Dure-Mansoor - Al-Baqara : 45
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ
وَاسْتَعِیْنُوْا : اور تم مدد حاصل کرو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلَاةِ : اور نماز وَاِنَّهَا : اور وہ لَکَبِیْرَةٌ : بڑی (دشوار) اِلَّا : مگر عَلَى : پر الْخَاشِعِیْنَ : عاجزی کرنے والے
اور مدد چاہو صبر اور نماز کے ساتھ، اور بلاشبہ نماز ضرور دشوار ہے مگر خشوع والوں پر۔
(1) امام عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واستعینوا بالصبر والصلوۃ “ سے مراد ہے کہ یہ دونوں (یعنی صبر اور نماز) اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کرنے والے ہیں لہٰذا ان دونوں سے مدد حاصل کرو۔ (2) امام ابن الانباری نے کتاب العزاء میں اور ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ صبر بندہ کی طرف سے اعتراف ہے اللہ کے لیے جو اس کو مصیبت پہنچی اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب کی امید کا مظاہرہ ہوتا ہے اور کبھی ایک آدمی جزع فزع کرتا ہے حالانکہ وہ سخت مزاج ہوتا ہے اس سے صرف صبر ہی کو دیکھا جاتا ہے۔ صبر کے درجات (3) امام ابن ابی حاتم نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ صبر دو ہیں ایک صبر ہے مصیبت کے وقت جو اچھا ہے اور اس سے زیادہ اچھا وہ صبر ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں (سے بچنے) پر صبر ہو۔ (4) امام ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ صبر دو دروازوں میں ہے اللہ کی رضا کے لیے رک جانا ان چیزوں میں جو زیادہ محبوب ہیں اگرچہ وہ بھاری ہوں نفسوں پر اور جسموں پر اور اللہ کی رضا کے لیے رک جانا ان چیزوں سے جو ناپسندیدہ ہیں اگرچہ ان کی طرف خواہشات مائل ہوں سو جس شخص کا حال اسی طرح کا ہو تو وہ صابرین میں سے ہوگا اور جن پر انشاء اللہ تعالیٰ سلام بھیجا جائے گا۔ (5) حضرت ابن ابی الدنیا نے کتاب الصبر میں ابو الشیخ نے الشواب میں اور دیلمی نے مسند الفردوس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا صبر کی تین قسمیں ہیں۔ مصیبت پر صبر کرنا، اطاعت پر صبر کرنا اور معصیت (سے بچنے) پر صبر کرنا۔ رسول اللہ ﷺ کی نصیحت (6) امام احمد، عبد بن حمید، ترمذی ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں اور الاسماء والصفات میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا آپ نے فرمایا اے لڑکے میں تجھ کو ایسے کلمات نہ بتاؤں جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ تجھ کو نفع دے میں نے عرض کیا کیوں نہیں (ضرور بتائیے) فرمایا اللہ تعالیٰ کی حفاظت کر وہ تیری حفاظت کرے گا تو اللہ تعالیٰ حفاظت کر تو اس کو اپنے سامنے پائے گا تو اللہ تعالیٰ کو خوشحالی میں پہچان وہ تجھ کو تکلیف و شدت میں پہچانے گا۔ اور تو جان لے کہ جو تجھے تکلیف پہنچی ہے وہ تجھ سے نہیں چوک سکتی تھی۔ اور جو تکلیف تجھ سے چوک گئی وہ تجھ کو نہیں پہنچ سکتی تھی اگر ساری مخلوق تجھ کو کوئی چیز دینے پر اکھٹی ہوجائے اور اللہ تعالیٰ نہ چاہیں (کہ وہ چیز تجھے ملے) تو ساری مخلوق وہ چیز دینے پر قادر نہ ہوگی۔ اور اگر وہ لوگ تجھ سے کوئی چیز روکنا چاہیں اور اللہ تعالیٰ تجھ کو دینا چاہے تو اس کو روکنے پر قادر نہ ہوں گے بلاشبہ قلم (لکھ کر) خشک ہوچکا ہے جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے جب تو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر اور جب تو مدد چاہے تو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ۔ اور جب تو حفاظت طلب کرے تو اللہ سے حفاظت طلب کر اور عمل کر اللہ کے لیے شکر کے ساتھ یقین کرتے ہوئے اور تو جان لے کہ شکر کرنا ناپسندیدہ چیزوں پر خیر کثیر (کا باعث) ہے اور بلاشبہ مدد صبر کے ساتھ ہے اور خوشی، رنج کے ساتھ ہے اور تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ (7) امام دار قطنی نے الافراد میں، ابن مردویہ، بیہقی میں سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبد اللہ بن عباس ؓ سے فرمایا کیا میں تجھ کو ایسے کلمات نہ بتاؤں جن سے تو نفع حاصل کرے۔ عرض کیا یا رسول اللہ ضرور بتائیے فرمایا اللہ تعالیٰ کی حفاظت کر اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے گا اللہ تعالیٰ کے حقوق کی حفاظت کر تو اس کو اپنے سامنے پائے گا تو اللہ تعالیٰ کو خوشحالی میں پہچان شہرت میں تجھ کو پہچانے گا جب تو سوال کرے تو اللہ تعالیٰ سے سوال کر جب تو مدد مانگے تو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگ قلم خشک ہوچکا ہے جو کچھ ہونے والا ہے۔ اگر بندے ارادہکریں کہ تجھ کو کسی چیز کا نفع پہنچائیں اور اللہ تعالیٰ نے تیرے مقدر میں نہیں لکھا تو وہ لوگ تجھے وہ چیز دینے پر قادر نہ ہوں گے اور اگر لوگ کسی چیز کے ساتھ تجھ کو تکلیف پہنچانا چاہیں اور اللہ تعالیٰ نے تیری تقدیر نہیں لکھی تو لوگ تجھے وہ تکلیف پہچانے پر قادر نہ ہوں گے اگر تو یقین کرتے ہوئے سچائی کے ساتھ اللہ کے لیے عمل کرسکے تو ایسا ضرور کر اگر تو طاقت نہیں رکھتا تو ناپسندیدہ چیز پر صبر کرنے میں خیر کثیر ہے۔ اور تو جان لے کہ (اللہ کی) مدد صبر کے ساتھ ہے اور خوشی رنج کے ساتھ ہے اور تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ (8) حضرت حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا آپ نے فرمایا کیا میں تجھ کو ایسی باتیں نہ بتاؤں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تجھ کو نفع دے گا میں نے عرض کیا ضرور بتائیے فرمایا لازم پکڑ علم کو کیونکہ علم مومن کا دوست ہے اور علم مؤمن کا وزیر ہے عقل مؤمن کی رہنما ہے عمل اس کی قیمت ہے شفقت اس کا باپ ہے اور نرمی اس کا بھائی اور صبر اس کا لشکر کا امیر ہے۔ (9) امام بیہقی نے شعب الایمان میں اور الخرائطی نے کتاب الشکر میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ایمان کے آدھے آدھے دو حصے ہیں آدھا حصہ صبر میں ہے اور آدھا حصہ لشکر میں ہے۔ (10) امام بیہقی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا صبر نصف ایمان ہے اور یقین پورا ایمان ہے۔ (11) امام سعد بن منصور، عبد بن حمید، طبرانی اور بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے موقوفا اسی طرح روایت کیا ہے اور بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث روایت کے لحاظ سے محفوظ ہے۔ (12) امام بیہقی نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ ایمان چار ستونوں پر (قائم) ہے صبر، عدل، یقین اور جہاد۔ (13) امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کون سا ایمان افضل ہے ؟ فرمایا صبر اور طبیعت کی نرمی پھر پوچھا گیا کون سے مؤمنین کا یمان کامل ہے ؟ فرمایا جو اخلاق کے لحاظ سے اچھے ہوں۔ (14) امام بیہقی نے عبداللہ بن عبید بن عمیر سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اچانک آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے پوچھا یا رسول اللہ ! ایمان کیا ہے آپ نے فرمایا صبر اور نرمی اختیار کرنا (پھر) اس نے عرض کیا کون سا اسلام افضل ہے آپ نے فرمایا کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں (پھر) عرض کیا کون سی ہجرت افضل ہے ؟ فرمایا جو برائی کو چھوڑ دے (پھر) عرض کیا کون سا جہاد افضل ہے فرمایا جو شخص اپنے خون کو بہا دے اور جس کے گھوڑے (یعنی اپنی جان اور اپنے گھوڑے کو اللہ کے راستے میں قربان کر دے) (پھر) عرض کیا کون سا صدقہ افضل ہے ؟ فرمایا تنگدست کی محنت (یعنی وہ تنگدست آدمی جس کے پاس کوئی مال نہ ہو اور وہ محنت کرکے صدقہ کرے) (پھر) عرض کیا کون سی نماز افضل ہے فرمایا کہ جس میں قیام لمبا ہو۔ (15) امام احمد اور بیہقی نے عبادہ بن صامت ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! کون سا عمل افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا صبر اور نرمی اختیار کرنا اس نے (پھر) کہا میں تو اس سے افضل کا ارادہ کرتا ہوں (یعنی اس سے بھی افضل عمل کا پوچھنا چاہتا ہوں) آپ نے فرمایا اللہ کو نہ الزام دو کسی چیز کے بارے میں اس کے فیصلے سے۔ (16) امام بیہقی نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ایمان صبر اور نرمی اختیار کرنے کا نام ہے اور (صبر) اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں سے بچنا اور اللہ تعالیٰ کے فرائض کو ادا کرنا ہے۔ (17) امام ابن ابی شیبہ نے کتاب الایمان میں اور بیہقی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ صبر کا درجہ ایمان میں ایسا ہے جیسے سر کا درجہ جسم میں جب سر کاٹ دیا جائے تو باقی جسم بدبودار ہوجاتا ہے اور جس شخص میں صبر نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔ (18) امام ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے حضرت حسن ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اپنے آپ کو دنیا کے غموں میں داخل کر دے اور صبر کے ساتھ اس سے نکل جا اور چاہئے کہ تجھ کو (تیرا علم) روک دے لوگوں کو تکلیف پہنچانے سے۔ (19) امام بیہقی نے براء بن عازب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے دنیا میں اپنی خواہش کو پورا کیا تو یہ چیز آخرت میں اس کے اور اس کی خواہش کے درمیان حائل ہوجائے گی۔ اور جس نے اپنی آنکھوں کو خوشحال لوگوں کی زیب وزینت کی طرف بڑھایا تو وہ آسمان کے بادشاہ کی نظر میں ذلیل ہوگا اور جس نے تنگ رزق پر صبر کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو فردوس میں ٹھہرائیں گے جہاں چاہیں گے۔ (20) امام احمد، ترمذی، ابن ماجہ اور بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص کامیاب ہوگیا جو مسلمان ہوگیا اور اس کا رزق بقدر ضرورت تھا اس نے اس پر صبر کیا۔ (21) امام بیہقی نے ابو حویرث ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جس کو اللہ تعالیٰ اتنا رزق دے جو کافی ہوجائے اور وہ اس پر صبر کرے۔ تنہائی میں عبادت کرنا (22) امام بیہقی نے عسعس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی گم ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے بارے میں پوچھا وہ (جب) آیا تو اس نے کہا یا رسول اللہ میرا ارادہ ہے کہ میں اس پہاڑ (کے دامن) میں آجاؤں اور اکیلا ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی کے لئے اسلام کی کسی جگہ میں ناپسندیدہ کام پر ایک لمحہ کے لیے صبر کرنا چالیس سال تک اکیلے بیٹھ کر عبادت کرنے سے بہتر ہے۔ (23) امام بیہقی نے عسعس کے طریق سے ابو حاضر اسدی ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی گم ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے بارے میں پوچھا آپ سے کہا گیا کہ وہ اکیلا ہو کر عبادت کر رہا ہے۔ آپ نے اسے بلوا بھیجا وہ جب آگیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ خبردار مسلمانوں کی جگہوں میں سے کسی جگہ میں اکیلے بیٹھ کر عبادت کرنا ساٹھ سال تک عبادت کرنے سے افضل ہے آپ نے تین بار ایسا فرمایا۔ (24) امام بخاری نے الادب میں ترمذی اور ابن ماجہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ مسلمان جو لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے اور ان کی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے اس مسلمان سے بہتر ہے جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر نہیں رہتا اور ان کی تکلیفوں پر صبر نہیں کرتا۔ (25) امام بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے کون اس بات کو خوش رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا جہنم کی گرمی سے بچا لیں پھر فرمایا خبردار بلاشبہ جنت کا عمل اونچی جگہ پر خزانہ کیا گیا ہے (اس کو) تین مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا (پھر فرمایا) خبردار بلاشبہ دوزخ کا عمل آسان کیا گیا شہوت کی وجہ سے تین مرتبہ آپ نے فرمایا اور نیک بخت وہ ہے جو فتنوں سے بچا لیا جائے اور جو آزمائش میں ڈالا گیا پھر اس نے صبر کیا ہائے افسوس ہائے افسوس۔ (26) امام بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جن گھر والوں نے بامشقت میں صبر کیا تین دن تو اللہ تعالیٰ ان کو (ضرور) رزق عطا فرمائے گا۔ (27) حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں ابن عمر ؓ سے اسی طرح حدیث نقل کی ہے۔ (28) امام بیہقی نے ایک دوسرے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو بھوکا ہوا یا محتاج ہوگیا اور اس نے لوگوں سے اس (حال) کو چھپایا تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اس کو سال بھر کا حلال رزق عطا فرمائے۔ (29) امام بیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جس مؤمن متقی سے اللہ تعالیٰ تین دن تک دنیا روک لیں اور وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں راضی رہے بغیر کسی گھبراہٹ کے اس کے لیے جنت واجب ہے۔ (30) امام بیہقی نے شریح (رح) سے روایت کیا کہ مجھے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو میں اس پر اللہ تعالیٰ کی چار مرتبہ حمد بیان کرتا ہوں اور میں اس لئے حمد بیان کرتا ہوں کہ اس سے بڑی مصیبت میں مبتلا نہیں کیا۔ اور اس کی حمد کرتا ہوں کیونکہ اس نے مجھے اس مصیبت پر صبر عطا فرمایا۔ (پھر یوں کہا) اور میں اس کی حمد کرتا ہوں کہ اس نے مجھے (مصیبت پر) لفظ آیت ” اناللہ وانا الیہ راجعون “ پڑھنے کی توفیق دی کیونکہ اس میں ثواب کی امید رکھتا ہوں اور میں اس کی حمد کرتا ہوں کہ اس نے اس (مصیبت) کو میرے دین میں نہیں پہنچائی۔ (31) امام ابن ابی الدینا اور بیہقی نے حضرت حسن ؓ سے روایت کیا ایک دن رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کیا کوئی تم میں سے ایسا آدمی ہے جو یہ چاہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بغیر سیکھے علم عطا فرما دے اور بغیر ہدایت کے ہدایت عطا فرما دے اور کیا تم میں ایسا آدمی ہے جو یہ چاہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اندھے پن کو دور کر دے اور اس کو بصیر بنا دے (پھر فرمایا) خبردار جس شخص نے دنیا سے بےرغبتی اختیار کی اور اپنی امیدوں کو کم کردیا تو اللہ تعالیٰ اس کو بغیر سیکھے علم عطا فرمائیں گے اور بغیر رہنمائی کے ہدایت عطا فرمائیں گے (پھر فرمایا) خبردار بلاشبہ تمہارے بعد ایسی قوم ہوگی کہ جن کے لیے بادشاہی بغیر قتل و غارت اور ظلم کے قائم نہیں رہے گی اور ان کی مالداری بغیر بخل اور فخر کے قائم نہیں رہے گی اور محبت نہیں ملے گی مگر دین میں سے جرم کرنے خواہشات کی پیروی کرنے سے (پھر فرمایا) خبردار جو کوئی تم میں سے اس زمانہ کو پائے تو فقیری پر صبر کرے حالانکہ وہ مالداری پر بھی قادر ہو اور بغض پر صبر کرے حالانکہ وہ محبت کے حاصل کرنے پر قادر ہے اور ذلت پر صبر کرے حالانکہ وہ عزت پر بھی قادر ہے اور یہ سب کچھ وہ اللہ کی رضا مندی کے لیے برداشت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو پچاس صدیقین کا ثواب عطا فرمائیں گے۔ (32) امام احمد نے الزہد میں اور بیہقی نے حضرت حسن ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا افضل ایمان صبر اور نرمی اختیار کرنا ہے۔ (33) امام مالک، احمد، بخاری، مسلم ابوداؤ، ترمذی، نسائی، اور بیہقی نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو سوال کرنے سے بچنا چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو سوال سے بچا دیتا ہے اور جو مستغنی ہونا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو مستغنیٰ بنا دیتا ہے اور صبر کرنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو صبر کی توفیق عطا فرما دیتے ہیں اور کوئی شخص صبر سے بڑھ کر بہتر اور زیادہ وسیع (نعمت) عطا نہیں کیا گیا۔ (34) امام احمد نے الزہد میں حضرت عمر ؓ سے روایت کیا کہ ہم نے اپنی بہترین زندگی صبر میں پائی۔ (35) امام ابو نعیم نے الحلیہ میں روایت کیا کہ میمون بن مہران (رح) فرماتے ہیں کہ صبر کے بغیر انسان کو کوئی بڑی نعمت نہیں پاتا۔ وما قولہ وتعالیٰ : والصلوۃ۔ ترجمہ : نماز پڑھنا۔ (1) امام ابن جریر نے ابو العالیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واستعینوا بالصبر والصلوۃ “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے نماز پڑھنا مقصود ہے اور جان لو کہ یہ دونوں (یعنی صبر اور نماز) اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں سے ہیں۔ (2) امام احمد، ابو داؤد اور ابن جریر نے حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی اہم معاملہ پیش آجاتا تو آپ (فورا) نماز کی طرف متوجہ ہوجاتے۔ (3) امام ابن ابی الدنیا اور ابن عساکر نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ جس رات ہوا چلتی تو مسجد رسول اللہ ﷺ کی پناہ کی جگہ ہوتی تھی یہاں تک کہ ہوا رک جاتی تھی اور جب آسمان میں سورج یا چاند گرہن ہوجاتا تھا تو آپ نماز کی پناہ لیتے (یعنی نماز میں مشغول ہوجاتے) (4) احمد، نسائی اور ابن حیان نے صہیب ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انبیاء (علیہم السلام) کو جب کوئی خوف لاحق ہوتا تو نماز کی طرف پناہ لیتے (یعنی نماز میں مشغول ہوجاتے) (5) سعید بن منصور، ابن المنذر، ابن جریر اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ ایک سفر میں چل رہے تھے ان کو ان کے بیٹے کی موت کی اطلاع دی گئی (یہ سن کر) وہ سواری سے اتر آئے اور دو رکعت نماز پڑھی پھر لفظ آیت ” اناللہ وانا الیہ راجعون “ پڑھا اور فرمایا ہم نے وہی (عمل) کیا جس کا اللہ تعالیٰ نے ہم کو حکم فرمایا یعنی ” واستعینوا بالصبر والصلوۃ “۔ (6) سعید بن منصور، ابن المنذر، حاکم، بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ان کو اپنے بھائی کی موت کی اطلاع دی گئی جبکہ وہ سفر میں تھے انہوں نے لفظ آیت ” اناللہ وانا الیہ راجعون “ پڑھا اور راستے سے ایک طرف کو ہٹ کر دو رکعت نماز پڑھی جن میں جلوس (یعنی قعدہ) کو لمبا فرمایا پھر کھڑے ہوئے اور اپنی سواری کی طرف چلے اور وہ یہ پڑھ رہے تھے لفظ آیت ” واستعینوا بالصبر والصلوۃ، وانھا لکبیرۃ الا علی الخشعین “۔ حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی وصیت (7) امام بیہقی نے شعب الایمان میں عبادہ بن محمد بن عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ جب عبادہ (ابن صامت) ؓ کی وفات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ کسی انسان پر تم میں سے مجھ پر رونا جائز نہیں جب میری جان نکل جائے تو تم لوگ اچھی طرح وضو کرنا پھر چاہئے کہ تم میں سے ہر شخص مسجد میں داخل ہو کر نماز پڑھے پھر اس کے بندوں اور اپنے لئے استغفار کرے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ہے لفظ آیت ” واستعینوا بالصبر والصلوۃ “ پھر مجھے میری قبر کی طرف جلدی لے جانا۔ (8) امام عبد الرزاق نے المصنف میں اور بیہقی نے معمر سے اور انہوں نے زہری سے انہوں نے حمید بن عبد الرحمن بن عوف ؓ سے وہ اپنی والدی ام کلثوم بنت عقبہ ؓ سے روایت کرتے ہیں اور وہ پہلے ہجرت کرنے والوں میں سے تھیں وہ لفظ آیت ” واستعینوا بالصبر والصلوۃ “ کے بارے میں فرماتی ہیں کہ عبد الرحمن بن عبد الرحمن پر غشی طاری ہوئی تو لوگوں نے گمان کیا کہ ان کی بیوی ام کلثوم ؓ مسجد کی طرف تشریف لے گئیں تاکہ صبر اور نماز سے مدد حاصل کریں جس کا حکم دیا گیا ہے جب ان کو افاقہ ہوا تو فرمانے لگے کیا ابھی مجھ پر غشی طاری تھی عرض کیا ہاں ! فرمایا تم نے سچ کہا ہے میرے پاس دو فرشتے آئے تھے اور مجھ سے کہا ہمارے ساتھ چلو تاکہ ہم عزیز امین (یعنی اللہ تعالیٰ ) سے تیرا فیصلہ کرائیں دوسرے فرشتے نے کہا لوٹ جاؤ کیونکہ یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے لیے سعادت وقت سے لکھی جا چکی ہے جب کہ یہ اپنی ماؤں کے بیٹوں میں تھے ان کے بیٹے ان سے لطف اٹھاتے رہے جتنا وقت اللہ تعالیٰ نے چاہا (پھر) وہ (یعنی عبد الرحمن بن عبد الرحمن) ایک ماہ زندہ رہے اور (پھر) وفات پاگئے۔ (9) امام بیہقی نے الشعب میں مقاتل بن حیان (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واستعینوا بالصبر والصلوۃ “ سے مراد ہے کہ آخرت کی طلب پر مدد حاصل کرو فرائض اور نماز (کی ادائیگی) پر صبر کرتے ہوئے اور نماز کی حفاظت کرو اور اس کو اپنے اوقات میں ادا کرو اور اس میں تلاوتکرو رکوع سجود تکبیر تشہد اور نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھو اور اس کا ہر رکن اچھے طریقے سے ادا کرو یہ اس (نماز) کا قائم کرنا اور پورا کرنا ہے لفظ آیت ” ونھا لکبیرۃ الا علی الخسعین “ سے مراد ہے کہ تیرا پھرجانا بیت المقدس سے کعبہ کی طرف یہ منافقین اور یہود پر بھاری ہے لفظ آیت ” الال علی الخشعین “ مگر تواضح انکساری اختیار کرنے والوں پر (بھاری نہیں ہے) (10) امام ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وانھا لکبیرۃ “ سے مراد ہے بھاری۔ (11) ابن جریر نے ابن زید سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وانھا لکبیرۃ “ (یعنی یہ بات مشرکوں پر بھاری ہے) کیونکہ مشرکوں نے کہا کہ اے محمد ﷺ اللہ کی قسم تو ہم کو بڑے کام کی طرف چلاتا ہے پھر کہا کہ نماز اور اللہ پر ایمان لانے کی طرف (یہ دونوں کام ہمارے لئے بھاری ہیں) ۔ (12) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الا علی الخشعین “ سے مراد ہے کہ تصدیق کرنے والے اس چیز کی جس کو اللہ تعالیٰ نے اتارا۔ (13) امام عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الا علی الخشعین “ سے مراد ہے سچے ایمان والے۔ (14) امام ابن جریر نے ابو العالیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الا علی الخشعین “ سے مراد ہے خائفین یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے۔
Top