بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Dure-Mansoor - Al-Anbiyaa : 1
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ
اِقْتَرَبَ : قریب آگیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے حِسَابُهُمْ : ان کا حساب وَهُمْ : اور وہ فِيْ غَفْلَةٍ : غفلت میں مُّعْرِضُوْنَ : منہ پھیر رہے ہیں
لوگوں کا حساب قریب آگیا اور وہ غفلت میں اعراض کئے ہوئے ہیں
دنیا کے کاموں میں مشغول ہو کر آخرت کو بھلانے کی مذمت : 1:۔ ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ (آیت ) ’ اقترب للناس حسابھم وھم فی غفلۃ معرضون “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ دنیا کے کام میں سے ہے (کہ لوگ دنیا کے کاموں میں پڑ کر غافل ہوچکے ہیں حالانکہ ان کا حساب قریب آچکا ہے۔ 2:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ’ اقترب للناس حسابھم “ یعنی لوگوں کے لئے ان کا حساب کا وقت قریب آچکا ہے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا۔ 3:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ما یاتیھم من ذکر من ربہم “ یعنی جو کچھ اتار جاتا ہے ان پر قرآن میں سے (آیت) ’ ’ لاھیۃ قلوبھم “ یعنی ان کے دل غافل ہوچکے ہیں (آیت) ” واسروا النجوی الذین ظلموا “ یعنی جو لوگ ظالم ہیں یعنی کافر ہیں وہ چپکے چپکے آپ کے خلاف سرگوشیاں کرتے ہیں۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” واسروا النجوی “ یعنی وہ آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں۔ (آیت) ” ھل ھذا الا بشرمثلکم “ اور وہ اس سے محمد ﷺ مرادلیتے تھے (آیت) ” افتاتون السحر “ یعنی وہ کہتے تھے کہ محمد ﷺ کی تابعداری (گویا) جادود کی تابعداری ہے (آیت) ” قال ربی یعلم القول “ فرمایا میرا رب غیب کو جانتا ہے (آیت) ” بل قالوا اضغاث “ یعنی جھوٹے خواب۔ 5:۔ ابن مند نے ابو نعیم نے معرفہ میں بیہقی نے سنن میں اور ابن عدی نے جندب الجبلی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ایک جادوگر کو قتل کیا تھا جو ولید بن عقبہ کے پاس تھا پھر فرمایا (آیت) ” افتاتون السحر وانتم تبصرون “۔ 6:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” بل قالوا اضغاث احلام “ احلام سے مراد خواب ہیں۔ (آیت) ” بل افتراہ بل ھو شاعر “ یعنی اس سے یہ سب کچھ ہوتا ہے (آیت) ” فلیاتنا بایۃ کما ارسل الاولون “ جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) اور دوسرے رسول معجزات لے کر آئے یہ بھی اپنی صداقت کی کوئی نشانی لے کر آئے (آیت) ” ما امنت قبلہم من قریۃ اھلکنھا “ کہ رسول جب اپنی قوموں کے پاس معجزات لے کر آئے تو وہ ایمان نہ لائے اور نہ مہلت دی۔ 7:۔ ابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ مکہ والوں نے نبی کریم ﷺ سے کہا تو جو کہتا ہے اگر وہ سچ ہے اور ہمارا ایمان لانا آپ کے لئے خوشی کا باعث ہے تو ہمارے لئے صفاپہاڑی کو سونے میں تبدیل کردے جبرائیل (علیہ السلام) آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اگر آپ چاہیں تو وہ ہوجائے گا جس کا تیری قوم نے سوال کیا ہے اگر پھر بھی وہ ایمان نہ لائے تو پھر مہلت نہیں دیئے جائیں گے اگر تو چاہے تو میں تری قوم کو مہلت دے دوں آپ نے فرمایا بلکہ میری قوم کو مہلت دیجئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت) ” ما امنت قبلہم من قریۃ اھلکنھا افھم یومنون “۔ 8:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” افھم یومنون “ یعنی کیا اب یہ لوگ اس کی تصدیق کریں گے۔ 9:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وما جعلنہم جسدا لا یاکلون الطعام “ یعنی ہم نے ان کے جسم ایسے نہیں بنائے کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے (بلکہ) ہم نے ان نے جسم ایسے بنائے کہ وہ کھانا کھاتے ہیں۔ 10:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وما کانوا خلدین “ یعنی پہلے انبیاء کے لئے بھی موت ضروری تھی کہ وہ وفات پاجائیں (آیت) ” ثم صدقنہم الوعد “ (سے لے کر) ” واھلکنا المسرفین “ تک کہ وہ مشرکین تھے (جن کو ہم نے ہلاک کردیا ) ۔ 11:۔ عبد بن حمید، ابن ابی حاتم نے ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لقد انزلنا الیکم کتبا فیہ ذکر کم “ میں ذکر کم سے مراد ہے خیرکم یعنی اس میں تمہارے لئے عزت اور شرف ہے۔ 12:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کتبا فیہ ذکر کم “ میں ذکر کم سے مراد حدیثکم یعنی تمہاری باتیں۔ 13:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کتبا فیہ ذکر کم “ میں ذکر کم سے مراد ہے ” دینکم “ یعنی تمہارا دین تمہاری کتاب میں محفوظ کردیا۔ 14:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کتبا فیہ ذکر کم “ یعنی اس میں ذکر ہے اس چیز کا جو تم چاہتے ہو اور اس میں تمہاری آخرت اور تمہاری دنیا کا کاموں کا ذکر ہے۔ 15:۔ ابن مردویہ نے کلبی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کو بھیجا حمیر (قبیلہ) میں سے جس کو شعیب کہا جاتا تھا ان کی طرف ایک غلام کو دا اور اسے ڈنڈا مارا اس قوم کی طرف بخت نصر چلا وہ ان سے لڑا اور ان کو قتل کیا یہاں تک کہ ان کا ایک فرد باقی نہ رہا ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وکم قصمنا من قریۃ کانت ظالمۃ “ سے لے کر ” خمدین “ تک۔ 16:۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید اور ابن منذر نے کلبی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وکم قصمنا من قریۃ کانت ظالمۃ “ کہ ان بستیوں سے بنوازد کے قلعے مراد ہیں۔ 17:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وکم قصمنا من قریۃ کانت ظالمۃ “ یعنی ہم نے ان کو ہلاک کیا ” لاترکضوا “ یعنی مت بھاگو ” لعلکم تسئلون “ شاید کہ تم سمجھ جاؤ۔ عذاب آنے سے پہلے توبہ کارآمد ہے : 18۔ ابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ جب وہ عذاب کو محسوس کرتے تھے اور ان سے رسول چلے جاتے تھے اس کے بعد جو انہوں نے ان کو ڈرایاس تھا تو ان لوگوں نے ان کو جھٹلادیا تھا جب رسول ان سے گم ہوگئے اور انہوں نے عذاب کو محسوس کیا اور تو ایمان کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا اور عذاب سے بھاگنے لگے ان سے کہا گیا مت بھاگو اور انہوں نے جان لیا کہ ان کے پناہ کو کوئی جگہ نہیں۔ 19:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” اذا ھم منھا یرکضون “ یعنی وہ بھاگ رہے تھے۔ 20:۔ عبدالرزاق، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وارجعوا الی ما اترفتم “ یعنی لوٹ آؤ اپنی دنیا کی طرف جس میں تم عیش میں پڑے ہوئے تھے (آیت) ” لعکم تسئلون “ یعنی شاید کہ تم سوال کئے جاؤ تمہاری دنیا کے بارے میں اور یہ ارشاد ان سے بطور مذاق کے تھا (آیت) ” فمازالت تلک دعوہم “ جب انہوں نے عذاب الہی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو پھر ان کا صرف یہی شور وغل تھا (آیت) ” انا کنا ظلمین “ (کہ ہم ہی ظالم تھے) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا۔ 21:۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وارجعوا الی ما اترفتم “ سے مراد ہے کہ تم لوٹ جاؤ اپنے گھروں اور مالوں کو۔ 22:۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) (آیت) ” فمازالت تلک دعوہم “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ قلعوں والے تھے انہوں نے اپنے نبیوں کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بخت نصر کو مسلط کردیا جس نے ان کو قتل کیا (آیت) ” حتی جعلنہم حصیدا خمدین “ یعنی فرشتوں نے تلوار کے ساتھ ان کے چہروں پر مارا یہاں تک کہ وہ اپنے گھروں کی طرف لوٹ گئے۔ 23:۔ ابن ابی حاتم نے وھب (رح) سے روایت کیا کہ محررین میں سے ایک آدمی نے مجھے بیان کیا ہے کہ یمن میں دو بستیاں ہیں ان میں سے ایک کا نام حضور تھا اور دوسرے کا نام فلانہ تھا وہ لوگ اپنے مال و دولت اور جاہ و حشمت پر اترانے لگے یہاں تک کہ انہوں نے اپنے دروازوں کو بند کرلیا جب ان کا غرور اور تکبر حد سے بڑھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ایک نبی بھیجا اس نے ان کو (اللہ کی طرف) بلایا مگر انہوں نے اس کو قتل کردیا تو اللہ تعالیٰ نے بخت نصر کے دل میں ڈالا کہ ان کے ساتھ جنگ کرے تو اس نے ان کی طرف ایک لشکر روانہ کیا کہ وہ ان سے لڑے اور اس کے لشکر کو شکست دی پھر یہ شکست کھا کر اس کی طرف لوٹے اس نے پھر ان کی طرف دوسرے لشکر کو بھیجا جو پہلے لشکر سے زیادہ اسلحہ اور سامان حرب سے لیس تھا اس نے ان کو بھی شکست دی جب بخت نصر نے یہ کیفیت دیکھی تو خود ان سے لڑا ان کو قتل کیا اور ان کو شکست دی یہاں تک کہ وہ گھروں سے نکل کر بھاگے اور انہوں نے ایک آواز لگانے والے کو سنا جو کہہ رہا تھا (آیت ) ’ ’ لا ترکضوا وارجعوا الی ما اترفتم فیہ ومسکنکم “ پس وہ لوٹے اور ایک کہنے والے کو سنا کہ وہ کہہ رہا تھا نبی کا انتقام پھر ان کو تلواروں سے قتل کیا گیا اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وکم قصمنا من قریۃ “ سے لے کر ” خمدین “ تک۔ 24:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” حتی جعلنہم حصیدا “ سے مراد ہے کہ ہم نے ان کو کاٹی ہوئی فصل کی طرح کردیا ” خمدین “ (یعنی ان کو اس طرح کردیا جیسے بجھے ہوئے کوئلے ہوتے ہیں ) 25:۔ طستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) سے مراد ہے کہ ہم نے ان کو کاٹی ہوئی فصل کی طرح کردیا ” خمدین “ کے بارے میں پوچھا کہ اس سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا اس سے مراد ہے مردہ پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس سے واقف ہیں ؟ فرمایا ہاں کیا تو نے لبید بن ربیعہ کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا : خلوا ثیابہم علی عوراتھم فھم بافنیۃ البیوت خمود : ترجمہ : ان کے پکڑے ان کی شرم گاہوں سے جدا تھے اور وہ گھروں کے صحنوں میں مردے پڑے ہوئے تھے۔
Top