Dure-Mansoor - Al-Baqara : 34
وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ١ؕ اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١٘ۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قُلْنَا : ہم نے کہا لِلْمَلٰٓئِکَةِ : فرشتوں کو اسْجُدُوْا : تم سجدہ کرو لِاٰدَمَ : آدم کو فَسَجَدُوْا : تو انہوں نے سجدہ کیا اِلَّا : سوائے اِبْلِیْسَ : ابلیس اَبٰى : اس نے انکار کیا وَ اسْتَكْبَرَ : اور تکبر کیا وَکَانَ : اور ہوگیا مِنَ الْکَافِرِیْنَ : کافروں سے
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ سجدہ کرو آدم، سو انہوں نے سجدہ کرلیا، لیکن ابلیس نے سجدہ نہ کیا، اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے تھا
(1) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے رایت کیا کہ ” اسجدوا لادم “ سے مراد ہے کہ سجدہ آدم (علیہ السلام) کے لئے تھا اور اطاعت اللہ کے لیے تھی۔ فرشتوں کا سجدہ تعظیمی (2) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ فرشتوں کو (اللہ تعالیٰ نے) حکم فرمایا کہ سجدہ کرو تو سب نے اس (آدم کے لئے) سجدہ کیا اس عزت کی وجہ سے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آدم کو عزت بخشی۔ ّ (3) ابن عاکر نے ابراہیم مزنی (رح) سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) سے فرشتوں کے سجدہ کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو کعبہ کی طرح بنا دیا تھا۔ (4) ابو الشیخ نے العظمہ میں محمد بن جعفر مخزومی (رح) سے روایت کیا کہ فرشتوں کا آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنا اشارہ کے ساتھ تھا۔ (5) ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ضمرہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ایسے شخص سے سنا جو اس بات کا تذکرہ کر رہا تھا کہ جب فرشتوں کو آدم (علیہ السلام) کے لئے سجدہ کرنے کا حکم ہوا تو فرشتوں میں سب سے پہلے سجدہ کرتے ہوئے گر پڑنے والے حضرت اسرافیل (علیہ السلام) تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں قرآن شریف کو ان کی پیشانی پر لکھ دیا۔ (6) امام ابن عساکر نے عمر بن عبد العزیز (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدم (علیہ السلام) کے لئے سجدوں کا حکم فرمایا تو سب سے پہلے ان کے لئے اسرافیل (علیہ السلام) سجدہ کرنے والے تھے۔ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید ان کی پیشانی پر لکھ دیا۔ (7) عبد بن حمید ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واذا قلنا للملئکۃ اسجدوا لادم “ میں سجدہ آدم کے لئے تھا اور اطاعت اللہ کے لئے تھی۔ اور فرشتوں کے دشمن ابلیس نے اس بات پر حسد کیا جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عزت دی تھی کہنے لگا میں آگ سے ہوں اور یہ مٹی سے ہے، تکبر سے گناہ شروع ہوا۔ اللہ کے دشمن نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے تکبر کیا۔ (8) ابن ابی الدنیا نے مکاید الشیطان میں، ابن ابی حاتم اور ابن الانباری نے کتاب الاضداد میں بیہقی نے الشعب میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابلیس کا نام عزازیل تھا۔ اور چار پروں والے فرشتوں میں سے زیادہ عزت والا تھا۔ پھر اس کے بعد وہ ابلیس ہوگیا۔ (9) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابن الانباری نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابلیس اس لئے نام رکھا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ہر خیر سے مایوس کردیا (اور) وہ اس سے (بالکل ہی) مایوس ہوگیا۔ (10) ابن اسحاق نے المبتداء میں ابن جریر اور ابن الانباری نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابلیس گناہ کا ارتکاب کرنے سے پہلے فرشتوں میں سے تھا اس کا نام عزازیل تھا وہ زمین کے رہنے والوں میں سے تھا۔ اور فرشتوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار تھا اور ان سے زیادہ علم رکھنے والا تھا۔ پس اسی بات نے اس کو کبر کی طرف بلایا اور یہ فرشتوں کے ایسے قبیلہ میں سے تھا جس کو جن کہا جاتا تھا۔ (11) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ابلیس کا نام حرث تھا۔ (12) امام وکیع، ابن المنذر، اور بیہقی نے الشعب میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابلیس جنت کے داروغوں میں سے تھا اور آسمان دنیا کے کام کی تدبیر کرتا تھا۔ (13) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے سعید بن مسیب (رح) سے روایت کیا کہ ابلیس آسمان دنیا کے فرشتوں کا سردار تھا۔ (14) حضرت ابن عباس (رح) سے روایت کیا کہ ابلیس معزز فرشتوں اور ان کے بڑے قبیلہ میں سے تھا اور وہ جنات کا داروغہ تھا اور وہ آسمان دنیا اور زمین کا بادشاہ تھا۔ جب اس نے آسمان والوں پر اپنی بادشاہت اور عظمت کو دیکھا تو اس بات نے اس کے دل میں تکبر کو چھپایا جس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدم (علیہ السلام) کے لئے سجدوں کا حکم فرمایا تو اس کا تکبر باہر نکل آیا جو چھپایا ہوا تھا۔ (15) امام ابن جریر اور ابن الانباری نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مخلوق کو پیدا فرمایا اور اس سے فرمایا لفظ آیت ” اسجدوا لادم “ انہوں نے کہا وہ ایسا نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ نے آگ کو بھیجا جس نے ان کو جلا ڈالا پھر ان کو پیدا فرمایا اور حکم فرمایا لفظ آیت ” اسجدوا لادم “ کہنے لگے ہاں (ہم سجدہ کریں گے) اور ابلیس ان لوگوں میں تھا جنہوں نے آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ (16) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے العظمہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا فرمایا (اور پھر ان سے) فرمایا میں مٹی سے انسان پیدا کرنے والا ہوں۔ جب میں اس کو پیدا کرلوں تو تم اس کو سجدہ کرلینا انہوں نے کہا ایسا نہیں کریں گے (پھر) اللہ تعالیٰ نے ان پر آگ بھیج دی جس نے ان کو جلا ڈالا۔ پھر دوسرے فرشتوں کو پیدا فرمایا اور ان سے فرمایا مٹی سے انسان پیدا کرنے والا ہوں جب میں اس کو پیدا کرلوں تو تم اس کو سجدہ کرلینا انہوں نے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر آگ کو بھیج کر ان کو جلا دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اور فرشتوں کو پیدا فرمایا اور ان سے فرمایا میں مٹی سے انسان پیدا کرنے والا ہوں جب میں اس کو پیدا کر چکوں تو تم اس کو سجدہ کرلینا۔ انہوں نے عرض کیا ہم نے (آپ کا حکم) سن لیا اور ہم اطاعت کریں گے سوائے ابلیس کے کہ یہ پہلے کافروں میں سے تھا۔ (اس نے انکار کردیا) ۔ (17) امام ابن ابی حاتم نے محمد بن عامر مکی (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اپنے نور سے پیدا فرمایا اور جنات کو آگ سے پیدا فرمایا اور جانوروں کو پانی سے اور آدم کو مٹی سے پیدا فرمایا پھر اطاعت کو فرشتوں میں رکھ دیا اور معصیت کو جن اور انسانوں میں رکھ دیا۔ مختلف مخلوقات کی مادہ تخلیق (18) محمد بن نصر نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے آدم کو سجدے کا حکم فرمایا تو اس نے سجدہ کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا تیرے لئے جنت ہے اور اس کے لئے بھی جس نے تیری اولاد میں سے سجدہ کیا۔ اور ابلیس کو سجدے کا حکم فرمایا اس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تیرے لئے آگ ہے۔ اور اس کے لئے بھی جس نے تیری اولاد میں سے سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ (19) حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ابلیس موسیٰ (علیہ السلام) سے ملا اور کہنے لگا اے موسیٰ تو وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت کے لئے چن لیا اور تجھ سے کلام فرمایا جب تو نے توبہ کی اور میں بھی توبہ کرنے کا ارادہ کرتا ہوں میرے لئے اپنے رب سے سفارش فرماے ئے کہ وہ میری توبہ قبول کرلے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہاں (میں سفارش کروں گا) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا فرمائی تو فرمایا اے موسیٰ تو نے اپنا کام پورا کردیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) ابلیس سے ملے اور اس سے کہا تجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ تو آدم (علیہ السلام) کی قبر کو سجدہ کر تو تیری توبہ قبول کرلی جائے گی۔ (یہ سن کر) تکبر کرنے لگا اور غصہ ہوا۔ اور کہنے لگا میں نے اس کو زندگی میں سجدہ نہیں کیا اب میں اس کے مرنے کے بعد اس کو سجدہ کردوں۔ پھر ابلیس نے کہا اے موسیٰ ! مجھ پر تیرا حق ہے جو تو نے اپنے رب کے پاس میری سفارش کی تھی تو مجھے تین جگہ میں یاد کرنا میں تجھ کو ان میں ہلاک نہیں کروں گا۔ جب غصہ ہو تو مجھے یاد کرنا کیونکہ میں تیرے اندر خون کی طرح چلتا ہوں اور جب تو جنگ کرے (تو اس وقت مجھے یاد کرنا) کیوں کہ میں ابن آدم کے پاس آتا ہوں جب وہ جنگ میں ہوتا ہے میں اس کو اس کی اولاد اور اس کی بیوی کو یاد دلاتا ہوں یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ جاتا ہے۔ اور کسی غیر محرم عورت کے ساتھ (علیحدہ) مت بیٹھو کیونکہ میں اس کی طرف سے تجھے پیغام پہنچانے والا ہوں۔ (20) امام ابن المنذر نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ جب نوح (علیہ السلام) کشتی میں سوار ہوئے تو ان کے پاس ابلیس آیا۔ نوح (علیہ السلام) نے اس سے کہا تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں ابلیس ہوں فرمایا تو کیوں آیا ؟ کہنے لگا میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ اپنے رب سے پوچھئے کہ میرے لئے توبہ کی کوئی صورت ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیج۔ کہ اس کی توبہ یہ ہے کہ وہ آدم (علیہ السلام) کی قبر پر آئے اور اس کو سجدہ کرے۔ ابلیس کہنے لگا میں نے اس کی زندگی میں اس کو سجدہ نہیں کیا اب مرنے کے بعد اس کو سجدہ کروں ؟ (یہ نہیں ہوسکتا) پھر فرمایا اس نے تکبر کیا اور کافروں میں ہوگیا۔ (21) امام ابن المنذر نے مجاہد سے انہوں نے جنادہ بن ابی امیہ سے روایت کیا کہ سب سے پہلی غلطی حسد تھی ابلیس نے آدم (علیہ السلام) پر (اس بات سے) حسد کیا کہ اس کو سجدہ کرے جب اس کا حکم کیا گیا تھا۔ پھر اس حسد نے اس کو گناہ پر آمادہ کیا۔ (22) امام ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کی پیدائش کو کفر اور گمراہی پر شروع کیا پھر وہ فرشتوں جیسے عمل کرتا رہا پھر وہ اسی کفر کی طرف لوٹ گیا جس سے اس کی پیدائش ہوتی تھی۔ (اسی لئے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور وہ کافروں میں تھا۔ لفظ آیت ” وکان من الکفرین “۔ (23) امام ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وکان من الکفرین “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو کافر پیدا فرمایا تھا کہ وہ ایمان لانے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا۔
Top