Dure-Mansoor - Al-Baqara : 243
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ١۪ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا١۫ ثُمَّ اَحْیَاهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِھِمْ : اپنے گھر (جمع) وَھُمْ : اور وہ اُلُوْفٌ : ہزاروں حَذَرَ : ڈر الْمَوْتِ : موت فَقَالَ : سو کہا لَهُمُ : انہیں اللّٰهُ : اللہ مُوْتُوْا : تم مرجاؤ ثُمَّ : پھر اَحْيَاھُمْ : انہیں زندہ کیا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر ادا نہیں کرتے
تو نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے اور وہ تعداد میں ہزاروں تھے، پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے کہ مرجاؤ، پھر ان کو زندہ فرما دیا، بیشک اللہ ضرور فضل والا ہے لوگوں پر، لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے
(1) وکیع، الفریابی، ابن جریر، ابن المنذر، حاکم نے سعید بن جبیر کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے (اس آیت) ” الم تر الی الذین خرجوا من دیارھم وھم الوف حذر الموت “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ لوگ چار ہزار تھے جو طاعون (کے ڈر) سے نکلے تھے اور کہنے لگے ہم ایسی زمین میں جائیں گے جس میں موت نہیں آئے گی یہاں تک کہ وہ لوگ ایسی جگہ پر نہ تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا مرجاؤ (تو مرگئے) پھر انبیاء میں سے ایک نبی ان پر گزرے اور اپنے رب سے دعا کی کہ ان کو زندہ فرما دیجئے۔ تاکہ وہ آپ کی عبادت کریں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ فرما دیا۔ (2) عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے عکرمہ کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ لوگ چار ہزار تھے اور ایسی بستی کے رہنے والے تھے جس کو داوردون کہا جاتا ہے جو طاعون کی وجہ سے (اپنے گھروں سے) بھاگ نکلے تھے۔ موت کے خوف سے بھاگنا جائز نہیں (3) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے اسباط سے انہوں نے سدی سے ابو مالک (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ ایک بستی تھی جس کو داوردون کہا جاتا تھا۔ اور یہ واسط (شہر) کے قریب ان میں طاعون کی بیماری پھوٹ پڑی۔ ایک جماعت وہیں رہی اور ایک جماعت بھاگ نکلی۔ جو لوگ بستی میں رہ گئے تھے ان میں موت واقع ہوگئی (اور وہ سب مرگئے) اور جو لوگ بھاگ گئے تھے وہ سلامت رہے۔ جب طاعون کی بیماری ختم ہوگئی تو یہ لوگ ان کی طرف لوٹ آئے اور ان لوگوں نے کہا جو باقی رہ گئے تھے ہمارے بھائی ہم سے زیادہ دور اندیش تھے اگر ہم ایسا کرلیتے جیسا انہوں نے کیا تھا۔ تو ہم سلامت رہے اور اگر ہم باقی رہے طاعون کے واقع ہونے تک تو ہم ضرور ایسا ہی کریں گے جیسا انہوں نے کیا۔ پھر طاعون اگلے سال واقع ہوگیا تو وہ سب وہاں سے (پھر) نکل گئے وہ لوگ بھاگ گئے تھے اور وہ لوگ جو ٹھہر گئے اور یہ جگہ دو پہاڑوں کے درمیان تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف دو فرشتوں کو بھیجا۔ ایک فرشتہ وادی کے اوپر والے حصہ اور دوسرا اس کے نیچے تھا۔ انہوں نے آواز لگائی (تم سب لوگ) مرجاؤ۔ تو وہ سب مرگئے۔ اور اس حال میں رہے جب تک اللہ پاک نے چاہا۔ پھر ان کے پاس سے ایک نبی گزرے جن کو حز قیل کہا جاتا تھا۔ انہوں نے کثیر تعداد میں ہڈیاں دیکھیں تو تعجب کرتے ہوئے ٹھہر گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی ان کو آواز دی کہ اے ہڈیو ! اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم اکھٹی ہوجاؤ (یہ اعلان سنتے ہی) وادی کے اوپر اور نیچے کے حصہ سے ہڑیاں اکھٹی ہوگئیں یہاں تک کہ بعض ہڈی بعض سے جڑ گئی اور جسم کی ہڈی اپنے جسم سے جڑ گئی۔ تو ہڈیوں سے جسم بن گئے نہ ان پر گوشت تھا اور نہ خون تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی ان کو آواز دو کہ اے ہڈیو ! اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے۔ کہ اپنا گوشت پہن لو تو سب ہڈیوں پر گوشت چڑھ گیا پھر اللہ تعالیٰ نے حزقیل کی طرف وحی بھیجی کہ ان کو آواز دو اے جسمو ! اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ کھڑے ہوجاؤ تو وہ زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ اپنے شہروں کی طرف لوٹے اور اس طرح سے کھڑے ہوئے کہ کوئی کپڑے پہنے ہوئے نہ تھے مگر یہ کہ ان پر بوسیدہ کفن تھا۔ اس زمانہ کے لوگوں نے ان کو پہچان لیا کہ یہ لوگ مرچکے تھے (پھر زندہ ہو کر آئے ہیں) یہ لوگ رہتے رہے یہاں تک کہ اس کے بعد ان کو موت آئی۔ اساط نے کہا اور منصور سے مجاہد سے روایت کیا کہ جب وہ اٹھائے گئے تو ان کی زبان پر تھا لفظ آیت ” سبحانک اللہم ربنا وبحمدک لا الہ الا انت “ (4) ابن ابی حاتم نے سعید بن عبد العزیز (رح) سے اللہ تعالیٰ اس قول لفظ آیت ” الم ترالی الذین خرجوا من دیارھم “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ لوگ اذرعات میں سے تھے۔ (5) ابو صالح (رح) نے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ نو ہزار تھے۔ (6) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” الم ترالی الذین خرجوا من دیارھم وہم الوف حذر الموت “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے موت سے بھاگنے کو ناپسند فرمایا اس لئے ان کو سزا کے طور پر موت دیدی پھر بقیہ عمریں پوری کرنے کے لئے ان کو اٹھایا گیا تاکہ وہ اپنی مدت کو پورا کرلیں اگر ان کی مدت پوری ہوچکی ہوتی تو پھر موت کے بعد نہ اٹھائے جاتے۔ (7) ابن جریر نے اشعت بن اسلم بصری (رح) سے روایت کیا کہ ہمارے درمیان حضرت عمر ؓ نماز پڑھ رہے تھے اور دو یہودی جو ان کے پیچھے تھے ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کیا یہ وہی ہے ؟ جب حضرت عمر ؓ نے جوتا پہنا تو فرمایا تو بتا تم میں سے ایک کا اپنے ساتھی سے کہنا کیا یہ وہی ہے ؟ اس کا کیا مطلب ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی کتاب میں پایا کہ دو سینگ لوہے کے حضرت حزقیل (علیہ السلام) کو دئیے گئے تھے جس سے وہ اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے حضرت عمر ؓ نے فرمایا ہم اللہ کی کتاب میں حزقیل (علیہ السلام) کا نام نہیں پاتے۔ اور نہ ہم ان کا اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کردینے کو پاتے ہیں مگر صرف عیسیٰ (علیہ السلام) نے زندہ کیا تھا۔ تو انہوں نے کہا کیا آپ نے اللہ کی کتاب میں یہ نہیں پایا لفظ آیت ” ورسلا لم نقصصہم علیک “ (النساء آیت 264) حضرت عمر ؓ نے فرمایا کیوں نہیں اس کو پاتے ہیں) پھر انہوں نے کہا مردوں کو زندہ کرنے کے بارے میں ہم آپ سے بیان کریں گے کہ نبی اسرائیل میں ایک وبا واقع ہوئی۔ ان میں سے ایک قوم نکل کھڑی ہوئی یہاں تک کہ جب وہ ایک میل کے فاصلے پر تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو موت دیدی پھر ان پر دیوار بنائی گئی یہاں تک کہ جب ان کی ہڈیاں بوسیدہ ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ نے حزقیل (علیہ السلام) کو بھیجا انہوں نے کھڑے ہو کر ان پر کچھ پڑھا جو اللہ تعالیٰ نے چاہا ان سے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کردیا اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ نازل فرمایا لفظ آیت ” الم ترالی الذین خرجوا من دیارھم وہم الوف حذر الموت “ نبی اسرائیل کی ایک جماعت کا واقعہ (8) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے ھلال بن سیاف (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ لوگ بنی اسرائیل کی ایک قوم تھی ان میں جب طاعون واقع ہوا تو ان کے مالدار اور ان کے عزت والے لوگ (بستی سے) نکل گئے۔ اور ان کے غریب اور نچلے طبقے کے لوگ ٹھہر گئے جو ٹھہرے ہوئے تھے ان میں بھی کئی مرگئے لیکن جو بھاگ گئے تھے انہیں کچھ بھی نہ ہوا۔ پھر ایک سال میں انہوں نے کہا اگر ہم بھی ایسا ہی کرلیتے جیسے انہوں نے کہا تو ہم بھی نجات پالیتے سب نے اپنا چھوڑ دیا تو (اللہ تعالیٰ نے) ان پر موت بھیج دی اور وہ بوسیدہ ہڈیاں بن گئے۔ ایک بستی والے ان کے پاس آئے اور ان (بوسیدہ ہڈیوں) کو ایک جگہ جمع کیا ان کے پاس سے ایک نبی گزرے اور عرض کیا اے میرے رب ! اگر آپ چاہیں تو ان کو زندہ فرما دیں یہ تیرے شہروں کو آباد کریں گے اور تیری عبادت کریں گے تو اللہ تعالیٰ نے (ان سے) فرمایا اس طرح اس طرح کہو تو انہوں نے اسی طرح کہا پھر ہڈیوں کی طرف دیکھا تو (آپس میں) جڑ گئیں۔ پھر پڑھی تو اچانک ہڈیوں پر گوشت پہن لیا پھر کلام کیا تو وہ اچانک کھڑے ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تکبیر پڑھنے لگے۔ پھر ان سے کہا گیا لفظ آیت ” وقاتلوا فی سبیل اللہ واعلموا ان اللہ سمیع علیم “ (9) عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن جریر نے حضرت حسن ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ وہ ایسی قوم تھی جو طاعون سے بھاگ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدت سے پہلے ان کو موت دیدی بطور سزا اور ناراضگی کے پھر ان کو زندہ فرما دیا تاکہ وہ اپنی باقی عمریں پوری کریں۔ (10) ابن جریر نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ کالب بن یوحنا کو جب اللہ نے یوشع کے بعد ان کی روح قبض کرلی۔ تو نبی اسرائیل میں حز قیل کو بوزی (قبیلہ) میں سے خلیفہ بنایا اور وہ ایک بڑھیا کے بیٹے تھے۔ اور وہ بڑھیا کے بیٹے اس لئے مشہور ہوئے کیونکہ اس بڑھیا نے اللہ تعالیٰ سے بیٹے کا سوال کیا تھا جبکہ وہ بوڑھی تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس کو بیٹا عطا فرمایا انہوں نے اس قوم کے لئے دعا کی تھی جس کا ذکر اللہ نے اپنی کتاب میں بیان کرتے ہوئے فرمایا لفظ آیت ” الم تر الی الذین خرجوا من دیارھم “ (11) عبد بن حمید نے وھب (رح) سے روایت کیا کہ ایک زمانہ میں بنی اسرائیل کو سخت مصیبت پہنچی انہوں نے اس مصیبت پر شکایت کی اور کہنے لگے کاش کہ ہمیں موت آجائے تو ہم اس مصیبت سے راحت پاتے۔ اللہ تعالیٰ نے حزقیل (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ تیری قوم مصیبت سے چیخ رہی ہے۔ اور انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ اگر وہ مرجائے تو راحت پالیتے۔ موت میں ان کے لئے کون سی راحت ہے ؟ کیا اس کا یہ خیال ہے کہ میں ان کی موت کے بعد ان کو دوبارہ اٹھانے پر قادر نہیں ہوں گا۔ (اس کے بعد) وہ اس طرح اور اس طرح جبانہ کی طرف چلے اس میں چار ہزار افراد تھے۔ وھب نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” الم ترالی الذین خرجوا من دیارھم وھم الوف حذر الموت “ حزقیل (علیہ السلام) کو حکم ہوا اٹھو اور ان کو آواز دو اور ان کی ہڈیاں بکھر چکی تھیں جن کو پرندوں اور جانوروں نے جدا کردیا تھا۔ حزقیل (علیہ السلام) نے آواز لگائی اے ہڈیو ! اللہ تعالیٰ تم کو حکم فرماتے ہیں کہ تم جمع ہوجاؤ ان میں سے ہر انسان کی ہڈیاں ساتھ ساتھ اکٹھی ہوگئیں پھر انہوں نے فرمایا اے ہڈیو ! اللہ تعالیٰ تم کو حکم فرماتے ہیں کہ پٹھے اور عقب پیدا کرو پس پٹھوں اور عقب کے ساتھ ان میں سختی اور صلابت پیدا ہوگئی۔ پھر حزقیل (علیہ السلام) نے آواز لگائی اے ہڈیو ! اللہ تعالیٰ تم کو حکم فرماتے ہیں کہ تم گوشت پہن لوتو (سب ہڈیوں نے) گوشت پہن لیا اور گوشت کے بعد کھال بھی پہن لی اس طرح وہ (پورے پورے) جسم بن گئے۔ پھر حزقیل (علیہ السلام) نے تیسری مرتبہ آواز لگائی۔ اور فرمایا اے روحو ! اللہ تعالیٰ تم کو حکم فرماتے ہیں کہ اپنے جسموں میں لوٹ آؤ۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کھڑے ہوگئے (اور) انہوں نے (مل کر) تکبیر کہی ایک آدمی کی تکبیر کی طرح۔ (12) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے العوفی کے طریق سے روایت کیا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے لفظ آیت ” الم ترالی الذین خرجوا من دیارھم وھم الوف حذر الموت “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ بہت تعداد میں ہیں اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے فرار ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو موت دیدی یہاں تک کہ ہر اس آدمی کو موت کا ذائقہ چکھایا جو اس میں سے فرار ہوا تھا پھر ان کو زندہ فرمایا اور ان کو اپنے دشمنوں سے جہاد کرنے کا حکم فرمایا اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” وقاتلوا فی سبیل اللہ واعلموا ان اللہ سمیع علیم “ اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے نبی سے کہا تھا لفظ آیت ” ابعث لنا ملکا نقاتل فی سبیل اللہ “ (البقرہ آیت 246) ۔ (13) ابن جریر، ابن المنذر نے ابن جریج کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ لوگ چالیس ہزار تھے اور آٹھ ہزار کو محفوظ رکھا۔ اور ان کے جسم میں ہوا داخل ہوگئی تھی اور ان کے جسموں میں بدبو پیدا ہوگئی تھی۔ آج بھی یہود کے اس قبیلہ میں یہ بدبو پائی جاتی ہے۔ یہ لوگ جہاد فی سبیل اللہ سے بھاگ گئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو موت دیدی پھر ان کو زندہ کردیا اور پھر ان کو جہاد کا حکم فرمایا اسی لئے اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے۔ لفظ آیت ” وقاتلوا فی سبیل اللہ “۔ (14) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ لوگ طاعون سے بھاگ گئے تھے۔ اور وہ ہزاروں تھے اور فرقت نے انہیں اس طرح نکالا تھا جیسے کہ لڑائی اور قتال کے لئے نکلتے ہیں۔ اور ان کے دل جمع تھے۔ جب وہ زندگی کی تلاش کے لئے نکلے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا مرجاؤ۔ اور ایک آدمی ان کے پاس سے گزرا اور وہ ظاہر ہونے والی ہڈیاں تھیں۔ وہ دیکھ کر ٹھہر گیا اور کہنے لگا لفظ آیت ” قال انی یحی ھذہ اللہ بعد موتھا، فاما اللہ ماءۃ عام “ (البقرہ آیت 259) (15) بخاری، نسائی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے مجھے بتایا کہ وہ ایک عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہتے ہیں بھیجتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے رحمت بنایا ہے۔ وہ آدمی کسی ایسے شہر میں ٹھہرتا ہے جس میں طاعون پھیل چکا ہوتا ہے۔ اور وہ اپنے شہر میں ٹھہرا رہا صبر کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اور وہ اس بات کو جانتے ہوئے کہ یہ بیماری اس کو نہیں پہنچے گی مگر جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے لکھ دیا ہے۔ تو اس کو شہید جیسا اجر ملے گا۔ طاعون والی جگہ کے بارے میں حکم (16) احمد، بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی نے عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو طاعون کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا جب تم سنو کہ فلاں زمین (یعنی فلاں جگہ) پھیل چکا ہے تو وہاں نہ جاؤ۔ اور جب ایسی زمین میں واقع ہوجائے کہ تم وہاں رہتے ہو تو وہاں سے باہر نکلو۔ (17) سیف نے فتوح میں شرحبیل بن حسنہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کسی زمین میں طاعون واقع ہوجائے اور تم وہیں رہو وہاں سے مت نکلو کیونکہ موت تمہاری گردنوں میں ہے اور جب کسی اور زمین میں واقع ہوجائے تو اس میں داخل نہ ہو کیونکہ (یہ بیماری) دلوں کو جلا دیتی ہے۔ (18) عبد بن حمید نے ام ایمن ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے بعض اہل و عیال کے بارے میں یہ وصیت فرماتے ہوئے سنا کہ اگر لوگوں کو وبائی امراض پہنچ جائیں اور تو ان میں موجود ہو۔ تو ثابت قدم رہ۔ (19) احمد، ابن الدنیا نے کتاب الطواعین میں، ابو یعلی اور طبرانی نے الاوسط میں ابن عدی نے الکامل میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت فنا نہ ہوگی مگر طعن اور طاعون میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس طعن کو تو ہم جانتے ہیں۔ مگر طاعون کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ ایک غدہ ہے اونٹ کے غدہ کی طرح ہے۔ (جس سے آدمی مرجاتا ہے) وہاں ٹھہرنے والا شہید کی طرح ہے۔ اور اس (جگہ) سے بھاگ جانے والا جنگ سے بھاگ جانے والے کی طرح ہے۔ (20) احمد، عبد بن حمید، البزار، ابن خزیمہ اور طبرانی نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الذی یقرض اللہ فرضا حسنا “ (بقرہ 245) کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اہل اسلام اللہ تعالیٰ کو قرضہ دو اپنے مالوں میں سے وہ تم کو کئی گناہ زیادہ کرکے دے گا۔ ابن وحداح ؓ نے آپ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے دو مال ہیں ایک مال عالیہ میں ہے اور دوسرا مال بنو ظفر میں ہے۔ اپنے مال کے اندازہ لگانے والے کو بھیجے تاکہ ان میں سے بہترین مال پر قبضہ کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے فروہ بن عمر ؓ سے فرمایا جاؤ اور ان دونوں میں سے جس کو بہتر دیکھیں اس کو چھوڑ دو اور دوسرے پر قبضہ کرلو۔ وہ گئے اور اس نے اسے بتایا تو انہوں نے (یعنی ابن وحداح نے فرمایا میں اپنے مال میں سے برا مال اپنے رب کو قرضہ نہیں دینا چاہتا۔ لیکن میں اپنے رب کو بڑھیا مال قرض میں دوں گا جس کا میں مالک ہوں میں دنیا کے فقر سے نہیں ڈرتا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے میرے رب ابن وحداح ؓ کو جنت میں کھجور کے ایسے درخت عنایت فرما جن کا میوہ آسانی سے توڑا جاسکتا ہے۔ قرضہ حسنہ کی عجب مثال (21) ابن سعد نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی سے کھجور قرض مانگی۔ اس نے قرض نہ دیا اور کہا اگر آپ نبی ہوتے تو قرض نہ مانگتے۔ پھر آپ نے ابو الدحداح ؓ کے پاس (اپنے قاصد کو) بھیجا تاکہ ان سے قرض مانگے۔ ابو الدحداح نے فرمایا اللہ کی قسم ! آپ مجھ سے زیادہ حقدار ہیں میرے مال کے میری اولاد سے اور میری ذات سے بیشک وہ (یعنی رسول اللہ ﷺ مالک ہیں۔ اس میں سے لے لے جو تو چاہے اور ہمارے لئے چھوڑ دے جو تو چاہے۔ جب الودحداح ؓ وفات پاگئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے میرے رب ! ابو الدحداح کو جنت میں کھجور کے ایسے درخت عنایت فرما جن کا میوہ آسانی سے توڑا جاسکتا ہو۔ (22) ابن اسحاق، ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت ” من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا “ (البقرہ آیت 245) ثابت بن دحداح ؓ کے بارے میں نازل ہوئی جب انہوں نے اپنے مال کا صدقہ کیا۔ (23) عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا “ (البقرہ آیت 245) کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی (24) عبد بن حمید، ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں جب ایک آدمی نے اس آیت کو سنا تو اس نے کہا میں اللہ تعالیٰ کو قرض دیتا ہوں۔ (پھر) اس نے اپنے بہترین مال کا صدقہ کردیا۔ (25) ابن جریر نے سدی (رح) سے لفظ آیت ” فیضعفہ لہ اضعافا کثیرۃ “ (البقرہ آیت 245) کے بارے میں روایت کیا کہ اس تضعیف (یعنی دو گناہ کردینے) کو کوئی نہیں جانتا کہ کتنا گنا مال زیادہ کیا جائے گا۔ (26) احمد، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے ابو عثمان النھدی (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو ابوہریرہ ؓ کی طرف سے یہ حدیث پہنچی کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندے کے لئے ایک نیکی کے بدلہ میں ایک لاکھ نیکیاں لکھ دیتے ہیں میں نے اس سال حج کیا اور میں نے حج کرنے کا ارادہ نہیں کیا تھا مگر اس لئے تاکہ میں ان سے (یعنی ابوہریرہ ؓ) سے ملاقات کروں اس حدیث کے بارے میں (چنانچہ) میں نے ابوہریرہ سے ملاقات کی اور ان کو (یہ حدیث) بتائی۔ تو انہوں نے فرمایا ایسا نہیں ہے۔ جس نے تجھ کو بیان کیا اس نے (حدیث کو) یاد نہیں کیا بلکہ میں نے یہ کہا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ مؤمن بندے کو ایک نیکی کے بدلہ میں دو لاکھ نیکیاں لکھتے ہیں پھر ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا طاعون سے بھاگنے والا جنگ سے بھاگ جانے والے کی طرح ہے اور اس میں (یعنی طاعون میں) صبر کرنے والا جنگ میں صبر کرنے والے کی طرح ہے۔
Top