Dure-Mansoor - Al-Baqara : 219
یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ١ؕ قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ١٘ وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا١ؕ وَ یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ١ؕ۬ قُلِ الْعَفْوَ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَۙ
يَسْئَلُوْنَكَ : وہ پوچھتے ہیں آپ سے عَنِ : سے الْخَمْرِ : شراب وَالْمَيْسِرِ : اور جوا قُلْ : آپ کہ دیں فِيْهِمَآ : ان دونوں میں اِثْمٌ : گناہ كَبِيْرٌ : بڑا وَّمَنَافِعُ : اور فائدے لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاِثْمُهُمَآ : اور ان دونوں کا گناہ اَكْبَرُ : بہت بڑا مِنْ : سے نَّفْعِهِمَا : ان کا فائدہ وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے مَاذَا : کیا کچھ يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کریں قُلِ : آپ کہ دیں الْعَفْوَ : زائد از ضرورت كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمُ : تمہارے لیے الْاٰيٰتِ : احکام لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کرو
وہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے منافع ہیں، اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے، اور وہ آپ سے سوال کرتے ہیں کیا خرچ کریں، آپ فرما دیجئے کہ جو زائد ہو وہ خرچ کردیں اللہ ایسے ہی بیان فرماتا ہے آیات، تاکہ تم فکر کرو
شراب اور جوئے کی حرمت (1) ابن ابی شیبہ، احمد، عبد بن حمید، ابو داؤد، ترمذی (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) نسائی، ابو یعلی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، النحاس نے الناسخ میں، ابو الشیخ، ابن مردویہ، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) بیہقی اور المقدس میں المختارہ میں حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ اے اللہ ! ہمارے لئے شراب کے بارے میں واضح اور شافی حکم نازل فرمائیے کیونکہ وہ شراب مال اور عقل (دونوں) کو لے جاتی ہے۔ تو یہ آیت ” یسئلونک عند الخمر والمیسر “ نازل ہوئی جو سورة بقرہ میں ہے۔ حضرت عمر ؓ کو بلایا گیا اور ان پر (یہ آیت) پڑھی گئی۔ انہوں نے (پھر) عرض کیا اے اللہ ! شراب کے بارے میں ہمارے لئے پڑھی گئی۔ انہوں نے (پھر) عرض کیا اے اللہ ! شراب کے بارے میں ہمارے لئے ایسا واضح اور شافی حکم نازل فرمائیے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکاری “ جو سورة نساء میں ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے یہ اعلان فرما دیا۔ جب نماز کھڑی ہو تو نشے والا آدمی نماز کے قریب نہ آئے حضرت عمر ؓ کو بلایا گیا اور ان پر (یہ آیت) پڑھی گئی۔ انہوں نے ّ پھر) عرض کیا اے اللہ ! شراب کے بارے میں ہمارے لئے کوئی واضح اور شافی بیان نازل فرمائیے۔ تو یہ آیت جو سورة مائدہ میں ہے نازل ہوئی۔ حضرت عمر ؓ کو بلایا اور ان پر یہ آیت پڑھی گئی۔ جب لفظ آیت ” فہل انتم فنتھون “ پر پہنچے۔ تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا ” انتھینا انتھینا “ یعنی ہم رک گئے ہم باز آگئے۔ (2) ابن ابی حاتم نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ ہم شراب پیا کرتے تھے (جب) یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” یسئلونک عن الخمر والمیسر “ (الآیہ) تو ہم نے کہا ہم اس میں سے وہ پیتے ہیں جو ہم کو نفع دیتا ہے (پھر یہ آیت جو) مائدہ میں ہے نازل ہوئی (یعنی) لفظ آیت ” انما الخمر والمیسر “ (الآیہ) تو ہم نے کہا اے اللہ ہم (شراب پینے سے) باز آگئے۔ (3) الخطیب نے اپنی تاریخ میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ جب سورة بقرہ نازل ہوئی اور اس میں شراب کے حرام ہونے کا حکم نازل ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے ہم کو اس سے روک دیا۔ (4) ابن ابی حاتم نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ خمر کو خمر اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ عمدہ حصہ صاف ہوتا ہے اور اس کا گدلا حصہ گھٹیا ہوتا ہے۔ (5) ابوعبیدہ بخاری نے ابو داؤد میں، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میسر قمار یعنی (جوا) ہے۔ (6) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا میسر جوا ہے اور اس کو میسر اس لئے کہا گیا کیونکہ عربوں کا قول ہے۔ ” ایسر جزورا “ اس نے اونٹوں کو ذبح کرکے ٹکڑے ٹکڑے کیا یہ تیرے اس حصول کی طرح سے ہے یہ تیرے اس جھول کی طرح ہے۔ (7) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور النحاس نے الناسخ میں حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” یسئلونک عن الخمر والمیسر “ کے بارے میں روایت کیا کہ میسر جوا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں ایک آدمی اپنے مال اور اپنے اہل و عیال کو داؤ پر لگا دیتا تھا ان میں سے جو غالب آجاتا تھا وہ اس کا مال اور اس کے اہل و عیال لے جاتا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کا یہ قول لفظ آیت ” قل فیہما اثم کبیر “ یعنی اس کے پینے کے وقت جو کچھ دین میں سے نقصان ہوتا ہے (وہ بہت زیادہ ہے) لفظ آیت ” و منافع للناس “ یعنی اس بارے میں جو ان کو پینے کے وقت اس کی لذت اور فرحت پہنچتی ہے۔ لفظ آیت ” واثمھما اکبر من نفعھا “ (اور) جو اس میں بڑا گناہ ہوا یہ اس کی لذت اور فرحت سے کہیں زیادہ ہے۔ جب اس کو پینے میں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” لا تقربوا الصلاۃ وانتم سکاری “ تو وہ اس کو نماز کے وقت نہیں پیتے تھے۔ جب عشاء پڑھ لیتے تھے تو پھر اس کو پیتے تھے۔ وہ ظہر کی نماز کو نہ آتے تھے یہاں کہ تک ان سے نشہ نہ چلا جاتا تھا۔ پھر کچھ مسلمانوں نے شراب پی تو ایک دوسرے سے جھگڑنے لگے۔ اور ایسی باتیں کرتے تھے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہ ہوتی تھیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” انما الخمر والمیسر والانصاب “ (الآیہ) پس شراب کو حرام کردیا گیا اور اس سے روک دیا گیا۔ (8) ابن ابی حاتم اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اس آیت لفظ آیت ” یسئلونک عن الخمر “ (کے حکم) کو اس آیت لفظ آیت ” انما الخمر والمیسر “ (المائدہ آیت 9) نے منسوخ کردیا۔ (9) عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے اس آیت لفظ آیت ” قل فیہما اثم کبیر “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ پہلی آیت ہے کہ جس سے شراب کی برائی بیان کی گئی اور لفظ آیت ” و منافع للناس “ سے مراد ہے اس کی قیمت اور (اس سے) جو وہ (لذت) اور سرور پاتے تھے۔ (10) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حجرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” قل فیہما اثم کبیر و منافع للناس “ سے مراد ہے حرام ہونے سے پہلے ان دونوں کے منافع اور حرام ہونے کے بعد ان دونوں کا گناہ۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” ویسئلونک ماذا ینفقون، قل العفو “ ترجمہ : اور وہ آپ سے سوال کرتے ہیں کیا خرچ کریں ؟ آپ فرما دیجئے جو زائد ہو۔ (11) ابن اسحاق، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا گیا تو صحابہ میں سے ایک جماعت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور عرض کیا ہم نہیں جانتے یہ نفقہ کیا ہے۔ جیسے ہمارے مالوں میں سے حکم دیا گیا ہم اس میں سے خرچ کریں تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” ویسئلونک ما ذا ینفقون، قل العفو “ اور اس سے پہلے ان میں سے ایک شخص (اتنا زیادہ) خرچ کردیتا تھا یہاں تک کہ (پھر) کوئی چیز نہ پاتا تھا صدقہ کرنے اور کھانے کے لئے تو اس پر صدقہ کیا جاتا تھا۔ (12) ابن ابی حاتم نے ابان سے انہوں نے یحییٰ کے طریق سے روایت کیا ہے کہ معاذ بن جبل اور ثعلبہ ؓ سے روایت کیا کہ دونوں حضرات رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمارے غلام ہیں اور گھروالے ہیں ہم اپنے مالوں میں سے کیا خرچ کریں تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” ویسئلونک ما ذا ینفقون، قل العفو “ (13) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی ھاتم اور النحاس نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویسئلونک ما ذا ینفقون “ میں ” العفو “ سے مراد وہ مال ہے جو تمہارے مالوں میں واضح نہ ہو اور یہ حکم زکوٰۃ کے فرض ہونے سے پہلے کا ہے۔ (14) امام وکیع، سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، النحاس، طبرانی اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ویسئلونک ما ذا ینفقون، قل العفو “ سے مراد وہ مال ہے جو اپنے اہل و عیال سے بچ جائے اور دوسرے لفظ میں بچا ہوا اہل و عیال (کے اخراجات) میں ہے۔ (15) ابن المنذر نے عطا بن دینار الھذلی (رح) سے روایت کیا کہ عبد الملک بن مروان (رح) نے سعید جبیر ؓ کو خط لکھا اور ان سے ” عفو “ کے بارے میں پوچھا انہوں نے فرمایا عفو تین طریقوں پر ہے جیسے گناہوں پر تجاوز کرنا۔ نفقہ میں میانہ روی کرنا اور ان دونوں کا ذکر لفظ آیت ” ویسئلونک ما ذا ینفقون، قل العفو “ میں ہے۔ اور لوگوں کے درمیان احسان عفو کرنا۔ اس کا ذکر اس آیت میں ہے ” الا ان یعفون او یعفوا الذی بیدہ عقدۃ النکاح “ (البقرہ آیت 237) (16) عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ” قل العفو “ میں ” العفو “ کا حکم دیا تاکہ ایسا نہ ہو کہ مال خرچ کر دے پھر خود تو لوگوں سے سوال کرنے بیٹھ جائے۔ (17) عبد بن حمید نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ ” قل العفو “ سے مراد ہے ” الفضل “ یعنی بچا ہوا (ضرورت سے) (18) عبد بن حمید نے ابن ابی نجیح سے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ ” عفو “ سے مراد ہے ہر چیز سے آسان حصہ پھر راوی نے کہا کہ مجاہد (رح) یوں فرمایا کرتے تھے کہ ” العفو “ سے مراد فرضی صدقہ (یعنی زکوۃ) ہے۔ (19) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے ” قل العفو “ کے بارے میں روایت کیا کہ ” العفو “ کے حکم میں کوئی معلوم مقدار فرض نہیں ہے۔ پھر فرمایا لفظ آیت ” خذالعفو وامر بالعرف “ (الاعراف آیت 199) پھر اس کے بعد مقرر فرائض نازل ہوئے۔ (20) ابن جریر نے سدی (رح) سے ” قل العفو “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس کو زکوٰۃ نے منسوخ کردیا۔ (21) بخاوی و نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : افضل صدقہ وہ ہے جو مالداری کو چھوڑ جائے۔ اور اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے، اور تم اخراجات میں ان سے ابتداء کرو جو تمہاری عیال میں ہیں۔ بیوی کہتی ہے۔ یا مجھے کھانا دے یا مجھے طلاق دے دے اور غلام کہتا ہے مجھے کھلاؤ اور مجھ کو عامل بناؤ اور بیٹا کہتا ہے مجھ کو کھلاؤ تو مجھ کو کس کے لئے چھوڑے گا۔ (22) ابن خزیمہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا بہترین صدقہ وہ ہے کہ جس سے مالداری باقی رہے۔ اور اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے اور تم اخراجات میں ان سے ابتدا کرو جو تمہاری عیال میں ہیں۔ بیوی کہتی ہے مجھ پر خرچ کر یا مجھ کو طلاق دے دے اور تیرا غلام کہتا ہے مجھ پر خرچ کر یا مجھے بیچ دے اور تیرا بیٹا کہتا ہے کس کی طرف تو مجھ کو سپرد کرتا ہے۔ بہترین صدقہ جو ضروری خرچ کے علاوہ ہو (23) بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے بہتر صدقہ وہ ہے جو اپنی واجبی اور لازمی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد اور تم ان لوگوں پر خرچ کرنے کی ابتدا کرو جو تمہاری عیال میں ہوں (24) ابو داؤد، نسائی، ابن جریر، ابن حبان، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) حجرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ کا حکم فرمایا تو ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! میرے پاس ایک دینار ہے آپ نے فرمایا اپنی ذات پر خرچ کر۔ (پھر) اس نے کہا میرے پاس دوسرا دینار بھی ہے۔ آپ نے فرمایا اپنے بیٹے پر خرچ کر۔ (پھر) اس نے کہا میرے پاس (اور) دینار بھی ہے۔ آپ نے فرمایا اپنی بیوی پر خرچ کر (پھر) اس نے کہا میرے پاس (اور) دینار بھی ہے۔ آپ نے فرمایا اپنے خادم پر خرچ کر (پھر) اس نے کہا میرے پاس (اور) دینار بھی ہے آپ نے فرمایا تو اپنے حالات کے اعتبار سے زیادہ سمجھنے والا ہے (جہاں مناسب جانے خرچ کر) ۔ (25) ابن سعد، ابو داؤد، حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے اچانک ایک آدمی آیا دوسرے لفظ میں أبو حصین سلمی ؓ آئے۔ (اور) کبوتری کے انڈے کے برابر سونا لے آئے۔ اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے یہ (سونا) کان میں سے پایا آپ اس کو لے لیجئے۔ یہ صدقہ ہے میں اس کے علاوہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے اعراض فرمایا پھر وہ آپ کے پیچھے آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے اس سے لے کر اتنے زور سے پھینکا۔ اگر وہ اسے لگ جاتا تو زخمی کردیتا۔ (پھر) آپ نے فرمایا تم میں سے کوئیُ نی سب ملکیت لے کر آتا ہے اور کہتا ہے کہ صدقہ ہے۔ پھر لوگوں کا راستہ روک کر بیٹھ جاتا ہے۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو اپنے واجبی اور لازمی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد ہو اور تم ان لوگوں پر خرچ کرنے کی ابتداء کرو جو تمہاری عیال میں ہوں۔ (26) بخاری و مسلم نے حکیم بن حزام ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اور تم ان لوگوں پر خرچ کرنے کی ابتداء کرو جو تمہاری عیال میں ہوں گے اور بہترین صدقہ وہ ہے جو اپنی واجبی اور لازمی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد ہو۔ اور جو شخص اپنے آپ کو سوال سے پاک رکھنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اسے پاک رکھتا ہے۔ اور جو شخص لوگوں سے غنی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کو مستغنی رکھتا ہے۔ (27) مسلم و نسائی نے حضرت جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا اپنی ذات سے شروع کر اور اس پر خرچ کر اگر کوئی چیز بچ جائے تو وہ تیرے اہل و عیال کے لئے ہے۔ اگر تیرے اہل سے بھی کوئی چیز بچ جائے تو وہ تیرے رشتہ داروں کے لئے ہے۔ اگر کوئی چیز تیرے رشتہ داروں سے بھی بچ جائے تو وہ اسی طرح اور اسی طرح (دوسرے غریب لوگوں پر خرچ کر) ۔ (28) ابو یعلی اور حاکم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاتھ تین قسم کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ سب سے اونچا ہے۔ اور دینے والے کا ہاتھ اس کے ریب ہے۔ اور مانگنے والے کا ہاتھ نیچے ہے قیامت کے دن تک اور تو سوال کرنے سے اور (دوسروں سے) طلب کرنے سے جہاں تک ہو سکے۔ اگر تو خیر (یعنی مال) دیا گیا تو اس کا تیرے اوپر اظہار ہونا چاہئے۔ اور تو ان لوگوں پر خرچ کرنے کی ابتداء کر جو تیری عیال میں ہیں اور بچے ہوئے مال میں سے کچھ صدقہ اور گزارہ کے لائق روزی پر تم کو ملامت نہیں کیا جائے گا۔ (29) ابو داؤد، ابن حبان، حاکم (انہوں نے اس کو صحیح کہا ہے) نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو کپڑا صدقہ کرنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے کپڑے ڈال دئیے۔ پھر اس آدمی کو اس میں سے دو کپڑوں کا حکم فرمایا پھر آپ ﷺ نے صدقہ کی ترغیب دی۔ وہ آدمی آیا اور اس نے بھی دو کپڑوں میں سے ایک کو رکھ دیا آپ نے اس کو زور سے پکڑا اور فرمایا کہ اپنا کپڑا لے لو۔ (31) ابو داؤد، نسائی، حاکم نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا آدمی کے لئے یہ گناہ (اس کی ہلاکت کے لئے) کافی ہے کہ جن لوگوں کا کھلانا اس کے ذمہ ہے۔ انسان ان کو ضائع کر دے۔ (32) البزار نے سعد بن أبی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اوپر والا ہاتھ (یعنی دینے والا) نیچے والے ہاتھ (یعنی لینے والا) سے بہتر ہے۔ اور تو ان لوگوں پر خرچ کرنے کی ابتداء کر جو تیری عیال میں ہیں۔ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنا (33) احمد، مسلم، ترمذی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے ابن آدم ! اپنے بچے ہوئے مال کا خرچ کر دے یہ تیرے لئے بہتر ہے۔ اگر تو اس کو روکے گا تو تیرے لئے شر ہوگا۔ اور تو ملامت نہیں کیا جائے گا بقدر کفایت روزی پر اور تو ان لوگوں پر خرچ کرنے کی ابتداء کر جو تیری عیال میں ہیں۔ اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ (34) ابن عدی اور بیہقی نے الشعب میں عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے عوف کے بیٹے تو مالدار لوگوں میں سے ہے تو ہرگز جنت میں داخل نہ ہوگا مگر آہستہ آہستہ گھسٹتے ہوئے اس لئے تو اللہ تعالیٰ کو قرض دے تاکہ وہ تیرے قدموں کو تیرے لئے آزاد کر دے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا چیز قرضہ دوں ؟ آپ نے فرمایا بری ہوجا ان سب چیزوں سے جن میں تو نے شام کی ہے (یعنی صدقہ کر دے) عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا سارا مال (صدقہ کر دوں ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ! وہ نکلے اور اس بات کا ارادہ کر رہے تھے۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا ابن عوف کو حکم کرو کہ مہمان کی مہمان نوازی کرے، مساکین کو کھانا کھلائے، سائل کو عطا کرے اور ان لوگوں پر خرچ کرنے کی ابتداء کرے جو اس کی عیال میں ہیں جب وہ یہ کام کرے گا تو سب کا تزکیہ ہوجائے گا۔ اس مال میں سے جو اس کے پاس ہے۔ (35) بیہقی نے الشعب میں رکب مصری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جس نے بغیر کسی کمزوری کے تواضح اختیار کی اور بغیر کسی ذات اور مسکنت کے عاجزی کا اظہار کیا۔ اور ایسا مال خرچ کیا جو اس نے گناہ کے ذریعہ نہیں کمایا تھا۔ اور مسکین اور حقیر لوگوں پر رحم کیا۔ اور پاک دامن اور حکمت والوں کے ساتھ میل جول رکھا (اور) خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جس نے اپنے نفس میں تواضح اختیار کی اور اس کی کمائی پاکیزہ ہے اور اس کا باطن صحیح ہے۔ اور اس کا ظاہر اچھا ہے۔ اور اپنے شر سے لوگوں کو دور رکھا اور اپنے مال میں سے زائد مال کو خرچ کردیا۔ اور اپنی باتوں میں فضول باتوں سے رک گیا۔ (36) البزار نے حضرت ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! نماز کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا (یہ تو) پورا عمل ہے (پھر) اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میں آپ سے صدقہ کے بارے میں پوچھتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ عجیب چیز ہے (پھر) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے اپنے دل میں افضل عمل کو یا اس کی خبر کو چھوڑ دیا فرمایا وہ کون سا عمل ہے میں نے عرض کیا وہ روزہ ہے آپ ﷺ نے فرمایا یہ بہتر ہے لیکن ایسا نہیں میں نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ ! کون سا صدقہ (کروں) آپ نے فرمایا کھجور (پھر) میں نے عرض کیا گر میں یہ نہ کرسکوں فرمایا تو اچھے ککلمات (کہو) میں نے عرض کیا اگر میں نہ کرسکوں (پھر) فرمایا تو ارادہ کرتا رہے کہ اپنے اندر خیر میں سے کوئی چیز نہ چھوڑے۔ (37) احمد، مسلم، ترمذی، نسائی، (ابن ماجہ نے ابو قلابہ سے انہوں نے ابی اسماء سے ثوبان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا افضل دینار وہ ہے جو آدمی اپنے ساتھیوں پر اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا ہے ابو قلابہ نے کہا کہ اپنے عیال پر خرچ کرنے کی ابتداء کرے پھر ابو قلابہ نے کہا کون سا آدمی اجر کے لحاظ سے اس آدمی سے بڑا ہوسکتا ہے جو اپنی چھوٹی اولاد پر خرچ کرتا ہے وہ ان کو مانگنے سے بچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں یہ اس کے ساتھ نفع دیتا ہے۔ اور ان کی مدد فرماتا ہے۔ (38) مسلم و نسائی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ دینار جو تو نے اللہ کے راستہ میں خرچ کیا اور وہ دینار جو تو نے کسی گردن کو آزاد کرنے میں کرچ کیا اور وہ دینار جو تو نے کسی مسکین پر صدقہ کیا اور وہ دینار جو تو نے اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا۔ اس میں سب سے زیادہ اجر وہ دینا ہے جو تو نے اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا۔ (39) بیہقی نے شعب الایمان میں جریر ضبی (رح) سے روایت کیا کہ ایک دیہاتی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا۔ مجھے ایسا عمل بتائیے جس مجھے جنت میں داخل کر دے اور آگ سے دور کر دے آپ نے فرمایا تو (ہمیشہ) انصاف کی بات کہ اور زائد مال کسی کو دے دے اس نے کہا یہ عمل بہت سخت ہے میں اس کی طاقت نہیں رکھتا کہ ہر وقت انصاف کی باتیں کہوں اور نہ اس بات کی طاقت رکھتا ہوں کہ اپنے زائد مال (دوسروں کو) دے دوں۔ آپ نے (پھر) فرمایا لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور سلام کو پھیلاؤ۔ اس نے کہا کہ قسم یہ تو بھی (حکم) سخت ہے آپ نے (پھر) فرمایا کیا تیرے پاس اونٹ ہیں اس نے کہا ہاں اپنے اونٹ اور مشکیزہ کو دیکھ اپنے گھر والوں کو پلا وہ ایک دن چھوڑ کر پیتے ہیں شاید تیرا اونٹ ہلاک نہ ہوجائے اور تیرا مشکیرہ پھٹ نہ جائے یہاں تک کہ تیرے لئے جنت واجب ہوجائے وہ تکبیر کہتے ہوئے چلا گیا پھر وہ بعد میں شہید ہوگیا تھا۔ (40) ابن سعد نے طارق بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم لوگ صدقہ کرو بلاشبہ صدقہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اور خرچ کرنا شروع کر ان لوگوں سے جو تیرے عیال میں ہیں۔ (جیسے) تیری ماں، تیرا باپ، تیری بہن، اور تیرا بھائی پھر تیرے قریبی (رشتہ دار) ہیں اور پھر جو تیرے قرینی رشتہ دار ہیں۔ (41) مسلم نے خیثمہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم عبد اللہ بن عمرو ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اچانک اس کا خزانچی آیا وہ داخل ہو کر جو ان کا (غلام) تھا آپ نے (اس سے) پوچھا کیا تو نے غلاموں کی خوراک دیدی اس نے کہا نہیں فرمایا جاؤ اور ان کو کھانا دے دو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدمی کے گناہ گار ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ ان سے کھانا روکے جن کا وہ مالک ہے۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” کذلک یبین اللہ لکم الایت “ (42) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے العظمہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” کذلک یبین اللہ لکم الایت لعلکم تتفکرون “ یعنی تم غور و فکر کرو دنیا میں اور آخرت میں یعنی دنیا کے زائل اور اس کی فنا ہونے کے بارے میں اور آخرت کے آنے اور اس کے باقی رہنے کے بارے میں۔ (43) عبد الرزاق نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لعلکم تتفکرون “ یعنی تم دنیا اور آخرت کے بارے میں غوروفکر کرو پھر فرمایا تاکہ تم جان لو آخرت کی فضیلت کو دنیا پر۔ (44) عبد بن حید، ابن ابی حاتم نے صعق بن حزان تمیمی (رح) سے روایت کیا کہ میں حضرت حسن ؓ کے پاس حاضر ہوا تو انہوں نے سورة بقرہ میں سے یہ آیت ” لعلکم تتفکرون “ یعنی دنیا میں اور آخرت میں غوروفکر کرو پھر فرمایا اللہ کی قسم جس نے دنیا میں غور کیا اس نے جان لیا کہ دنیا مصیبت کا گھر ہے پھر فنا ہونے کا گھر ہے اور اس نے جان لیا کہ آخرت کی حاجت کے لئے دنیا کی حاجت چھوڑ دیتے ہیں۔
Top