Dure-Mansoor - Al-Hajj : 18
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ كَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ١ؕ وَ كَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْهِ الْعَذَابُ١ؕ وَ مَنْ یُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُؕ۩  ۞
اَلَمْ تَرَ : کیا تونے نہیں دیکھا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ يَسْجُدُ لَهٗ : سجدہ کرتا ہے اس کے لیے مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَنْ : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَالشَّمْسُ : اور سورج وَالْقَمَرُ : اور چاند وَالنُّجُوْمُ : اور ستارے وَالْجِبَالُ : اور پہاڑ وَالشَّجَرُ : اور درخت وَالدَّوَآبُّ : اور چوپائے وَكَثِيْرٌ : اور بہت مِّنَ : سے النَّاسِ : انسان (جمع) وَكَثِيْرٌ : اور بہت سے حَقَّ : ثابت ہوگیا عَلَيْهِ : اس پر الْعَذَابُ : عذاب وَمَنْ : اور جسے يُّهِنِ اللّٰهُ : ذلیل کرے اللہ فَمَا لَهٗ : تو نہیں اس کے لیے مِنْ مُّكْرِمٍ : کوئی عزت دینے والا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَفْعَلُ : کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے
اے مخاطب کیا تو نے نہیں دیکھا کہ جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے انسان اللہ کے لیے سجدہ کرتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جن پر عذاب کا استحقاق ہوچکا ہے اور اللہ جسے ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں، بلا شبہ اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔
1۔ عبد بن حمید وابن جریر، وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت الم تر ان اللہ یسجد لہ من فی السموت، میں سجود سے مراد ہے ان سب چیزوں کا سایہ۔ آیت وکثیر من الناس، یعنی ایمان والے لوگ، آیت وکثیر حق علیہ العذاب اور اس سے مراد کافر کے سایہ کا سجود ہے۔ حالانکہ وہ خود اس کو ناپسند کرتا ہے۔ 2۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ہر چیز کا سجدہ اس کا مطلب سایہ ہے۔ اور پہاڑوں کا سجدہ ان کا سایہ ہے۔ 3۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) وسلم روایت کیا کہ کپڑے سجدہ کرتے ہیں۔ 4۔ عبد بن حمید وابن جریر، وابن المنذر نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ جو کچھ آسمان میں ہے سورج، چاند اور ستارے وہ سجدے میں گرپڑتے ہیں یہاں تک کہ وہ غائب ہوجاتا ہے۔ پھر وہ نہیں لوٹتا یہاں تک کہ اس کے لیے اجازت دی جاتی ہے پر وہ دائیں طرف سے ہوتے ہوئے اپنے جدار کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ 5۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ جب سایہ ڈھلتا ہے تو ہر جانور اور پرندہ اللہ کے سامنے سجدہ کرتا ہے۔ 6۔ ابن ابی حاتم نے عمرو بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے روتا تھا میں نے غور سے دیکھا تو وہ طاؤس تھے۔ انہوں نے فرمایا کیا تو میرے رونے سے تعجب کرتا ہے۔ میں نے کہا ہاں ! فرمایا اس عمارت (یعنی کعبہ) کے رب کی قسم ! کہ یہ چاند اللہ کے خوف سے روتا ہے حالانکہ اس پر کوئی گناہ نہیں۔ 7۔ احمد نے الزہد میں ابن ابی ملیکہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ میں کسی کو بھی استثناء نہیں فرمایا یہاں تک کہ جب ابن آدم آیا تو اس کا استثنا کرتے ہوئے فرمایا آیت وکثیر من الناس پھر فرمایا اور جو قدر دانی کے مستحق ہیں وہ زیادہ ہیں۔ 9۔ ابن ابی حاتم نے واللا لکائی فی السنۃ والخلعی فی فوائد میں علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ آپ سے کہا گیا کہ یہاں ایک آدمی ہے جو مشیت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے۔ علی ؓ نے اس سے فرمایا اے اللہ کے بندے۔ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو اپنی مشیت سے پیدا فرمایا یا تمہاری مشیت سے پیدا فرمایا۔ اس نے کہا بلکہ اللہ نے اپنی مشیت سے پیدا فرمایا پھر فرمایا وہ تجھ کو بیمار کرتا ہے جب وہ چاہتا ہے یا تو چاہتا ہے۔ اس نے کہا جب وہ چاہتا ہے۔ پھر پوچھا وہ تجھ کو شفا دیتا ہے جو وہ چاہے ا جب تو چاہے۔ اس نے کہا بلکہ جب وہ چاہے۔ پھر فرمایا تجھ کو جنت میں داخل کرتے گا۔ جب وہ چاہے گیا اجب تو چاہے گا۔ اس نے کہا ہاں جب وہ چاہے گا۔ پھر فرمایا اللہ کی قسم ! اگر تو اس کے علاوہ دوسری بات کہتا تو البتہ میں تیری گردن تلوار سے اڑا دیتا۔ 10۔ سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وعبد بن حمدی و بخاری مسلم والترمذی وابن ماجہ وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ والبیہقی نے فی الدلائل میں ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ وہ مال کی تقسیم پر مامور تھے کہ یہ آیت آیت ہذان خصمن اختصموا فی ربھم سے لے کر آیت ان اللہ یفعل ما یرید تک تین آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور وہ تین آدمی جو بدر کے دن باہم مقابلے کے لیے نکلے اور وہ حمزہ بن عبدالمطلب، عبیدہ بن الحارث اور علی بن ابی طالب ؓ تھے جو عتبہ وشیبہ ربیعہ کے بیٹے اور ولید بن عتبہ کے مقابلے میں نکلے۔ علی ؓ نے فرمایا۔ کہ میں پہلا آدمی ہوں گا (کفار کے متعلق) جھگڑنے میں اور میں بیٹھوں گا گھٹنوں کے بل اللہ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن۔ 11۔ ابن ابی شیعبہ والبخاری والنسائی وابن جریر والبیہقی نے من طریق قیس بن عبادہ علی ؓ سے روایت کیا میں پہلا آدمی ہوں گا جو رحمن کے سامنے جھگڑنے کے لیے گھٹنوں کے بل بیٹھوں گا قیامت کے دن۔ قیس (رح) نے فرمایا کہ ان کے بارے میں (یہ آیت) آیت ھذن خصمن اختصموا فی ربہم نازل ہوئی۔ جو بدر کے باہم مقابلے کے لیے نکلے اور وہ یہ لوگ ہیں۔ علی وحمزہ وعبیدہ ؓ اور شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔ جنگ بدر میں پہلا معرکہ 32۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب مقابلے کے لیے نکلے علی، حمزہ اور عبیدہ ؓ اور عتبہ وشیبہ اور ولید، انہوں نے ان سے کہا پہلے تم ہم کو اپنا تعارف کراؤ۔ تو انہوں نے کہا میں علی ہوں یہ حمزہ ہیں اور یہ عبیدہ ہیں۔ تو کافروں نے کہا مقابلہ تو ہم پلہ اور معزز لوگوں سے ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا میں تم کو بلاتا ہوں اللہ اور اس کے رسول کی طرف۔ عتبہ نے کہا آجاؤ مقابلے کے لیے تو علی ؓ نے شیبہ پر حملہ کیا اور اس کو ذرا سی دیر میں ڈھیر کردیا۔ اور حضرت حمزہ ؓ عتبہ کے مقابلے کے لیے آئے اور اس کو قتل کردیا۔ اور عبیدہ ؓ ولید کے مقابلے کے لیے آئے یہ کام ان پر مشکل ہوا تو علی ؓ آئے اور ولید کو قتل کردیا۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) آیت ہذن خصمن اختصموا فی ربہم اتاری۔ 13۔ ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ جب بدر کے دن دونوں جماعتیں آپس میں ملیں (یعنی جنگ کی) عتبہ بن ربیعہ نے ان سے کہا اس آدمی کو قتل نہ کرو۔ کیونکہ اگر یہ سچا ہے تو تم لوگوں میں سب سے زیادہ سعادت مند ہوگے۔ اور اگر یہ جھوٹا ہے تو (پھر بھی) تم زیادہ حق دار ہو اس کے خون کی حفاظت کے۔ ابو جہل بن ہشام نے کہا تو ڈر گیا ہے۔ عتبہ نے کہا تو عنقریب جان لے گا۔ ہم میں سے کون بزدل اور فساد کرنے والا ہے۔ اپنی قوم کے لیے۔ (اس کے بعد) عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ مقابلے کے لیے نکلے۔ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ ؓ کو آواز دی۔ کافروں نے کہا ہماری طرف ہمارے برابر کے لوگوں کو بھیجئے ہم ان سے لریں گے بنو خزرج میں سے چند انصاری نوجوان کود کر سامنے آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا بیٹھ جاؤ اے بنو ہاشم کھڑے ہوجاؤ۔ حمزہ بن عبدالمطلب، علی بن ابی طالب اور عبیدہ بن حارث ؓ کھڑے ہوئے اور ان کے مقابلے کے لیے میدان میں نکلے۔ عتبہ نے کہا اپن تعارف کراؤ۔ اگر تم ہمارے برابر کے ہوگے تو ہم تم سے لڑیں گے (ورنہ نہیں) حمزہ ؓ نے فرمایا میں حمزہ بن عبدالمطلب ہوں۔ میں اللہ اور اس کے رسول کا شیر ہوں۔ عتبہ نے کہا کریم مد مقابل ہے۔ علی ؓ نے فرمایا میں علی بن ابی طالب ہوں اس نے کہا یہ بھی مد مقابل کریم ہے۔ عبیدہ نے کہا میں عبیدہ بن حارث ہوں۔ عتبہ نے کہا یہ بھی مد مقابل کریم ہے۔ حمزہ ؓ کا مقابلہ شیبہ بن ربیعہ سے ہوا۔ علی بن ابی طالب ؓ کا مقابلہ عتبہ بن ربیعہ سے ہوا اور عبیدہ کا مقابلہ ولید سے ہوا۔ حمزہ ؓ نے شیبہ کو قتل کردیا۔ علی ؓ نے عتبہ سے دو چار واروں کا تبادلہ کیا اور عتبہ کو انہوں نے قتل کردیا۔ مگر عبیدہ ؓ کی اسی مقابلہ میں ٹانگ ٹوٹ گئی بالآخر یہ تینوں مسلمان لوٹ آئے اور کفار کے تینوں جنگجو قتل ہوگئے۔ ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے آواز لگائی ہمارے لیے عزی ہے اور تمہارے لیے عزی نہیں ہے۔ نبی ﷺ کے منادی نے آواز دی کہ ہمارے مقتول جنت میں ہیں اور تمہارے مقتول جہنم میں ہیں۔ تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت آیت ہذن خصمن اختصموا فی ربہم اتاری۔ 14۔ عبد بن حمید نے لاحق بن حمید (رح) سے روایت کیا کہ ی آیت آیت ھذن خصمن اختصموا فی ربہم فالذین کفروا قطعت لہم ثیاب من نار، بدر کے دن نازل ہوئی۔ عتبہ بن ربیعہ شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ کے بارے میں۔ اور یہ آیت آیت ان اللہ ید خل الذین آمنوا وعملو الصلحت سے لے کر آیت وھدو الی صراط الحمید علی بن ابی طالب حمزہ اور عبید ابن الحارث کے بارے میں نازل ہوئی۔ 15۔ عبد بن حمید وابن جریر ابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے آیت ھذن خصمن اختصموا فی ربہم کے بارے میں روایت کیا کہ یہ مثال ہے مومن اور کافر کی۔ کہ ان دونوں نے دوبارہ اٹھنے میں آپس میں جھگڑا کیا۔ 16۔ ابن جریر نے مجاہد وعطاء بن ابی رباح اور حسن (رح) و سے روایت کیا کہ وہ کافر اور مومن ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں آپس میں جھگڑا کیا۔ 17۔ ابن جریر وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے آیت ہذن خصمن اختصموا فی ربہم کے بارے میں فرمایا کہ اس سے وہ اہل کتاب مراد ہیں جنہوں نے ایمان والوں سے کہا کہ ہم تمہارے مقابلے میں اللہ سے زیادہ قرب رکھتے ہیں ہماری کتاب تمہاری کتاب سے اور ہمارا نبی تمہارے نبی سے مقدم ہے۔ مسلمانوں نے کہا ہم قرب الٰہی کے زیادہ مستحق ہیں۔ ہم اپنے نبی ﷺ پر اور تمہارے نبی پر اور اللہ کی نازل کی ہوئی ہر کتاب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور تم ہمارے نبی کو بھی پہچانتے ہو اور ہماری کتاب کو بھی اور محض حسد کی وجہ سے انکار کرتے ہو یہ ان کو اپنے رب کے بارے میں جھگڑا تھا۔ 18۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ مسلمانوں اور اہل کتاب نے آپس میں جھگڑا کیا اہل کتاب نے کہا ہمارے نبی، تمہارے نبی سے پہلے ہیں اور ہماری کتاب تمہاری کتاب سے پہلے ہے اور ہم تمہاری نسبت اللہ تعالیٰ سے زیادہ قریب ہیں۔ مسلمانوں نے کہا کہ ہماری کتاب تمہاری ساری کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔ اور ہمارے نبی تمام نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں اس لیے ہم اللہ تعالیٰ سے تمہاری نسبت زیادہ قریب ہیں (مگر) اللہ تعالیٰ نے غالب کردیا پس اللہ تعالیٰ نے اسلام والوں کو فتح عطا فرمائی ہر اس شخص پر جس نے اس سے دشمنی کی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں آیت ہذن خصمن اختصموا فی ربہم سے لے کر عذاب الحریق تک۔ 19۔ ابن جریر نے عکرمہ (رح) وسلم سے روایت کیا کہ آیت ہذن خصمن اختصموا سے جنت اور دوزخ مراد ہے۔ جنہوں نے آپس میں جھگڑا کیا دوزخ نے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے سزا (دینے) کے لیے پیدا کیا اور جنت نے کہا مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے لیے پیدا کیا۔ 20۔ ابن جریر نے مجاہد (رح) نے آیت فالذین کفروا قطعت لہم ثیاب من نار۔ کے بارے میں فرمایا کہ کافر کے لیے آگ کے کپڑے بنائے جائیں گے۔ اور مومن کو اللہ تعالیٰ ایسے باغات میں داخل فرمائیں گے کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ 21۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے آیت قطعت لہم ثیاب من کے بارے میں روایت کیا کہ کفار کے لیے تانبے کے کپڑے تیار کیے جائیں گے۔ اور برتنوں میں کوئی برتن ایسا نہیں جو گرم کیا جائے تو تانبے کے برتن سے زیادہ گرم ہو۔ اور آیت یصب من فوق رؤوسہم الحمیم یعنی تانبا پگھلایا جائے گا ان کے سروں پر آیت یصہر بہ مافی بطونہم یعنی ان کی آنتیں اور کھال بہہ جائیں گی۔ اور فرمایا کہ ان کی کھالیں گرپڑیں گے یہاں تک کہ ہر ہر عضو الگ الگ ہوجائے گا۔ 22۔ ابن ابی حاتم نے ابراہیم تیمی (رح) و سے روایت کیا کہ آیت قطعت لہم ثیاب من نار پھر فرمایا پاکی ہے اس ذات کے لیے جس نے آگ سے لباس تیار کیا۔ 23۔ ابو نعیم نے الحلیۃ من وہب بن منبہ (رح) وسلم سے روایت کیا کہ دوزخ والوں کو لباس پہنایا جائے گا اور ننگا رہنا اس سے بہتر ہوگا اور ان کو زندگی دی جائے گی اور موت ان کے لیے بہتر ہوگی۔ 24۔ عبد بن حمید والترمذی وصححہ و عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں اور ابن جریر وابن ابی حاتم والحاکم وصححہ وابو نعیم نے حلیہ میں وابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے یہ آیت پڑھی اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا گرم پانی کفار کے سروں پر ڈالا جائے گا تو ان کی ہڈیاں ختم ہوجائیں گی۔ یہاں تک کہ وہ گرم پانی ان کے پیٹوں تک پہنچے گا۔ وہ بہہ جائے گا جو کچھ ان کے پیٹ میں ہوگا۔ یہاں تک کہ ان کے قدموں میں سے نکل جائے گا۔ یصھر سے یہی مراد ہے پھر وہ ایسے ہی ہوجائے گا جیسے تھا (یعنی صحیح ہوجائے گا) ۔ کافر کو جہنم میں سخت گرم پانی پلایا جائے گا 25، ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ ایک فرشتہ کافر کے پاس آئے گا جس کے پاس برتن ہوگا جو انتہائی گرم ہوگا جب وہ فرشتہ اس برتن کو اس کے چہرے کے قریب کرے گا تو اس کو ناپسند کرتے گا فرشتہ ایک گرز اٹھائے گا جو اس کے پاس ہوگا اس کے ساتھ وہ اس کے سر کو مارے گا۔ تو اس کا دماغ پھٹ جائے گا۔ پھر وہ گرم برتن اس کے دماغ میں انڈیل دے گا اور وہ برتن اس کے دماغ سے اس کے پیٹ کی طرف پہنچے گا۔ اسی کو فرمایا آیت یصہر بہ مافی بطونہم والجلود 26۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم وابو نعیم نے حلیہ میں سعید بن جبیر (رح) و سے روایت کیا کہ جب دوزخ والے دوزخ میں پہنچیں گے تو زقوم کے درخت سے مدد طلب کریں گے اور اس میں سے کھائیں گے۔ تو اس سے ان کے چہروں کی کھالیں ادھڑ جائیں گی۔ اگر کوئی گزرنے والا ان کے پاس سے گزرے گا تو ان کے چہروں کی کھالوں کے اترنے کی وجہ سے ان کو پہچان لیتا۔ پھر ان پر پیاس کو ڈال دیا جائے گا۔ وہ طلب کریں گے تو ان کو تلچھٹ کی طرح (گرم) پانی پلایا جائے گا جس سے کھالیں (پگھل کر) گرجائیں گی۔ (اسی کو فرمایا) آیت یصہر بہ ما فی بطونہم۔ (یعنی جو کچھ ان کے پیٹوں میں ہے سب گل جائے گا وہ (وہ اس حال میں) چلیں گے کہ ان کی آنتیں اور کھالیں گر چکی ہوں گی۔ پھر ان کو مارا جائے گا لوہے کے گرزوں سے تو ہر ہر عضو الگ ہوجائے گا وہ لوگ ہلاکت اور موت کو پکاریں گے۔ 27۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے آیت یصہر بہ مافی بطونہم، کے بارے میں فرمایا کہ وہ چلیں گے اور ان کی آنتیں اور چمڑے گر رہے ہوں گے اور فرشتے گرزوں سے ان کو ماریں گے تو ہر ہر عضو الگ ہوجائے گا۔ 28۔ ابن الانباری اور طستی نے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول یصہر سے کیا مراد ہے فرمایا کہ اس سے مراد ہے پگھل جائے گا۔ مافی بطونہم یعنی جو کچھ ان کے پیٹوں میں ہوگا جب وہ کھولتا ہوا پانی پئیں گے پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں۔ فرمایا ہاں کیا تو نے شاعر کا یہ قول نہیں سنا۔ سخنت صہارتہ فضل عثانہ فی شیطل کعب بہ تتردد وظل مرتثیا للشمس تصہرہ حتی اذالشمس قامت جانبا عدلا 29۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے آیت یصہر بہ مافی بطوہم والجلود کے بارے میں روایت کیا کہ وہ پانی پئیں گے جب ان کے پیٹوں میں داخل ہوگا تو ان کی انتڑیاں پگھلادے گا اور چمڑے بھی پیٹوں کے ساتھ پگھل جائیں گے۔ 30۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) و سے روایت کیا کہ آیت یصہر بہ مافی بطونہم۔ وہ خوب (ان سب چیزوں کو) پگھلادے گا جو کچھ ان کے پیٹوں میں ہوگا۔ ابن ابی شیبہ نے صحاک (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ 31۔ عبدالرزاق وابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت یصہر بہ، یعنی پگھلا دے گا۔ 32۔ ابن ابی حاتم نے عطا خراسانی (رح) و سے روایت کیا کہ آیت یصہر بہ یعنی پگھلادے گا جیسے چربی پگھلتی ہے۔ 33۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمدی وابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ ولہم مقامع۔ یعنی ان کو مارنے کے لیے ہتھوڑے ہوں گے۔ 34۔ ابن ابی شیبہ نے حسن حمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ فرمایا کرتے تھے کہ دوزخ کا ذکر اکثر کیا کرو۔ کہ اس کی گرمی بڑی سخت ہے اور اس کی گہرائی بہت دور ہے اور اس کے گرز لوہے کے ہیں۔ 35۔ احمد وابو یعلی وابن ابی حاتم وابن مردویہ والحاکم وصححہ والبیہقی نے بعث میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر لوہے کا ایک گرز زمین پر رکھ دیا جائے تو تمام جنات اور انسان اکٹھے ہو کر اس کو زمین سے نہیں اٹھا سکتے۔ اگر لوہے کے گرز کو پہاڑ پر مارا جائے تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائے پھر وہ اسی طرح ہوجائے گا جیسے تھا۔ 36۔ ابن المبارک و سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وہناد وعبد بن حمید وابن ابی جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والحاکم وصححہ نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ (دوزخ کی) آگ سیاہ اور تاریک ہے نہ اس کی لپٹ میں روشنی ہے اور نہ اس کے انگارے میں روشنی ہے پھر یہ آیت پڑھی۔ آیت کلما ارادو ان یخرجو منہا من غم اعیدوفیہا 37۔ ابن ابی حاتم نے ابو جعفر القاری (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے یہ آیت آیت کلما ارادو ان یخرجوا منہا من غم، تلاوت فرمائی اور رونے لگے فرمایا مجھے زید بن اسلم (رح) نے اس آیت میں بتایا ہے کہ دوزخ والے دوزخ میں سانس نہیں لیں گے۔ 38۔ ابن ابی حاتم نے فضل بن عیاض (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا اللہ کی قسم ! کہ دوزخ والے) نکلنے میں کوئی امید نہ رکھیں گے۔ کہ ان کی ٹانگیں اور ہاتھ مضبوطی سے بندھے ہوئے ہوں گے۔ لیکن آگ کے شعلے ان کو اوپر اتھائیں گے پھر فرشتوں کے گرز ان کو واپس لوٹا دیں گے۔ 39۔ البکاری ومسلم نے عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جو شخص دنیا میں ریشم پہنے گا وہ آخرت میں نہیں پہنے گا۔ 40۔ نسائی والحاکم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جس شخص نے دنیا میں شراب پی وہ آخرت میں نہیں پیے گا۔ اور جس شخص نے سونے اور چاندی کے برتن میں پیا وہ آخرت میں ان برتنوں میں نہیں پیے گا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ (ریشم) جنت والوں کا لباس اور (شراب) جنت والوں کا پینا اور (سونا چاندی) جنت والوں کے برتن ہوں گے۔ 41۔ ابن ابی حاتم وابن مردویہ والبیہقی نے سنن میں ابن الزبیر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص دنیا میں ریشم کا لباس پہنے گا وہ آخرت میں نہیں پہنے گا۔ ابن الزبیر ؓ نے اپنی طرف سے فرمایا جو شخص (ریشم) آخرت میں نہیں پہنے گا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ آیت ولباسہم فیہا حریر۔ 42۔ النسائی والحاکم وابن حبان نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص دنیا میں ریشم کا لباس پہنے گا تو وہ آخرت میں اس کو نہ پہنے گا۔ اگرچہ وہ جنت میں داخل ہوجائے۔ اہل جنت اس کو پہنیں گے مگر وہ اس کو نہیں پہنے گا۔
Top