Dure-Mansoor - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے بنی اسرائیل تم میرے احسانوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور پورا کرو میرے عہد کو میں پورا کرو گا تمہارے عہد کو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو
(1) امام عبد بن حمید اور ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اسرائیل سے مراد یعقوب (علیہ السلام) ہیں۔ عبد بن حمید ابن جریر ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن مسعود سے روایت کیا کہ اسرائیل سے مراد یعقوب (علیہ السلام) ہیں۔ (2) عبد بن حمید اور ابن المنذر نے ابو مجلز (رح) سے روایت کیا کہ یعقوب (علیہ السلام) سخت گرفت کرنے والے آدمی تھے۔ ایک دفعہ کی ملاقات ایک فرشتے سے ہوئی وہ ان سے لڑ پڑے فرشتے نے ان کو بچھاڑ دیا اور ان کی ران پر مارا جب یعقوب (علیہ السلام) نے یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور فرمانے لگے میں تجھ کو چھوڑنے والا نہیں ہوں یہاں تک کہ تو میرا کوئی نام رکھدے تو اس نے ان کا نام اسرائیل رکھ دیا۔ ابو مجلز فرماتے ہیں کہا آپ دیکھتے ہیں کہ وہ فرشتوں کے ناموں میں سے ہے۔ اسرائیل، جبرائیل، اسرافیل علیہم السلام۔ (3) امام حاکم نے ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے اور صحیح بھی کہا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ انبیاء بنی اسرائیل میں سے تھے سوائے ان دس انبیاء کے نوح، ھود، صالح، لوط، شعیب، ابراہیم، اسماعیل، اسحاق اور محمد (علیہم السلام) اور کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے دو نام ہوں سوائے اسرائیل اور عیسیٰ کے اسرائیل کا دوسرا نام یعقوب اور عیسیٰ کا دوسرا نام مسیح ہے۔ (4) امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اسرائیل، میکائل تیرے قول عبد اللہ کی طرح ہیں۔ (5) امام ابن جریر نے عبد اللہ بن حرث بصری (رح) سے روایت کیا کہ ” ایل “ عبرانی زبان میں اہل اللہ کو کہتے ہیں۔ (6) امام ابن اسحاق، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” یا نبی اسرائیل “ سے مراد یہود کے علماء ہیں (اور) لفظ آیت ” اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم “ سے مراد ہے یعنی وہ نعمتیں جو تمہارے آباؤ و اجداد کے پاس ہیں جب ان کو فرعون اور اس کی قوم سے نجات عطا فرمائی تھی۔ (اور) ” واوفوا بعھدی “ سے مراد ہے وہ وعدہ جو میں نے تم سے محمد ﷺ کے بارے میں لیا تھا کہ اس کو پورا کرو اور لفظ آیت ” واوفو بعھدکم “ سے مراد ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوا وعدہ پورا کروں گا یعنی تم اس کی تصدیق اور اتباع کرو گے تو میں تم سے بوجھ ساقط کردوں گا۔ لفظ آیت ” وایای فارھبون “ (اور مجھ ہی سے ڈرو) کہ اگر وہ تم پر نازل کر دے (اس) عذاب کو جو تم سے پہلے آباؤ اجداد پر نازل کیا تھا لفظ آیت ” وامنوا بما انزلت مصدقا لما معکم ولا تکونوا اول کافر بہ “ سے مراد ہے کہ (اس بارے میں) جو علم تمہارے پاس ہے وہ تمہارے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں۔ لفظ آیت ” وتکتموا الحق وانتم تعلمون “ (اور حق کو نہ چھپاؤ حالانکہ تم جانتے ہو) یعنی اس علم کو نہ چھپاؤ جو میرے رسول کے پہچاننے کا علم تمہارے پاس ہے اور جو وہ (دین) لائے ہیں۔ (اس کا علم بھی تمہارے پاس ہے) اور تم اس کو اپنی اس کتاب میں لکھا ہوا پاتے ہو جو تمہارے ہاتھوں میں ہے ان چیزوں میں سے جن کو تم کتاب میں جانتے ہو۔ (7) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” واوفوا بعھدی “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ (اللہ تعالیٰ نے) جو تم کو اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے اور تم کو اپنی نافرمانی سے روکا۔ نبی ﷺ اور اس کے علاوہ دوسرے انبیاء کے بارے میں (اس عہد کو پورا کرو) لفظ آیت ” واوفو بعھدکم “ (میں تمہارے وعدہ کو پورا کروں گا) یعنی میں تم سے راضی ہوں گا اور تم کو جنت میں داخل کروں گا۔ (8) امام ابن المنذر نے ابن مسعود ؓ سے اسی طرح روایت کیا ہے حضرت مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واوفوا بعھدی واوف بعھدکم “ سے مراد ہے کہ وہ عہد جو ان سے لیا گیا تھا (جس کا ذکر) دوسری سورت میں ہے (یعنی) لفظ آیت ” لقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل “ (المائدہ الآیہ 13) (9) امام عبد حمید نے حضرت قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واوفو بعھدی اوف بعھدکم “ سے مراد وہ وعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد لیا تھا اور جو ان سے عہد کیا تھا اس کا ذکر سورة مائدہ میں ہے (یعنی) لفظ آیت ” لقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل “ سے لے کر ” لادخلنکم جنت تجری من تحتھا الانھار “ تک۔ (10) امام عبد بن حمید نے حضرت حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واوفو بعھدی اوف بعھدکم “ سے مراد ہے کہ پورا کرو جو میں نے تم پر فرض کیا ہے اور میں پورا کروں گا اپنے اس وعدے کو جو میں نے تمہارے لئے اپنی ذات پر لازم کیا۔ (11) امام عبد بن حمید، ابو الشیخ نے العظمہ میں حضرت ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واوفوا بعھدی اوف بعھدکم “ سے مراد ہے کہ تم میری اطاعت کا وعدہ پورا کرو اور میں تمہارے لئے جنت (کا وعدہ) پورا کروں گا۔ (12) امام ابن جریر نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وامنوا بما انزلت “ سے قرآن مراد ہے (یعنی جو میں نے قرآن نازل کیا اس پر ایمان لاؤ) اور ” مصدقا لما معکم “ سے مراد تورات اور انجیل ہیں (کہ اس کی تصدیق تمہاری کتابیں بھی کر رہی ہیں) ۔ (13) امام ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تکونوا اول کافر بہ “ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے (کہ اس کا انکار نہ کرو) ۔ (14) امام ابن جریر نے ابو العالیہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ہے اہل کتاب کا گروہ اس کتاب پر ایمان لاؤ جو محمد ﷺ پر اتاری گئی (اور یہ کتاب) اس (کتاب) کی تصدیق کرنے والی ہے جو تمہارے پاس ہے اس لئے کہ تم اس کو تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہو جو تمہارے پاس ہے لفظ آیت ” ولا تکونوا اول کافر بہ “ یعنی محمد ﷺ کا سب سے پہلے انکار کرنے والے مت ہو۔ لفظ آیت ” ولا تشتروا بایتی ثمنا قلیلا “ یعنی (آیات پر) اجرت مت لو فرمایا اور یہ بات ان کے پاس پہلی کتاب میں لکھی ہوئی ہے کہ آدم کے بیٹے تم (دین کا) علم مفت سکھاؤ جیسے تم کو مفت لکھا یا گیا ہے۔ (15) حضرت ابو الشیخ نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تشتروا بایتی ثمنا قلیلا “ سے مراد ہے کہ علم کے سکھانے پر تو کوئی اجرت مت لے کیونکہ علماء اور حکماء کی اجرت اللہ پر ہے اور وہ اسے اس کے پاس پائیں گے اے آدم کے بیٹے مفت علم سکھا، جیسے تو نے بھی مفت علم سیکھا۔ (16) امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تلبسوا الحق بالباطل “ سے مراد ہے کہ سچ کو جھوٹ کے ساتھ مت ملاؤ (اور) لفظ آیت ” وتکتموا الحق وانتم تعلمون “ سے مراد ہے کہ حق کو مت چھپاؤ حالانکہ تم جانتے ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ یہودیت و نصرانیت سے اجتناب کرنا (17) امام عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا تلبسوا الحق بالباطل “ سے مراد ہے کہ اسلام کو یہودیت اور نصرانیت کے ساتھ مت ملاؤ۔ حالانکہ تم جانتے ہو کہ اللہ کا دین اسلام ہے اور یہودیت اور نصرانیت بدعت ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں (اور) لفظ آیت ” وتکتموا الحق وانتم تعلمون “ سے مراد ہے کہ انہوں نے محمد ﷺ کی صفات) کو چھپایا حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں جن کے بارے میں وہ (اپنی کتابیں) تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ ان کو اچھی باتوں کا حکم کریں گے اور ان کو برائی سے روکیں گے اور وہ ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کریں گے اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام کریں گے۔ (18) امام ابن جریر نے ابو زید (رح) سے لفظ آیت ” ولا تلسبوا الحق بالباطل “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس میں حق سے مراد تورات شریف ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور باطل سے مراد وہ ہے جس کو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھا۔ (19) امام ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وتکتموا الحق “ میں حق سے مراد محمد ﷺ کی ذات ہے (کہ ان کے حق ہونے کو نہ چھپاؤ) ۔ (20) امام ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” وارکعوا “ سے مراد ہے ” صلوا “ یعنی نماز پڑھو۔ (21) امام ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وارکعوا مع الرکعین “ سے مراد ہے کہ (اللہ تعالیٰ ) نے ان (اہل کتاب) کو یہ حکم فرمایا کہ تم بھی امت محمد ﷺ کے ساتھ نماز پڑھو اور (راوی یہ بھی) فرماتے تھے (تاکہ) ان میں سے ہوجاؤ اور ان کے ساتھ ہوجاؤ۔
Top