Dure-Mansoor - Al-Baqara : 47
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِیْ : اے اولاد اِسْرَائِیْلَ : یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّیْ : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی میں نے عَلَى الْعَالَمِیْنَ : زمانہ والوں پر
اے بنی اسرائیل تم میرے احسانوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور اس بات کو کہ میں نے تم کو فضیلت دی جہانوں پر
(1) امام ابن المنذر نے ابن ابی حاتم ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ جب بھی یہ آیت لفظ آیت ” اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم “ تلاوت کرتے تھے تو یہ فرماتے تھے کہ وہ قوم گزر چکی اب تم مراد ہو۔ (2) امام ابن جریر نے سفیان بن عینیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” اذکروا نعمتی “ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کے جو تم پر احسانات ہیں اور اس کے دنوں کو جو تمہیں عطا فرماتے ہیں ان کو یاد کرو۔ (3) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یبنی اسراء یل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم “ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر شمار فرمائیں یا جو ان کے علاوہ ہیں ان کے لیے پتھر سے چشمے جاری فرمائے ان پر من او سلوی کو اتارا اور ان کو فرعون والوں کی عبادت سے نجات دی۔ (4) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وانی فضلتکم علی العلمین “ سے مراد ہے کہ اس جہاں پر فضیلت دئیے گئے جس میں وہ تھے اور ہر زمانہ کے لیے (علیحدہ) جہاں ہوتا ہے۔ (5) امام عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وانی فضلتکم علی العلمین “ سے مراد ہے کہ ان لوگوں پر انہیں فضلیت دی کہ جن کے درمیان وہ تھے۔ (6) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وانی فضلتکم علی العلمین “ سے مراد ہے اس زمانہ میں جو لوگ تھے ان پر ان کو فضیلت دی کیونکہ ان کو بادشاہی پیغمبر اور کتابیں عطا کیں اور بلاشبہ ہر زمانہ کے لیے ایک عالم ہوتا ہے۔
Top