے قابل ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “ (اس میں) صفا (کا حکم) ہے مروہ سے پہلے اور فرمایا لفظ آیت ” لا تخلقوا رؤوسکم حتی یبلغ الھدی محلۃ “ یعنی ذبح ہے حلق سے پہلے اور فرمایا لفظ آیت ” وطھر بیتی للطایفین والقائمین والرکع السجود (26) “ (الحج آیت 26) اور اس آیت میں نماز سے پہلے طواف ہے۔ (20) امام وکیع نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ (سعی) مروہ سے پہلے صفا سے کیوں شروع کی جاتی ہے ؟ انہوں نے فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “ (یعنی مروہ سے پہلے صفا کا ذکر فرمایا) ۔ (21) امام مسلم، ترمذی، ابن جریر اور بیہقی نے سنن میں حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ اپنے حج میں صفا کے قریب تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا لفظ آیت ” ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ “ میں پس اللہ تعالیٰ نے کلام کو جس سے شروع فرمایا ہے تم بھی اس سے شروع کرو۔ آپ ﷺ نے سعی صفا سے شروع فرمائی اور اس پر چڑھ گئے۔ (22) امام شافعی، ابن سعد، احمد، ابن المنذر، ابن قانع اور بیہقی نے حبیبہ بنت أبی بحران ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو صفا مروہ کے درمیان سعی کرتے ہوئے دیکھا لوگ آپ کے آگے تھے اور آپ ان کے پیچھے سعی فرما رہے تھے یہاں تکہ کہ میں نے تیز سعی کی وجہ سے آپ کے گھٹنے دیکھے آپ اپنی چادر مبارک لپیٹے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ سعی کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی فرض فرما دی ہے۔ (23) امام طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے (کسی نے) پوچھا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی فرض کی ہے پس تم سعی کرو۔ (24) امام وکیع نے ابو فصیل عامر بن واثلہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے سعی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلا نے سعی کی تھی۔ (25) امام طبرانی اور بیہقی نے ابو طفیل (رح) سے روایت کیا کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے عرض کیا کہ آپ کی قوم یہ گمان کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صفا ومروہ کے درمیان سعی کی تھی اور یہ سنت میں سے ہے آپ نے فرمایا انہوں نے سچ کہا جب ابراہیم (علیہ السلام) کو حج کے احکام کا حکم دیا گیا تو سعی کی جگہ کے درمیان شیطان نے ان کے سامنے اور ان کے آگے جانے کی کوشش کی مگر ابراہیم (علیہ السلام) اس سے آگے نکل گئے۔ (26) امام حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لوگوں کو صفا ومروہ کے درمیان سعی کرتے ہوئے دیکھا اور فرمایا یہ ان کاموں میں سے ہے جس کا تم کو اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ نے وارث بنایا۔ حضرت ہاجرہ و اسماعیل (علیہ السلام) برکت (27) الخطیب نے التلخیص میں سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) تشریف لائے ان کے ساتھ ہاجرہ (ان کی بیوی) اور اسماعیل (ان کے بیٹے) بھی تھے ان دونوں (یعنی ہاجرہ اور اسماعیل (علیہ السلام) کو بیت اللہ کے پاس بٹھایا ان کی بیوی نے پوچھا کیا اس کام کا اللہ نے آپ کو حکم فرمایا ہے فرمایا ہاں ! (پھر) بچے کو پیاس لگی حضرت ہاجرہ نے ادھر ادھر دیکھا پہاڑوں میں سب سے زیادہ قریب صفا کی پہاڑی تھی اس پر جاکر دیکھا تو کوئی چیز نظر نہ آئی یہ صفا مروہ کے درمیان پہلی سعی تھی۔ وہ واؤس آئیں تو اپنے آگے ایک ہلکی سی آواز سنی اور فرمایا میں نے سن لیا ہے اگر تیرے پاس کوئی مدد ہے تو لے آ اچانک اس کے آگے جبرئیل (علیہ السلام) تھے جو اپنی ایڑھی کو زم زم پر مار رہے تھے تو پانی ابل آیا۔ وہ کوئی چیز لے آئیں تاکہ اس میں پانی کو جمع کریں۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کیا تو پیاس سے ڈرتی ہے یہ اللہ تعالیٰ کے مہمانوں کا شہر ہے تم پیاس سے نہ ڈرو۔ (28) ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، ترمذی، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کے درمیان سعی۔ اور شیاطین کو کنکری مارنا اللہ کے ذکر کو قائم کرنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ان کی اور کوئی غرض نہیں۔ (29) الازرقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ صفا مروہ میں سعی کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ صفا سے اترے پھر چلتے ہوئے گزر گاہ کے بطن میں پہنچ جائے جب اس جگہ میں آئے تو دوڑے حتی کہ یہاں سے پار ہوجائے پھر (اپنی رفتار پر چلے حتی کہ مروہ پر آجائے) ۔ (30) الازرقی نے مسروق کے طریق سے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ صفا کی طرف نکلے پھر صدع (یعنی صفا کی چوڑائی) پر کھڑے ہو کر لبیک پڑھا میں نے ان سے کہا کہ لوگ یہاں ہلال (یعنی تلبیہ کہنے) سے منع کرتے ہیں انہوں نے فرمایا لیکن میں تم کو اس کا حکم کرتا ہوں کیا تو جانتا ہے اھلال کیا ہے ؟ یہ وہ دعا ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے رب کے ہاں قبولیت ہے۔ جب آپ (نیچے) وادی میں آئے تو رمل کیا اور (یہ دعا) مانگی ” رب اغفر وارحم انک انت الاعندلاکرم “ (اے میرے رب بخش دے اور رحم فرما بیشک تو بہت عزت والا اور بہت اکرام والا ہے۔ (31) طبرانی اور بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن مسعود ؓ سے صدع (مقام) پر کھڑے ہوئے جو صفا میں ہے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں یہ وہ مقام ہے جس پر سورة بقرہ نازل ہوئی۔ وما قولہ تعالیٰ : ومن تطوع خیرا : (32) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں الاعمش (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عبد اللہ ؓ کی قرأت میں لفظ آیت ” ومن تطوع خیرا “ ہے۔ (33) سعید بن منصور نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ صفا مروہ پر یہ دعا کرتے تھے تین مرتبہ (یعنی اللہ اکبر) کہتے تھے اور سات مرتبہ یہ دعا پڑھتے تھے : ” لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر لا الہ الا اللہ ولا نعبد الا ایاہ مخلصین لہ الدین ولو کرہ الکفرون “۔ ترجمہ : اللہ کے سوا کوئی معبود (نہیں) اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لئے ملک ہے اسی کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہم کسی کی عبادت نہیں کرتے مگر اسی کی اس کے دین کے لئے خالص ہو کر اگرچہ کافر اس کو ناپسند کریں۔ اور بہت سی دعائیں کرتے تھے یہاں تک کہ ہم تھک جاتے اگرچہ ہم جوان لوگ تھے اور ان کی دعا میں سے ایک یہ دعا بھی تھی :۔ ” اللہم اجعلنی ممن یحبک ویحب ملائکتک والی رسلک والی عبادک الصالحین اللہم حببنی الیک والی ملائکتک والی رسلک والی عبادک الصالحین “ ترجمہ : اے اللہ مجھے پنا دے ان لوگوں میں سے جو تجھ سے اور تیرے فرشتوں سے اور تیرے رسولوں سے محبت کرتے ہیں اور تیرے نیک بندوں سے محبت کرتے ہیں۔ اور اے اللہ ! مجھے اپنا اپنے فرشتوں، رسولوں اور نیک بندوں کا محبوب بنا دے۔ ” اللہم یسرنی للیسری وجنبنی للعسری واغفرلی فی الاخرۃ والاولی واجعلنی من الائمۃ المتقین ومن ورثۃ جنۃ النعیم واغفرلی یوم الدین اللہم انک قلت (ادعونی استجب لکم) وانک لا تخلف المیعاد “۔ ترجمہ : اے اللہ ! آسانی کر دے میرے لئے آسانی کو اور بچا دے مجھے تنگی سے اور بخش دے مجھ کو دنیا میں اور آخرت میں اور مجھے متقین کے اماموں میں سے بنا دے اور جنت النعیم کے ورثا میں سے بنا دے اور میری خطاؤں کو قیامت کے دن بخش دے اے اللہ بیشک آپ نے فرمایا ہے مجھ سے دعا کرو اور میں تمہاری دعاؤں کو قبول کرونگا اور بلاشبہ آپ وعدہ خلافی نہیں فرماتے۔ ” اللہم اذھدیتنی للاسلام فلا تنزعہ منی ولا تنزعنی منہ حتی توفان علی الاسلام وقدرضیت عنی “ ترجمہ : اے اللہ جب آپ نے مجھ کو السلام کی ہدایت دی اس کو مجھ سے نہ چھین لینا اور مجھے اس سے جدا نہ کرلینا اور مجھ سے راضی ہوجائیے۔ ” اللہم لا تقدمنی للعذاب ولا تؤخرنی لسیء الفتن “ ترجمہ : اے اللہ مجھے عذاب کے لئے پیش نہ کرنا اور مجھے برے فتنوں کے لئے پیچھے نہ چھوڑ دینا۔ (34) سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص تم میں سے حج کے لئے آئے تو اس کو چاہئے کہ بیت اللہ کے طواف سے شروع کرے اور سات چکر لگائے پھر مقام ابراہیم کے پاس دو رکعتیں پڑھے پھر صفا پر آئے اور اس پر قبلہ رخ کھڑا ہوجائے پھر سات مرتبہ تکبیریں کہے دو تکبیروں کے درمیان اللہ کی حمد اور اس کی ثنا بیان کرے اور نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجے اور اپنے لئے دعا کرے اور اسی طرح مروہ پر بھی کرے۔ (35) ابن ابی شیبہ نے المصنف میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سات جگہوں میں ہاتھ بلند کئے جاتے ہیں جب نماز کی طرف کھڑے ہو، بیت اللہ کو دیکھو، صفا مروہ پر، عرفات میں، مزدلفہ میں، شیاطین کو کنکری مارتے وقت۔ (36) امام شافعی نے الام میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہاتھوں کو بلند کیا جائے نماز میں، جب بیت اللہ کو دیکھو، صفا مروہ پر، عرفات میں، مزدلفہ میں اور جمروں کے پاس اور میت پر۔ وأما قولہ : فان اللہ شاکر علیہ : (37) ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی قدردان نہیں اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ خیر کی کوئی جزا دینے والا نہیں۔
Top