Dure-Mansoor - Al-Baqara : 97
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْهِ وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں مَنْ ۔ کَانَ : جو۔ ہو عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ : جبرئیل کے دشمن فَاِنَّهُ : تو بیشک اس نے نَزَّلَهُ ۔ عَلٰى قَلْبِکَ : یہ نازل کیا۔ آپ کے دل پر بِاِذْنِ اللہِ : اللہ کے حکم سے مُصَدِّقًا : تصدیق کرنیوالا لِمَا : اس کی جو بَيْنَ يَدَيْهِ : اس سے پہلے وَهُدًى : اور ہدایت وَبُشْرٰى : اور خوشخبری لِلْمُؤْمِنِیْنَ : ایمان والوں کے لئے
ترجمہ : آپ فرما دیجئے کہ جو شخص دشمن ہو جبریل کا سو اس نے اتارا ہے قرآن تمہارے قلب پر اللہ کے حکم سے جو تصدیق کرنے والا ہے اس کتاب کی جو اس سے پہلے ہے اور ہدایت ہے اور بشارت ہے ایمان والوں کے لئے
یہود کے چار سوالات (1) مام طیالسی نے، الفریابی، احمد، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو نعیم اور بیہقی دونوں نے دلائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہود کی ایک جماعت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور کہا کہ اے ابو القاسم ہمیں چند باتوں کے بارے میں بتائیے ہم ان کے بارے میں آپ سے سوال کریں گے۔ جن کے بارے میں نبی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ آپ نے فرمایا مجھ سے پوچھ لو جو تم ثاہتے ہو لیکن مجھ کو اللہ کا ذمہ دے دو اور جو یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں سے ذمہ لیا تھا کہ اگر میں تم کو وہ باتیں بتادوں اور تم ان کو پہچان لو تو تم میری تابعداری کروگے انہوں نتے کہا ٹھیک ہے ہم عہد کرتے ہیں۔ کہنے لگے چار باتیں ہیں جن کے بارے میں ہم آپ سے پوچھیں گے۔ ہم کو بتائیے کہ تورات کے نازل ہونے سے پہلے کون سا کھانا اسرائیل نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ اور ہم کو بتائیے کہ مرد اور عورت کے پانی کے ملنے سے کس طرح لڑکی اور لڑکا پیدا ہوتے ہیں۔ اور ہم کو بتائیے کہ یہ نبی امی کی نیند میں کیا کیفیت ہوتی ہیں۔ اور فرشتوں میں سے کون اس کا دوست ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے وعدہ لیا اگر میں تم کو یہ باتیں بتلا دوں تو تم میری تابعداری کرو گے ؟ تو انہوں نے وعدہ کرلیا۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا میں تم کو اس ذات کی قسم دیتا ہوں جس نے تورات کو نازل فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اسرائیل (یعنی حضرت یعقوب علیہ السلام) بیمار ہوئے اور ان کی بیماری لمبی ہوگئی تو انہوں نے نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس بیماری سے شفاء عطا فرما دی تو میں وہ کھانا اور پینا جو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے اس کو (اپنے اوپر) حرام کرلوں گا۔ اور ان کا پسندیدہ کھانا اونٹ کا گوشت تھا اور پسندیدہ پینا اس کا دودھ تھا انہوں نے کہا اے اللہ ! ہاں ( یہ بات ٹھیک ہے) آپ نے فرمایا اے اللہ تو گواہ ہوجا۔ پھر آپ نے فرمایا میں اس ذات کی قسم دیتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں کیا تم جانتے ہو کہ مرد کا پانی سفید اور گاڑھا ہوتا ہے۔ اور عورت کا پانی زرد اور پیلا ہوتا ہے سو ان دونوں پانیوں میں سے جس کا پانی غالب ہوجائے تو اللہ کے حکم سے بچہ اس کے ہم شکل ہوتا ہے اگر مرد کا پانی غالب ہوجائے تو اللہ کے حکم سے لڑکا پیدا ہوگا۔ اور اگر عورت کا اپنی غالب ہوجائے تو اللہ کے حکم سے لڑکی پیدا ہوگی۔ انہوں نے کہا اے اللہ ! ہاں۔ (یہ بات بھی ٹھیک ہے) آپ نے فرمایا اے اللہ تو گواہ ہوجا۔ پھر آپ نے فرمایا میں تم کو اس ذات کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات کو اتارا کیا تم جانتے ہو کہ اس نبی امی کی آنکھیں سوتی ہیں اور اس کا دل نہیں سوتا کہنے لگے ! ہاں۔ (یہ بات بھی ٹھیک ہے) آپ نے فرمایا اے اللہ ان پر گواہ ہوجا۔ کہنے لگے اب آپ ہم سے یہ بیان فرمائیں کہ فرشتوں میں سے آپ کا کون دوست ہے پس اس وقت ہم آپ کی تابعداری کریں گے یا ہم آپ سے جدائی اختیار کرلیں گے۔ آپ نے فرمایا میرا دوست جبرئیل ہے اللہ تعالیٰ نے کبھی کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کا وہی (یعنی جبرئیل) دوست ہوتا ہے کہنے لگے پھر تو ہم آپ سے جدائی اختیار کرلیں گے اگر فرشتوں میں سے اس کے علاوہ آپ کا کوئی دوست ہوتا تو پھر ہم آپ کی تابعداری کرتے اور آپ کی تصدیق بھی کرتے۔ آپ نے فرمایا کہ کس چیز نے تم کو اس بات سے منع کیا کہ تم لوگ میری تصدیق کرو ؟ کہنے لگے کہ وہ ہمارا دشمن ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” من کان عدوا لجبریل “ سے لے کر ” کانھم لا یعلمون “ تک فباو و بغضب علی غضب سو اس وجہ سے وہ غصہ پر غصہ کے مستحق ہوگئے۔ (2) امام ابن ابی شیبہ نے المصنف میں اسحاق بن راہو یہ نے اپنی سند میں، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ ایک دفعہ مقام روحا پر اترے تو لوگوں کو دیکھا کہ وہ پتھروں کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہیں آپ نے فرمایا یہ کیا ہے ؟ (کیوں دوڑے جا رہے ہو) انہوں نے کہا کہ نبی اکرم ﷺ نے ان پتھروں میں نماز پڑھی تھی۔ آپ نے فرمایا سبحان اللہ ! رسول اللہ ﷺ اس وادی میں سوار ہو کر گزرتے پھر نماز کا وقت آجاتا تو آپ نماز پڑھ لیتے پھر آپ نے یہ (واقعہ) بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہود مجھ پر چھا گئے تھے جب میں ان کے مدرسہ میں گیا تھا انہوں نے کہا کہ تیرے ساتھیوں میں سے کوئی ایک بھی ہمارے نزدیک تجھ سے بڑھ کر عزت والا نہیں ہے اس لئے کہ تو ہمارے پاس آتا ہے میں نے کہا مجھے اللہ کی کتابوں سے تعجب ہوتا ہے کہ جس طرح بعض بعض کی تصدیق کرتی ہے کس طرح تورات فرقان (یعنی قرآن مجید) کی تصدیق کرتی ہے اور فرقان تورات کی تصدیق کرتا ہے ایک دن نبی اکرم ﷺ گرزے تو میں نے ان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم جو اپنی کتاب میں سے پڑھتے ہو کیا تم جانتے ہو کہ یہ اللہ کے رسول ہیں ؟ کہنے لگے ہاں میں نے کہا اللہ کی قسم ! تم ہلاک ہوگئے کیونکہ تم جانتے ہو کہ وہ اللہ کے رسول ہیں پھر تم تابعداری نہیں کرتے ؟ کہنے لگے ہم ہلاک نہیں ہوئے لیکن ہم نے اس سے (یعنی نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا تھا کہ آپ کے پاس پیغام نبوت کون لاتا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارا دشمن جبرئیل اس لئے کہ وہ سختی جنگ اور ہلاکت اور اسی طرح کے (احکام) لے آتا ہے میں نے پوچھا کس فرشتے سے تمہاری صلح ہے ؟ کہا میکائل سے جو بارش اور رحمت کو نازل کرتا ہے۔ میں نے کہا ان دونوں کا مرتبہ ان کے رب کے نزدیک کیسا ہے ؟ کہنے لگے ان میں سے ایک اللہ تعالیٰ کے داہنی طرف اور دوسرا بائیں جانب ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ جبرئیل کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ میکائیل سے دشمنی کرے اور نہ میکائل کے لیے یہ حلال ہے کہ وہ جبرئیل کے دشمن سے مصالحت کرے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ دونوں اور ان دونوں کا رب اس شخص سے صلح رکھتے ہیں جو ان تمام سے صلح رکھتے ہیں اور اس شخص سے جنگ کرتے ہیں جو ان سے جنگ کرتا ہے پھر میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور میں نے ارادہ کیا کہ آپ کو (اس واقعہ کی) خبر دوں جب میں آپ سے ملا تو آپ نے فرمایا کیا میں تجکھ کو وہ آیات نہ بتاؤں جو مجھ پر اتری ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیوں نہیں ضرور بتائیے آپ نے یہ (آیت) پڑھی لفظ آیت ” من کان عدوا لجبریل “ یہاں تک کہ آپ ” الکفرین “ تک پہنچے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم میں یہودیوں کے پاس سے ہو کر آپ کی خدمت میں آیا ہوں تاکہ آپ کو وہ باتیں بتاؤں جو انہوں نے مجھ سے کی ہیں اور میں نے ان سے کہا میں نے دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے ہی اپنے نبی کو بتادیا ہے (اسناد صحیح ہے لیکن شعبی نے حضرت عمر ؓ کا زمانہ نہیں پایا) ۔ (3) سفیان بن عینیہ نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ یہودیوں کے پاس آکر ان سے باتیں کیا کرتے تھے وہ کہنے لگے کہ تیرے ساتھیوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اکثر ہمارے پاس آتا ہو سو تو ہم کو یہ بات بتاؤں کہ تیرے دوست (یعنی رسول اللہ ﷺ کا ساتھی کون ہے جو ان کے پاس وحی لاتا ہے ؟ انہوں نے کہا جبرئیل کہنے لگے کہ وہ تو فرشتوں میں سے ہمارا دشمن ہے اور اگر حضور ﷺ کا ساتھی وہ ہوتا جو ہمارے نبی کا ساتھی تھا تو ہم ان کی اتباع کرلیتے حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ تمہارے نبی کا ساتھی کون تھا ؟ کہنے لگے میکائل حضرت عمر ؓ سے فرمایا فرشتوں کا کیا کام ہے۔ کہنے لگے کہ جبرئیل عذاب اور سزا کو لاتا ہے اور میکائیل بارش اور رحمت کو لاتا ہے اور ان دونوں میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کا دشمن ہے حضرت عمر ؓ نے فرمایا ان دونوں کا (رب کے نزدیک) کیا مرتبہ ہے ؟ کہنے لگے وہ دونوں مقرب فرشتوں میں سے ہیں اور ان میں سے ایک اس کے داہنی طرف ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ داہنے ہی ہیں اور دوسرا بائیں جانب ہوتا ہے حضرت عمر ؓ نے فرمایا اگر ان دونوں کا مرتبہ ایسا ہی ہے جیسا تم کہتے ہو تو وہ دونوں دشمن نہیں ہیں۔ پھر (حضرت عمر ؓ) ان کے پاس سے چلے گئے اور نبی اکرم ﷺ کے پاس سے گزرے تو آپ نے ان کو بلایا اور یہ آیت پڑھی۔ لفظ آیت ” من کان عدو الجبریل “ (الآیہ) حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ میں اس بات پر یہود سے جھگڑ کر آ رہا ہوں۔ یہود کی جبرائیل (علیہ السلام) سے دشمنی (4) امام ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ ایک یہود کی طرف گئے جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو خوش آمدید کہا حضرت عمر ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم میں تمہاری محبت اور تمہاری رغبت کی وجہ سے تمہارے پاس نہیں آیا بلکہ میں اس لئے آیا ہوں تاکہ میں تم سے کچھ سنوں اور انہوں نے ان سے سوالات کئے اور کہنے لگے تمہارے نبی ﷺ کا ساتھی کون ہے ؟ حضرت عمر ؓ سے ان سے فرمایا کہ جبرئیل۔ کہنے لگے وہ تو فرشتوں میں سے ہمارا دشمن ہے محمد ﷺ کو ہمارے راز بتاتا ہے اور جب آتا ہے تو جنگ اور قحط سالی لے کر آتا ہے۔ لیکن ہمارا دست میکائل ہے وہ جب آتا ہے تو سر سبزی اور سلامتی لے کر آتا ہے پھر حضرت عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کی طرف متوجہ ہوئے تاکہ آپ کو ان کی ناٹیں بتائیں تو ان کے پہنچنے سے پہلے یہ آیت نازل ہوچکی تھی ” من کان عدوا لجبریل “ (الآیہ) ۔ (5) امام ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ جب حضرت عمر ؓ کی زمین مدینہ منورہ کے بلند حصہ پر تھی تو وہ وہاں آیا کرتے تھے اور ان کا گزر یہودیوں کے مدارس پر ہوتا تھا جب کبھی وہ ان کے پاس سے گرزتے تو ان سے (باتیں) سنتے ایک دن جب وہ اس کے پاس سے گرزے تو ان سے فرمایا کہ میں تم کو رحمن کی قسم دیتا ہوں جس نے تورات کو موسیٰ (علیہ السلام) پر طور سینا میں نازل فرمایا کیا تم اپنے پاس محمد ﷺ کا تذکرہ پاتے ہو کہنے لگے ہاں ہم ان کا تذکرہ (اپنے پاس لکھا ہوا) پاتے ہیں لیکن فرشتوں میں سے ان کا ساتھی جو ان کے پاس وحی لاتا ہے وہ جبرئیل ہے اور جبرئیل ہمارا دشمن ہے وہ ہر عذاب، قتال اور زمین میں دھنسائے جانے جیسے احکام لے کر آتا ہے اگر ان کا ساتھی میکائل ہوتا تو ہم ضرور اس پر ایمان لے آتے کیونکہ میکائیل رحمت اور بارش لاتا ہے حضرت عمر ؓ نے فرمایا جبرئیل کا اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا مرتبہ ہے ؟ کہنے لگے کہ جبرئیل اللہ کی داہنی طرف میکائیل اللہ کی بائیں طرف حضرت عمر ؓ فرمایا کہ میں تم کو گواہ بناتا ہوں جو شخص داہنی طرف والے کا دشمن ہے تو بائیں طرف والا بھی اس کا دمن ہے اور جو شخص بائیں طرف والے کا دشمن ہے تو داہنی طرف ولا بھی اس کا دشمن ہے اس لئے جو ان دونوں کا دشمن ہے وہ اللہ تعالیٰ کا بھی دشمن ہے پھر حضرت عمر ؓ لوٹ آئے تاکہ نبی اکرم ﷺ کو اس بات کی خبر دیں لیکن انہوں نے جبرئیل (علیہ السلام) کو پایا کہ وہ وحی کے ساتھ ان سے پہلے پہنچ چکے تھے نبی اکرم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو بلایا اور ان پر یہ آیت پڑھی۔ لفظ آیت ” قل من عدوا لجبریل “ (یہ سن کر) عمر ؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں آپ کے پاس ارادے سے آیا تھا تاکہ آپ کو خبر دوں (لیکن آپ نے مجھے پہلے ہی بتادیا) ۔ (6) امام ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے عبد الرحمن بن ابی یعلی (رح) سے روایت کیا کہ ایک یہودی حضرت عمر ؓ سے ملا اور کہا کہ جس جبرئیل کا تذکرہ تیرا ساتھی (محمد ﷺ کرتا ہے وہ ہمارا دشمن ہے حضرت عمر ؓ نے فرمایا لفظ آیت ” من کان عدوا للہ وملئکتہ ورسلہ وجبریل ومیکل فان اللہ عدو للکفرین “ راوی نے فرمایا کہ (یہ آیت) حضرت عمر ؓ کی زبان پر نازل ہوئی اور ابن جریر (رح) نے اس بات پر اجماع کو نقل کیا ہے کہ اس آیت کا سبب نزول یہی ہے۔ عبداللہ بن سلام ؓ کے سوالات (7) امام ابن ابی شیبہ، احمد، عبد بن حمید، بخاری، نسائی، ابو یعلی، ابن حبان نے دلائل میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے نبی اکرم ﷺ کی تشریف آوری کا سنا جبکہ وہ ایک زمین پر موسم خریف گزار رہے تھے۔ نبی اکرم ﷺ کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا میں آپ سے تین سوال پوچھتا ہوں جن کے بارے میں نبی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا قیامت کی پہلی نشانیاں کیا ہیں۔ اہل جنت کا پہلا کھانا کیا ہوگا ؟ اور بچہ اپنے باپ یا اپنی ماں کا مشابہ (کیوں) ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے ابھی ابھی جبرئیل نے ان کے بارے میں بتایا ہے (عبد اللہ) کہنے لگے جبرئیل نے بتایا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں انہوں نے کہا کہ وہ تو ملائکہ میں سے یہود کا دشمن ہے تو آپ نے یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” من کان عدوا لجبریل فانہ نزلہ علی قلبک “ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے پہلی وہ آگ ہوگی جو مشرق سے نکلے گی اور لوگوں کو مغرب کی طرف اکٹھا کرلے گی اور اہل جنت کا پہلا کھانا مچھلی کے جگر کے ٹکڑے ہوں گے اور جو بچہ اپنے ماں باپ (کہ شکل) پر پیدا ہوتا ہے تو جن مرد کا پانی عورت کے پانی پر سبقت لے جاتا ہے تو بچہ بات کی مشابہ پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا پانی مرد کے پانی پر سبقت لے جاتا ہے تو بچہ عورت کے مشابہ پیدا ہوتا ہے۔ عبد اللہ بن سلام ؓ نے یہ جواب سن کر کہا ” اشھد ان لا الہ الا اللہ وانک رسول اللہ “ (8) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ “ یعنی جبرئیل (علیہ السلام) نے قرآن مجید کو اللہ کے حکم سے اتارا اور اس پر آپ کے دل کو مضبوط کردیا اس کے ذریعہ آپ کے دل کو (گویا) باندھ دیا ” مصدقا لما بین یدیہ “ یعنی یہ قرآن تصدیق کرنے والا ہے اس سے پہلے ان کتابوں کی جن کو اللہ تعالیٰ نے اتارا اور وہ آیات اور وہ رسول جو اللہ تعالیٰ نے (آپ سے پہلے) مبعوث فرمائے۔ (9) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” مصدقا لما بین یدیہ “ یعنی تورات اور انجیل کی تصدیق کرنے والوں کے لیے خوشخبری بنایا اس لئے کہ مؤمن جب قرآن کو سنتا ہے تو اس کو یاد کرتا ہے اس کو ذہن میں رکھتا ہے اس سے نفع اٹھاتا ہے اور اس سے اطمینان پکڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کی تصدیق کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس میں فرمائے۔ اور وہ اس پر یقین کرنے والا ہوتا ہے۔ (10) ابن جریر نے عبید اللہ مکی (رح) سے روایت کیا اور وہ قریش کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے یہودیوں سے فرمایا کہ میں تم سے تمہاری اس کتاب کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کو تم پڑھتے ہو کیا تم اس میں پاتے ہو جو میرے بارے میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بشارت دی تھی کہ تمہارے پاس وہ رسول آئے گا جس کا نام احمد ہوگا ؟ کہنے لگے ” اللہم “ ہم نے آپ کو اپنی کتاب میں پایا ہے لیکن ہم آپ کو ناپسند کرتے ہیں کیونکہ آپ مالوں کو حلال کرلیتے ہیں اور خونوں کو بہاتے ہیں (اس پر) اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” من کان عدوا للہ وملئکتہ ورسلہ “ (الآیہ) وأما قولہ تعالیٰ : ” وجبریل ومیکل “۔ (11) امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جبرئیل جیسے تیرا کہنا عبد اللہ۔ جبر کا معنی عبد (اور) وائل کا معنی اللہ۔ (12) ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الشعب میں الخطیب نے المتفق والمفترق میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جبرائیل کا معنی ہے عبد اللہ اور میکائل سے مراد عبید اللہ ہے اور ہر نام جس میں ایل ہے عبد اللہ کے معنی میں ہے۔ (13) امام دیلمی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جبرئیل کا نام عبد اللہ ہے اور اسرافیل کا نام عبد الرحمن ہے۔ (14) امام ابن جریر اور ابو الشیخ نے العظمہ میں علی بن حسین (رح) سے روایت کیا کہ جبرئیل کا نام عبد اللہ ہے اور میکائیل کا نام عبد اللہ ہے اور اسرافیل کا نام عبد الرحمن ہے اور ہر چیز جو ایل کی طرف راجع ہے وہ اللہ عزوجل کی عبادت کرنے والی ہے۔ (15) امام ابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ جبرئیل کا نام عبد اللہ ہے، میکائیل کا نام عبد اللہ ہے اور ایل سے مراد اللہ تعالیٰ ہیں اور یہ ان کا فرمانا لفظ آیت ” لا یرقبون فی مؤمن الا ولاذمۃ “ یعنی وہ لوگ اللہ کا لحاظ نہیں کرتے۔ (16) امام ابو عبید اور ابن المنذر نے یحییٰ بن یعمر (رح) اس کو جبرال پڑھا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ” جب “ سے مراد عبد ہے اور ” ال “ سے مراد اللہ تعالیٰ ہیں۔ (17) امام وکیع نے علقہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ جبرائیل اور میکائیل دونوں الفاظ کو مشقلہ پڑھا کرتے تھے (یعنی تشدید کے ساتھ) ۔ (18) امام وکیع اور ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ جبر سے مراد عبد، وایل سے مراد اللہ تعالیٰ (اس طرح) میک سے مراد عبد و ایل سے مراد اللہ تعالیٰ (اسی طرح) اسراف سے مراد عبد اور وایل سے مراد اللہ تعالیٰ ۔ (19) امام طبرانی، ابو الشیخ (العظمہ میں) بیہقی نے الشعب میں حسن سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اس درمیان کہ رسول اللہ ﷺ تشریف فرماتے اور ان کے ساتھ جبرئیل (علیہ السلام) سرگوشی فرما رہے تھے اچانک آسمان کا ایک کنارہ پھٹا جبرئیل (علیہ السلام) اس طرف متوجہ ہوئے۔ جبرئیل اپنے آپ کو پست کرنے لگے اور اکٹھے ہونے لگے یہاں تک کہ وہ زمین کے قریب ہوگئے (اور) اچانک وہ فرشتہ مشابہ (بن کر) رسول اللہ ﷺ کے سامنے آگیا اور کہنے لگا اے محمد ﷺ آپ کا رب آپ کو سلام کہتا ہے اور آپ کو اس بات میں اختیار دیتا ہے کہ آپ بنی اور بادشاہ بن جائیں یا نبی اور بندہ بن جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری طرف جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ آپ تواضع اختیار کریں میں نے پہچان لیا کہ وہ مجھ کو نصیحت کر رہے ہیں میں نے کہا کہ میں عبد اور نبی (بننا چاہتا) ہوں (یہ جواب سن کر) وہ فرشتہ آسمان کی طرف چڑھ گیا میں نے کہا اے جبرئیل ! میں نے اس (فرشتہ) کے بارے میں پوچھنے کا ارادہ کیا تھا مگر میں نے تیری حالت دیکھی تو مجھ سے سوال نہ کیا یہ (فرشتہ) کون تھا ؟ جبرائیل نے کہا یہ اسرافیل تھا جس دن سے اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا فرمایا ہے یہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہے اور تیزی نہیں اٹھاتا۔ اس کے اور رب کے درمیان ستر نور ہیں جو بھی کوئی نور اس کے قریب ہوتا ہے پھٹ جاتا ہے۔ اس کے آگے لوح محفوظ ہے جب اللہ تعالیٰ آسمان یا زمین میں کسی چیز کا حکم فرماتے ہیں تو یہ لوح اوپر اٹھ جاتی ہے یہ اپنی پیشانی کو اٹھاتا ہے اور اس میں سے دیکھ لیتا ہے۔ اگر میرے متعلق کام ہوتا ہے تو مجھے حکم فرما دیتے ہیں اگر میکائیل کے متعلق کام ہوتا ہے تو اسے حکم فرما دیتے ہیں اگر ملک الموت کے متعلق کام ہوتا ہے تو اسے حکم فرما دیتے ہیں میں نے پوچھا اے جبرائیل تو کس چیز پر مامور ہے ؟ کہنے لگے ہواؤں اور لشکروں پر بھر میں نے پوچھا میکائیل کس چیز پر مامور ہے ؟ کہنے لگے کھیتوں اور بارش پر پھر میں نے پوچھا ملک الموت کس چیز پر مامور ہے ؟ کہنے لگے جانوں کو قبض کرنے پر اور میرا گمان تھا کہ وہ (اب) قیامت کے قائم ہونے پر اترے گا جو آپ نے اس کی آمد کے وقت میری کیفیت دیکھی تھی اس کی وجہ قیامت کے دن قائم ہونے کا خوف تھا۔ ملائکہ میں افضل جبرائیل امین ہیں (20) امام طبرانی نے ضعیف سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا میں تم کو ملائکہ میں سے سب سے افضل ترین کے بارے میں نہ بتاؤں اور وہ جبرائیل ہیں۔ نبیوں میں افضل ” آدم “ ہیں دنوں میں سے افضل ” جمعہ “ کا دن ہے مہینوں میں سے افضل ” رمضان “ کا مہینہ ہے۔ راتوں میں سے افضل ” لیلۃ القدر “ ہے اور عورتوں میں سے افضل عورت ” مریم بنت عمران “ ہے۔ (21) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے العظمہ میں عبد العزیز بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ فرشتوں میں جبرائیل کا نام اللہ تعالیٰ کا خادم ہے۔ (22) امام ابو نعیم نے الحلیہ میں عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ میرے رب عزوجل جب مجھے کسی چیز پر بھیجتے ہیں تاکہ وہ کام کروں تو میں تقدیر کو دیکھتا ہوں کہ وہ مجھ سے سبقت لے چکی ہوتی ہے۔ (23) ابو الشیخ نے موسیٰ بن عائشہ (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ جبرائیل آسمان والوں کے امام ہیں۔ (24) ابو الشیخ نے عمروبن مریم (رح) سے روایت کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) جنوب کی ہوا پر مامور ہیں۔ (25) بیہقی نے الشعب میں ثابت (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو لوگوں کی ضرورت پر مقرر فرمایا ہے جب مؤمن دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کی ضرورت کو روک دے کیونکہ میں اس کی دعا کو پسند کرتا ہوں اور جب کافر دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے جبرائیل اس کی حاجت کو جلدی پورا کر کیونکہ میں اس کی دعا کو ناپسند کرتا ہوں (26) ابن ابی شیبہ نے ثابت عبد اللہ بن عبید (رح) سے روایت کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) لوگوں کی ضرورت پوری کرنے پر مقرر کئے گئے ہیں جب مؤمن اپنے رب سے سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں روک دے روک دے۔ کیونکہ اس کی دعا کی زیادتی مجھے محبوب ہے۔ اور جب کافر سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس کو دے دو ۔ اس کو دے دے اس کی دعا کو ناپسند کرتے ہوئے۔ (27) امام بیہقی اور الصابونی نے المائین میں جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جبرائیل کو بندوں کی حاجات پر مقرر فرمایا گیا جب مؤمن دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے جبرائیل میرے بندے کی حاجت کو روک دے۔ کیونکہ میں اس کو اور اس کی آواز کو پسند کرتا ہوں اور جب کافر دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے جبرائیل میرے بندے کی حاجت کو پورا کر کیونکہ اس کو اور اس کی آواز کو ناپسند کرتا ہوں۔ (28) امام ابو الشیخ نے العظمہ میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا کہ میں اس بات کی خواہش رکھتا ہوں کہ میں تجھ کو تیری صورت میں دیکھوں انہوں نے کہا اور آپ اس کو پسند فرماتے ہیں آپ نے فرمایا ہاں۔ جبرائیل نے عرض کیا آپ کے ساتھ فلاں رات کو وعدہ ہے بقیع غرقد کے پاس رسول اللہ ﷺ ان سے ملے انہوں نے اپنے پروں میں ایک پر کو پھیلایا تو آسمان کی فضا بند ہوگئی یہاں تک کہ آسمان میں سے کچھ بھی نظر نہ آتا تھا۔ (29) امام احمد اور ابو الشیخ نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے جبرائیل کو اترتے ہوئے دیکھا جس نے مشرق اور مغرب کو بھر رکھا تھا ان پر عمدہ ریشمی کپڑا تھا جس پر موتی اور یاقوت جڑے ہوئے تھے۔ (30) ابو الشیخ نے شریح بن عبید (رح) سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ جب آسمان کی طرف چڑھے تو آپ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو اس کی شکل میں دیکھا اس کے پروں پر زبرجد موتی اور یاقوت جڑے ہوئے تھے پھر آپ نے فرمایا مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنکھوں کے سامنے سے اس نے آسمان کے کنارے کو بند کردیا ہے اور میں نے اس سے پہلے اس کو مختلف صورتوں میں دیکھا تھا اور میں نے اکثر اس کو وحیہ کلبی ؓ علیہ کی صورت میں دیکھا تھا۔ اور کبھی کبھی میں اس کو اس طرح دیکھتا ہوں جس طرح کوئی آدمی اپنے ساتھی کو چھلنی کے پیچھے دیکھتا ہے۔ (31) ابن جریر نے حذیفہ ابن جریری اور قتادہ رحمہم اللہ (تینوں حضرات) سے روایت کیا ہے اور ان کی بغاوت ایک دوسرے کی احادیث میں داخل ہیں۔ فرماتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) کے دو پر ہیں اور ان پے دئے ہوئے موتیوں سے جڑی ہوئی ایک چادر ہے اور ان کے سامنے کے دانت بجلی کی طرح چمکتے ہیں اور ان کے پیشانیاں روشن ہیں اور ان کا سر مضبوط مرجان کی طرح ہے۔ اور مرجان ایک موتی ہے گویا کہ وہ برف ہے اور ان کے دونوں قدم سبزی مائل ہیں۔ (32) امام ابو الشیخ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جبرائیل (علیہ السلام) کے دونوں کندھوں کے درمیان پانچ سو سال کا فاصل ہے اس پرندے کے لیے جو تیز اڑنے والا ہے۔ (33) ابو الشیخ نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ان سے جبرائیل (علیہ السلام) کی پیدائش کے بارے میں پوچھا گیا فرمایا یہ بات ذکر کی جاتی ہے کہ ان کے دونوں کندھوں کے درمیان (کا فاصلہ) اس کندھے سے اس کندھے تک ایک پرندے کا سات سو سال اڑنے کی مسافت ہے۔ (34) امام ابن سعد اور بیہقی نے دلائل میں عمار بن ابی عمار سے مروی ہے کہ حمزہ بن عبد المطلب ؓ کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں دکھائیے آپ نے فرمایا کہ تم اس کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ انہوں نے عرض کیا مجھے وہ ضرور دکھائیے ! آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ جبرائیل اس لکڑی پر اترے جو کعبہ میں لگائی گئی تھی اور جس پر مشرکین طواف کے وقت اپنے کپڑوں کو اس پر ڈال دیتے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے (ان سے) فرمایا اپنی نظر کو اوپر اٹھا اور دیکھ انہوں نے اپنی نظر کو اوپر اٹھایا اور ان کو دونوں قدموں کو سبز زبرجد کی طرح دیکھا تو بیہوش ہو کر گرپڑے۔ (35) امام ابن المبارک نے الزہد میں ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل سے فرمایا کہ وہ اپنی صورت دکھائے جبرائیل نے جواب دیا کہ آپ اس کو طاقت نہیں رکھتے آپ نے فرمایا کہ میں تجھے اصل شکل میں دیکھنا پسند کرتا ہوں (ایک دفعہ) رسول اللہ ﷺ چاندی رات میں عید گاہ کی طرف تشریف لے جا رہے تھے۔ جبرائیل اپنی اصل شکل میں آپ کے پاس آگئے رسول اللہ ﷺ نے جب اس کو دیکھا تو غشی طاری ہوگئی پھر افاقہ ہوا تو جبرائیل آپ کو سہارا دیئے ہوئے تھا اور ایک ہاتھ کو آپ کے سینے مبارک پر اور دوسرے ہاتھ کو آپ کے کندھوں کے درمیان رکھے ہوئے تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے مخلوق میں سے اسی طرح کی کوئی چیز نہیں دیکھی تھی جبرائیل نے فرمایا جب آپ اسرافیل کو دیکھتے تو آپ کی کیا کیفیت ہوتی اس کے بارہ پر ہیں اس میں ایک پر مشرق میں اور ایک پر مغرب میں ہے اور عرش اس کے کاندھے پر ہے اور کبھی وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے اپنے آپ کو سکیڑ لیتا ہے یہاں تک کہ وہ پوشیدہ چیز کی طرح ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے عرش پر کوئی چیز نہیں اٹھائی سوائے اللہ تعالیٰ کی عظمت کے۔ (36) امام ابن ابی داؤد نے المصاحف میں ابو جعفر (رح) سے روایت کیا کہ حضرت ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جبرائیل کی مناجات کو سنتے تھے مگر اس کو دیکھتے نہیں تھے۔ (37) حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مجھ سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جب میں نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا اور جبرائیل (علیہ السلام) کو کسی نے نہیں دیکھا مگر وہ اندھا ہوگیا مگر وہ دیکھنے والا نبی ہو لیکن یہ تیری عمر کے آخر میں ہوگا۔ (38) ابو الشیخ نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت میں ایک نہر ہے جبرائیل (علیہ السلام) اس کے اندرونی حصہ میں داخل ہو کر باہر نکلتے ہیں اور اپنے پروں کو جھاڑتا ہے تو ہر قطرہ سے اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو پیدا فرماتے ہیں۔ (39) امام ابو الشیخ نے ابو العلاء بن ہارون (رح) سے روایت کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) ہر دن نہر کوثر میں غوطہ لگاتے ہیں پھر اپنے پروں کو جھاڑتے ہیں تو ہر قطرہ میں سے ایک فرشتہ پیدا ہوتا ہے۔ جبرائیل (علیہ السلام) کی اصلی صورت و شکل (40) امام ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا بلاشبہ جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آتے ہیں جیسا کہ کوئی آدمی اپنے دوست کے پاس آتا ہے وہ ایسے سفید کپڑوں میں ملبوس ہوتا ہے جس پر موتی اور یاقوت جڑے ہوئے ہوتے ہیں اس کا سر راستے کی طرح ہے اور ان کے بال مانند مرجان کے ہیں اور ان کی رنگت برف کی طرح سفید ہے چمکتی ہوئی پیشانی ہے دانت بجلی کی طرح چمکدار ہیں اس کے اور پر دو چادریں ہیں جو موتیوں سے جڑی ہوئی ہیں اور ان کے دونوں پر سبز رنگ کے ہیں اور ان کے دونوں پاؤں سبز رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ان کی اصلی صورت ایسی ہے کہ آسمان کے کنارے کو بھر دیتی ہے۔ آپ نے (جبرائیل) سے فرمایا کہ اے روح اللہ ! میں تجھ تو تیری اصلی صورت میں دیکھنا چاہتا ہوں وہ اپنی صورت میں (اس طرح) پلٹ گئے کہ آسمان کے دونوں کناروں کو بھر دیا۔ (41) ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل سے پوچھا کیا تو نے اپنے رب کو دیکھا ہے اس نے کہا کہ میرے اور ان کے درمیان آگ یا نور کے ستر پردے ہیں اگر میں ان کو قریب سے دیکھ لو تو جل جاؤں۔ (42) امام طبرانی، ابن مردویہ اور ابو نعیم نے الحلیہ میں ایک کمزور سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ یہود میں سے ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا اللہ تعالیٰ نے آسمان کے علاوہ کسی اور چیز سے بھی اپنے آپ کو مخلوق سے چھپایا ہوا ہے آپ نے فرمایا ہاں۔ ان کے اور ان فرشتوں کے درمیان جو عرش کے اردگرد ہیں ستر پردے نور کے ہیں اور ستر پردے آگ کے ہیں، ستر پردے تاریکی کے ہیں، ستر پردے موٹے ریشم کے خیموں کے ہیں، ستر پردے باریک ریشم کے خیموں کے ہیں، ستر پردے سفید موتیوں کے ہیں، ستر پردے سرخ موتیوں کے ہیں، ستر پردے زرد موتیوں کے ہیں، ستر پردے سبز موتیوں کے ہیں، ستر پردے روشنی کے ہیں، ستر پردے برف کے ہیں، ستر پردے اولوں کے ہیں، اور ستر پردے اللہ تعالیٰ کی عظمت کے ہیں، جن کی صفت بیان نہیں کی جاسکتی (پھر) اس نے کہا مجھ کو اس فرشتہ کے بارے میں بتائیے جو ان کے قریب رہتا ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو فرشتہ قریب رہتا ہے۔ وہ اسرافیل ہے، پھر جبرائیل ہے، پھر میکائیل ہے، پھر ملک الموت ہے۔ (علیہم السلام) ۔ (43) امام احمد نے الزہد میں ابو عمران جونی (رح) سے روایت کیا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ (ایک مرتبہ) جبرائیل نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں روتے ہوئے آئے۔ آپ نے فرمایا تجھے کس چیز نے رلایا کہنے لگے مجھے کیا ہوا میں کیوں نہ روؤں ؟ اللہ کی قسم میری آنکھ خشک نہیں ہوئی جب سے اللہ تعالیٰ نے آگ کو پیدا فرمایا اس خوف کی وجہ سے کہ اگر اس کی نافرمانی کرلوں تو وہ مجھے دوزخ میں پھینک دے۔ جبرائیل (علیہ السلام) کی خشیت الٰہی (44) امام احمد نے الزہد میں رباح (رح) سے روایت کیا کہ مجھے یہ بات بیان کی گئی کہ نبی اکرم ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا کہ جب تو ہمارے پاس آتا ہے تیری آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں عرض کیا میں نہیں ہنسا جب سے اللہ تعالیٰ نے دوزخ کو پیدا فرمایا ہے۔ (45) احمد نے اپنی سند میں اور ابو الشیخ نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) سے فرمایا کہ کیا بات ہے میکائیل کو ہنستے ہوئے میں نے کبھی نہیں دیکھا ؟ انہوں نے کہا کہ میکائیل نہیں ہنسے جب سے دوزخ کو پیدا کیا گیا۔ (46) امام ابو الشیخ نے عبد العزیز بن ابی درداء (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل اور میکائیل (علیہ السلام) کی طرف نظر فرمائی وہ دونوں رو رہے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم دونوں کیوں روتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو کہ میں ظلم نہیں کرتا ؟ انہوں نے عرض کیا اے ہمارے رب ! ہم آپ کی تدبیر سے بےخوف نہیں ہیں اسی طرح دونوں نے فرمایا کیونکہ کہ میری تدبیر سے وہی بےخوف ہوتا ہے۔ خسارہ پانے والا ہوتا ہے۔ (47) امام ابو الشیخ نے اللیث کے طریق سے خالد بن سعید (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ اسرافیل (علیہ السلام) آسمان والوں کے لیے آذان دیتے ہیں ان کے بارہ گھنٹوں کے لیے بھی ہر گھنٹہ کے لیے اذان ہے۔ ان کی اذان ساتویں آسمان اور ساتویں زمین میں انسان اور جنات کے علاوہ ہر چیز سنتی ہے۔ پھر بڑے فرشتے ان کے آگے بڑھتے ہیں اور وہ سب کی امامت کراتے ہیں اور ہم کو یہ بات بھی پہنچی ہے کہ میکائیل بیت المعمور میں فرشتوں کی امامت کرتے ہیں۔ (48) حکیم ترمذی نے زید بن رفیع ؓ سے روایت کیا کہ جبرائیل میکائیل رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے جبکہ آپ مسواک فرما رہے تھے آپ نے جبرائیل کو مسواک عنایت فرمائی تو جبرائیل نے کہا بڑے کو دو تو آپ نے میکائیکل کو مسواک دی کیونکہ وہ بڑے ہیں۔ (49) ابو الشیخ نے عکرمہ بن خالد (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے کہا یارسول اللہ ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سے مخلوق زیادہ عزت والی ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نہیں جانتا جبرائیل (علیہ السلام) تشریف لائے تو آپ نے ان سے پوچھا اے جبرائیل ! کون سی مخلوق اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والی ہے ؟ انہوں نے کہا میں بھی نہیں جانتا (پھر) وہ آسمان پر چڑھ گئے پھر اتر آئے اور کہا کہ سب سے زیادہ عزت والی مخلوق اللہ تعالیٰ کے نزدیک جبرائیل میکائیل اسرافیل اور ملک الموت ہیں جبرائیل جنگ والے اور پیغمبر والے ہیں (یعنی کافروں کے خلاف جنگ کا حکم لے آنے والے ہیں اور میکائیل بارش برسانے والا اور ہر پتہ کو اگانے اور گرانے والے ہیں اور ملک الموت ہر بندہ کی روح خشک اور نرمی میں قبض کرنے پر مقرر ہیں اور اسرافیل اللہ تعالیٰ کے امین ہیں ان کے اور ان کے بندوں کے درمیان۔ قرب الٰہی فرشتوں کے لئے (50) حضرت ابو الشیخ نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ قریب مخلوق میں سے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ سے پچاس ہزار سال کے فاصلہ پر ہیں جبرائیل ان کے دائیں طرف میکائیل ان کے بائیں طرف اور اسرافیل ان دونوں کے درمیان ہے۔ (51) ابو الشیخ نے خالد بن ابی عمران (رح) سے روایت کیا کہ جبرائیل ان کے رسولوں کی طرف اللہ تعالیٰ کے امین ہیں اور میکائیل اس کتاب کو وصول کرتے ہیں جو لوگوں کے اعمال کی ہوتی ہے اور اسرافیل دربان کے قائم مقام ہیں۔ (52) امام سعید بن منصور، احمد، ابن ابی داؤد (المصاحف میں) ، ابو الشیخ نے العظمہ میں، حاکم، ابن مردویہ اور بیہقی نے البعث میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اسرافیل صور والے ہیں جبرائیل اس کی داہنی طرف ہیں اور میکائیل اس کی بائیں طرف اور وہ (یعنی اسرافیل) ان دونوں کے درمیان ہیں۔ (53) امام ابو الشیخ نے وھب (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب جبرائیل (علیہ السلام) پھر میکائیل (علیہ السلام) ہیں جب کسی بندے کے اچھے اعمال کا ذکر کیا جاتا ہے تو فرماتے ہیں کہ فلاں بن فلاں نے میری اطاعت میں سے یہ یہ عمل کیا اللہ تعالیٰ کی اس پر رحمتیں ہوں پھر میکائیل جبرائیل سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے رب نے کیا بات فرمائی ؟ وہ کہتے ہیں کہ فلاں بن فلاں کے اچھے اعمال کا ذکر فرمایا اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں پھر میکائیل سے آسمان والوں میں سے جو شخص سوال کرتا ہے کہ ہمارے رب نے کیا کہا۔ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ فلاں بن فلاں کے اچھے اعمال کا ذکر کیا گیا تو اس کے لیے دعا کرتے ہیں پس یہ سلسلہ زمین تک جاری رہتا ہے۔ اور کسی بندے کے برے اعمال کا ذکر کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے فلاں بن فلاں نے میری نافرمانی کی اس پر میری لعنت ہو پھر میکائیل و جبرائیل سے سوال کرتے ہیں کہ ہمارے رب نے کیا فرمایا وہ کہتے ہیں کہ فلاں بن فلاں کے برے اعمال کا ذکر کیا گیا اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو یہ سلسلہ ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی طرف جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ زمین تک پہنچ جاتا ہے۔ (54) امام ابو الشیخ نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آسمان میں میرے دو وزیر جبرائیل اور میکائیل ہیں اور زمین کے دو وزیر ابوبکر اور عمر ؓ ہیں۔ (55) امام طبرانی نے حسن سند کی ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے چار وزیروں سے میری مدد فرمائی دو آسمان والوں میں سے ہیں جبرائیل اور میکائیل اور دو زمین والوں میں سے ہیں ابوبکر اور عمر ؓ ۔ (56) طبرانی نے حسن سند سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آسمان میں دو فرشتے ہیں ایک ان میں سے سختی کے ساتھ حکم کرتا ہے اور دوسرا نرمی کے ساتھ حکم کرتا ہے اور ہر ایک درست حکم کرتا ہے جبرائیل اور میکائیل (علیہما السلام) ہیں اور دو ہی ہیں ایک ان میں سے نرمی کے ساتھ حکم کرتا ہے اور دوسرا سختی کے ساتھ حکم کرتا ہے اور ہر ایک حکم کرنے والا ہے۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کا ذکر کیا گیا فرمایا میرے دونوں دوست ہیں ان میں سے ایک نرمی کا حکم کرتا ہے اور دوسرا سختی کا حکم کرتا ہے۔ اور ہر ایک اپنے کام میں ٹھیک ہے اور آپ نے ابوبکر اور عمر ؓ کا ذکر فرمایا۔ (57) البزار طبرانی نے الاوسط میں اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں عبد اللہ بن عمر ؓ سے بیان فرمایا کہ ایک بڑی جماعت نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ ! ابوبکر نے گمان کیا کہ نیکیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور برائیاں بندوں کی طرف سے ہیں اور عمر ؓ نے فرمایا کہ نیکیاں اور برائیں دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں ایک قوم نے ابوبکر ؓ کے خیال کا اتباع کیا اور ایک قوم نے عمر ؓ کا اتباع کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہارے درمیان ضرور فیصلہ کروں گا۔ اسرافیل کے فیصلہ کی طرح جو انہوں نے جبرائیل اور میکائیل کے درمیان فیصلہ کیا۔ میکائیل نے ابوبکر ؓ کی طرح کہا اور جبرائیل نے عمر ؓ کی طرح کہا جبرائیل نے میکائیل سے کہا جب آسمان والے اور زمین والے اختلاف کریں گے تو ہم اسرافیل سے فیصلہ کرائیں گے سو دونوں ان کے پاس اپنا معاملہ لے گئے انہوں نے ان دونوں کے درمیان تقدیر کی حقیقت کے ساتھ فیصلہ فرما دیا کہ اس کی خبر اس کی شر اس کی مٹھاس اور اس کی کڑواہٹ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پھر فرمایا اے ابوبکر ! اللہ تعالیٰ اگر اس بات کا ارادہ فرماتے ہیں کہ ان کی نافرمانی نہ کی جائے تو ابلیس کو پیدا نہ فرماتے ابوبکر ؓ نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا۔ (58) حاکم نے ابو الملیح (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ فجر کی دو رکعت پڑھیں نبی اکرم ﷺ نے دونوں رکعتیں ہلکی پھلکی ادا فرمائیں پھر میں نے ان کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا اے اللہ ! جو رب ہیں جبرائیل میکائیل اسرافیل اور محمد ﷺ کے میں آپ سے دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں تین مرتبہ آپ نے ایسا فرمایا۔ (59) احمد نے الزہد میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ پر غشی طاری ہوگئی اور ان کا سر مبارک میری گود میں تھا میں آپ کا چہرہ مبارک پوچھنا شروع کیا اور آپ کے لیے شفا کی دعا مانگی۔ جب آپ کو افاقہ ہوگیا تو آپ نے فرمایا شفا کی دعا نہ کرو بلکہ میں اللہ تعالیٰ سے رفیق اعلیٰ کا سوال کرتا ہوں جبرائیل میکائیل اور اسرافیل (علیہم السلام) کے ساتھ۔
Top