Dure-Mansoor - Al-Baqara : 229
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اَلطَّلَاقُ : طلاق مَرَّتٰنِ : دو بار فَاِمْسَاكٌ : پھر روک لینا بِمَعْرُوْفٍ : دستور کے مطابق اَوْ : یا تَسْرِيْحٌ : رخصت کرنا بِاِحْسَانٍ : حسنِ سلوک سے وَلَا : اور نہیں يَحِلُّ : جائز لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ : کہ تَاْخُذُوْا : تم لے لو مِمَّآ : اس سے جو اٰتَيْتُمُوْھُنَّ : تم نے دیا ان کو شَيْئًا : کچھ اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ يَّخَافَآ : دونوں اندیشہ کریں اَلَّا : کہ نہ يُقِيْمَا : وہ قائم رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو اَلَّا يُقِيْمَا : کہ وہ قائم نہ رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَاجُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْھِمَا : ان دونوں پر فِيْمَا : اس میں جو افْتَدَتْ : عورت بدلہ دے بِهٖ : اس کا تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَا : پس نہ تَعْتَدُوْھَا : آگے بڑھو اس سے وَمَنْ : اور جو يَّتَعَدَّ : آگے بڑھتا ہے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاُولٰٓئِكَ : پس وہی لوگ ھُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
طلاق دو مرتبہ ہے پھر روک لیتا ہے بھلائی کے ساتھ، یا چھوڑ دیتا ہے اچھے طریقہ پر، اور تمہارے لئے یہ حلال نہیں ہے تم کچھ بھی لے لو اس مال میں سے جو تم نے ان کو دیا ہے۔ مگر اس صورت میں کہ میاں بیوی اس بات سے ڈرتے ہوں کہ حدود اللہ قائم نہ رکھ سکیں گے سو اگر تم ڈرو اس بات سے کہ دونوں اللہ کے حدود قائم نہ رکھ سکیں گے تو کوئی گناہ نہیں ان دونوں پر اس بارے میں کہ عورت اپنی جان کا بدلہ دیدے، یہ اللہ کے حدود ہیں، سو تم ان سے آگے مت بڑھو، اور جو کوئی شخص اللہ کے حدود سے آگے بڑھ جائے تو ایسے لوگ ظلم کرنے والے ہیں
(1) امام مالک، شافعی، عبد بن حمید، ترمذی، ابن جریر، ابن ابی حاتم، بیہقی نے اپنی سنن میں ہشام بن عروہ (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب کوئی آدمی اپنی عورت کو طلاق دیتا تھا پھر اس کی عدت ختم سے پہلے اس سے رجوع کرلیتا تھا تو یہ اس کے لئے جائز ہوتا اگرچہ اس نے اس کو ہزار مرتبہ بھی طلاق دی ہو۔ پھر ایک آدمی اپنی عورت کی طرف جانے کا ارادہ کرتا تھا (یعنی رجوع کرلیتا تھا) لیکن پھر (رجوع کرنے کے بعد) طلاق دے دیتا تھا یہاں تک کہ جب عدت کے گزرنے کا وقت قریب آتا تھا تو اس سے رجوع کرلیتا تھا پھر اس کو طلاق دے دیتا تھا پھر کہتا تھا اللہ کی قسم میں تجھ کو (اپنے ہاں) ٹھکانہ بھی نہ دوں گا اور نہ کبھی دوسروں کے لئے حلال ہوگی۔ تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” الطلاق مرتن، فامساک بمعروف او تسریح باحسان “ (پھر) اس دن سے لوگوں نے نئے سرے سے طلاق دی۔ اور ان میں سے بعض نے طلاق دی اور بعض نے طلاق نہ دی۔ (2) ترمذی، ابن مردویہ، حاکم (انہوں نے صحیح کہا ہے) بیہقی نے سنن میں ہشام بن عروہ سے انہوں نے اپنے والد کے طریق سے حضرت عائشہ ؓ اسے روایت کیا کہ لوگوں کا یہ حال تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو جتنی طلاقیں دینا چاہتا وہ طلاقیں دے دیتا تھا۔ وہ طلاق دیتا عورت بھی عدت میں ہوتی تو پھر وہ رجوع کرلیتا۔ اگرچہ وہ سو مرتبہ یا اس سے زیادہ طلاقیں دے دیتا تھا یہاں تک کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا اللہ کی قسم میں تجھ کو طلاق نہیں دوں گا اور نہ تیرے پاس کبھی آؤں گا۔ وہ کہنے لگی اور یہ کسی طرح ہوگا کہنے لگا میں تجھ کو طلاق دوں گا جب کبھی تیری عدت ختم ہونے کے قریب ہوگی پھر رجوع کرلوں گا وہ عورت حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئی اور ان کو ساری بات بتائی عائشہ ؓ خاموش ہوگئیں یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ تشریف لائے تو ان کو ساری بات بتائی تو نبی اکرم ﷺ بھی خاموش ہوگئے یہاں تکہ کہ قرآن نازل ہوگیا۔ لفظ آیت ” الطلاق مرتن، فامساک بمعروف او تسریح باحسان “ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ (اس آیت کے نازل ہونے کے بعد) لوگوں نے نئے سرے سے طلاق دینی شروع کی۔ جو چاہتا طلاق دے دیتا۔ اور جو (چاہتا) طلاق نہ دیتا۔ (3) ابن مردویہ، بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ طلاق کی کوئی تعداد مورر نہ تھی۔ (کوئی آدمی) اپنی عورت کو طلاق دے دیتا تھا پھر رجوع کرلیتا تھا جب تک عدت ختم نہیں ہوتی تھی۔ ایک مرد اور اس کی بیوی کے درمیان یہی مسئلہ پیدا ہوا۔ تو اس نے بیوی سے کہا للہ کی قسم ! میں تجھ کو ایسا بنادوں گا نہ تو مطلقہ ہوگی اور نہ شوہر والی ہوگی اور وہ اس کو طلاق دیتا یہاں تک کہ جب عدت ختم ہونے پر آتی تھی تو اس سے رجوع کرلیتا اور اس طرح اس نے یہ معاملہ کئی دفعہ کیا۔ تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی۔ لفظ آیت ” الطلاق مرتن، فامساک بمعروف او تسریح باحسان “ ان کے لئے تین طلاقیں مقرر کردیں مرد ایک طلاق میں اور دو طلاقوں میں (عدت کے اندر) رجوع کرسکتا اور تیسری طلاق میں رجوع نہیں کرسکتا یہاں تک کہ دوسرے مرد سے نکاح کرلے۔ (4) ابن النجار نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ ان کے پاس ایک عورت آئی اور طلاق کے بارے میں پوچھا تو میں نے ساری بات رسول اللہ ﷺ سے ذکر کردی۔ تو (اس پر یہ آیت) نازل ہوئی۔ لفظ آیت ” الطلاق مرتن، فامسک بمعروف او تسریح باحسان “ (5) ابو داؤد، نسائی، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلاثۃ قرو “ سے لے کر ” وبعولتھن احق بردھن “ (بقرہ آیت 228) تک یہ آیت نازل ہوئی کہ ایک آدمی جب اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا تھا تو وہ رجوع کرنے کا زیادہ حق دار ہوتا تھا اگرچہ وہ تین طلاق دے چکا ہوتا۔ پھر اس کو منسوخ کردیا اور فرمایا لفظ آیت ” الطلاق مرتن، فامساک بمعروف اوتسریح باحسان “ (6) عبد الرزاق نے ثوری (رح) سے اور انہوں نے بعض فقہاء سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں کوئی آدمی اپنی عورت کو جتنی چاہتا طلاقیں دیدیتا اور اس پر عدت نہیں ہوتی تھی اگر وہ چاہتی تو اس کہ جگہ دوسرے خاوند سے نکاح کرلیتی۔ اشجع (قبیلہ) سے ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آکر کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں نے اپنی عورت کو طلاق دیدی تھی اور میں ڈرتا ہوں کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے گی۔ اور اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے وہ کسی اور کا ہوجائے گا تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمایا لفظ آیت ” الطلاق مرتن “ پاس اس آیت نے باقی ہر طلاق کو منسوخ کردیا۔ رجوع کا حق عدت کے دوران ہے (7) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے لفظ آیت ” الطلاق مرتن “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہر طلاق کے لئے ایک حیض ہے۔ اس آیت نے ماقبل طلاق کی تمام صورتوں کو منسوخ کردیا۔ اب اللہ تعالیٰ نے تین طلاق کی حد مقرر فرما دی اور اس کو (یعنی خاوند کو) اس سے رجوع کرنے کا زیادہ حق دار بنا دیا جب کہ وہ عورت عدت میں ہے اور جب تک اس کو تین طلاق نہ دی ہوں۔ (8) وکیع، عبد الرزاق، سعید بن منصور، احمد، عبد بن حمید، ابو داؤد نے الناسخ میں، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم النحاس، ابن مردویہ، بیہقی نے أبو رزین اسدی ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے لفظ آیت ” الطلاق مرتن “ تو تیسری (طلاق) کا کہاں ذکر ہے۔ آپ نے فرمایا لفظ آیت ” او تسریح باحسان “ (یعنی رخصت کردینا اچھے طریقے سے) یہ تیسری (طلاق) کا ذکر ہے۔ (9) ابن مردویہ، بیہقی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول سنا لفظ آیت ” الطلاق مرتن “ کا ذکر ہے۔ (10) الطستی نے اپنے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (ان کے شاگرد) نافع بن ازرق (رح) نے عرض کیا مجھے اللہ جل شانہ کے اس قول لفظ آیت ” الطلاق مرتن “ کے بارے میں بتائیے کیا عرب کے لوگ زمانہ جاہلیت میں تین طلاقیں جانتے تھے تو انہوں نے فرمایا ہاں عرب کے لوگ تین طلاقوں کو قطع تعلق کرنے والی جانتے تھے کیا تو نے اعشی کو نہیں سنا وہ کہتا ہے جب اس کو پکڑ لیا تھا۔ اس کی بیوی کے رشتہ داروں نے اور کہنے لگے اللہ کی قسم ہم تجھ سے لاٹھی کو نہیں بنائیں گے۔ یہاں تک کہ اپنی عورت کو طلاق دیدے کیونکہ تو نے اس کو بہت تکلیف پہنچائی ہے۔ تو اس نے یہ شعر پڑھے : أیا جارتا بتی فانک طالقۃ کذالک امور الناس عادو طارقۃ ترجمہ : خبردار اے میری بیوی جدا ہوجا کیونکہ تو مطلقہ ہے اسی طرح لوگوں کے امور صبح شام جاتے آتے ہیں بیوی کے رشتہ داروں نے کہا خدا کی قسم تجھ سے لاٹھی نہیں ہٹائیں گے جب تک تو اس کو تین طلاقیں نہ دیدے تو اس نے کہا : بینی فان البین خیر من العصا وان لایزال فوق راسی بارقۃ ترجمہ : تو مجھ سے جدا ہوجا جدائی لاٹھی سے بہتر ہے اور لاٹھی میرے سر پر چمکتی رہے گی۔ عورت کے رشتہ داروں نے کہا ہم تجھ سے لاٹھی نہیں اٹھائیں گے جب تک تو اس کو تین طلاقیں نہیں دے گا۔ پھر اس نے کہا : بینی حسان الفرج غیر ذمیمۃ وموقوفۃ فینا کذاک روامقۃ ترجمہ : مجھ سے جدا ہوجا اے محفوظ فرج والی کسی قسم کی تجھ پر خدمت نہیں ہے اور اسی طرح تو ہم میں ٹھہری رہیں اسی طرح تجھے۔ وذرقی فتنی حی فانی ذائق فتاہ اناس مثل ما انت ذائقۃ ترجمہ : اور تو کسی قبیلے کے نوجوان کا مزہ چکھ لے میں بھی تیری طرح لوگوں کی لڑکیوں کا مزہ چکھنے والا ہوں۔ (11) نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، دارقطنی، بیہقی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے لفظ آیت ” الطلاق مرتن “ کے بارے میں روایت کیا کہ جماع سے پہلے پاک ہونے کے بعد اس کو طلاق دیدے (پھر) جب وہ حائضہ ہوجائے اور پاک ہوجائے تو اس کو دوسری طلاق دیدے پھر اس کو چھوڑ دے یہاں تک کہ پاک ہوجائے (دوسری مرتبہ) پھر اگر چاہے تو اس کو (تیسری) طلاق دیدے۔ (12) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الطلاق مرتن “ سے مراد ہے کہ مرد اپنی بیوی کو اس طہر میں طلاق دیدے جس میں اس نے جماع نہ کیا ہو۔ پھر جب وہ حائضہ ہو کر پاک ہوجائے تو اس کا حیض پورا ہوگیا۔ پھر دوسری طلاق دیدے جیسے کہ پہلی طلاق دی تھی۔ اگر ایسا کرنا چاہے جب دوسری طلاق دیدی پھر اس کو دوسرا حیض آگیا۔ تو یہ دو طلاقیں اور دو حیض ہوئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تیسری طلاق کا ذکر فرمایا لفظ آیت ” فامساک بمعروف او تسریح باحسان “ پھر وہ اس طہر میں اگر چاہے تو طلاق دیدے۔ (13) ابن ابی حاتم نے یزید بن ابی حبیب (رح) سے روایت کیا کہ اللہ کی کتاب میں تسریح سے مراد طلاق ہے۔ (14) بیہقی نے سدی سے انہوں نے ابو مالک اور ابو سائم سے انہوں نے ابن عباس ؓ اور مرہ سے حضرت ابن مسعود ؓ اور دوسرے صحابہ ؓ سے ” الطلاق مرتن “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد وہ حد ہے کہ جس میں رجعت ہوسکتی ہے۔ جب ایک مال میں دو طلاقیں دے (اس کے بعد) یا تو روک لے اور اچھے طریقے سے رجوع کرے۔ یا اس سے خاموش رہے یہاں تک کہ اس کی عدت گزر جائے اور وہ عورت اپنی ذات کے بارے میں زیادہ حق دار ہوجائے۔ (15) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حجرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ آدمی اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے تو اس کو چاہئے کہ تیسری طلاق کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے یا تو اس کو روک لے معروف طریقہ سے اور اس کے ساتھ اچھا نباہ کرے یا اس کو اچھے طریقے سے رخصت کردے۔ اور اس کے حق میں ذرا بھی ظلم کرتے ہوئے نہ لے۔ (16) شافعی، عبد الرزاق، ابن المنذر، بیہقی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب وہ (کسی عورت سے) نکاح کرتے تھے تو یوں کہتے تھے میں تجھ سے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر نکاح کیا کہ یا تو تجھ کو بھلائی کے ساتھ روکے رکھوں گا یا تجھ سے اچھا سلوک کرتے ہوئے چھوڑ دوں گا۔ (17) ابو داؤد، ابن ماجہ، حاکم، بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا سب سے زیادہ ناپسندیدہ حلال چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک طلاق ہے۔ (18) البزار نے حضرت ابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا عورتوں کو طلاق نہ دو ۔ مگر تہمت اور شک کی بنیاد پر بلاشبہ اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے مزا چکھنے والے مردوں اور مزا چکھنے والے مردوں اور مزاہ چکھنے والی عورتوں کو (یعنی کچھ دن مزا چکھ کر پھر طلاق دے دی) ۔ (19) عبد الرزاق نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اے معاذ ! اللہ تعالیٰ نے زمین پر عناق سے زیادہ محبوب چیز پیدا کی۔ اور اللہ تعالیٰ نے سطح زمین پر طلاق سے زیادہ مبغوض چیز پیدا نہیں کی۔ (20) عبد الرزاق اور بیہقی نے زید بن وھب ؓ سے روایت کیا کہ بطال نے اپنی بیوی کو مدینہ منورہ میں ایک ہزار طلاق دی پھر اپنا مسئلہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس لے آیا اور کہا میں تو دل لگی کر رہا تھا حضرت عمر ؓ نے اپنے درہ کو اوپر اٹھایا اور فرمایا تیرے لئے تین طلاق دینا کافی تھا۔ (21) سعید بن منصور، بیہقی نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ععنہ نے اس آدمی کے بارے میں فرمایا جس نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاق دیدی۔ کہ وہ عورت تین طلاق والی ہوگئی اب اس کے لئے غلال نہیں یہاں تک کہ کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے۔ فرمایا اگر اس نے ایسا کیا تو میں اس کو سزا دوں گا۔ (22) بیہقی نے عبد الرحمن بن ابی لیلی (رح) کے طریق سے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ جس نے اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دیں اب اس کے لئے یہ عورت حلال نہیں یہاں تک کہ دوسرے مرد سے نکاح کرے۔ (23) بیہقی نے حبیب بن ابی ثابت (رح) کے طریق سے ایک صحابی سے روایت کیا کہ ایک آدمی حضرت علی ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاق دی ہے آپ نے فرمایا تین طلاقوں نے اس (عورت) کو تجھ پر حرام کردیا اور باقی طلاقوں کو اپنی عورتوں پر تقسیم کردے۔ تین طلاقیں یکبارگی دینے سے تین واقع ہوجاتی ہیں (24) عبد الرزاق اور بیہقی نے علقمہ بن قیس (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی حضرت ابن سمعود ؓ کے پاس لایا گیا اور یہ بتایا کہ اس آدمی نے اپنی بیوی کو گزشتہ رات سو طلاقیں دی ہیں۔ میں نے پوچھا کیا تو نے یکبارگی یہ طلاقیں دیں۔ جواب دیا ہاں۔ پھر انہوں نے اس آدمی سے پوچھا کیا تو نے (اس لفظ سے) یہ ارادہ کیا تھا کہ تیری بیوی تجھ سے جدا ہوجائے اس نے کہا ہاں آپ نے فرمایا تو پھر ایسا ہوگیا جیسا تو نے کہا۔ راوی نے پھر فرمایا کہ ایک آدمی آیا اور کہا کہ اس آدمی نے گزشتہ رات اپنی بیوی کو ستاروں کی تعداد کے برابر طلاق دی ہے انہوں نے پوچھا کیا (اس نے یہ لفظ) ایک ہی مرتبہ میں کہا تھا۔ جواب دیا ہاں۔ پھر اس نے اس آدمی سے پوچھا کیا تو نے (اس لفظ) سے یہ ارادہ کیا تھا کہ تیری بیوی تجھ سے جدا ہوجائے اس نے کہا ہاں ! آپ نے فرمایا کیا تو اپنی بیوی کو جدا کرنا چاہتا تھا اس نے کہا ہاں۔ پھر فرمایا یہ اس طرح ہے جیسے تو نے کہا اللہ تعالیٰ نے طلاق کا حکم بیان فرما دیا۔ اب جو شخص طلاق دے جیسے اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے پس اس کے لئے یہ حکم بیان کردیا گیا۔ اور جس شخص نے (اپنے معاملہ کو) اپنے آپ پر مشتبہ بنا دیا تو میں بھی اس کے ساتھ ایسا ہی کروں گا اللہ کی قسم ! اپنے اوپر والے معاملات کو مشتبہ نہ بناؤ تو ہم بھی پھر اس کو اسی طرح تم پر محمول کریں گے۔ جیسے تم کہو گے۔ (25) بیہقی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا دخول سے پہلے تین طلاقیں دی ہوئی عورت اس عورت کی طرح ہے جس کے ساتھ دخول کیا گیا۔ (26) مالک، شافعی، ابو داؤد، بیہقی نے محمد بن ایاس بن بکیر (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے اپنی عورت کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دیں۔ پھر اس کو خیال آیا کہ اس سے (دوبارہ) نکاح کرے۔ وہ مسئلہ پوچھنے کے لئے آیا تو میں اس کے ساتھ آیا تاکہ اس کے لئے مسئلہ پوچھوں تو میں نے حضرت ابوہریرہ اور ابن عباس ؓ دونوں سے یہ مسئلہ پوچھا تو دونوں نے فرمایا ہمارا یہ خیال ہے کہ تو (دوبارہ) اس سے نکاح نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ وہ تیرے علاوہ دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے اس آدمی نے کہا میں نے اس کو ایک ہی مرتبہ طلاق دی تھی۔ (یعنی تین طلاقیں اکٹھی دی تھیں) حضرت ابن عباس ؓ فرمایا جو کچھ ہاتھ میں تھا وہ تو نے چھوڑ دیا۔ (27) امام مالک، شافعی، ابو داؤد، بیہقی نے معاویہ بن ابی عباس انصاری (رح) سے روایت کیا کہ وہ عبد اللہ بن زبیر اور عاصم بن عمر ؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ان دونوں کے پاس محمد بن ابی ایاس بن بکیر آئے اور کہا کہ ایک آدمی نے دیہات والوں میں سے اپنی عورت کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے دی ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا بتاتے ہیں ابن زبیر (رح) نے فرمایا اس معاملہ میں ہمارا کوئی قول نہیں۔ ابن عباس اور ابوہریرہ ؓ کے پاس جاؤ ہم نے ان کو حضرت عائشہ کے پاس چھوڑا ہے۔ ان سے جا کر سوال کرو وہ گئے اور ان سے سوال کیا تو ابن عباس ؓ نے ابوہریرہ ؓ سے فرمایا اے ابوہریرہ اس کو فتوی دو ۔ تیرے پاس ایک مشکل مسئلہ آیا ہے۔ ابوہریرہ نے فرمایا ایک ہی طلاق تجھ سے اسے جدا کردیتی ہے۔ اور تین اسے حرام کردیتی ہیں یہاں تک کہ دوسرے خاوند سے نکاح کرلے اور ابن عباس ؓ نے بھی ایسے ہی فرمایا۔ (28) مالک، شافعی، بیہقی نے عطاء بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی آیا اور اس نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے سوال کیا کہ ایک آدمی نے اپنی عورت کو چھونے سے پہلے تین طلاقیں دے دی ہیں (پھر) میں نے کہا کنواری لڑکی کی طلاق تو ایک ہوتی ہے۔ عبد اللہ بن عمرو نے مجھ سے فرمایا بلاشبہ تو ہی فیصلہ کرنے والا ہے۔ آپ ہی طلاق اس کو جدا کردیتی ہے اور تین اس جو حرام کردیتی ہیں یہاں تک کہ دوسرے خاوند سے نکاح کرلے۔ تین سے زیادہ طلاق دینے کا حکم (29) شافعی اور بیہقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی ابن عباس ؓ کے پاس آکر کہنے لگا کہ میں نے اپنی عورت کو سو طلاقیں دی ہیں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے تین طلاقیں لے لیں اور ستانوے کو چھوڑ دیا۔ (30) بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دیدے (اب) وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے۔ (31) بیہقی نے قیس بن ابی حازم (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے مغیرہ بن شعبہ ؓ سے سوال کیا اور میں بھی وہاں موجود تھا۔ جس نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی تھیں تو انہوں نے فرمایا تین طلاقوں سے وہ عورت حرام ہوگئی اور ستانوے زائد ہیں۔ (32) طبرانی اور بیہقی نے سوید بن علقمہ (رح) سے روایت کیا کہ عائشہ خشعمیہ حضرت حسن بن علی ؓ کے نکاح میں تھیں۔ جب علی ؓ شہید کر دئیے گئے تو عائشہ خشعمیہ نے کہا آپ کو خلافت مبارک ہو (یعنی حضرت علی ؓ کے بعد آپ خلیفہ بنیں گے) انہوں نے فرمایا (میرے والد) حضرت علی ؓ قتل کر دئیے گئے اور تو اس مصیبت پر خوشی کا اظہار کر رہی ہے چلی جا تجھ کو طلاقیں ہیں (طلاق کے بعد) اس نے کپڑے لپیٹ لئے اور بیٹھ گئی یہاں تک کہ اپنی عدت کو پورا کرلیا۔ (جب عدت پوری ہوگئی) تو حضرت حسن ؓ نے اس کی طرف بقیہ مہر اور دس ہزار روپے صدقہ کے طور پر بھیجے۔ جب قاصد آیا تو کہنے لگی جدائی کرنے والے حبیب کی طرف سے یہ تھوڑا سا مال ہے۔ جب اس عورت کی یہ بات ان کو پہنچی تو حضرت حسن ؓ رو پڑے۔ پھر فرمایا اگر میں نے اپنے نانا (یعنی رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا یا میرے والد نے مجھ سے یہ بیان نہ کیا ہوتا کہ جس آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں حیض کے وقت یا فرمایا غیر مدخول بھا کو تین طلاقیں دے۔ تو اب یہ عورت اس کے لئے حلال نہیں یہاں تک کہ دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے (اگر ایسا حکم نہ ہوتا) تو میں اس عورت سے رجوع کرلیتا۔ (33) شافعی، ابو داؤد، حاکم اور بیہقی نے رکانہ بن عبد یزید ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنی بیوی سبیمہ کو بائن طلاق دی۔ انہوں نے یہ بات نبی اکرم ﷺ کو بتاتے ہوئے عرض کیا۔ اللہ کی قسم میں نے اس (لفظ) سے ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا اللہ کی قسم کیا تو نے ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا ؟ تو رکانہ نے عرض کیا اللہ کی قسم میں نے ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے اس (عورت) کو (دوبارہ) اس کی طرف واپس کردیا۔ پھر انہوں نے حضرت عمر ؓ کے زمانہ خلافت میں دوسری مرتبہ طلاق دی اور حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں تیسری مرتبہ طلاق دی۔ (34) ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، حاکم انہوں نے اسے صحیح کہا ہے اور بیہقی نے عبد اللہ بن علی بن یزید بن رکانہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد اور اپنے دادا رکانہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں۔ (پھر) رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے پوچھا تو نے اس (لفظ) سے کیا ارادہ کیا تھا عرض کیا ایک طلاق کا پھر آپ نے پوچھا اللہ کی قسم کیا تو نے ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا عرض کیا اللہ کی قسم ! ایک طلاق کا ارادہ کیا تھا آپ نے فرمایا وہی طلاق ہوگی جس کا تو نے ارادہ کیا اور (ان کی بیوی) ان کی طرف لوٹا دی۔ تین طلاقوں کا نفاذ (35) عبد الرزاق، مسلم، ابو داؤد، نسائی، حاکم، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کی خلافت کے دو سالوں میں تین طلاقیں ایک طلاق شمار ہوتی تھی پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا لوگوں نے اس کام میں جلدی کی جس میں ان کے لئے ڈھیل تھی اگر ہم ان پر یہ نافذ کردیں پھر آپ نے تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا فیصلہ نافذ کردیا۔ (36) شافعی، عبد الرزاق، مسلم، ابو داؤد، نسائی، بیہقی نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ ابو الصباء (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ سے کہا کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کی خلافت کے تین سالوں میں تین طلاقوں کو ایک کردیا جاتا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ہاں (ایسا ہی تھا) (37) ابو داؤد بیہقی نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی جس کو ابو الصباء کہا جاتا تھا جو حضرت ابن عباس ؓ سے بہت سوال کیا کرتا تھا کہنے لگا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایک آدمی دخول سے پہلے جب اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا۔ جو ہم اس کو ایک بنا دیتے تھے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کی خلافت کے شروع میں۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں (ایسا ہوتا تھا) جب ایک آدمی دخول سے پہلے اپنی بیوی کو تین تلاقیں دیتا تھا تو ہم اس کو ایک بنا دیتے تھے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اور ابوبکر ؓ اور عمر ؓ کی خدمت کے شروع میں جب لوگوں کو دیکھا گیا کہ وہ اس (معاملہ) میں لگاتا ایسا کر رہے ہیں تو ان پر تین طلاقوں کو نافذ کردیا۔ (38) عبد الرزاق، ابو داؤد بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عہد یزید ابو رکانہ نے ام رکانہ کو طلاق دیدی اور ایک عورت مزینہ قبیلہ والی سے نکاح کرلیا۔ وہ عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی وہ (یعنی ابو رکانہ) مجھے اتنا بھی فائدہ نہیں دیتا جیسے کہ یہ بال کسی بال کو فائدہ دیتا ہے۔ اس نے اپنے سر کے بال پکڑ کر دکھایا پس میرے اور اس کے درمیان تفریق کردیں نبی اکرم ﷺ کو غیرت آئی اور آپ نے رکانہ اور اس کے بھائیوں کو بلوایا پھر حاضرین مجلس سے فرمایا کیا تم فلاں کو دیکھتے ہو اور اس کا فلاں فلاں عضو عبد یزید کے مشابہ ہے اور فلاں ایسا ایسا اس کے مشابہ ہے۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا جی ہاں (پھر) نبی اکرم ﷺ نے عبد یزید ؓ سے فرمایا اس (دوسری عورت) کو طلاق دیدے اس نے طلاق دیدی پھر فرمایا اپنی (پہلی) بیوی ام رکانہ سے رجوع کرلے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے اس کو تین طلاقیں دی ہیں۔ آپ نے فرمایا مجھے معلوم ہے۔ اس سے رجوع کرلے اور (یہ آیت) تلاوت فرمائی۔ لفظ آیت ” یایھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن “۔ (39) بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رکانہ ؓ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیں اور اس پر لوگوں کو بہت غم ہوا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا تو نے اسے کیسے طلاق دی تھی ؟ عرض کیا تین طلاقیں ایک ہی مجسل میں دی تھی آپ نے فرمایا ہاں یہ ایک ہی ہوئی اگر تو چاہے تو اس سے رجوع کرلے تو انہوں نے رجوع کرلیا۔ حضرت ابن عباس ؓ کا نظریہ یہ تھا کہ ہر طہر میں ایک طلاق اور یہی سنت ہے جس پر لوگوں کا عمل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اسی کا حکم فرمایا ہے۔ لفظ آیت ” فطلقوھن لعدتھن “ (40) ابو داؤد نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اگر یہ کہا کہ تجھے تین طلاقیں ہیں ایک ہی منہ سے تو وہ ایک ہوگی۔ (41) امام حاکم نے کہا ہے (انہوں نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن ابی ملیکہ (رح) سے روایت کیا کہ ابو الجوزاء (رح) حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے کیا تو جانتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھی ؟ انہوں نے فرمایا ہاں۔ (42) بیہقی نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایسی عورت کو طلاق جس کے ساتھ دخول نہ کیا گیا ہو ایک ہے۔ حضرت علی ؓ کا فیصلہ (43) ابن عدی اور بیہقی نے اعمش (رح) سے روایت کیا کہ کوفہ میں ایک شیخ تھے جو یہ کہتے تھے کہ میں نے حضرت علی ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب آدمی اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیدے تو وہ لوٹ جاتی ہے ایک ہی طرف اور لوگ اکٹھے ہو کر اس کے پاس آتے تھے اور اس سے یہ بات سنتے تھے راوی فرماتے ہیں کہ میں ان کے پاس آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا شیخ باہر نکلے تو میں نے ان سے کہا آپ نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے اس آدمی کے بارے میں کیسی بات سنی ہے جو اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دیدے ؟ تو انہوں نے فرمایا میں نے حضرت علی کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب کوئی آدمی اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دیدے تو گویا (اس نے تین طلاقوں کو) ایک طلاق کی طرف لوٹا دیا میں نے ان سے کہا کہ آپ نے یہ بات حضرت علی سے کیسے سنی تو ہو کہنے لگے میں تیرے پاس کتاب لے آتا ہوں۔ جب وہ لے آئے تو اس میں یہ لکھا ہوا تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم میں نے حضرت علی ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب کوئی آدمی اپنی نیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیدے تو وہ اس سے جدا ہوجائے گی اور اس پر حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ دوسرے خاوند سے نکاح کرلے۔ میں نے (ان سے) کہا افسوس ہے تجھ پر یہ تو تیرے قول کے خلاف ہے۔ تو اس نے کہا صحیح یہی ہے لیکن لیکن یہ لوگ اس مسئلہ پر مجھ سے یہی ارادہ رکھتے ہیں۔ (44) بیہقی نے مسلمہ بن جعفر الخمس (رح) سے روایت کیا کہ میں نے جعفر بن محمد (رح) سے عرض کیا کہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ جو شخص اپنی بیوی کو جہالت کی وجہ سے تین طلاقیں دے دے تو اس کو سنت کی طرف لوٹا کر ایک بنا دے تو وہ لوگ یہ مسئلہ آپ کی طرف سے روایت کرتے ہیں تو انہوں نے فرمایا اللہ کی پناہ ! یہ ہمارا قول نہیں ہے جس آدمی نے تین طلاقیں دے دیں تو اتنی بھی ہیں جتنی اس نے کہی ہیں۔ (45) بیہقی نے بسام صیدفی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے جعفر بن محمد ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس آدمی نے اپنی بیوی کو جہالت کی وجہ سے تین طلاقیں دے دیں اور وہ جانتا تھا تو وہ عورت اس سے بری ہوگئی۔ (46) ابن ماجہ نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے فاطمہ بنت قیس سے کہا اپنی طلاق کی بات مجھ سے بیان کرو تو اس نے کہا مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دیں اور وہ یمن کی طرف گیا ہوا تھا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو جائز قرار دیا۔ وأما قولہ تعالیٰ : ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا : (47) ابو داؤد نے الناسخ میں، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا مرد اپنی بیوی کے اس مال سے کھاتا تھا جو اس نے خود بطور مہر کے بیوی کو دیا ہوتا تھا اور اس کے علاوہ اور بھی بیوی کے مال کو کھا جاتا تھا اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی۔ لفظ آیت ” ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا “ (تو اب) اس آیت کے بعد ان کے مالوں میں سے کوئی چیز لینا حلال نہیں وہ مگر حق کے ساتھ پھر فرمایا لفظ آیت ” الا ان یخافا الا یقیما حدود اللہ، فان ضفتم الا یقیما حدود اللہ “ اور پھر فرمایا۔ ” فان طبن لکم عن شیء منہ نفسا فکلوہ ھنیئا مریئا “ (النساء آیت 4) (پھر اگر وہ تم کو اس میں سے خوش دلی کے ساتھ دیدیں تو خوش گواری کے ساتھ کھاؤ) (48) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الا یخافا الا یقیما حدود اللہ “ سے مراد ہے کہ اگر نافرمانی اور برا اخلاق عورت کی طرف سے ہوا اور وہ فدیہ دینا چاہے تو اس فدیہ کو لینے میں کوئی حرج نہیں۔ (49) ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت ثابت بن قیس (رح) اور حبیبہ (رح) کے بارے میں نازل ہوئی اس عورت نے رسول اللہ ﷺ سے (اپنے خاوند کی) شکایت کی تھی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا وہ اس پر اس کا باغ لوٹا دے گی۔ (یعنی فدیہ میں) اس نے کہا ہاں۔ آپ نے اس کے خاوند کو بلوایا اور یہ بات ذکر کی تو اس نے عرض کیا۔ کیا میرے لئے یہ چیز حلال ہوگی آپ نے فرمایا ہاں ! ثابت ؓ نے کہا میں نے ایسا کردیا (یعنی باغ لے کر اس کو طلاق دے دی) تو یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” ولا یحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن من شیئا الا ان یخافا ان لا یقیما حدود اللہ “ (50) مالک، شافعی، احمد، ابو داؤد، نسائی، بیہقی نے عمرہ بنے عبد الرحمن بن سعد بن زرارہ کے طریق سے حبیبہ بنت سہل انصاری ؓ سے روایت کیا کہ وہ ثابت بن قیس ؓ کے نکاح میں تھی (ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ صبح کے وقت گھر سے نکلے تو ان کو اندھیرے میں اپنے دروازہ کے پاس پایا آپ نے پوچھا یہ کون عورت ہے ؟ اس نے کہا میں حبیبہ بنت سہل ہوں۔ آپ نے فرمایا کیا کام ہے ؟ عرض کیا میں (اپنے خاوند) ثابت ؓ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ جب ثابت بن قیس تشریف لائے تو ان کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ حبیبہ بنت سہل نے ایسی بات کی جو اللہ نے چاہا حبیبہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! جو کچھ اس نے مجھے دیا ہے وہ سب کچھ میرے پاس ہے رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا اس سے یعنی (اپنی بیوی سے مال لے لے۔ تو انہوں نے لے لیا اور وہ عورت (مطلقہ ہوکر) اپنے گھر والوں کے پاس بیٹھ گئی۔ خلع میں مہر واپس کرنا (51) عبد الرزاق، ابو داؤد، ابن جریر، بیہقی نے عمرہ کے طریق سے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ حبیبہ بنت سہل ؓ ثابت بن قیس ؓ کے نکاح میں تھیں۔ انہوں نے اس کو مارا اور اس کا ہاتھ توڑ دیا وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس صبح کے بعد آئیں اور ان سے شکایت کی۔ رسول اللہ ﷺ نے ثابت کو بلوایا اور اس سے فرمایا اس عورت سے کچھ مال لے لے اور اس کو جدا کر دے اس نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ صلح ہوگئی ؟ آپ نے فرمایا ہاں (پھر) اس نے کہا میں نے دو باغ اس کو مہر میں دئیے تھے اور وہ دونوں اس کے ہاتھ میں ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ان دونوں باغوں کو لے لو اور اس کو جدا کر دو (یعنی طلاق دیدو) انہوں نے ایسا ہی کیا پھر اس عورت سے ابی بن کعب نے نکاح کرلیا اور اس کو شام کی طرف لے کر نکلے تو وہیں ان کی وفات ہوگئی۔ (52) بخاری، نسائی، ابن ماجہ، ابن مردویہ، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جمیلہ بنت عبد اللہ بن سلول جو ثابت بن قیس ؓ کی بیوی تھی اس نے (اپنے خاوند کے بارے میں) کہا کہ میں عیب نہیں لگاتی۔ اس کے اخلاق میں اور نہ اس کے دین میں لیکن میں بعض کی وجہ سے اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی اور میں اسلام میں رہ کر کفر کو ناپسند کرتی ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ تو اس کو اس کا باغ لوٹا دے گی ؟ کہنے لگی ہاں ! آپ نے اس کے خاوند سے فرمایا باغ لے لے اور اس کو طلاق دیدے۔ اور ابن ماجہ کے لفظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا حکم فرمایا کہ اس سے باغ لے لے اور اس سے زیادہ (کا مطالبہ) نہ کر۔ (53) ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ان سے سوال کیا گیا خلع کے لئے کوئی اصل ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ابن عباس ؓ یوں فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں پہلی خلع عبد اللہ بن ابی کی بہن کے بارے میں ہوئی۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگی یا رسول اللہ میرا سر اور اس کا سر کبھی جمع نہیں ہوگا۔ یہ سب میں زیادہ سیاہ رنگ کا ہے۔ اور ان میں سب سے زیادہ چھوٹے قد کا ہے۔ اور ان میں سے سب سے زیادہ بدصورت ہے اس کے خاوند نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے اس کو اپنا سب سے اچھا مال یعنی باغ دیا تھا۔ وہ میرا باغ واپس کردے۔ آپ نے اس کی بیوی سے فرمایا تو کیا کہتی ہے ؟ اس نے کہا ہاں (باغ واپس کرتی ہوں) اور اگر چاہے تو اس سے زیادہ بھی دوں گی۔ پھر آپ نے ان دونوں کے درمیان جدائی کردی۔ (54) احمد نے سہل بن ابی حثمہ ؓ سے روایت کیا کہ حبیبہ بنت سہل، ثابت بن قیس بن شماس ؓ کے نکاح میں تھیں۔ وہ عورت اس (خاوند) کا ناپسند کرتی تھیں کیونکہ وہ بدصورت آدمی تھا۔ وہ آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ ! میں اس کو نہیں دیکھوں گی اگر مجھے اللہ کا ڈر نہ ہوتا۔ تو میں اس کے چہرہ پر تھوک دیتی۔ آپ نے اس سے فرمایا کیا تو اس باغ کو واپس کر دے گی جو اس نے تجھے مہر میں دیا ہے۔ کہنے لگی۔ ہاں تو اس نے وہ باغ واپس کردیا اور ان دونوں کے درمیان جدائی ہوگئی۔ یہ اسلام میں پہلی خلع تھی۔ (55) ابن جریر نے عبد اللہ بن ریاح (رح) سے روایت کیا کہ جمیلہ بنت ابی بن سلول، ثابت بن قیس کے نکاح میں تھی۔ اس نے خاوند کی نافرمانی کی۔ نبی اکرم ﷺ نے ان کو بلوایا اور فرمایا اے جمیلہ ! کیا تو ثابت سے نفرت کرتی ہے ؟ کہنے لگی اللہ کی قسم ! میں اس کے دین اور اخلاق سے نفرت نہیں کرتی مگر میں اس کی بدصورتی سے نفرت کرتی ہوں۔ آپ نے اس سے فرمایا کیا تو باغ کو واپس کر دے گی کہنے لگی ہاں پھر اس نے باغ واپس کردیا اور رسول اللہ ﷺ نے دونوں کے درمیان جدائی کردی۔ (56) ابن ماجہ نے عمرہ بن شعیب (رح) سے روایت کیا اور انہوں نے اپنے باپ دادا سے روایت کیا کہ حبیبہ بنت سہل، ثابت بن قیس ؓ کے نکاح میں تھی اور اس سے نفرت کرتی تھی۔ کیونکہ وہ آدمی بدصورت تھا۔ کہنے لگی یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم اگر مجھے اللہ تعالیٰ کا ڈر نہ ہوتا تو میں اس کے چہرہ پر تھوک دیتی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تو اس کا باغ واپس کر دے گی ؟ کہا ہاں ! تو پھر اس نے اس کا باغ واپس کردیا (اس کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے ان کے درمیان جدائی کردی۔ (57) بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جمیلہ بنت ابی بن سلول نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی جو خلع کا رادہ رکھتی تھی۔ آپ نے فرمایا اس نے تجھے کیا مہر دیا تھا ؟ اس نے کہا باغ آپ نے فرمایا اس کو باغ واپس کر دے۔ (58) بیہقی نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی میں اپنے خاوند کو ناپسند کرتی ہوں اور اس سے جدا ہونے کو محبوب رکھتی ہوں آپ نے فرمایا کیا تو اس کا باغ واپس کر دے گی جو اس نے تجھے مہر میں دیا تھا ؟ اس کا مہر وہ باغ تھا کہنے لگی ہاں اور زیادہ بھی دوں گی۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تیرے مال میں سے زیادہ نہیں لیا جائے گا لیکن باغ واپس کرنا ہوگا۔ اس نے کہا ہاں (واپس کرتی ہوں) تو نبی اکرم ﷺ نے اس آدمی پر اس کا فیصلہ فرما دیا۔ جب اس فیصلہ کی خبر اس کو ملی تو اس نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کو قبول کیا۔ امام بیہقی نے عطا کے واسطہ سے ابن عباس سے موصولا روایت کیا اور فرماتے ہیں اسے یہی صحیح ہے۔ (59) بیہقی نے ابن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ ثابت بن قیس بن شماس ؓ کے نکاح میں زینب بنت عبد اللہ بن ابی بن سلول تھیں اور اس کا مہر باغ تھا۔ یہ عورت ان کو ناپسند کرتی تھی۔ نبی اکرم ﷺ نے اس عورت سے فرمایا کیا تو اس کا باغ لوٹا دے گی جو اس نے تجھ کو (مہر میں) دیا ہے۔ کہنے لگی ہاں اور زیادہ بھی دوں گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ نے فرمایا زیادہ نہیں لیا جائے گا لیکن اس کا باغ واپس کردو کہنے لگی ہاں (واپس کر دوں گی) وہ (خاوند) اس کو (واپس) لے لے اور اس کا راستہ چھوڑ دے۔ یہ خبر جب ثابت بن قیس کو پہنچی تو اس نے کہا میں نے رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کو قبول کیا۔ (60) بیہقی نے ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ میری بہن نے اپنے خاوند سے خلع کرنے کا ارادہ کیا اپنے خاوند کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور اس بات کا ذکر کیا آپ نے اس سے فرمایا کیا تو اس کو باغ کو واپس کر دے گی تاکہ وہ تجھ کو طلاق دے دے کہنے لگی ہاں اور اس کو زیادہ بھی دوں گی۔ تو اس نے اس سے خلع کیا اور اس عورت نے اس کو باغ واپس کردیا اور اس کو زیادہ بھی دیا۔ (61) البزار نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ ثابت بن قیس ؓ کی بیوی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور ایسی بات کی گویا کہ وہ اس سے نفرت کرتی ہے آپ نے فرمایا کیا تو اس کا باغ واپس کر دے گی ؟ کہنے لگی ہاں آپ نے ثابت ؓ کو بلا بھیجا۔ اور فرمایا اس سے باغ لے لے اور اسے طلاق دیدے۔ (62) عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولایحل لکم ان تاخذوا مما اتیتموھن شیئا الا ان یخافا ان لا یقیما حدود اللہ “ کہ (اس آیت کا حکم) دونوں (شوہر کا بیوی) کے لئے ہے۔ (اور) لفظ آیت ” فان خفتم ان لا یقیما حدود اللہ “ (اور) ” فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ “ سے مراد ہے کہ جب نافرمانی اور ظلم عورت کی طرف سے ہو تو اللہ تعالیٰ نے خاوند کے لئے عورت سے فدیہ لینا حلال کردیا اور خلع جائز نہیں ہے۔ مگر سلطان کے سامنے راضی ہو اور اپنے خاوند کے حکم کی فرمانبردار ہو تو پھر خاوند کے لئے یہ حلال نہیں کہ جو چیز اس کو دے چکا ہے۔ اس میں سے واپس لے لے۔ (63) عبد بن حمید نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ جب ظلم عورت کی طرف سے ہو تو اس کے لئے (یعنی خاوند کے لئے) فدیہ لے کر (طلاق دے دینا) حلال ہے اور جب ظلم خاوند کی طرف سے ہو تو اس کے لئے کچھ بھی لینا حلال نہیں۔ (64) عبد بن حمید نے عروہ (رح) سے روایت کیا کہ خلع جائز نہیں ہے مگر یہ کہ فساد عورت کی طرف سے ہو۔ (65) عبد بن حمید نے لیث (رح) سے روایت کیا کہ مجاہد (رح) نے سورة بقرہ میں ” الا ان یخافا “ کو یا کے رفع کے ساتھ پڑھا۔ (66) ابن ابی داؤد نے المصاحف میں اعمش (رح) سے روایت کیا کہ عبد اللہ ؓ کی قرأت میں یوں ہے لفظ آیت ” الا ان یخافوا “ (67) عبد الرزاق، ابن جریر نے میمون بن مہران (رح) سے روایت کیا کہ ابی کعب ؓ کے نزدیک فدیہ لینے کی صورت میں ایک طلاق ہے جب دونوں (شوہر اور بیوی) یہ گمان کریں کہ دونوں اللہ تعالیٰ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں۔ (اس لئے فرمایا) لفظ آیت ” فان ظنا ان لا یقیما حدود اللہ۔ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ “ (فدیہ لینے کے بعد جب طلاق ہوگئی) تو اب اس کے لئے (یہ عورت) حلال نہیں یہاں تک کہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے۔ (68) بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے خلع کو بائن طلاق بنایا۔ (69) مالک، شافعی، عبد الرزاق اور بیہقی نے ام بکر اسلیمہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے خاوند عبد اللہ بن اسید سے خلع کی اور پھر ہم دونوں حضرت عثمان بن عفان ؓ کے پاس آئے تو انہوں نے فرمایا یہ طلاق ہے مگر جو تم نے آپس میں لین دین طے کیا ہے وہ وہی ہوگا۔ خلع طلاق ہے یا نہیں ؟ (70) عبد الرزاق نے المصنف میں، ابن المنذر، بیہقی نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم بن سعد بن ابی وقاص نے ابن عباس ؓ سے اس عورت کے بارے میں پوچھا جس کو خاوند نے دو طلاقیں دی ہوں پھر اس مرد نے اس عورت سے خلع کرلی کیا اب وہ مرد اسی عورت سے پھر نکاح کرسکتا ہے ؟ ابن عباس ؓ نے فرمایا ہاں۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کے شروع میں اور آخر میں طلاق کا ذکر فرمایا اور خلع اس کے درمیان ہے خلع طلاق نہیں ہے (اس لئے) اس سے نکاح کرسکتا ہے۔ (71) عبد الرزاق نے طاؤس (رح) سے روایت کیا کہ اگر اس بات کو میں نہ جانتا کہ میرے لئے چھپانا حلال نہیں ہے تو میں کسی سے بیان نہ کرتا کہ ابن عباس ؓ فدیہ کو طلاق شمار نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ (خاوند) اس کو طلاق نہ دیدے۔ پھر فرماتے تھے کیا تو نہیں دیکھتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے طلاق کا ذکر فرمایا پھر فدیہ کا ذکر فرمایا اور اس کو طلاق نہیں بنایا۔ پھر دوسری مرتبہ فرمایا لفظ آیت ” فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ “ (البقرہ آیت 43) اور ان کے درمیان فدیہ کو طلاق شمار نہیں کیا۔ (72) امام شافعی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دیں پھر اس سے خلع کرلی تو مرد اگر چاہے تو (دوبارہ) اس سے نکاح کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” الطلاق مرتن “ سے لے کر ” ان یتراجعا “ تک پڑھا۔ (73) امام شافعی اور عبد الرزاق نے عکرمہ کے حوالہ سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہر کام جس کو مال جائز کرلے وہ طلاق نہیں ہے یعنی خلع ہے۔ (74) عبد بن حمید، بیہقی نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے خلع کرنے والی عورت سے دئیے ہوئے مال سے زیادہ لینے کو ناپسند فرماتے تھے جو اس نے دیا تھا۔ (75) عبد بن حمید نے حمید الطویل (رح) سے روایت کیا کہ میں نے رجاء بن حیوہ (رح) سے کہا کہ حسن ؓ خلع کے معاملہ میں عورت کو دئیے ہوئے مال سے زیادہ لینا ناپسند کرتے تھے انہوں نے فرمایا کہ قبیصہ بن ذوئب (رح) نے کہا اس آیت کو پڑھو جو اس کے بعد ہے (یعنی) لفظ آیت ” فان ظنا ان لا یقیما حدود اللہ فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ “ (76) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر، بیہقی نے کثیر مولی سمرہ (رح) سے روایت کیا کہ ایک عورت نے حضرت عمر ؓ کے زمانہ خدمت میں اپنے خاوند کی نافرمانی کی۔ آپ نے اس کو کثیر کے گھر میں رہنے کا حکم فرمایا وہ تین دن اس کو وہاں ٹھہری رہی۔ پھر اس نے اسے نکال دیا عمرو نے اس سے پوچھا تو نے کیسے پایا ؟ کہنے لگی میں نے راحت کو نہیں پایا مگر ان دنوں میں حضرت عمر ؓ نے فرمایا اس سے خلع کرلو اگرچہ اس کی کان کی بالی پر کیوں نہ ہو۔ (77) عبد بن حمید، بیہقی نے عبد اللہ بن رباح (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے خلع کرنے والی عورت سے فرمایا اپنے سر کی چوٹی کے بالوں سے کم کے بدلے میں خلع کرلے۔ (78) بیہقی نے عبد اللہ بن شہاب خولانی (رح) سے روایت کیا کہ ایک عورت کو اس کے خاوند نے ہزار درہم ہم پر طلاق دی۔ یہ بات حضرت عمر ؓ کے پاس پہنچائی گئی تو انہوں نے (اس عورت سے) فرمایا تیرے خاوند نے طلاق کو بیع بنا کر بیچ دیا اور پھر حضرت عمر ؓ نے اس طرح طلاق کو جائز قرار دیدیا۔ خلع میں کتنا مال لینا جائز ہے ؟ (79) عبد الرزاق اور بیہقی نے ربیع بنت معوذ بن عفراء (رح) سے روایت کیا کہ میرا شوہر تھا۔ جب میرے پاس حاضر ہوتا تو مجھ سے اچھا سلوک نہ کرتا اور مجھے محروم رکھتا جب مجھ سے غائب ہوتا ایک دن مجھ سے لغزش ہوگئی۔ میں نے اس سے کہا تو مجھ سے ہر چیز کے بدلہ میں خلع کرلے۔ جس کا میں تجھ کو مالک بنا دوں۔ اس نے کہا ہاں (ٹھیک ہے) تو میں نے ایسا ہی کیا میرے چچا معاذ بن عفراء (رح) حضرت عثمان ؓ کے پاس یہ معاملہ لے گئے۔ تو انہوں نے خلع کو جائز قرار دیا اور اس کو حکم دیا میرے سسر کا جوڑا اور اس سے کم مال لینے کا۔ (80) مالک، شافعی، عبد بن حمید، بیہقی نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ صفیہ بنت عبید کی لونڈی عبد اللہ بن عمر ؓ کی بیوی نے اپنے خاوند سے تمام مال پر خلع کیا جو اس کی ملکیت تھا تو حضرت عمر ؓ نے اس کا انکار نہیں کیا۔ (81) مالک، بیہقی نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ ربیع بنت معوذ اور اس کے چچا عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس آئے اور ربیع (رح) نے ان کو بتایا کہ انہوں نے اپنے خاوند سے حضرت عثمان بن عفان ؓ کے زمانہ میں خلع کرلی تھی۔ یہ بات حضرت عثمان کو پہنچی تو انہوں نے اس کو برا نہیں مانا تو حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ اس خلع کرنے والی کی عورت مطلقہ عورت کی عدت (کی طرح) ہے۔ (82) بیہقی نے عروہ بن زبیر (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے حضرت عثمان ؓ کے زمانہ خلافت میں قاضی کی عدالت کے بغیر اپنی بیوی سے خلع کی۔ حضرت عثمان نے اسے جائز قرار دیا۔ (83) مالک نے سعید بن مسیب، ابن شہاب اور سلیمان بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ خلع کرنے والی کی عدت تین حیض ہے۔ (84) عبد الرزاق نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ خلع کرنے والی عورت کی عدت طلاق والی کی طرح ہے۔ (85) ابن ابی شیبہ نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ ربیعہ (رح) نے اپنے خاوند سے خلع کی۔ اس کا چچا حضرت عثمان ؓ کے پاس آیا اور عدت کا مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا وہ ایک حیض سے عدت گزارے اور ابن عمر ؓ فرماتے تھے کہ تین حیض عدت گزارے یہاں تک کہ حضرت عثمان ؓ نے بھی اسی طرح فرمایا اور ابن عمر بھی اسی طرح فتوی دیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عثمان ہم سے بہتر تھے اور ہم سے زیادہ عالم تھے۔ (86) مالک، ابن ابی شیبہ، ابو داؤد نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ خلع کرنے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ (87) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ خلع کرنے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ (88) ابو داؤد، ترمذی، حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ثابت بن قیس ؓ کی بیوی نے اپنے خاوند سے نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں خلع کی تو نبی اکرم ﷺ نے ان کو ایک حیض عدت گزارنے کا حکم فرمایا۔ (89) ترمذی نے ربیعہ بنت معوذ بن عفراء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں خلع کی تو نبی اکرم ﷺ نے ان کو ایک حیض سے عدت گزارنے کا حکم فرمایا۔ (90) نسائی، ابن ماجہ نے عبادہ بن ولید بن عبادہ بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ میں نے ربیعہ بنت معوذ ابن عفراء ؓ سے کہا مجھے اپنی بات بیان کر تو اس نے کہا میں نے اپنے خاوند سے خلع کی۔ پھر میں حضرت عثمان ؓ کے پاس آئی اور ان سے پوچھا کہی مجھ پر عدت ہے انہوں نے فرمایا تجھ پر عدت نہیں مگر یہ کہ تیرے خلع کا زمانہ قریب ہے تو ٹھہر جا یہاں تک کہ تجھ کو حیض آجائے انہوں نے کہا میں اس معاملہ میں رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کا اتباع کرتا ہوں جو انہوں نے مریم المعالیہ کے بارے میں کیا تھا۔ اور وہ ثابت بن قیس ؓ کے نکاح میں تھیں اور اس سے انہوں نے خلع کی تھی۔ (91) نسائی نے ربیعہ بنت معوذ بن عفراء ؓ سے روایت کیا کہ ثابت بن قیس بن شماس ؓ نے اپنی بیوی کو مارا اور اس کا ہاتھ توڑ دیا۔ اور وہ عورت جمیلہ بنت عبد اللہ بن ابی تھیں۔ اس کا بھائی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور شکایت کی۔ آپ نے ثابت ؓ کو بلا بھیجا۔ پھر اس سے فرمایا جو تیرا اس پر ہے وہ لے لے اور اس کا راستہ چھوڑ دے (یعنی طلاق دیدے) اس نے کہا ٹھیک ہے تو (پھر) رسول اللہ ﷺ نے ان کو ایک حیض تک انتظار کرنے کا حکم فرمایا اور (پھر) اپنے اہل کے پاس جانے کا حکم دیدیا۔ (92) شافعی، بیہقی نے حضرت ابن عباس اور ابن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ دونوں حضرات نے اس خلع کرنے والی عورت کے بارے میں فرمایا اس کو خاوند طلاق دے۔ طلاق واقع نہ ہوگی کیونکہ اس نے ایسی عورت کو طلاق دی جس کا وہ (خلع کے بعد) مالک نہیں رہا (93) بیہقی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ جب عورتیں خلع کا ارادہ کریں تو ان سے انکار نہ کرو۔ (94) احمد، ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن جریر، حاکم، بیہقی نے حضرت ثوبان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو عورت اپنے خاوند سے بغیر ضرورت کے طلاق کا سوال کرے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے اور فرمایا خلع کرنے والی عورتیں منافق عورتیں ہیں۔ (95) ابن ماجہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی عورت اپنے خاوند سے بلاوجہ طلاق کا سوال نہ کرے ورنہ جنت کی خوشبو نہیں پائے گی اگرچہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے پائی جائے گی۔ (96) احمد، نسائی، بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے خاوندوں سے خلع کرنے والیاں (خاوند سے جان) چھڑانے والیاں منافق عورتیں ہیں۔ (97) ابن جریر نے عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے خاوندوں سے خلع کرنے والیاں اور چھڑانے والیاں (یعنی طلاق لینے والیاں) وہی منافق عورتیں ہیں۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا “ (98) نسائی نے محمود بن لبید ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو ایسے آدمی کے بارے میں بتایا گیا جس نے اپنی بیوی کو اکٹھی طلاقیں دے دیں۔ تو آپ غصہ کی حالت میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جاتا ہے جبکہ میں ابھی تمہارے درمیان موجود ہوں۔ یہاں تک کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا رسول اللہ کیا میں اس کو قتل نہ کر دوں ؟ (99) بیہقی نے رافع بن سبحان (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی عمران بن حصین ؓ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں۔ انہوں نے فرمایا اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس پر عورت حرام ہوگئی۔ وہ آدمی آگیا اور ابو موسیٰ ؓ کے سامنے ذکر کیا کہ آپ نہیں دیکھتے کہ عمران بن حصین آئے پھر ایسا فتوی دیا ہے ؟ عمران بن حصین ؓ کا عیب بیان کرنا چاہتا تھا۔ ابو موسیٰ ؓ نے فرمایا اللہ اکبر ابو نجید کی طرف فتوی ہے۔
Top