Dure-Mansoor - Al-Baqara : 55
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ قُلْتُمْ : اور جب تم نے کہا يَا مُوْسَىٰ : اے موسٰی لَنْ : ہرگز نُؤْمِنَ : ہم نہ مانیں گے لَکَ : تجھے حَتَّىٰ : جب تک نَرَى اللہ : اللہ کو ہم دیکھ لیں جَهْرَةً : کھلم کھلا فَاَخَذَتْكُمُ : پھر تمہیں آلیا الصَّاعِقَةُ : بجلی کی کڑک وَاَنْتُمْ : اور تم تَنْظُرُوْنَ : دیکھ رہے تھے
اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ! ہم ہرگز تمہاری تصدیق نہ کریں گے۔ جب تک کہ ہم اللہ کو علانیہ طور پر دیکھ لیں، سو پکڑ لیا تم کو کڑک نے اور حال یہ تھا کہ تم آنکھوں سے دیکھ رہے تھے
(1) امام ابن جریر، ابن المنذر، اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” حتی نری اللہ جھرۃ “ کا مطلب ہے علانیہ (یعنی اعلانیہ طور پر دیکھنا) (2) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس (رح) عنہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” واذ قلتم یموسی لن نؤمن لک حتی نری اللہ جھرۃ “ سے مراد وہ ستر آدمی ہیں جن کو موسیٰ (علیہ السلام) نے (طور پر لے جانے کے لیے) چنا تھا۔ لفظ آیت ” فاخذتکم الصعقۃ “ یعنی وہ سب (عذاب کی وجہ سے) مرگئے۔ ” ثم بعثنکم من بعد موتکم “ موت کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ فرما دیا تاکہ وہ اپنی (زندگی کی) موت کو پورا کریں۔ (3) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ وہ قوم سزا دی گئی اللہ تعالیٰ نے سزا دیتے ہوئے ان کو موت دے سی پھر ان کو زندہ فرما دیا تاکہ وہ اپنی زندگی کی مدت کو پورا کریں۔ (4) امام الطستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” فاخذتکم الصعقۃ “ کے بارے میں بتائیے انہوں نے فرمایا اس سے مراد ہے عذاب اور اس کی اصل ہے موت عرض کیا اس معنی کو عرب والے جانتے ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے عبید بن ربیعہ کا یہ شعر نہیں سنا۔ وقد کنت اخشی علیک الحتوف وقد کنت امنک الصاعقۃ ترجمہ : اور مجھ کو تجھ پر موت کا ڈر ہے جبکہ میں تیرے متعلق عذاب کے نازل ہونے سے مامون ہوں۔
Top