Dure-Mansoor - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور تحقیق ہم نے لکھا فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد اَنَّ : کہ الْاَرْضَ : زمین يَرِثُهَا : اس کے وارث عِبَادِيَ : میرے بندے الصّٰلِحُوْنَ : نیک (جمع)
اور یہ واقعی بات ہے کہ ہم نے ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ بلاشبہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے
1:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر “ سے مراد ہے قرآن (اور) الارض سے مراد جنت کی زمین۔ 2:۔ ابن جریر نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر “ میں بالذکر سے مراد ہے کہ ہم نے قرآن میں لکھ دیا تورات کے بعد اور الارض سے مراد ہے جنت کی زمین۔ 3:۔ ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر “ میں بالذکر سے مراد ہے تورات اور بالزبور سے مراد ہے تورات کے بعد کی کتابیں۔ 4:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولقد کتبنا فی الزبور “ سے مراد ہے کتابیں اور ” من بعد الذکر “ سے مراد ہے تورات۔ توراۃ، انجیل، زبور : 5:۔ سعید بن منصور اور ابن مردویہ نے ابن عباسؓ اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اس میں الزبور سے مراد تورات، انجیل اور قرآن اور الذکر سے مراد وہ اصل ہے جس سے یہ کتابیں نقل کی گئیں اور وہ اصل آسمان و زمین میں ہے اور الارض سے جنت کی زمین مراد ہے۔ 6:۔ ھناد، عبد بن حمید، اور ابن جریر نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولقد کتبنا فی الزبور “ میں الزبور سے مراد ہے تورات، انجیل، قرآن ،” من بعد الذکر “ میں الذکر سے مراد وہ ہے جو آسمان میں ہے۔ 7:۔ عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ زبور سے مراد ہے کتابیں اور ذکر سے مراد ہے لوح محفوظ جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور زمین سے مراد ہے جنت کی زمین۔ 8:۔ ابن جریر نے ابن زید (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ زبور سے مراد وہ کتابیں جو انبیاء پر نازل ہوئیں اور ذکر سے مراد ہے ام الکتاب کہ جس میں اس سے پہلے اشیاء لکھی گئیں۔ 9:۔ فریابی، ابن جریر، اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ’ ان الارض یرثھا عبادی الصلحون “ میں زمین سے مراد ہے جنت کی زمین۔ 10:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے اس (آیت) ” ولقد کتبنا فی الزبور “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ سبحانہ نے خبر دی ہے تورات میں اور زبور میں اور ان کا علم آگے بڑھ گیا آسمانوں اور زمین کے ہونے سے پہلے کہ اللہ تعالیٰ وارث بنائے گا محمد ﷺ کی امت کو زمین کا اور انکو جنت میں داخل کرے گا اور وہ نیک لوگ ہوں گے (اور فرمایا) (آیت) ” لبلغا لقوم عبدین “ کہ اس میں عابدین سے مراد ہے عالمین یعنی جاننے والے۔ 11:۔ بیہقی نے شعب میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکران الارض یرثھا عبادی الصلحون “ سے مراد ہے جنت کی زمین اور اس کا ان لوگوں کو وارث بنائیں گے جو جماعت کے ساتھ پانچوں نمازیں پڑھتے ہیں۔ 12:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر “ میں الزبور سے مراد داود (علیہ السلام) کی کتاب ہے اور الذکر سے مراد تورات ہے (آیت) ” ان الارض یرثھا “ یعنی جنت (کی زمین ) ۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم سے عکرمہ ؓ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ 13:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے داود (علیہ السلام) کی زبور میں یہ لکھ دیا تورات کے بعد۔ 14:۔ ابن جریر نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان الارض یرثھا “ سے مراد ہے جنت۔ 15:۔ ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” ان الارض یرثھا عبادی الصلحون “ سے مراد ہے جنت اور یہ آیت پڑھی۔ (آیت) ” وقالوا الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ واورثنا الارض نتبوا من الجنۃ حیث نشآء “ (الزمر آیت 74) پھر فرمایا کہ جنت وہ ہے کہ اس کا شروع ہونا زمین میں ہے پھر اس کے درجات بلند ہیں اور آگ وہ ہے کہ اس کی ابتداء بھی زمین میں ہے اور ان کے درمیان پردہ ہے اور ایک دیوار ہے کوئی اس کو نہیں جانتا وہ دیوار کیسی ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی ” باب، باطنہ فیہ الرحمۃ وظاہرہ من قبلہ العذاب “ (الحدید آیت 12) پھر فرمایا کہ اس کے درجے نیچے چلے جاتے ہیں زمین میں اور جنت کے درجے آسمان میں اوپر چلے جاتے ہیں۔ مومنین کی روحوں کا اکٹھے ہونا : 16:۔ ابن جریر نے صفوانؓ سے روایت کیا کہ میں نے عامر بن عبداللہ ابوالیمان ؓ سے پوچھا کیا ایمان والوں کی روحیں جمع ہوں گی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ولقد کتبنا فی الزبور من بعدالذکر ان الارض یرثھا عبادی الصلحون “ یعنی اس آیت میں جب زمین کا ذکر ہے اس میں تمام مومنیں کی روحیں جمع ہوں گی یہاں تک کہ دوبارہ اٹھنا ہوگا۔ 17:۔ بخاری نے تاریخ میں اور ابن ابی حاتم نے ابودرداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ان الارض یرثھا عبادی الصلحون “ اور ہم صالحون (یعنی نیک لوگ) ہیں۔ 18۔ ابن جریر اور ابن منذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان فی ھذا لبلغا القوم عبدین “ سے مراد ہے کہ ہر ایک کے بارے میں کہا گیا بلاشبہ اس سورت میں اور اس قرآن مجید میں جو احکام ہیں وہ جنت میں داخل ہونے کا سبب ہیں۔ 19:۔ ابن جریر نے ابن زید (رح) سے (آیت) ” ان فی ھذا لبلغا القوم عبدین “ کے بارے میں فرمایا کہ اس قرآن سے البتہ نفع ہے اور علم ہے (آیت) ” لقوم عبدین “ یعنی عبادت کرنے والی قوم کے لئے اور یہ پہچانے والا ہے (جنت میں) 20:۔ ابن جریر نے کعب بن احبار ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان فی ھذا لبلغا القوم عبدین “ سے مراد محمد ﷺ کی امت ہے۔ 21:۔ ابن جریر نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان فی ھذا لبلغا القوم عبدین “ میں قوم سے مراد محمد ﷺ کی امت ہے جو رمضان کے روزے رکھتے ہیں اور پانچوں نمازیں ادا کرتے ہیں۔ 22:۔ سعید بن منصور اور ابن منذر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ان فی ھذا لبلغا القوم عبدین “ سے مراد ہے پانچوں نمازوں میں عبادت کے لئے مشغول ہونے والے۔ 23:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے یہ آیت (آیت) ” لبلغا القوم عبدین “ پڑھی اور فرمایا کہ پانچوں نمازوں کو مسجد حرام میں جماعت کے ساتھ پڑھنے والے۔ 24:۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں محمد بن کعب (رح) نے فرمایا (آیت) ” ان فی ھذا لبلغا القوم عبدین “ سے مراد ہے پانچوں نمازیں۔ 25:۔ ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے (آیت) ” لقوم عبدین “ کے بارے میں فرمایا کہ جو لوگ پانچوں نمازوں کو باجماعت کے ساتھ ہمیشہ ادا کرنے والے۔ 26:۔ قتادہ ؓ نے روایت کیا کہ (آیت) ” لقوم عبدین “ سے مراد ہے عمل کرنے والے۔ 27:۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، طبرانی اور بیہقی نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے (آیت) ” وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین “ کے بارے میں روایت کیا کہ جو ایمان لے آیا اس کے لئے رحمت پوری ہوگئی دنیا میں اور آخرت میں اور جو شخص ایمان نہیں لایا تو اسے رسول اللہ کی رحمت سے یہ حصہ ملا کہ وہ صورتیں مسخ ہونے سے اور زمین میں دھنس جانے اور پتھر برسنے جیسے عذاب سے محفوظ ہوگیا یہ عذاب پہلی امتوں کو جلدی دیئے گئئے اور وہ عذابوں سے بچالیا گیا۔ 28:۔ مسلم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ مشرکین پر بددعا کیجئے آپ نے فرمایا میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں بلاشبہ میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ 29:۔ ابونعیم نے دلائل میں ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور ہدایت بنا کر بھیجا ہے متقین کے لئے۔ رسول اللہ ﷺ کا رحمت ہونا : 30:۔ احمد ابوداود اور طبرانی نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے امت میں سے میں نے کسی آدمی کو برا بھلا کہا ہو اپنے غصے میں یا اس کو لعنت کی ہو کیونکہ میں ایک آدمی ہوں آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے میں اس طرح غصہ ہوتا ہوں جس طرح تم غصہ ہوتے ہو (اللہ تعالیٰ نے) مجھے جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور (اللہ تعالیٰ ) اس کو ( یعنی میرے برا بھلا کہنے کو اور میری لعنت کرنے کو) اس پر رحمت بنادیں گے قیامت کے دن۔ 31:۔ بیہقی نے دلائل میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ میں اللہ کی وہ رحمت ہوں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تحفہ کے طور پر عطا فرمائی ہے۔ 32:۔ عبد بن حمید نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ کہا گیا کہ یارسول اللہ ﷺ کیا آپ ان قریش پر لعنت نہیں کرتے جو (برے ارادے سے) آپ کے پاس آتے ہیں آپ نے فرمایا مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا بلاشبہ میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین “
Top