Dure-Mansoor - Al-Anbiyaa : 26
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَۙ
وَقَالُوا : اور انہوں نے کہا اتَّخَذَ : بنا لیا الرَّحْمٰنُ : اللہ وَلَدًا : ایک بیٹا سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے بَلْ : بلکہ عِبَادٌ : بندے مُّكْرَمُوْنَ : معزز
اور ان لوگوں نے کہا کہ رحمن نے بٹیا بنالیا ہے وہ پاک ہے بلکہ وہ اس کے معزز بندے ہیں
1:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ یہودیوں نے کہا اللہ عزوجل نے جنوں سے رشتہ داری قائم کی ہے اور ان کے درمیان فرشتے تھے کہ انہوں نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا اللہ تعالیٰ نے ان کو جھٹلاتے ہوئے فرمایا (آیت) ” بل عباد مکرمون “ یعنی وہ فرشتے ایسے نہیں ہیں جیسے انہوں نے کہا بلکہ وہ ایسے بندے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کی وجہ سے عزت دی (آیت) ” لا یسبقونہ بالقول “ یعنی اللہ تعالیٰ فرشتوں کی تعریف فرما رہے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بات کرنے میں سبقت نہیں لے جاتے (آیت) ” ولا یشفعون “ یعنی قیامت کے دن فرشتے سفارش نہیں کریں گے (آیت) ” لمن ارتضی “ مگر توحید والوں کے لئے (سفارش کریں گے ) ۔ 2:۔ عبد بن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لمن ارتضی “ یعنی اس شخص کے لئے (سفارش ہوگی) جس کو وہ پسند فرمائے گا۔ 3:۔ عبد بن حمید نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” لمن ارتضی “ یعنی جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہوگا۔ 4:۔ ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے بعث میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” لمن ارتضی “ سے مراد ہے وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوئے ” الا الہ الا اللہ “ کی شہادت کی وجہ سے۔ 5:۔ حاکم اور بیہقی نے بعث میں (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ (آیت) ” ولا یشفعون الا لمن ارتضی “ تلاوت کرتے ہوئے فرمایا بلاشبہ میری شفاعت میری امت میں سے بڑے گناہوں کے مرتکب لوگوں کے لئے ہے۔ جبرائیل کے خوف خدا کی کیفیت : 6:۔ ابن ابی حاتم نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا معراج کی رات میں جبرائیل (علیہ السلام) کے پاس سے گذرا اور وہ ملاء اعلی کے ساتھ اللہ کے خوف سے پرانے ٹاٹ کی طرح ہورہے تھے۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ومن یقل منہم “ یعنی فرشتوں میں سے کس نے کہا (آیت) ” انی الہ من دونہ “ میں خدا ہوں اللہ کے سوا مگر ابلیس نے یہ بات کہی ابلیس نے ہی اپنی عبادت کی طرف بلایا اور کفر کا آغاز کیا۔ 8:۔ عبدالرزاق، ابن منذر، ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ومن یقل منہم انی الہ من دونہ فذلک نجزیہ جھنم “ (خدائی کا دعوی ابلیس نے کیا تھا) یہ قول صرف ابلیس کے ساتھ خاص ہے۔ 9:۔ فریابی، عبد بن حمید، حاکم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں (حاکم نے صحیح بھی کہا) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” کانتا رتقا ففتقنھما “ یعنی آسمان کو بارش کے ذریعہ اور زمین کو سبزے کے ذریعہ پھاڑ دیا اس سے پہلے وہ بند تھے۔ 10:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” کانتا رتقا ففتقنھما “ یعنی دونوں میں کوئی چیز نہ نکلتی تھی۔ 11:۔ ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابونعیم نے حلہ میں عبداللہ بن دینا کے طریق سے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور (آیت ) ’ ’ السموت والارض کانتا رتقا ففتقنھما “ کے بارے میں پوچھا تو فرمایا اس شیخ کے پاس جاؤ اور اس سے پوچھا پھر میرے پاس آکر مجھ کو بتاؤ کہ انہوں نے کیا کہا وہ آدمی ابن عباس ؓ کے پاس گیا اور ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا ہاں آسمان بند تھا بارش نہ ہوتی تھی اور زمین بند تھی سبزہ نہ اگتا تھا جب اللہ تعالیٰ نے زمین پر مخلوق کو پیدا فرمایا تو آسمان کو بارش کے ذریعہ پھاڑ دیا اور زمین کو سبزہ کے ذریعہ وہ آدمی ابن عمر ؓ کے پاس واپس آیا اور ان کو بتایا تو ابن عمر ؓ نے فرمایا اب میں نے جان لیا کہ ابن عباس ؓ کو قرآن میں علم دیا گیا ہے ابن عباس ؓ نے سچ فرمایا وہ بالکل اسی طرح تھے۔ 12:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے فرمایا (آیت) ” کانتا رتقا “ یعنی آسمان و زمین آپس میں ملے ہوئے تھے۔ 13:۔ عبدالرزاق، فریابی، عبدبن حمید، ابن منذر اور ابوالشیخ نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ سے رات کے بارے میں پوچھا گیا رات پہلے تھی یا دن ؟ فرمایا رات پھر یہ (آیت) ” ان السموت والارض کانتا رتقا ففتقنھما “ پڑھی کیا تم جانتے ہو کہ ان کے درمیان تاریکی ہی تھی۔ زمین کے سات طبقات ہیں : 14:۔ ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابی الشیخ نے عظمہ میں مجاہدرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ (آیت) ” کانتا رتقا ففتقنھما “ زمین کو پھاڑ دیا اور اس میں سے چھ زمینیں نکالیں اب یہ سات زمینیں ہیں جو ایک دوسرے کے اوپر نیچے ہیں اور آسمان میں سے چھ آسمان نکالے اب یہ ساتھ آسمان ہیں جو ایک دوسرے کے اوپر نیچے ہیں اور زمین و آسمان ملے ہوئے نہیں تھے۔ 15:۔ عبدبن حمید، ابن منذر ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے عظمہ میں ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” کانتا رتقا ففتقنھما “ یعنی آسمان ایک تھا تو اس میں سے سے سات آسمان نکالے اور زمین ایک تھی تو اس میں سے سات زمینیں نکالیں۔ 16:۔ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے حسن و قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ دونوں نے فرمایا کہ (آیت) ” کانتا رتقا ففتقنھما “ کہ زمین و آسمان آپس میں ملے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ہوا کے ذریعہ جدا کردیا۔ 17:۔ ابوالشیخ نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ آسمان اور زمینیں آپس میں ملی ہوئی تھیں جب اللہ تعالیٰ نے آسمان کو بلند کیا تو اس کو زمین سے جدا کردیا یہ اس کا پھٹنا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا۔ 18۔ احمد، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ، حاکم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں (حاکم نے صحیح بھی کہا ہے) ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ بیشک جب میں آپ کو دیکھتا ہوں تو میرا دل خوش ہوجاتا ہے اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں مجھ کو ہر چیز کی تخلیق کے بارے میں بتائیے آپ نے فرمایا ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا گیا۔ 19:۔ عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” وجعلنا من المآء کل شیء حی “ میں پانی سے آدمی کا نطفہ مراد ہے۔ 20:۔ ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے (آیت) ” وجعلنا من المآء کل شیء حی “ کے بارے میں روایت کیا کہ ہر چیز کو پانی سے پیدا کیا گیا اور پانی ہی ہر چیز کی زندگی (کا سبب) ہے۔
Top