Dure-Mansoor - Al-Baqara : 230
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ١ؕ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر طَلَّقَھَا : طلاق دی اس کو فَلَا تَحِلُّ : تو جائز نہیں لَهٗ : اس کے لیے مِنْ بَعْدُ : اس کے بعد حَتّٰي : یہانتک کہ تَنْكِحَ : وہ نکاح کرلے زَوْجًا : خاوند غَيْرَهٗ : اس کے علاوہ فَاِنْ : پھر اگر طَلَّقَھَا : طلاق دیدے اس کو فَلَاجُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْھِمَآ : ان دونوں پر اَنْ : اگر يَّتَرَاجَعَآ : وہ رجوع کرلیں اِنْ : بشرطیکہ ظَنَّآ : وہ خیال کریں اَنْ : کہ يُّقِيْمَا : وہ قائم رکھیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود وَتِلْكَ : اور یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود يُبَيِّنُھَا : انہیں واضح کرتا ہے لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : جاننے والوں کے لیے
پھر اگر اس کو طلاق دیدی تو اس کے لئے اس کے بعد حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ اس شوہر کے بعد کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے۔ سو اگر اس نے طلاق دیدی تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ پھر آپس میں رجوع ہوجائیں۔ اگر دونوں کو اس بات کا گمان ہو کہ اللہ کے حدود قائم رکھیں گے اور یہ اللہ کی حد بندیاں ہیں وہ انہیں بیان فرماتا ہے ان لوگوں کے لئے جو جانتے ہیں
(1) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد “ سے مراد ہے کہ اگر خاوند بیوی کو تین طلاقیں دیدے تو اس کے لئے (اب) حلال نہیں یہاں تک کہ دوسرے مرد سے نکاح کرلے۔ (2) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے لفظ آیت ” فان طلقھا فلا تحل لہ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس آیت کا تعلق اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” فامساک بمعروف او تسریح باحسان “ کے ساتھ کہ اب تیسری طلاق کے بعد خامساک بمعروف جائز نہیں۔ (3) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ “ سے یہ تیسری طلاق مراد ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے تیسری طلاق کی سزا یہ بنا دی کہ اب اس کے لئے حلال نہیں یہاں تک کہ دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے۔ تین طلاق سے عورت حرام ہوجاتی ہے (4) ابن المنذر نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فان طلقھا فلا تحل لہ “ سے مراد یہ تیسری طلاق ہے۔ (5) عبد الرزاق نے المصنف میں ام سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ ان کے ایک غلام نے اپنی آزاد بیوی کو دو طلاقیں دیں ام سلمہ ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے فتویٰ پوچھا تو آپ نے فرمایا اب یہ عورت اس پر حرام ہوگئی یہاں تک کہ دوسرے مرد سے نکاح کرے۔ (6) شافعی، بیہقی نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ ایک غلام دو عورتوں سے نکاح کرسکتا ہے اور وہ طلاقیں دے سکتا ہے تو باندی دو حیض کی عدت گزارے۔ اگر اس کو حیض نہ آتا ہو تو دو مہینے کی عدت گزارے۔ (7) مالک، شافعی، نحاس، بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ جب غلام اپنی بیوی کو دو طلاقیں دیدے تو اس پر وہ عورت حرام ہوجائے گی یہاں تک کہ دوسرے مرد سے نکاح کرلے عورت چاہے آزاد ہو یا باندی ہو اور باندی کی عدت دو حیض ہے۔ اور ؤزاد عورت کی عدت تین حیض ہے۔ (8) مالک، شافعی، بیہقی نے ابن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ نقیع (رح) نے جو ام سلمہ ؓ کا مکاتب غلام تھا اپنی آزاد بیوی کو دو طلاقیں دیں۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ سے فتوی پوچھا گیا تو انہوں نے اس کو فرمایا کہ (اب وہ عورت) تجھ پر حرام ہوگئی۔ (9) مالک، شافعی، بیہقی نے سلیمان بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ نقیع جو ام سلمہ ؓ کا مکاتب تھا اس کے نکاح میں آزاد عورت تھی۔ اس نے اس کو دو طلاقیں دیں پھر اس سے رجوع کرنے کا ارادہ کیا۔ تو ازواج نبی ﷺ نے اس کا حکم دیا کہ وہ حضرت عثمان بن عفان ؓ سے اس بارے میں پوچھے وہ ان کی طرف گیا تو ان کے پاس زید بن ثابت ؓ بھی موجود تھے۔ اس نے دونوں سے پوچھا تو دونوں نے جواب دیا کہ (اب وہ عورت) تجھ پر حرام ہے۔ تجھ پر حرام ہے (دو مرتبہ فرمایا) ۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” حتی تنکح زوجا غیرہ “ (10) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ عورت اس کے خاوند کے لئے حلال نہیں یہاں تک کہ دوسرے خاوند سے نکاح کرلے اور وہ اس کو حرکت بھی دے (یعنی اس کے ساتھ جماع بھی کرے) زوج ثانی کی ہمبستری ضروری ہے (11) ابن المنذر نے مقاتل بن حیان (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت عائشہ بنت عبد الرحمن بن عتیق النصری کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ رفاعہ بن وھب بن عتیک کے نکاح میں تھیں اور وہ ان کے چچا کا بیٹا تھا اس نے تین طلاقیں دے دیں۔ اس کے بعد عبد الرحمن بن زبیر قرضی نے نکاح کیا اس نے بھی اسے طلاق دیدی۔ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور کہا کہ اس نے (یعنی دوسرے خاوند نے) مجھے طلاق دیدی ہے مجھے چھونے سے پہلے (یعنی جماع سے پہلے) کیا میں پہلے خاوند کے پاس پھر جاسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں یہاں تک کہ وہ تجھ سے جماع کرلے۔ پھر وہ ٹھہری رہی جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا پھر نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی اس نے مجھ سے جماع کرلیا ہے۔ آپ نے فرمایا تو نے اپنے پہلے قول کے ساتھ جھوٹ بولا تھا۔ (کہ اس نے مجھے طلاق دیدی ہے) اب میں تیری دوسری بات کو سچ نہیں مانتا۔ پھر وہ ٹھہری رہی یہاں تک کہ نبی اکرم ﷺ اس دنیا سے انتقال فرماگئے اور پھر وہ ابوبکر ؓ کے پاس آئی اور کہنے لگی میں پہلے خاوند کے پاس چلی جاؤں کیونکہ دوسرے خاوند نے مجھ سے جماع کرلیا ہے۔ ابوبکر نے فرمایا تو نبی اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئی تھی اور انہوں نے تجھ سے فرمایا تھا تو اس کی طرف (یعنی پہلے خاوند کی طرف) نہیں جاسکتی۔ جب ابوبکر کی وفات ہوگئی تو حضرت عمر ؓ کے پاس آئی تو انہوں نے اس سے کہا اگر تو اس کے بعد میرے پاس آئی تو میں تجھ کو ضرور رجم کروں گا (گویا) اس کو منع کردیا اور اس کے بارے میں (یہ آیت) نازل ہوچکی تھی لفظ آیت ” فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ “ یعنی (دوسرا خاوند) اس سے جماع کرے گا۔ پھر جماع کے بعد اگر اس کو طلاق دیدے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ آپس میں رجوع کرلیں (یعنی پہلے خاوند سے) (12) شافعی، عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کیا کہ رفاعہ کی بیوی رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی میں رفاعہ کے نکاح میں تھی اس نے مجھ کو تین طلاقیں دے دیں پھر عبد الرحمن بن زبیر ؓ نے مجھ سے نکاح کرلیا اس کے ساتھ کپڑے کی جھالر کی طرح ہے۔ (وہ نامرد ہے) نبی اکرم ﷺ نے تبسم فرمایا اور فرمایا کیا تو رفاعہ کے پاس (دوبارہ) جانا چاہتی ہے مگر (تو اس کے نکاح میں دوبارہ نہیں آسکتی) جب تک کہ تو اس سے مزہ چکھ لے۔ اور وہ تجھ سے مزانہ چکھ لے (یعنی جب تک وہ جماع نہ کرلے) (13) بخاری، مسلم، نسائی، ابن جریر، بیہقی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں پھر اس نے دوسرے شوہر سے نکاح کرلیا اور اس نے جماع سے پہلے اس کو طلاق دیدی نبی اکرم ﷺ سے اس بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا یہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوسکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں یہاں تک دوسرا شوہر اس کا مزا چکھ لے۔ (یعنی جماع کرلے) جیسا کہ پہلے شوہر سے مزہ چکھا تھا۔ (14) عبد الرزاق نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ عورت جس کو رفاعہ نے طلاق دی تھی اس کا نام تمیمہ بنت وھب بن عبید تھا اور وہ قبیلہ بنو نصیر سے تھی۔ عبد الرحمن بن زبیر ؓ کا نکاح (15) مالک، شافعی، ابن سعد، بیہقی نے زبیر بن عبد الرحمن بن زبیر (رح) سے روایت کیا کہ رفاعہ بن سموال قرظی نے اپنی بیوی تمیمہ بنت وھب کو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں تین طلاقیں دیں پھر عبد الرحمن بن زبیر ؓ نے اس سے نکاح کیا اس نے اس سے جماع کرنے کی کوشش کی۔ مگر کامیاب نہ ہوسکا۔ تو اس نے اس کو جدا کردیا (یعنی طلاق دیدی) ۔ رفاعہ نے اس سے دوبارہ نکاح کرنے کا ارادہ کیا جو اس کا پہلا شوہر تھا جس نے طلاق دی تھی یہ بات رسول اللہ ﷺ سے ذکر کی گئی تو آپ نے اس کو نکاح کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا وہ تیرے لئے حلال نہیں یہاں تک کہ دوسرا اس سے مزہ نہ چکھ لے (یعنی جماع نہ کرے) (16) البزار، طبرانی، بیہقی نے زبیر بن عبد الرحمن بن زبیر (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رفاعہ بن سموال قرظی نے اپنی بیوی کو طلاق دی۔ وہ عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور کہا یا رسول اللہ ! میں نے عبد الرحمن سے (دوسرا) نکاح کیا تھا۔ مگر اس کے پاس کپڑے کے پلو کی طرح اور اپنے کپڑے کے پلو کی طرف اشارہ کیا رسول اللہ صلی اللہ ﷺ نے اس کی بات سے اعتراض فرمایا پھر فرمایا کیا تو رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہے مگر (ایسا ہرگز نہ ہوگا) یہاں تک وہ اس کا مزا چکھ لے اور خاوند اس کا مزہ چکھ لے۔ (17) ابن ابی شیبہ، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے ایسے آدمی کے بارے پوچھا گیا جس نے اپنی عورت کو طلاق دیدی پھر اس سے دوسرے آدمی نے نکاح کرلیا۔ وہ آدمی اس کے پاس داخل ہوا مگر جماع کرنے سے پہلے اس کو طلاق دیدی تو کیا یہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال ہوسکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ یہاں تک کہ وہ عورت دوسرے خاوند کا مزہ چکھ لے اور وہ اس عورت کا مزہ چکھ لے۔ تین طلاق کے بعد حلال ہونے کے لئے شوہر ثانی کی ہمبستری ضروری ہے (18) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، احمد، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دیدیں پھر دوسرے آدمی نے اس سے نکاح کرلیا۔ اس نے دروازہ بند کرلیا۔ پردہ لٹکا دیا پھر دخول کرنے سے پہلے اس کو طلاق دیدی تو کیا یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوسکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں یہاں تک کہ وہ عورت (دوسرے خاوند کا) مزہ نہ چکھ لے اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ یہاں تک کہ دوسرا خاوند اس سے جماع نہ کرلے۔ (19) احمد، ابن جریر، بیہقی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ اس کے بعد دوسرے آدمی نے اس سے نکاح کرلیا۔ پھر اس نے بھی دخول سے پہلے طلاق دیدی تو کیا عورت پہلے خاوند کے لئے حلال ہوسکتی ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں۔ یہاں تک کہ دوسرا خاوند اس کا مزہ نہ چکھ لے۔ اور وہ عورت اس کا مزہ نہ چکھ لے۔ (20) ابن ابی شیبہ، ابن جریر نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسی عورت کے بارے میں فرمایا جس کو خاوند نے تین طلاق دے دی ہوں پھر دوسرے مرد سے نکاح کرلیا ہو اور اس نے بھی دخول سے پہلے اس کو طلاق دیدی ہو اور وہ عورت پہلے خاوند کے پاس جانا چاہتی ہو تو آپ نے فرمایا نہیں جاسکتی یہاں تک کہ دوسرا خاوند اس کا مزہ نہ چکھ لے۔ (21) احمد، نسائی نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا کہ غمیصاء یا رمیصاء (نامی عورت) نبی اکرم ﷺ کے پاس اپنے خاوند کی شکایت لے کر آئی کہ وہ اس سے جماع نہیں کرسکتا۔ وہ ابھی ٹھہری ہوئی تھی کہ اس کا خاوند آگیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ یہ جھوٹی ہے وہ اس سے جماع کرتا ہے لیکن یہ عورت اپنے پہلے خاوند کی طرف جانا چاہتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے (اسی عورت سے) فرمایا وہ تیرے لئے حلال نہیں ہے۔ یہاں تک کہ دوسرا خاوند تیرا مزہ نہ چکھ لے۔ (22) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابوہریرہ وانس ؓ سے روایت کیا کہ کہ دونوں حضرات نے فرمایا تین طلاقوں والی عورت پہلے خاوند کے لئے (عورت) حلال نہیں جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے جماع نہ کرلے۔ (23) ابن ابی شیبہ نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ وہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں۔ یہاں تک کہ نر کے حرکت دینے کی طرح وہ اس کو حرکت دے لے (یعنی اس سے جماع کرلے) ۔ (24) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (وہ عورتٌ پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ اس کو حرکت دے دے (یعنی اس سے پوری طرح جماع کرلے) (25) حاکم (انہوں نے اسے صحیح کہا ہے) بیہقی نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی ابن عمر ؓ کے پاس آیا اور اس نے ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دی تھیں پھر اس سے اس کے بھائی نے نکاح کرلیا بغیر مشورہ کئے تاکہ اپنے بھائی کے لئے (دوبارہ) حلال کر دے۔ کیا وہ پہلے خاوند کے لئے حلال ہوجائے گی ؟ تو انہوں نے فرمایا نہیں مگر نکاح رغبت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں (ایسے حیلہ والے نکاح کو) زناکاری میں شمار کرتے تھے۔ (26) ابو اسحاق، الجوز جانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے یہی مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا نہیں مگر رغبت والا نکاح کے ساتھ عورت حلال ہوگی۔ اور حیلہ سازی کے نکاح کے ساتھ اب حلال نہ ہوگی۔ اور کتاب اللہ کے ساتھ استہزاء نہ کرو پھر وہ (یعنی دوسرا خاوند) چکھ لے اس کے مزے کو (تب حلال ہوگی) عمرو بن دینار ؓ نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ (27) احمد، ترمذی، نسائی، بیہقی نے سنن میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی۔ (28) ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، بیہقی نے سنن میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی۔ (29) ترمذی نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی۔ حلالہ کرنے اور کروانے والے دونوں ملعون ہیں (30) ابن ماجہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی۔ (31) ابن ماجہ، حاکم، بیہقی نے عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو مستعار نر کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیوں نہیں (ضرور بتائیے) آپ ﷺ نے فرمایا وہ ہے حلالہ کرنے والے۔ اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی۔ (32) احمد، ابن ابی شیبہ، بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت فرمائی۔ (33) عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، ابوبکر الاشرم نے اپنی سنن میں بیہقی نے حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ حلالہ کرنے والا اور حلالہ کرانے والے کو دونوں کو لایا جائے گا تو میں ان کو رجم کروں گا۔ (34) بیہقی نے سلیمان بن یسار (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عثمان بن عفان ؓ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے ایک عورت سے اس غرض سے نکاح کرلیا تاکہ اس کے پہلے خاوند کے لئے اس کو حلال کر دے انہوں نے دونوں میں تفریق کردی اور فرمایا وہ عورت پہلے خاوند کے پاس رغبت والے نکاح کے ساتھ لوٹتی ہے۔ مکاری والے نکاح کے ساتھ نہیں لوٹتی۔ (35) عبدالرزاق نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ان سے سوال کیا کہ میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ تیرے چچا نے اللہ کی نافرمانی کی اور وہ اسے پریشان کرے گا اور شیطان کی اطاعت کی اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اس پریشانی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بنایا اس شخص نے پوچھا آپ کا کیا گمان ہے اس آدمی کے بارے میں جو اس کے لئے حلال کرنے والا ہے۔ تو فرمایا جس نے اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیا۔ اللہ تعالیٰ اس کو دھوکہ کہ (ضرور) سزا دے گا۔ (36) مالک، ابن ابی شیبہ، بیہقی نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ وہ ایسے آدمی کے بارے میں فرماتے تھے جس نے اپنی باندی کو تین طلاقیں دیں۔ پھر اس کو خرید لیا۔ تو یہ باندی اس کے لئے حلال ہوگئی یہاں تک کہ دوسرے مرد سے نکاح نہ کرلے۔ (37) مالک نے سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار ؓ سے روایت کیا کہ ان سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو اپنے غلام کا اپنی باندی سے نکاح کرے پھر اس غلام نے اس کو بائن طلاق دے دی پھر اس باندی کو اس کے آقا نے اس کے لئے ہبہ کردیا۔ تو کیا اب یہ عورت ملک یمین کی وجہ سے اس کے لئے حلال ہوجائے گی۔ تو دونوں حضرات نے فرمایا اس کے لئے حلال نہیں ہوگی یہاں تک کہ دوسرے کسی مرد سے نکاح نہ کرلے۔ (38) بیہقی نے عبیدہ السلمان (رح) سے روایت کیا کہ جب کسی شخص کی لونڈی کسی کے نکاح میں ہو پھر وہ خاوند اس کو طلاق دیدے یعنی تین طلاقیں دیدے۔ پھر اس لونڈی کے آقا اس سے وطی کرے تو وہ اس خاوند کے لئے حلال نہیں کرے گا مگر یہ کہ اس سے کوئی دوسرا خاوند نکاح کرے اور اسے وہ شخص حلال کرے گا جس پر پہلے وہ حرام ہو پھر وہ اس سے نکاح کرے اور پھر وطی کرکے طلاق دے تو پہلے خاوند کے لئے حلال ہوگی۔ (39) عبد الرزاق نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ آقا کا اپنی باندی سے وطی کرنا اس کو اپنے خاوند کے لئے حلال نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ دوسرے خاوند سے نکاح کرلے۔ (40) عبد الرزاق نے محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں دخول سے پہلے۔ وہ مسئلہ پوچھنے کے لئے ابن عباس ؓ کے پاس آیا ان کے پاس ابوہریرہ ؓ بھی موجود تھے ابن عباس نے فرمایا اے ابوہریرہ یہ پیچیدہ مسائل میں سے ہے۔ ابوہریرہ ؓ نے فرمایا ایک طلاق نے اس کو جدا کردیا اور تین طلاقوں نے اس کو حرام کردیا (اس پر) ابن عباس نے فرمایا اے ابوہریرہ اس (مسئلہ) کو (آپ نے) روشن کردیا۔ وأما قولہ تعالیٰ : ” فان طلقھا فلا جناح علیھما “ (41) عبد بن حمید، ابن بای حاتم محمد بن حنیفہ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ مجھ پر دو کام مشکل تھے ایک تو اللہ تعالیٰ کا یہ قول لفظ آیت ” فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ، فان طلقھا فلا جناح علیہما ان یتراجعا “ تو میں نے قرآن کو پڑھا اور میں نے اس بات کو جان لیا کہ تین طلاق والی عورت کو جب دوسرا خاوند بھی طلاق دیدے تو تین طلاق سینے والے کے پاس لوٹ آئے گی۔ پھر فرماتے ہیں کہ میں ایسا آدمی تھا جس کو مذی زیادہ آتی تھی۔ میں بنی اکرم ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھنے میں شرماتا تھا کیونکہ ان کی بیٹی میرے نکاح میں تھی میں نے حضرت مقدار ؓ کو نبی اکرم ﷺ سے یہ مسئلہ پوچھنے کو کہا تو آپ نے فرمایا کہ مذی میں وضو ہے (غسل نہیں ہے) (42) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فان طلقھا فلا جناح علیھما ان یترا جعا “ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے خاوند کی عدت سے فارغ ہونے کے بعد دوسرے خاوند سے نکاح کیا اور اس نے دخول بھی کرلیا پھر اس نے طلاق دیدی تو اب پہلے خاوند سے (دوبارہ) نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں یا وہ (دوسرا خاوند) مرگیا تو اس (پہلے خاوند) کے لئے حلال ہوگئی۔ (43) عبد بن حمید، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ان ظنا ان یقیما حدود اللہ “ سے مراد ہے کہ اگر مرد عورت یہ گمان کریں (یعنی یقین کریں) کہ ان کا نکاح کسی حیلہ یا مکاری پر قائم نہیں ہے۔ (44) ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ ” ان یقیماحدود اللہ “ سے مراد ہے اللہ کے حکم اور اس کی اطا عت کو قا ئم رکھ سکیں گے۔
Top