Dure-Mansoor - Al-Baqara : 67
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا١ؕ قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ نے لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ تعالیٰ يَاْمُرُكُمْ : حکم دیتا ہے تم کو اَنْ : یہ کہ تَذْبَحُوْا : تم ذبح کرو بَقَرَةً : ایک گائے قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَتَتَّخِذُنَا : کیا تم کرتے ہو ہم سے ھُزُوًا : مذاق قَالَ : اس نے کہا ( موسیٰ ) اَعُوْذُ : میں پناہ مانگتا ہوں بِاللّٰهِ : اللہ کی (اس بات سے اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں ہوجاؤں مِنَ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہلوں میں سے
اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے بیشک اللہ تم کو حکم فرماتا ہے کہ تم ایک بیل ذبح کرو، وہ کہنے لگے کیا تو ہمارا مذاق بناتا ہے ؟ موسیٰ نے کہا میں اس بات سے اللہ کی پناہ لیتا ہوں کہ جاہلوں میں سے ہوجاؤں
(1) ابن ابی الدنیا نے اپنی کتاب (من عاش بعد الموت) میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل کے دو شہر تھے ان میں سے ایک حصینہ تھا جس کے دروازے تھے اور دوسرا خربہ تھا حصینہ والے جب شام ہوتی تو اس کے دروازے بند کردیتے اور جب صبح ہوتی تو شہر کی دیواروں پر کھڑے ہو کر دیکھتے کیا اس شہر کے ارد گرد کوئی حادثہ تو پیش نہیں آیا ایک دن صبح کو دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی قتل کیا ہوا ان کے شہر کی دیوار کے ساتھ پڑا ہوا ہے خربہ شہر والے ان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے ہمارے آدمی کو قتل کیا ہے۔ اور ان کا نوجوان بھتیجا اس پر رونے لگا اور کہہ رہا تھا کہ تم نے میرے چچا کو قتل کردیا حصینہ والے کہنے لگے اللہ کی قسم ہم نے اپنے شہر کو نہیں کھولا جب سے ہم نے اس کو بند کیا اور تمہارے اس ساتھی کے خون کا ہمارے پاس کوئی ذمہ دار نہیں (اس کے بعد) وہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی کہ لفظ آیت ” ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ “ سے لے کر ” فذبحوھا وما کادوا یفعلون “ (پھر) فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک نوجوان لڑکا تھا جو اپنی دکان پر خریدو فروخت کرتا تھا اس کا ایک بوڑھا باپ تھا ایک آدمی دوسرے شہر سے سودا لینے کے لیے اس کے پاس آیا اور اس کو پیسے دئیے۔ وہ نوجوان اس کے ساتھ چلا تاکہ اپنی دکان کھول کر اس آدمی کو سامان دے لیکن دکان کی چابی اس کے پاس تھی اور اس کا والد دکان کے سائے میں سو رہا تھا اس آدمی نے کہا اس کو جگا دو اس کے لڑکے نے کہا وہ سو رہا ہے میں اس کو نیند سے جگانا ناپسند کرتا ہوں اور دونوں چلے آئے اور اس آدمی نے لڑکے کو دوگنے پیسے دئیے اس شرط پر کہ وہ والد کو جگا دے مگر لڑکے نے انکار کردیا سامان لینے والا چلا گیا۔ وہ بوڑھا (جب) جاگا تو اس کے لڑکے نے کہا اے میرے باپ اللہ کی قسم ایک آدمی اتنا تنا سامان خریدنے آیا تھا اور اس نے اتنی اتنی قیمت دی تھی۔ لیکن میں نے آپ کو نیند سے جگانے کو ناپسند کیا۔ (اس پر) شیخ نے ملامت کی اللہ تعالیٰ نے اس لڑکے کو اپنے والد کے ساتھ ایسا حسن سلوک کرنے پر وہ بچھڑی عطا فرما دی تھی جس کو بنی اسرائیل ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ لوگ اس کے پاس آئے اور کہنے لگے اس (بچھڑی) کو ہمارے ہاتھ بیچ دو لڑکے نے کہا میں نہیں بیچوں گا کہنے لگے تب تو ہم تجھ سے لیں گے۔ وہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے انہوں نے فرمایا تم لوگ جاؤ اور اس کو کچھ سامان پر راضی کرلو۔ کہنے لگے آپ کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا میرا حکم یہ ہے کہ ترازو کے ایک پلڑے میں بچھڑے کو رکھو اور دوسرے پلڑے میں سونا رکھو۔ جب سونا زیادہ ہوجائے گا تو میں وہ لے لوں گا۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا گائے کو لے کر چلے یہاں تک کہ اس (مقتول) شیخ کی قبر تک پہنچ گئے۔ (وہاں) دونوں شہروں کے لوگ اکٹھے ہوئے اس گائے کو ذبح کیا اور اس گائے کے گوشت کے ٹکڑے کو قبر پر مارا شیخ اپنے سر کو جاڑتے ہوئے اٹھ بیٹھا اور کہنے لگا کہ بھتیجے نے مجھے قتل کیا (کیونکہ) میری عمر لمبی ہوگئی اور اس نے میرے لئے مال کو لینے کا ارادہ کیا اس کے بعد وہ (دوبارہ) مرگیا۔ بنی اسرائیل میں ایک قتل (2) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں عبیدہ سلمانی (رح) نے روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ ایک آدمی بنی اسرائیل میں بانجھ تھا جس کی اولاد نہ تھی اور اس کے پاس بہت مال تھا اس کا بھتیجا اس کا وارث تھا۔ اس نے چچا کو قتل کیا پھر رات کے وقت اٹھا کر ایک آدمی کے دروازہ پر ڈال دیا پھر صبح کے وقت ان پر (قتل کا) دعویٰ کردیا یہاں تک کہ (آپس میں) انہوں نے اسلحہ اٹھالیا اور ایک دوسرے پر (لڑنے کے لیے تیار ہوگئے) ان میں صاحب عقل لوگوں نے کہا (کس لئے تم) ایک دوسرے کو قتل کرو گے حالانکہ یہ اللہ کے رسول تم میں موجود ہیں ؟ تو وہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے اور انہوں نے یہ واقعہ ان کو بتایا انہوں نے فرمایا لفظ آیت ” ان اللہ یامرکم ان تذبحوا بقرۃ، قالوا اتتخذنا ھزوا، قال اعوذ باللہ ان اکون من الجھلین “ راوی فرماتے ہیں کہ اگر وہ اعتراض نہ کرتے تو ان کی طرف سے معمولی گائے بھی کافی ہوجاتی لیکن انہوں نے شدت اختیار کیا تو ان پر سختی کردی گئی یہاں تک کہ اس گائے کہ طرف پہنچے جس کے ذبح کرنے کا ان کو حکم دیا گیا تھا انہوں نے اس گائے کو ایسے آدمی کے پاس پایا جس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی گائے نہ تھی گائے کا مالک کہنے لگا اللہ کی قسم اس گائے کی کھال کو سونے سے بھر دینے سے (اس کی قیمت) کم نہیں لوں گا۔ پھر (انہوں نے خرید کر) اس کو ذبح کیا۔ اس کے گوشت کے بعض حصے کو اس مقتول (کے جسم) سے مارا۔ تو وہ (زندہ ہوکر) کھڑا ہوگیا انہوں نے اس سے پوچھا تجھے کس نے قتل کیا ؟ اس نے کہا اس بھائی کے بیٹے نے پھر وہ مرگیا اس کے مال میں سے (اس کے بھتیجے کو) کچھ نہیں دیا گیا۔ اور اس کے بعد قاتل کو (مقتول کے مال کا) وارث نہیں بنایا جاتا۔ (3) امام عبد الرزاق نے عبیدہ (رح) سے روایت کیا کہ سب سے پہلے جو فیصلہ کیا گیا کہ وہ بنی اسرائیل کے ایک شخص کے متعلق تھا کہ قاتل وارث نہیں ہوگا۔ (4) ابن ابی شیبہ نے ابن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ سب سے پہلا قاتل جس کو میراث سے روک دیا گیا وہ اس گائے والا تھا۔ (5) ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں بنی اسرائیل میں ایک بوڑھا آدمی بہت مال دار تھا اس کے بھائی کے بیٹے غریب تھے۔ جن کے پاس کچھ بھی مال نہ تھا اور اس بوڑھے آدمی کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس کے یہ بھائی کے بیٹے ہی اس کے وارث بنتے تھے۔ وہ کہتے تھے کاش کہ ہمارا چچا مرجاتا تو ہم اس کے مال کے وارث بن جاتے۔ جب ان پر مدت لمبی ہوگئی کہ وہ نہ مرا تو ان کے پاس شیطان آیا اور کہنے لگا کیا تم سے یہ نہیں ہوسکتا کہ تم اپنے چچا کو قتل کر دو اور اس کی دیت کا مطالبہ دوسرے شہر والوں سے کرو اور یہ اس وجہ سے کہ وہاں دو شہر تھے۔ ان دونوں میں سے ایک میں یہ لوگ رہتے تھے جن میں اگر کوئی قتل کرکے دونوں شہروں کے درمیان پھینکا جاتا تو اس مقتول اور دونوں شہروں کے درمیان کی جگہ کی پیمائش کی جاتی جس کے قریب وہ پایا جاتا اس پر دیت لازم کردی جاتی۔ اور جب شیطان نے ان کو اس پر آمادہ کرلیا تو وہ (اس کے قتل کرنے پر) تیار ہوگئے اور انہوں نے اس کو قتل کردیا۔ پھر اس کو ایک شہر کے دروازہ پر پھینک دیا جس کے ساتھ ان کا اپنا تعلق نہیں تھا جب شہر والوں نے صبح کی تو اس (مقتول) بوڑھے کے بھائی کے بیٹے آئے اور کہنے لگے ہمارے چچا کو تمہارے شہر کے دروازہ پر قتل کردیا گیا اللہ کی قسم ہم تم سے ضرور دیت لیں گے شہر والوں نے کہا ہم اللہ کی قسم کھاتے ہیں ہم نے قتل نہیں کیا اور ہم قاتل کو بھی نہیں جانتے۔ ہم نے اپنے شہر کا دروازہ نہیں کھولا جب سے ہم نے بند کیا ہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی اس پر وہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس گئے حضرت جبرائیل ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ ان سے کہہ دو لفظ آیت ” ان اللہ یأمرکم ان تذبحوا بقرۃ “ (انہوں نے گائے ذبح کی) اور اس کے گوشت کے بعض حصے کو اس مقتول کے جسم سے لگایا (تو مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے قاتل کا بتایا) ۔ بنی اسرائیل کی مسجد کا ذکر (6) سفیان بن عینیہ (رح) نے حضرت عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ بنی اسرائیل کی ایک مسجد تھی جس کے بارہ دروازے تھے ہر قبیلہ کے لیے ایک دروازہ تھا جس سے وہ داخل ہوتے تھے اور باہر نکلتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک قبیلہ کے دروازہ پر ایک مقتول پایا گیا جس کو ایک قبیلہ کے دروازے پر قتل کرکے گھسیٹ کر دوسرے قبیلہ کے دروازہ پر ڈال دیا گیا تھا۔ اس (مقتول) کے بارے میں قبیلہ والے آپس میں لڑنے لگے۔ ایک قبیلہ والوں نے کہا کہ ہم نے اس کو قتل نہیں کیا ہے اور دوسرے نے کہا بلکہ تم نے اس کو قتل کرکے گھسیٹ کر ہماری طرف ڈال دیا ہے۔ دونوں فریق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جھگڑا لے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ لفظ آیت ” ان اللہ یامرکم أن تذبحوا بقرۃ “ (کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ تم کو ایک گائے کے ذبح کرنے کا حکم فرماتے ہیں) وہ لوگ کہنے لگے لفظ آیت ” قالوا ادع لنا ربک یبین لنا ماھی، قال انہ یقول انھا بقرۃ لا فارض ولا بکر، عوان بین ذلک “ (یعنی کہنے لگے پوچھ اپنے رب سے کہ بیان فرما دے ہمیں کہ وہ کیسی (گائے) ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے نہ بوڑھی ہو اور نہ بیاہی۔ ان دونوں کے درمیان ہو راوی نے کہا کہ وہ لوگ اس کو ڈھونڈنے چلے گئے گویا کہ یہ (حکم) ان پر مشکل پڑگیا پھر وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف واپس آئے۔ اور کہنے لگے لفظ آیت ” ادع لنا قالوا ادع لنا ربک یبین لنا ماہی “ سے لے کر ” وانا انشاء اللہ لمھتدون “ تک (ہمارے لئے اپنے رب سے دعا فرما دیجئے کہ ہم کو یہ بیان فرمادیں کہ وہ گائے کس طرح کی ہو اور ہم انشاء اللہ ٹھیک پتہ لگالیں گے) اور اگر وہ انشاء اللہ نہ کہتے تو اس (گائے) کو نہ پاتے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ گائے ایسی ہو کہ محنت کرنے والی نہ ہو اور وہ گائے اس دن تین دینار کی تھی اور وہ اس سے تھوڑی قیمت والی بھی لے کر ذبح کرلیتے تو ان کو کافی ہوجاتا لیکن انہوں نے سختی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی سختی کردی۔ وہ لوگ اس گائے کو تلاش کرنے لگے تو انہوں نے اس مذکورہ صفات والی گائے ایک آدمی کے پاس پائی۔ اور اس سے کہا اس گائے کو ہمارے پاس بیچ دے اس نے کہا میں اس کو بیچ دوں گا کہنے لگے اس کو کتنے میں بیچے گا ؟ اس نے کہا سو دینار میں کہنے لگے کہ یہ گائے تو تین دینار کی ہے۔ انہوں نے اس کو (اس قیمت پر) لینے سے انکار کردیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس آئے کہنے لگے کہ ہم نے اس (گائے) کو ایک آدمی کے پاس پایا ہے۔ اس آدمی نے کہا کہ میں سو دینار سے کم نہیں کروں گا حالانکہ وہ گائے تین دینار کی ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اس کا مالک ہی اس کے متعلق بہتر جانتا ہے۔ اگر چاہے بیچ دے اگر چاہے نہ بیچے۔ وہ لوگ پھر اس آدمی کے پاس لوٹ کر آئے اور کہنے لگے کہ ہم نے اس (گائے) کو سو دینار میں لے لیا ہے۔ اس نے کہا میں اس کی قیمت دو سو دینار سے کم نہیں کروں گا۔ کہنے لگے سبحان اللہ تو نے ہم کو سو دینار کے بدلہ میں بیچی تھی اور تو (اس قیمت پر) راضی ہوگیا تھا سو ہم نے اس کو (اس قیمت پر وہ لے لی گی اس آدمی نے کہا کہ میں دو سو دینار سے کم نہیں کروں گا۔ نہوں نے اس کو چھوڑ دیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف واپس لوٹ گئے اور ان سے کہا کہ ہم اس کو سو دینا دے رہے تھے جب ہم اس کی طرف واپس لوٹے تو اس نے کہا کہ میں چار سو دینار سے کم نہیں لوں گا۔ کہنے لگے تو نے اس کو ہمیں دو سو دینار میں بیچی تھی اور ہم نے لے لی تھی اس نے کہا میں چار سو دینار سے کم نہیں کروں گا۔ انہوں نے اس کو چھوڑ دیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس واپس لوٹے اور کہنے لگے کہ ہم نے اس کو دو سو دینار دئیے لیکن اس نے لینے سے انکار کردیا ہے اور کہا کہ میں چار سو دینار سے کم نہیں کروں گا موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس کا مالک زیادہ جانتا ہے۔ اگر چاہے تو اس کا بیچ دے اگر چاہے نہ بیچے۔ وہ لوگ پھر اس کی طرف لوٹ آئے اور کہنے لگے کہ ہم نے اس (گائے) کو چار سو دینار میں لیتے ہیں اس نے کہا میں آٹھ سو دینار سے کم میں نہیں بیچوں گا وہ لوگ موسیٰ (علیہ السلام) اور اس آدمی کے پاس بار بار لوٹتے رہے جب بھی وہ اس آدمی کے پاس واپس آئے تو وہ ان کے لیے دگنی قیمت کردینا یہاں تک کہ اس نے کہہ دیا کہ میں اس کو نہیں بیچوں گا مگر اس کی کھال سونے سے بھر کر۔ انہوں نے (اس قیمت پر) اس کو خرید لیا اور اس کو ذبح کیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس کے بعض گوشت کو اس لاش کے ساتھ لگاؤ انہوں نے گائے کو ذبح کرکے اس کی ران کو گوشت میت کو مارا تو وہ زندہ ہوگیا اور کہا کہ فلاں نے مجھے قتل کیا ہے۔ وہ (قاتل) ایک (ایسا) آدمی تھا جس کا چچا مالدار تھا اس کی ایک بیٹی تھی بھتیجے نے کہا کہ میں اپنے چچا کو قتل کر دوں میں اس کے مال کا وارث بن جاؤں گا اور اس کی بیٹی سے شادی کرلوں گا۔ اس نے چچا کو قتل کردیا اور کسی چیز کا وارث نہ بنا اور قاتل کو اس وقت سے کسی چیز کا وارث نہیں بنایا جاتا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا بلاشبہ اس گائے کی بڑی شان ہے۔ اس کے مالک کو میرے پاس لاؤ انہوں نے اس کو بلایا موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا اس گائے اور اس کی شام کے بارے میں مجھے بتلاؤ اس نے کہا ہاں میں ایک آدمی تھا کہ میں بازار میں خریدو فروخت کرتا تھا۔ ایک شخص نے مجھ سے اس مال کا سودا کیا جو میرے پاس تھا۔ میں نے اسے وہ سامان بیچ دیا اور مجھے اس مال سے بہت زیادہ منافع کی امید نہ تھی پھر میں آیا تاکہ اس کو وہ مال دے دوں جو میں اس کو بیچ چکا تھا میں نے چابی کو اپنی والدہ کے سر کے نیچے پایا میں نے اس کو نیند سے جگانا پسند نہ کیا میں اس آدمی کے پاس واپس لوٹ آیا اور میں نے کہا میرے اور تیرے درمیان کوئی بیع نہیں یعنی وہ ختم ہوگئی وہ آدمی چلا گیا پھر میں گھر لوٹ آیا اور اس گائے نے میرے لئے ایک بچہ جنا۔ (یعنی میری یہ گائے پیدا ہوچکی تھی) اور اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس گائے کی محبت کو ڈال دیا سو میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ محبوب نہیں تھی اس سے کہا گیا کہ تو نے (اتنی بڑی قیمت کو) اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کی وجہ سے پایا۔
Top