Dure-Mansoor - Al-Baqara : 48
وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ
وَاتَّقُوْا : اور ڈرو يَوْمًا : اس دن لَا تَجْزِیْ : بدلہ نہ بنے گا نَفْسٌ : کوئی شخص عَنْ نَّفْسٍ : کسی سے شَيْئًا : کچھ وَلَا يُقْبَلُ : اور نہ قبول کی جائے گی مِنْهَا : اس سے شَفَاعَةٌ : کوئی سفارش وَلَا يُؤْخَذُ : اور نہ لیا جائے گا مِنْهَا : اس سے عَدْلٌ : کوئی معاوضہ وَلَا : اور نہ هُمْ يُنْصَرُوْنَ : ان کی مدد کی جائے گی
اور ڈرو اس دن سے جس دن کوئی بھی شخص کسی کی طرف سے بھی کچھ ادائیگی نہیں کرے گا اور نہ کسی شخص کی طرف سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ کسی شخص کی طرف سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا، اور نہ ان لوگوں کی مدد کی جائے گی
(1) امام حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ میں نے ابی بن کعب ؓ کے سامنے لفظ آیت ” واتقوا یوما لا تجزی نفس عن نفس “ میں لا تجزی کو تاء کے ساتھ پڑھا (اور) لفظ آیت ” ولا تقبل منھا شفاعۃ “ میں لا تقبل کو تاء کے ساتھ پڑھا۔ لفظ آیت ” ولا یؤخذ منھا عدل “ میں لا یؤخذ کو یاء کے ساتھ پڑھا۔ (2) امام ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” لا تجزی نفس عن نفس “ سے مراد ہے کہ کوئی مومن شخص کسی کافر شخص کو کوئی فائدہ یا نفع نہیں پہنچائے گا ذرا بھی۔ (3) امام ابن جریر نے عمر بن قیس ملائی (رح) سے روایت کیا کہ اور انہوں نے بنو امیہ کے ایک آدمی سے روایت کیا ہے جو اہل شام میں سے تھے جس کی اچھی تعریف کی گئی وہ فرماتے ہیں کہ پوچھا گیا یا رسول اللہ ! عدل کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا فدیہ۔ (4) امام ابن جریر، ابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا یؤخذ منھا عدل “ میں عدل سے مراد ہے فدیہ۔ (5) امام ابن ابی داؤد نے المصاحف میں اعمش (رح) سے روایت کیا کہ ہماری قرأت میں (سورۃ بقرہ) میں سے پچاس آیات سے پہلے لفظ آیت ” ولا یقبل منھا شفاعۃ “ کی جگہ ” لا یؤخذ “ ہے۔
Top