Dure-Mansoor - Al-Baqara : 207
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّشْرِيْ : بیچ ڈالتا ہے نَفْسَهُ : اپنی جان ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ : رضا اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ رَءُوْفٌ : مہربان بِالْعِبَادِ : بندوں پر
اور لوگوں میں ایسا شخص بھی ہے جو خرید لیتا ہے اپنے نفس کو اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لئے اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے
(1) ابن مردویہ نے حضرت صہب ؓ سے روایت کیا کہ جب میں نے ہجرت کا ارادہ کیا مکہ سے نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں مجھ سے قریش نے کہا اے صہب تو ہماری طرف آیا تھا اور تیرے لئے کوئی مال نہیں تھا۔ اب تو جا رہا ہے۔ اور تیرے پاس مال ہے اللہ کی قسم ! ہرگز ایسا نہیں ہوگا۔ میں نے اس سے کہا تم مجھ کو بتاؤ اگر میں تم کو اپنے مال دے دوں۔ کیا تم میرا راستہ چھوڑ دو گے۔ انہوں نے کہا ہاں ! میں نے ان لوگوں کو اپنا مال دے دیا اور انہوں نے میرا راستہ چھوڑ دیا میں نکلا اور مدینہ منورہ آگیا جب میرے اس سودے کی خبر نبی اکرم ﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا ” ریح البیع صھیب “ صہیب کو اس سودے میں نفع ہوا۔ دو مرتبہ آپ نے ایسا فرمایا۔ (2) ابن سعد، الحرث بن ابی اسامہ نے اپنی سند میں، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے، ابو نعیم نے الحلیہ میں اور ابن عساکر نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ صہیب ؓ ہجرت کرتے ہوئے نبی اکرم ﷺ کی طرف چل پڑے۔ قریش میں سے ایک گروہ اس کے پیچھے لگ گیا وہ اپنی سواری سے نیچے اترے اور اپنے ترکش میں جو کچھ تھا اس کو خالی کردیا۔ (ان سے) فرمایا اے قریش کی جماعت ! تم جانتے ہو کہ میں تم میں سے زیادہ تیر اندازی کرنے والا ہوں۔ ایک آدمی ہوں اور اللہ کی قسم ! تم میری طرف نہیں پہنث سکو گے یہاں تک کہ میں اپنی ترکش کے سارے تیر ماروں گا پھر اپنی تلوار سے ماروں گا جب تک میرے ہاتھوں میں طاقت ہے۔ پھر تم کرلینا جو کچھ تم چاہو۔ اگر تم چاہو تو اپنا مال اور خزانہ تم کو مکہ میں بتادیتا ہوں اور تم میرا راستہ چھوڑ دو انہوں نے کہا ہاں (یہ ٹھیک ہے) جب یہ نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچے۔ تو آپ نے ” ربح البیع “ سودا نفع بخش ہے سودا نفع بخش ہے اور (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ، واللہ رء وف بالعباد “ (3) طبرانی اور ابن عساکر نے ابن جریج (رح) سے لفظ آیت ” ومن الناس من یشتری نفسہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت صہیب بن سنان اور ابوذر ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ (4) ابن جریر اور طبرانی نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت ” ومن الناس من تشری نفسہ “ (الآیہ) صہیب بن سنان ؓ ، ابوذر غفاری اور جنذب بن سکن ؓ جو ابوذر ؓ کے خاندان کے فرد تھے۔ ان کے بارے میں نازل ہوئی۔ ابوذر ؓ ان میں سے بچ نکلے۔ اور نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچے جب یہ ہجرت میں تھے تو (رات میں) نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچے۔ جب یہ سفر ہجرت میں تھے تو (راستہ میں) کافر ان کو آڑے آگئے اور وہ لوگ مرا لظہران میں تھے۔ تو آپ ان سے بھاگ کر آگئے یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس پہنچ گئے۔ اور صہیب ؓ کو ان کے خاندان والوں نے پکڑ لیا تو انہوں نے ان میں سے اپنے مال کا فدیہ دیا پھر ہجرت کرتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے تو ان کو (پھر) قنفاز بن عمیر بن جدعان نے پالیا تو بقیہ مال ان سے لے لیا اور ان کا راستہ چھوڑ دیا۔ صہیب بن سنان ؓ کی تجارت آخرت (5) طبرانی حاکم بیہقی نے دلائل میں اور ابن عساکر نے صہیب ؓ سے روایت کیا کہ جب نبی اکرم ﷺ مدینہ منورہ کی طرف تشریف لے گئے تو میں نے بھی جانے کا ارادہ کیا تو مجھ کو قریش کے دو جوانوں نے روک لیا۔ پھر میں (موقعہ پاکر) نکلا بعد اس کے جب میں رات کا سفر کر رہا تھا کچھ لوگ ان (کافروں) میں سے مل گئے تاکہ وہ مجھے واپس لوٹا دیں۔ میں نے ان سے کہا اگر میں تم کو (کچھ) اوقیہ سونے کا دے دوں تو تم میرا راستہ چھوڑ دو گے ؟ انہوں نے ایسا کرلیا۔ تو میرے دروازہ کی چوکھٹ کے نیچے گھڑا کھودو اس کے نیچے رواتی (سونے) کی موجود ہیں اور میں نکلا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس قبا شریف میں پہنچ گیا وہاں سے آپ کے جانے سے پہلے۔ جب آپ نے مجھے دیکھا اے یحییٰ کے باپ ! (تیری) تجارت بڑی منافع بخش ہے۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (6) ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ اس آیت ” ومن الناس من یشری نفسہ “ سے مراد مہاجر انصار ہیں۔ (7) امام وکیع، الفریابی، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم ایک غزوہ میں تھے۔ ایک آدمی آیا اور وہ لڑنے لگا یہاں تک کہ اس کو قتل کردیا گیا لوگوں نے کہا کہ اس نے اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں ڈال دیا اس بارے میں انہوں نے حضرت عمر ؓ کو دیکھا تو حضرت عمر نے جواب دیا۔ ایسا نہیں ہے جیسے کہ ان لوگوں نے کہا بلکہ وہ ان لوگوں میں سے ہے۔ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ “ (8) عبد بن حمید، ابن جریر نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ ہشام بن عامر (رح) نے (دشمن کی) صف پر حملہ کیا یہاں تک کہ اس کو پھاڑ دیا۔ تو لوگوں نے کہا انہوں نے اپنے ہاتھوں کو (ہلاکت میں) ڈال دیا تو ابوہریرہ ؓ نے فرمایا لفظ آیت ” ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ “ (9) بیہقی نے سنن میں مدرکہ بن عوف احمسی (رح) سے روایت کیا کہ وہ حضرت عمر ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے لوگوں نے ایک آدمی کے بارے میں ذکر کیا کہ جس نے جنگ میں اپنی جان کو خریدا وہ میرا ماموں تھا لوگوں نے گمان کیا کہ اس نے اپنی جان کو ہلکات میں ڈالا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا ان لوگوں نے جھوٹ کہا بلکہ وہ ان میں سے ہیں جنہوں نے دنیا کے بدلہ میں آخرت کو خرید کیا۔ (10) ابن عساکر نے کلبی سے انہوں نے ابو صالح سے حضرت ابن عباس ؓ نے اس آیت لفظ آیت ” ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت صہب ؓ اور صحابہ کی اس جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جن کو مکہ والوں نے پکڑا اور ان کو تکلیفیں دیں تاکہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے کی طرف لوٹ آئیں۔ ان (صحابہ) میں عمار امیہ، سمیہ، ابو یاسر، بلال خباب اور عباس مولی حویطب بن عبد العزی ؓ تھے۔ (11) طبرانی، ابو نعیم نے الحلیہ میں اور ابن عساکر نے صہیب ؓ سے روایت کیا کہ مشرکین نے جب رسول اللہ ﷺ کا گھیراؤ کیا پھر غار پر آگئے اور پھر پیٹھ پھیر کر چلے گئے۔ تو آپ نے فرمایا صہیب ! اور میرے لئے صہیب نہیں ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے (مدینہ کی طرف) نکلنے کا ارادہ فرمایا تو ابوبکر ؓ کو دو یا تین مرتبہ صہیب ؓ کے پاس بھیجا، انہوں نے اس کو نماز میں پایا تو ابوبکر نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا میں نے اس کو نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ میں نے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ ان کی نماز کاٹ دوں۔ آپ نے فرمایا تو نے اچھا کیا۔ اور (پھر) دونوں اسی رات (مدینہ منورہ کی طرف) چل پڑے۔ جب صبح ہوئی تو آپ گھر سے نکلے اور ام رومان زرجہ ابوبکر ؓ کے پاس آئے انہوں نے فرمایا میں تجھے یہاں کیوں دیکھ رہی ہوں۔ اور تیرے دونوں بھائی جا چکے ہیں اور دونوں نے تیرے لئے اپنے توشہ میں کوئی چیز رکھی ہے َ صہیب نے فرمایا میں نکلا یہاں تک کہ اپنی بیوی ام عمرو کے پاس داخل ہوا میں نے اپنی تلوار۔ اپنا ترکش اور اپنی کمان لی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ منورہ آگیا۔ میں نے آپ کو اور ابوبکر ؓ کو اکٹھے بیٹھے ہوئے پایا۔ جب مجھ کو ابوبکر ؓ نے دیکھا میری طرف آئے اور مجھے اس آیت کی خوشخبری دی جو میرے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اور پھر میرے ہاتھوں کو پکڑا میں نے کچھ ملاوٹ کا اظہار کیا انہوں نے عذر پیش کیا۔ اور مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے منافع کی خوشخبری سنائی۔ اور فرمایا اے أوب یحییٰ تیرا سودا نفع بخش ہے۔ (12) ابن ابی خیثمہ اور ابن عساکر نے مصہب بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ صہیب ؓ روم سے بھاگے اور ان کے ساتھ بہت مال تھا۔ وہ مکہ مکرمہ میں اترے تو عبد اللہ بن جدعان سے ان کا معاہدہ ہوا اور اس نے آپ کو حلف دیا اور روم والوں نے صہیب بن رضوی کو پکڑ لیا۔ جب نبی اکرم ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو صہیب ان کے ساتھ مل گئے قریش نے ان سے کہا اسے اہل و عیال اور مال نہیں ملے گا تو انہوں نے اپنا مال ان کو دے دیا نبی اکرم ﷺ نے فرمایا بہت نفع بخش سودا ہوا ہے۔ اور اس بارے میں آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ “ اور ان کے بھائی مالک بن سنان ؓ تھے۔ (13) حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے فرمایا کہ میں حضرت عمر ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اچانک ان کے پاس ایک خط آیا کہ کوفہ والوں میں سے کچھ لوگوں نے قرآن اس طرح سے پڑھا عمر ؓ نے تکبیر کہی۔ میں نے کہا انہوں نے اختلاف کیا ہے۔ حضرت عمر نے فرمایا تو نے کس چیز سے پہچانا۔ انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ لفظ آیت ” ومن الناس من یعجبک قولہ فی الحیوۃ الدنیا “ (الایتین) جب وہ ایسا کریں گے تو صاحب القرآن انہیں برداشت نہیں کرے گا۔ پھر میں نے (یہ آیت) پڑھی لفظ آیت ” واذا قیل لہ اتق اللہ اخذتم العزۃ بالاثم فحسبہ جھنم ولبئس المھاد “ اور ” ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ “ حضرت عمر ؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تو نے سچ کہا۔ (14) حاکم نے عبد اللہ بن عبید بن عمیر (رح) سے فرمایا اس درمیان کہ حضرت ابن عباس ؓ حضرت عمر ؓ کے ساتھ تھے۔ اور وہ اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ میں قرآن کو دیکھتا ہوں کہ قرآن لوگوں میں پھیل چکا ہے۔ میں نے کہا اے امیر المؤمنین میں اس بات کو پسند نہیں کرتا فرمایا کیوں ؟ میں نے کہا اس لئے کہ جب وہ قرآن پڑھیں گے تو ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کریں گے اور جب ایسا ہوگا تو اختلاف کریں گے اور جب وہ اختلاف کریں گے تو ایک دوسرے کی گردنوں کو ماریں گے (یعنی ان کو قتل کریں گے) حضرت عمر ؓ نے فرمایا اگر میرے بس میں ہوتا تو میں لوگوں سے چھپا دیتا۔ جان و مال اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرنا (15) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے اس آیت کو حضرت عمر ؓ کے پاس پڑھا۔ اور فرمایا کہ دو آدمی آپس میں لڑ پڑے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کس لئے ؟ انہوں نے فرمایا اے امیر المؤمنین میں دیکھتا ہوں یہاں کچھ ایسے لوگ ہیں جب ان سے ڈرنے کا حکم کیا جاتا ہے تو ان کو گناہ کا غرور پکڑ لیتا ہے۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ کچھ وہ ہیں جو اپنی جان کو خریدتے ہیں اللہ کی رضا مندی کے لئے وہ اس بات کو لے کر کھڑا ہوتا ہے اور دوسرے کو حکم دیتا ہے اللہ سے ڈرنے کا جب وہ اس کی بات کو قبول نہیں کرتا اور اسے گناہ کا غرور گھیر لیتا ہے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ میں نے اپنی جان کو اللہ کی رضا کے لئے بیچ دیا ہے اور پھر اس سے لڑ پڑتا ہے کہ وہ دونوں آپس میں لڑ پڑے (یہ سن کر) حضرت عمر ؓ نے فرمایا اے ابن عباس ! اللہ تجھے ہمیشہ خوش رکھے۔ (16) عبد بن حمید نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے جب یہ آیت تلاوت فرمائی۔ لفظ آیت ” ومن الناس من یعجبک “ سے لے کر لفظ آیت ” ومن الناس من یشری نفسہ “ تک تو فرمایا دو آدمیوں نے آپس میں لڑائی کی (17) امام وکیع، عبد بن حمید، بخاری نے تاریخ میں، ابن جرار نے ابن ابی حاتم، اور الخطیب نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے یہ آیت تلاوت کرکے فرمایا کہ رب کعبہ کی قسم ! دو آدمیوں نے آپس میں لڑائی کی۔ (18) وکیع، عبد بن حمید، ابن جریر نے صالح بن ابی خلیل (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے ایک انسا کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا لفظ آیت ” واذا قیل لہ اتق اللہ “ سے لے کر لفظ آیت ” ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ “ تک تو انہوں نے فرمایا لفظ آیت ” ان للہ وانا الیہ راجعون “ ایک آدمی کھڑا ہوا جو نیکی کا حکم کرتا ہے اور برائی سے روکتا ہے پھر وہ قتل کردیا جاتا ہے۔ (19) ابن جریر اور ابن المنذر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت اس مسلمان کے حق میں نازل ہوئی جو کافر سے ملا اور اس سے کہا لا الہ الا اللہ کہہ لے گار تو اس کو کہہ لے گا تو مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال کو بچا لے گا مگر ان دونوں کے حق کے ساتھ (یعنی شریک کی وجہ سے یہ دونوں چیزیں تجھ سے لی جاسکتی ہیں) اس کافر نے یہ کہنے سے انکار کردیا۔ مسلمان نے کہا اللہ کی قسم ! میں ضرور بیچ دوں گا اپنی جان کو اللہ کے لئے (یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا (اور) اس سے لڑنے لگا یہاں تک کہ وہ قتل کردیا گیا۔
Top