Dure-Mansoor - Al-Baqara : 65
وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِئِیْنَۚ
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ : اور البتہ تم نے جان لیا الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا : جنہوں نے زیادتی کی مِنْكُمْ : تم سے فِي السَّبْتِ : ہفتہ کے دن میں فَقُلْنَا : تب ہم نے کہا لَهُمْ : ان سے كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ قِرَدَةً خَاسِئِیْنَ : ذلیل بندر
اور البتہ تحقیق تم نے ان لوگوں کو جان لیا جنہوں نے سنیچر کے دن میں زیادتی کی، سو ہم نے کہا ہوجاؤ بندر ذلیل
(1) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” ولقد علمتم “ سے مراد ہے عرفتم یعنی تم نے پہچان لیا اور یہ ان کو گناہ سے ڈرانے کے لیے تھا فرمایا کہ ڈرو تم اس بات سے کہ تم کو بھی وہ عذاب پہنچ جائے جو ہفتہ والوں کو پہنچا تھا جب انہوں نے میری نافرمانی کی اور حد سے بڑھ گئے تو فرمایا کہ (جب) انہوں نے ہفتہ کے دن مچھلی کا شکار کرنے پر جرأت کی تو ہم نے ان سے کہا لفظ آیت ” کونوا فردۃ خاسئین “ دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی نافرمانی کے سبب ان کو بندر (کی صورت) میں مسخ فرما دیا۔ اور مسخ شدہ کبھی تین دنوں سے زیادہ زندہ نہیں رہا (مسخ ہوجانے کے بعد) نہ اس نے کھایا نہ پیا اور نہ ان کی نسل چلی۔ (2) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بلاشبہ وہ لوگ جنہوں نے ہفتہ کے دن میں زیادتی کی وہ فوراً بندر بنا دیئے گئے تھے پھر وہ ہلاک ہوگئے تھے کیونکہ مسخ ہونے والے کی نسل نہیں چلتی۔ (3) حضرت ابن المنذر نے ایک دوسرے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بندر اور سور اس نسل میں سے ہیں جو مسخ کئے گئے تھے۔ (4) امام ابن المنذر نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ ان کی نسل ختم کردی گئی تھی۔ (5) ابن المنذر نے ابن ابی حاتم (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فقلنا لہم کونوا قردۃ خسئین “ سے مراد ہے کہ ان کے دلوں کو مسخ کیا گیا تھا اور بندر (کی شکل) میں مسخ نہیں کیا گیا تھا اور یہ اسی طرح ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان (اہل کتاب) کی مثال بیان فرمائی کہ جیسے اس گدھے کی مثال ہے جو کتابیں اٹھائے ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل کے مچھلی شکار کرنے کا واقعہ (6) عبد بن حمید، ابن جریر نے قتادہ ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ان کے لیے مچھلیاں حلال کی گئی تھی اور ہفتہ کے دن ان پر شکار کرنا حرام تھا کہ یہ جان لیا جائے کون نافرمانی کرتا اور کون فرمانبرداری کرتا ہے۔ ان میں لوگ تین قسم کے تھے۔ ایک قسم ان لوگوں کی تھی جو (شکار کرنے سے) رک گئے اور (دوسروں کو) نافرمانی سے روکا۔ اور دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جو خود تو حرام کا ارتکاب نہیں کرتے تھے (مگر دوسروں کو نہ روکتے تھے) اور تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جو گناہ کا ارتکاب کرتے تھے اور گناہ (کرنے) پر عادی ہوگئے جب انہوں نے (اللہ کے حکم کا) انکار کیا اور سرکشی کی اس کام سے جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو منع فرمایا تھا (تو فرمایا) لفظ آیت ” قلنالہم کونوا قردۃ خاسئین “ اور قوم بندر بن گئی (جو) بھیڑئیے ان پر غرآتے تھے پس وہ مرد اور عورتیں بندر بن گئے۔ (7) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے ” خسئین “ سے مراد لیا ہے ذلیلیں یعنی ذلیل ہونے والے۔ (8) امام ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کہا کہ ” خسئین “ سے مراد ہے صاغرین یعنی حقیر۔ ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے اس کی مثل معنی نقل کیا ہے۔ (9) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فجعلنھا نکالا لما بین یدیھا “ یعنی گناہوں کی وجہ سے ” وما خلفھا “ بستیوں میں سے ” ومؤعظۃ للمتقین “ (اور نصیحت ہے) ان لوگوں کے لئے جو ان کے بعد قیامت کے دن تک ہوں گے۔ (10) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” فجعلناھا “ یعنی ان مچھلیوں کو ” نکالا لما بین یدیھا وما خلفھا “ (عبرت بنا دیا) گناہوں کی وجہ سے جو انہوں نے پہلے اور بعد میں کئے تھے۔ (11) ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” فجعلنھا “ یعنی ہم نے اس سزا کو اور وہ سزا مسخ ہونا تھا۔ ” نکالا “ یعنی عقوبہ (سزا) ” لما بین یدیھا “ تاکہ وہ ان کے بعد والے میری سزا سے ڈریں ” وما خلفھا “ یعنی ان لوگوں کے لیے جو ان کے ساتھ باقی بچ گئے تھے ” وموعظۃ “ یعنی نصیحت اور عبرت ہے متقین کے لیے۔ (12) عبد بن حمید نے سفیان (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” نکالا لما بین یدیھا وما خلفھا “ سے مراد گناہ ہیں ” وموعظۃ للمتقین “ یعنی محمد ﷺ کی امت کے لیے (نصیحت ہے)
Top