Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Dure-Mansoor - Al-Hajj : 24
وَ هُدُوْۤا اِلَى الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ١ۖۚ وَ هُدُوْۤا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِیْدِ
وَهُدُوْٓا
: اور انہیں ہدایت کی گئی
اِلَى
: طرف
الطَّيِّبِ
: پاکیزہ
مِنَ
: سے۔ کی
الْقَوْلِ
: بات
وَهُدُوْٓا
: اور انہیں ہدایت کی گئی
اِلٰى
: طرف
صِرَاطِ
: راہ
الْحَمِيْدِ
: تعریفوں کا لائق
اور ان کو کلمہ طیبہ کی ہدایت دی گئی اور ان کو اس ذات کے راستے کی ہدایت دی گئی جو لائق حمد ہے۔
1۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت وھدو الی الطیب سے مراد ہے کہ ان کو پاکیزہ قول کی طرف الہام کیا گیا۔ 2۔ ابن ابی حاتم نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت وھدو الی الطیب من القول صحابہ کرام جھگڑے کے وقت کفار کو کہتے تے اور ہمارا مولی ہے اور تمہارا کوئی مولی نہیں۔ 3۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے اسماعیل بن ابی خالد (رح) سے روایت کیا کہ آیت وھدو الی الطیب من القول سے مراد ہے قرآن اور آیت وھدو الی صراط الحمید سے مراد ہے اسلام۔ 4۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ آیت وھدوا الی الطیب من القول سے مراد ہے اخلاص اور آیت وھدوا الی صراط الحمید سے مراد ہے اسلام 5۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ آیت وھدو الی الطیب من القول سے مراد ہے لا الہ الال اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ اسی کو فرمایا آیت الیہ یصعد الکلم الطیب (فاطر آیت 10) 6۔ عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حرم سارے کا سارا مسجد حرام ہے۔ 7۔ عبد بن حمید نے ابن عباس ؓ سے آیت سواء العاکف فیہ والباد کے بارے میں فرمایا کہ اس میں اللہ کی ساری مخلوق برابر ہے۔ ابن ابی شیبہ نے سعید بن جبیر ؓ سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ 8۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت سواء، یعنی ایک ہی دستور ہے آیت العاکف فیہ سے مراد اہل مکہ، آیت والباد یعنی آفاقی (باہر سے آنے والے) اور فرمایا کہ تمام لوگ مکہ کی منازل میں برابر ہیں۔ مکہ والوں کو چاہیے کہ ان کے لیے (ٹھہرنے کی جگہوں کو) کھلا کردیں۔ یہاں تک کہ وہ حج کے احکامات کو پورا کرسکیں۔ 9۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ باہر سے آنے والے اور مکہ میں رہنے والے برابر ہیں (ٹھہرنے کے لحاظ سے) منزل میں اور حرم میں۔ 10۔ عبد بن حمید وابن جریر نے مجاہد وعطاء رحمۃ اللہ عیہ سے روایت کیا کہ آیت سواء العاکف فیہ والباد سے مراد ہے کہ باہر سے آنے اور مکہ والے دونوں برابر ہیں مکہ شہر کی تعظیم اور تحریم میں۔ 11۔ عبد بن حمید والبیہقی نے شعب الایمان میں قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ آیت سواء سے مراد ہے کہ مکہ کے جوار امن اور حرمت میں سب برابر ہیں۔ آیت العاکف فیہ یعنی مکہ والے آیت والباد آفاقی لوگوں میں سے اعتکاف کرنے والے 12۔ عبد بن حمید نے ابن حصین (رح) سے روایت کیا کہ میں نے سعید بن جبیر (رح) سے پوچھا میں مکہ میں اعتکاف کروں فرمایا نہیں جب تم اس میں ہو معتکف ہی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت سوا العاکف فیہ والباد۔ 13۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ لوگ مکہ میں برابر ہیں کوئی شخص دوسروں سے منازل میں زیادہ مستحق نہیں ہے۔ 14۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید نے عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا کہ جس شخص نے مکہ کے گھروں کی اجرت لی تو بلاشبہ وہ کھائے گا اپنے پیٹ میں آگ کو۔ 15۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ وہ مکہ گھروں کو بیچنے یا کرایہ پر دینے کو ناپسند فرماتے تھے۔ 16۔ عبد بن حمید نے ابراہیم سے روایت کیا کہ وہ مکہ گھروں کو کرایہ پر دینے کو ناپسند فرماتے تھے۔ 17۔ عبد بن حمید نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ نے مکہ کے گھروں کے دروازے بند کرنے سے منع فرمایا۔ کیونکہ لوگ ان میں سے جہاں جگہ پاتے تھے ٹھہر جاتے تھے۔ یہاں تک کہ لوگ یعنی حجاج گھروں میں خیمے لگا لیتے تھے۔ 18۔ ابن سعد نے عمر بن خطاب ؓ سے ایک آدمی نے مروہ پہاڑی کے پاس کہا۔ اے امیر المومنین ! میرے لیے اور میری اولاد کے لیے ایک علیحدہ جگہ بنا دیجئے۔ عمر ؓ نے اس سے اعراض کرتے ہوئے فرمایا یہ اللہ کا حرم ہے آیت سواء العاکف فیہ والباد (یعنی اس میں رہنے والا اور باہر سے آنے والا برابر ہے) ۔ 19۔ ابن ابی شیبہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ مکہ گھروں پر دینا حلال نہیں ہے۔ 20۔ ابن ابی شیبہ نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عمر بن عبدالعزیز (رح) کا وہ خط پڑھا جو آپ نے مکہ والوں کو بھیجا تھا آپ نے ان کو مکہ کے گھروں کا کرایہ وصول کرنے سے منع فرمایا۔ 21۔ ابن ابی شیبہ نے قاسم (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عمر ؓ مکہ والوں کو دروازے بنانے سے منع فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ حج کرنے والے گھروں کی کھلی جگہوں میں اترتے تھے۔ (یعنی قیامت کرتے تھے) 23۔ ابن ابی شیبہ نے جعفر ؓ سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ مکہ میں گھروں کے دروازے نہیں تھے۔ مصر اور عراق والے آتے اور مکہ کے گھروں میں داخل ہوجاتے۔ 24۔ ابن ابی شیبہ نے ابن سابط (رح) سے آیت سواء العاکف فیہ والباد کے بارے میں فرمایا کہ البادی سے مراد وہ شخص ہے جو حج کے لیے آئے بس مقیم اور مسافر مکہ کے مکانات میں رہنے کے اعتبار سے برابر ہیں جہاں وہ چاہیں ٹھہر سکتے ہیں اور کوئی آدمی آفاقی کو اپنے گھر سے نہیں نکال سکتا۔ 25۔ ابن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویہ نے صحیح سند کے ساتھ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت سواء ن العاکف فیہ والباد کے بارے میں فرمایا کہ (مکہ) میں برابر ہیں مقیم اور جو سفر کر کے آتا ہے۔ 26۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے آیت سواء ن العاکف فیہ والباد کے بارے میں فرمایا کہ مکہ والے اور ان کے علاوہ دوسر لوگ مسجد حرام میں ٹھہرنے میں برابر ہیں۔ 27۔ ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا مکہ (سب مسلمانوں کے لیے) حلال ہے۔ اس کے مکانات کرائے پر نہ دئیے جائیں۔ اور ان کے گھروں کو نہ بیچا جائے گا۔ 28۔ ابن ابی شیبہ وابن ماجہ نے علقمہ بن نضلہ رحمۃ اللہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ اور عمر ؓ وفات پاگئے۔ کہ مکہ مکانات کو السوائب کہا جاتا تھا جو ضرورت مند ہوتا ان میں خود ٹھہر جاتا۔ اور جس کو ضرورت نہ ہوتی تو وہ کسی اور کو ٹھہرا دیتا تھا۔ 29۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید نے عمر ؓ سے روایت کیا اے مکہ والو ! اپنے گھروں کو دروازے نہ لگاؤ تاکہ باہر سے آنے والا جہاں چاہے ٹھہر جائے۔ 30۔ دارقطنی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے مکہ کے مکانات کا کرایہ کھایاتو گویا اس نے آگ کو کھایا۔ 31۔ الفریابی و سعید بن منصور وبن راھویہ واحمد وعبد بن حمید وابزار وابو یعلی وبن جریر وبن المنذر وبن ابی حاتم ولطبرانی والحاکم وصححہ وابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے مرفوعاً روایت کیا آیت ومن یرد فیہ بالحاد بظلم کے بارے میں فرمایا اگر کسی آدمی نے مکہ میں ظلم کے سبب زیادتی کرنے کا ارادہ کیا اور وہ آدمی عدن سے بھی دور کسی شہر میں ہوگا۔ تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور دردناک عذاب چکھائیں گے۔ 32۔ سعید بن منصور والطبرانی نے ابن مسعود ؓ سے آیت ومن یرد فیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم۔ کے بارے میں روایت کیا کہ جس نے بیت اللہ کے علاوہ دوسری جگہ میں کسی گناہ کا ارادہ کیا اور اس پر عمل نہیں کیا تو اس پر گناہ نہیں لکھا جائے گا یہاں تک وہ اس پر عمل نہ کرے اور جس شخص نے بیت اللہ میں کسی گناہ کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں موت نہیں دیں گے یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب نہ چکھ لے۔ عبداللہ بن انیس کا مرتد ہونا 33۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت عبداللہ بن انیس کے بارے میں نازل ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو دو آدمیوں کے ساتھ بھیجا ان میں سے ایک مہاجر اور دوسرے انصار میں سے تھے۔ دونوں نے اپنے خاندانوں کے بارے میں فخر کیا۔ عبداللہ بن انیس غصہ ہوگئے۔ اور انصاری کو قتل کردیا۔ پھر اسلام سے مرتدہو کر مکہ مکرمہ بھاگ گیا۔ تو اس بارے میں یہ آیت آیت ومن یرد فیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم، نازل ہوئی یعنی جو حرم کی طرف پناہ لے لے، بالحاد یعنی اسلام کو چھوڑ کر۔ 34۔ عبدالرزاق وابن جریر والبیہقی نے شعب الایمان میں قتادہ (رح) سے آیت ومن یرد فیہ بالحاد کے بارے میں روایت کیا کہ جو شخص حرم کی طرف پناہ لے تاکہ اس میں شرک کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو عذاب دیں گے۔ 35۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس (رح) سے روایت کیا کہ آیت ومن یرد فیہ بالحاد بظلم سے مراد ہے شرک 36۔ ابن جریر نے مجاہد (رح) سے آیت ومن یرد فیہ بالحاد بظلم کے بارے میں فرمایا کہ جو اس میں غیر اللہ کی عبادت کرے گا۔ 37۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے آیت ومن یرد فیہ بالحاد بظلم کے بارے میں روایت کہ کہ اگر تو حلال کردے حرام میں سے اس چیز کو جو اللہ تعالیٰ نے تجھ پر حرام کی ہے زبان درازی یا قتل وغیرہ میں سے اور تو اس پر ظلم کرے گا۔ جس نے تجھ پر ظلم نہیں کیا اور تو قتل کرے گا اس شخص کو جس نے تجھے قتل نہیں کیا اگر کوئی بھی ایسا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو دردناک عذاب دے گا۔ 38۔ ابن جریر نے حبیب بن ابی ثابت (رح) سے روایت کیا کہ آیت ومن یرد فیہ بالحاد بظلم سے مکہ میں غلہ کو روکنے والے مراد ہیں۔ 39۔ بکاری نے تاریخ میں اور عبد بن حمید وابو داوٗد وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے یعلی بن امیہ سے روایت کیا کہ رسول للہ ﷺ نے فرمایا حرم شریف میں غلے کا ذخیرہ کرن اس میں الحاد ہے۔ ابن قیم (رح) فرماتے ہیں ابن القطان نے اس کو ضعیف کہا ہے عون المعبود و حاشیہ ابن القیم 202۔ 40۔ سعید بن منصور والبکاری نے تاریخ میں اور ابن المنذر نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ مکہ میں غلہ کا ذخیرہ کرنا الحاد بظلم ہے۔ 41۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ مکہ میں غلہ کا بیچنا الحاد ہے۔ 42۔ بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ مکہ میں غلہ کا ذخیرہ کرنا الحاد ہے۔ 43۔ سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وابن منیع وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن مردویہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کے دو خیمے تھے ایک حل میں اور دوسرا حرم میں۔ جب وہ نماز پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو اس خیمے میں نماز پڑھتے جو حرم میں تھا اور جب گھروالوں کو کسی بات پر عتاب کرنے کا ارادہ فرماتے تو حل والے خیمے میں جاکر عتاب کرتے لوگوں نے پوچھا تو فرمایا کہ ہم اپنی گفتگو میں کہا کرتے تھ کہ حرم کے اندر کلا واللہ بلی واللہ کہنا بھی الحاد ہے۔ 44۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ خادم کو حرم میں برابھلا کہنا ظلم ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑا گناہ ہے۔ 25۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ امیر کی مکہ میں تجارت کرنا الھاد ہے۔ 46۔ الحاکم وصححہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ تبع بادشاہ کعبہ شریف کے ارادہ سے آیا یہاں تک کہ جب کراع الغیم (کے علاقہ) میں تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ایسی تیز ہوا بھیج دی۔ کھڑا ہونے والا مشقت سے ٹھہر سکتا تھا۔ کھڑا ہونے والا بیٹھ اور لیٹ گیا۔ تبع پر ہوا چلتی رہی۔ لشکر کو بہت زیادہ تکلیف اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑا اور ان نے اپنے دو علماء کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ یہ ہوا کیا ہے جو مجھ پر مسلط کی گئی۔ ان دونوں نے کہا کیا ہم کو جان کی امان دیتا ہے تبع نے کہا تم امن میں ہو۔ دونوں نے کہا تو نے اللہ کے گھر کا ارادہ کیا ہے۔ تبع نے کہا یہ ہوا مجھ سے کیسے جائے گی۔ انہوں نے کہا تو دو کپڑے پہن لے یعنی احرام باندھ لے پھر کہو لبیک اللہم پھر داخل ہوجا اور اس (گھر) کا طواف کر اور اہل مکہ میں سے کسی کو پریشان نہ کر پھر پوچھا جب میں ایسا کرلوں تو یہ ہوا مجھ سے چلی جائے گی ؟ ان دونوں نے کہا ہاں (چلی جائے گی) اس نے چادریں پہن کر تلبیہ کہا تو اندھیری رات کے ٹکڑے کی طرح ہوا واپس چلی گئی۔ 47۔ ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس سے آیت ومن یرد فیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم۔ کے بارے میں فرمایا کہ ہم مہاجرین اور انصار کی اولاد میں سے ایک شخص نے ہم کو بتایا کہ ان کو اپنے بزرگوں نے خبر دی ہے۔ جس کسی نے اللہ کے گھر کا ارادہ کیا (بری نیت سے) جیسے ہاتھی والے نے ارادہ کیا تھا تو ان کو اللہ تعالیٰ دنیا ہی میں فوری سزا دے دیتے ہیں فرمایا اس کا حالال ہونا بھی اس کے رہنے والوں کی طرف سے ہوگا اس نے مجھے بتایا کہ ان کو اپنے بزرگوں میں سے کسی نے بتایا کہ اس نے مکہ میں دو سطریں لکھی ہوئی پائیں مقام ابراہیم میں۔ ان میں سے ایک میں یہ لکھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے گھر کو مکہ میں رکھا اس شہر کے رہنے ولوں کی خوراک گوشت، گھی اور پھل ہیں۔ اور جو اس میں داخل ہوگا تو وہ امن میں ہوگا۔ اس کو حلال نہیں کریں گے۔ مگر اس کے رہنے والے پھر فرمایا اگر یہ نہ ہوتا کہ اس کے رہنے والے ہی اس کو حلال کریں گے تو ان کو دنیا میں اللہ تعالیٰ عذاب دیتا۔ پھر اس نے یہ بھی مجھے خبر دی ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ نے فرمایا کہ اس کے حلال کرنے سے پہلے جس نے اس کو حلال کیا تھا اس نے کہا تھا میں نے اول کتاب میں یہ لکھا ہوا پایا کہ عبدالل کے ذریعے حرم شریف حلال ہوگا اور ان کے پاس عبداللہ بن عمر بن خطاب ؓ اور عبداللہ بن زبیر بیٹھے ہوئے تھے۔ عبدالہ بن عمرو بن العاص اور عبداللہ بن عمر بن خطاب میں سے ایک نے کہا میں تو صرف حج یا عمرہ یا ضروری حاجت کے لیے آیا ہوں۔ عبداللہ بن زبیر (رح) چپ ہوگئے اور کچھ بھی نہ کہا تو اس کے بعد سے انہوں نے اس کو حلال کیا۔ حرم میں الحاد کی ایک صورت 48۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمدی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا اس پر نہ لکھا جائے گا یہاں تک کہ اس پر عمل کرے۔ اور اگر ایک آدمی عدن سے دور بیٹھ کر اپنے دل میں یہ تصور کرلے کہ وہ بیت اللہ میں جا کر الحاد کرے گا۔ اور اس میں الحاد یہ ہے کہ وہ اس میں اس کام کو حلال کردے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے اس پر حرام کیا تھا پھر وہ وہاں پہنچنے سے پہلے مرگیا۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو دردناک عذاب چکھائیں گے۔ 49۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن المنذر نے ضحاک (رح) سے آیت ومن یرد فیہ بالحاد کے بارے میں روایت کیا کہ جو شخص مکہ میں کسی گناہ کا ارادہ کرے تو اس پر گناہ لکھا جائے گا حالانکہ اس نے وہ عمل نہیں کیا۔ 50۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ مکہ میں برائیوں کو بھی کئی گنا لکھا جاتا ہے۔ جس طرح نیکیوں کو کئی گنا لکھا جاتا ہے۔ 51۔ سعید بن منصور وعبد بن حمدی وابن المنذور نے عطا بن ابی رباح (رح) سے آیت ومن یر دفیہ بالحاد بظلم روایت کیا کہ اس سے رماد ہے قتل اور شرک۔ 52۔ عبد بن حمید نے روایت کیا کہ ابن ابی ملیکہ (رح) سے آیت ومن یرد فیہ بالحاد بظلم کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ ہم اس بات میں شک نہیں کرتے تھے کہ الحاد سے مراد گناہ ہیں یہاں تک کہ بصرہ والے کوفہ والوں کے پاس پہنچے اور انہوں نے کہا کہ الحاد سے مراد شرک ہے۔ 53۔ عبد بن حمدی نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ جو آدمی کسی گناہ کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو نہیں پکڑتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس پر عمل نہ کرے مگر جس نے بیت عتیق (یعنی بیت اللہ) میں کسی برائی کا ارادہ کیا۔ کیونکہ اس نے ایک برائی کا ارادہ کیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ اس کو جلدی عذاب دے گا۔ 54۔ عبدبن حمید نے ابوالحجاج (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ ایک آدمی دل میں یہ ارادہ کرتا ہے کہ وہ مکہ میں گناہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر ایک گناہ لکھ دیتے ہیں۔ 55۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمرو ؓ کو عرفہ میں دیکھا ان کی رہائش حل میں تھی اور ان کی جائے نماز حرم میں تھی۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس (بیت اللہ) میں نیک عمل کرنا افضل ہے اور اس میں گناہ کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ واللہ اعلم۔ 56۔ ابوا الشیخ وابن عدی وابن مردویہ والدیلمی نے سند ضعیف کے ساتھ عائشہ ؓ سے روایت کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیت اللہ کی جگہ مٹ گئی تھی اس لیے ہود اور صالح (علیہ السلام) نے حج نہیں کیا یہاں تک کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے اس جگہ کو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ظاہر فرمایا۔ 57۔ ابن جریر والحاکم وصححہ ہو من طریق حارثہ بن مضرب نے علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو بیت اللہ تعمیر کرنے کا حکم دیا گیا۔ تو ان کے ساتھ اسماعیل (علیہ السلام) اور بیوی ھاجرہ ؓ بھی نکلیں۔ جب مکہ آئے تو بیت اللہ کی جگہ کے اوپر ایک بادل کو دیکھا۔ جو سر کے مثل تھا۔ اس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کلام کیا اس بادل نے کہا اے ابراہیم ! میرے سائے پر یا میری مقدار کے مطابق تعمیر کرو اس سے زیادہ یا کم نہ کرو جب آپ نے خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل کردی تو آپ باہر آئے اور ان کے پیچھے اسماعیل اور ہاجرہ بھی تھیں اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ آیت۔ واذبوأنا لابراہیم مکان البیت آدم (علیہ السلام) کی تسلی کے لیے جنتی پتھر 58۔ عبدالرزاق نے مصنف میں عبد بن حمید وابن المنذر نے عطاء بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اتارا تو ان کی ٹانگیں زمین میں تھیں اور ان کا سر آسمان میں تھا جس سے وہ آسمان والوں کی بات اور دعا کو سنتے تھے او ان سے مانوس ہوت تھے۔ فرشتے آدم (علیہ السلام) سے ڈر گئے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اللہ کی طرف شکایت کی اپنی دعا میں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو زمین کی طرف پست کردیا آدم (علیہ السلام) فرشتوں کا کلام نہ سن سکے۔ تو تنہائی محسوس کی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف شکایت کی اپنی دعا میں پھر آپ کو مکہ کی طرف متوجہ کیا گیا تو آپ ایک قدم کے ساتھ شہر اور صحرا طے کرلیتے تھے۔ یہاں تک کہ مکہ پہنچ گئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے جنت کے یاقوتوں میں سے ایک یاقوت اتارا اور یہ اب بھی بیت اللہ کی جگہ پر ہے۔ بیت اللہ کا طواف ہوتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے طوفان نازل کیا اور اس یاقوت کو اٹھالیا۔ یہاں تک کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا جنہوں نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور یہی اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔ آیت واذ بوأنا لابراہیم مکان البیت۔ 59۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے معمر کے طریق سے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کے ساتھ ہی (اپنے) گھر کو (زمین پر) رکھ دیا جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارا حضرت آدم (علیہ السلام) کو ہند کی زمین میں اتارا گیا آپ کا سر آسمان میں تھا اور ان کے پاؤں زمین میں تھے اور فرشتے ان سے ڈرتے تھے (تو ان کے قد کو) ساٹھ ہاتھ تک کم کردیا گیا۔ آدم (علیہ السلام) غمگین ہوگئے جب انہوں نے فرشتوں کی تسبیح وتہلیل کی آواز نہ سنی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اس کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اے آدم ! میں نے تیرے لیے اپنا گھر نیچے اتار دیا ہے اس کا طواف کیا جائے گا جیسے میرے عرش کا طواف یا جاتا ہے اور اس کے پاس نماز پڑھی جائے گی جیسے میرے عرش کے پاس نماز پڑھی جاتی ہے۔ اس کی طرف چلے چائیے۔ تو آدم (علیہ السلام) چل دئیے آپ بڑے لمبے لمبے قدم رکھتے تھے ان کے دو قدموں کے درمیان صحرا آجاتا تھا آپ ان صحراؤں کو عبور کرتے ہوئے بیت اللہ کے پاس پہنچے اور انہوں نے طواف کیا ان کے بعد دوسرے انبیاء نے طواف کیا معمر (رح) نے فرمایا مجھے ابان نے خبر دی کہ بیت اللہ ایک یاقوت یا موتی کی شکل میں اترا معمر (رح) نے کہا مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی کشتی نے ساتھ چکر لگائے بیت اللہ کے یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی قوم کو غرق کردیا تو (بیت اللہ) کی دیواریں بھی ختم ہوگئیں۔ اور اس کی بنیادیں باقی رہ گئیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے بیت اللہ کی جگہ کا تعین فرمایا اور انہوں نے اس کے بعد دوبارہ تعمیر کیا۔ اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت واذ بوأنا لابراہیم مکان البیت معمر نے کہا کہ ابن جریج نے فرمایا کہ لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بادل بھیجا جس میں سر تھا۔ سر نے کہا اے ابراہیم ! باشبہ تمہارا رب تم کو حکم دیتا ہے کہ اس بادل کی مقدار جگہ لے لو۔ تو انہوں ن اس کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ اور اس کی مقدار کے برابر خط کھینچا۔ سر نے کہا کیا آپ نے اندازہ کرلیا فرمایا ہاں پھر و بادل چلا گیا پھر انہوں نے اس جگہ کو کھودا اور اس میں قائم بنیادوں کو ظاہر کیا۔ ابن جریج (رح) فرماتے ہیں کہ مجاہد (رح) نے فرمایا ایک فرشتہ بادل اور سکینت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ شام سے آئے تھے۔ سکینت نے کہا اے ابراہیم ! بیت اللہ کو لازم پکڑو فرماتے ہیں اسی وجہ سے کوئی اعرابی یا کوئی بادشاہ بیت اللہ کا طواف نہیں کرتا مگر میں اس پر سکینت اور وقار کو دیکھتا ہوں۔ ابن جریج (رح) نے فرمایا کہ ابن المسیب (رح) نے بتایا کہ علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا کہ اللہ تعلیٰ نے حجر اسود کو ابوقبیس (پہاڑ) پر (امانت) رکھا تھا۔ تو ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے گھر کو تعمیر کرلیا۔ تو ابوقبیس نے آوازدی اور کہا۔ اے ابراہیم ! یہ میرے پاس رکن اسود ہے اس کو لے لو۔ تو انہوں نے اس کی (دیوار میں) گڑھا کھودا ا اور اس کو اس میں رکھ دیا۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) اس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو عرض کیا اے میرے رب ! میں نے تعمیر مکمل کرلی ہے اب ہم کو حج کا طریقہ سکھائیے۔ ہمارے لیے ان کو ظاہر کیجئے اور ہم کو سکھائیے۔ تو اللہ تعالیٰ نے جبریل (علیہ السلام) کو بھیجا جس نے آپ کے ساتھ حج کیا یہاں تک کہ جب انہوں نے عرفہ میدان کو دیکھا تو کہا میں نے پہچان لیا اور آپ اس سے پہلے بھی ایک مرتبہ آئے تھے (پھر) فرمایا کہ اس لی ہے اس کا نام عرفہ رکھا گیا۔ یہاں تک کہ جب قربانی کا دن تھا تو شیطان ان کے سامنے آیا تو جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا اس کو کنکری مارئیے۔ تو انہوں نے سات کنکریاں مریں پھر اسی طرح دوسرے دن تیسرے دن ہوا دو پہاڑوں کے درمیان جو جگہ تھی ابلیس نے اس کو بھردیا اسی وجہ سے (حج میں) شیطان کو کنکریاں ماریں جاتی ہیں۔ پھر حکم ہوا بسیر پہاڑ پر چڑھ جائیے۔ اور آواز لگاؤ اے اللہ کے بندو ! اللہ تعالیٰ کا حکم مانو۔ اے اللہ کے بندو ! اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو۔ ان کی پکار کو سن لیا سات سمندروں کے درمیان ان لوگوں نے جن کے دل میں رائی کے دانوں کے برابر ایمان تھا اور ان میں تلبیہ بھی تھا لبیک اللہم لبیک یہ وہ حکم تھا جو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دیا تھا حج کے احکام میں سے، زمین پر سات مسلمان یا اس سے زیادہ رہے ہیں اگر ایسا نہ ہو تو زمین اور جو کچھ اس پر ہے سب ہلاک ہوجائے۔ 60۔ ابن ابی حاتم نے کعب احبار ؓ سے روایت کیا کہ اللہ کا گھر زمین کی پیدائش سے چالیس سال پہلے جھاگ کی صورت میں موجود تھا۔ اور پھر اسی سے زمین کو پھیلایا گیا۔ 61۔ ابن جریر وابن ابی حاتم والبیہقی نے دلائل میں سدی (رح) سے روایت ہے کہ اللہ عزوجل نے ابراہیم علیہ السلم کو حکم فرمایا کہ تم اور اسماعیل (دونوں مل کر) میرے گھر کی تعمیر کرو۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے شہر سے چلے یہاں تک کہ مکہ پہنچے ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) دونوں کدال اٹھانا نہیں جانتے تھے کہ بیت اللہ کی (بنیادیں) کہاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ہوا بھیجی جس کو ” ریح الخجوج “ کہا جاتا تھا۔ اس کے دو پر تھے۔ اور اس کا سر سانپ کی شکل میں تھا اس ہوا نے کعبہ کے ارد گرد جھاڑو دیا۔ جو پہلا گھر تھا۔ دونوں نے کدال سے کھودنا شروع کیا یہاں تک کہ بنیادیں نکال لیں اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آیت واذ بوأنا لابراہیم مکان البیت۔ جب انہوں نے دیواریں بنائیں اور حجر اسود کی جگہ پر پہنچے تو ابراہیم (علیہ السلام) سے فرمایا میرے لیے ایک خوبصورت پتھر لے آؤ میں اس کو یہاں رکھوں گا۔ اسماعیل (علیہ السلام) نے عرض کیا اے میرے باپ ! میں سست اور کمزور آدمی ہوں فرمایا میرے پاس خوبصورت پتھر لے آؤ، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) پتھر کو ڈھونڈنے کے لیے چلے۔ ایک پتھر لے آئے مگر وہ راضی نہ ہوئے۔ یعنی پسند نہ آیا۔ اور فرمایا اس سے اچھا پتھر میرے پاس لاؤ۔ وہ پتھر کو ڈھونڈنے کے لیے چلے ادھر حضرت جبریل (علیہ السلام) حجر اسود کو جنت سے لے کر آئے جو سفید یاقوت کا تھا بالکل سفید پھول کی طرح۔ اور آدم اس کو اپنے ساتھ نیچے لے آئے تھے جنت سے تو یہ لوگوں کے گناہوں سے کالا ہوگیا۔ اسماعیل (علیہ السلام) ایک پتھر لے کر آئے (مگر) رکن کے پاس ایک اور پتھر کو پایا تو پوچھا اے میرے باپ ! یہ پتھر کون آپ کے پاس لایا ؟ فرمایا یہ پتھر میرے پاس وہ لایا جو تجھ سے زیادہ چست ہے۔ اس درمیان کہ دونوں ان کلمات کے ذریعے دعا کررہے تھے کہ جن کے ذریعے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے آزمایا تھا۔ جب دونوں تعمیر سے فارغ ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ (حج کے لیے) آواز لگاؤ۔ اسی کو فرمایا آیت ” واذن فی الناس بالحج “۔ بیت اللہ کی بنیاد کب سے ہے 62۔ ابن ابی حاتم نے حوشب بن عقیل (رح) سے روایت کیا کہ میں نے محمد بن عباد بن جعفر (رح) سے پوچھا یہ گھر (یعنی بیت اللہ) کب سے ہے ؟ انہوں نے فرمایا مہینوں کو اس کے لیے پیدا کیا گیا۔ میں نے کہا ابراہیم کی تعمیر کی کتنی بلندی تھی۔ فرمایا اٹھارہ ہاتھ (پھر) میں نے کہا آج وہ کتنی ہے۔ ؟ فرمایا چھبیس ہاتھ میں نے کہا کیا ابراہیم (علیہ السلام) کی تعمیر والے پتھروں میں سے کوئی پتھر باقی ہے ؟ فرمایا ان کے ساتھ بیت اللہ کو گرادیا گیا۔ مگر دو پتھر باقی ہیں جو حجر اسود سے ملے ہوئے ہیں۔ 63۔ الحاکم وصحہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ نے فرمایا آیت ” وطہر بیتی للطائفین والقائمین والرکع السجود “ یعنی اس میں نماز سے پہلے طواف کا ذکر ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیت اللہ کا طواف کرنا نماز کے قائم مقام ہے۔ مگر (فرق یہ ہے) کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں بات کرنا حلال کردیا ہے۔ پس جو شخص (طواف کے دوران) بات کرے تو وہ نیکی کی ہی بات کرے۔ 64۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ ” للطائفین “ یعنی وہ لوگ جو بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں۔ ” والقائمین “ یعنی اس کے پاس نماز پڑھنے والے۔ 65۔ عبدالرزاق وجریر نے ابن قتادہ رحمۃ اللہ عیہ سے روایت کیا کہ ” القائمون “ سے مراد ہے نماز پڑھنے والے۔ 66۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف نے میں اور ابن منیع وابن جریروابن المنذر وابن ابی حاتم والحاکم وصححہ والبیہقی نے سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو عرض کیا اے میرے رب میں فارغ ہوچکا ہوں فرمایا آیت ” واذن فی الناس بالحج “ (یعنی لوگوں میں حج کا اعلان کیجئے) عرض کیا اے میرے رب ! میری آواز کہاں تک پہنچے گی فرمایا اعلان کر اور پہنچا دینا میرا کام ہے پوچھا اے میرے رب ! میں کیسے کہوں فرمایا (یوں کہو) اے لوگو ! تم پر بیت العتیق (یعنی کعبہ) کا حج فرض کیا گیا ہے۔ تو آسمان اور زمین کے درمیان (سب چیزوں نے) سن لیا۔ کیا تو نہیں دیکھتا کہ لوگ لبیک پڑھتے ہوئے زمین کے دور دراز سے آرہے ہیں۔ 67۔ ابن جریر وابن المنذر والحاکم البیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے بیت اللہ کو تعمیر فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ لوگوں میں حج کا اعلان کرو۔ تو آپ نے یہ اعلان فرمایا تمہارے رب نے گھر بنایا ہے اور تم کو اس کا حج کرنے کا حکم دیا ہے۔ پس ہر پتھر درخت ٹیلہ مٹی یا جس چیز نے بھی آپ کی دعوت کو سنا تو اس نے جواب دیا لبیک اللہم لبیک۔ 68۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم فرمایا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کرو۔ تو انہوں نے ابوقبیس پہاڑ پر چرھ کر اپنے کانوں میں انگلیاں دے کر آواز لگائی کہ اللہ تعالیٰ نے حج فرض کیا ہے۔ اپنے رب کا حکم مانو۔ تو سب نے تلبیہ کے ساتھ جواب دیا۔ جو لوگ مردوں کی صلبوں اور عورتوں کے رحموں میں تھے۔ سب سے پہلے یمن والوں نے جواب دیا۔ اس دن سے قیامت قائم ہونے تک حاجی حج کرتے رہیں گے۔ اور وہ سب ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کی آواز کا جواب دیا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا حج کے لیے پکار 69۔ دیلمی نے سند کمزور کے ساتھ حضرت علی ؓ نے مرفوعاً روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے حج کے لیے پکارا۔ جس شخص نے ایک مرتبہ تلبیہ کہا تو اس نے ایک حج کیا اور جس نے دو مرتبہ تلبیہ کہا اس نے دو حج کیے اور جس نے زیادہ مرتبہ تلبیہ کہا وہ زیادہ مرتبہ حج کرے گا۔ 70۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ نے کے بارے میں فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک پتھر پر کھڑے ہو کر یہ آواز لگائی اے لوگو ! تم پر حج فرض کردیا گیا ہے۔ تو سب نے سن لیا جو ابھی مردوں کی پیٹھوں میں اور عورتوں کے رحموں میں تھے۔ اور جن کے متعلق اللہ کے علم میں طے ہوچکا تھا کہ انہوں نے حج کرنا ہے تو انہوں نے لبیک اللہم لبیک کہا۔ 71۔ ابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” واذن فی الناس بالحج “ سے مراد ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ آواز ہر مذکر اور مونث تک پہنچائی گئی۔ 72۔ ابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ آیت ” واذن فی الناس بالحج “ یعنی لوگوں میں حج کا اعلان کیجئے تو انہوں نے لوگوں میں اعلان کیا۔ اے لوگو ! تمہارے رب نے گھر بنایا ہے اس کا حج کرو۔ اس وقت جس نے بھی سنا کسی انسان نے، جن نے، درخت نے، ٹیلے نے، مٹی نے، پہاڑ نے، پانی نے اور کسی بھی چیز نے تو اس نے کہا لبیک اللہم لبیک۔ 73۔ اوب الشیخ نے کتاب الاذان نے عبداللہ بن زبیر رضی الہ عنہ سے روایت کیا کہ اذان ابراہیم (علیہ السلام) کی اذان سے لی گئی۔ جس کو فرمایا آیت ” واذن فی الناس بالحج “ تو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز کے لیے اذان دی۔ 74۔ ابن ابی حاتم نے عبید بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا لوگوں کو اللہ کی طرف بلاؤ تو انہوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے آواز دی۔ تو سب نے جواب دیا لبیک لبیک (یعنی ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں) ۔ 75۔ ابن ابی حاتم نے علی بن ابی طلحہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ آیت ” واذن فی الناس بالحج “ (یعنی لوگوں میں حج کا اعلان کیجئے) تو وہ پتھر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو ! اللہ تعالیٰ تم کو حج کا حکم فرماتے ہیں اس دن زمین میں جو بھی مخلوق تھی سب نے جواب دیا۔ اور جو عورتوں کے رحموں میں اور مردوں کی اصلاب میں تھے اور جو سمندروں میں تھے تو سب نے کہا لبیک اللہم لبیک۔ 76۔ عبد بن حمید نے مجاہد رحمۃ اللہ عیلہ سے روایت کیا کہ جبریل (علیہ السلام) نے ابراہیم (علیہ السلام) سے فرمایا آیت ” واذن فی الناس بالحج “ (یعنی لوگوں میں حج کا اعلان کیجئے) تو انہوں نے پوچھا کس طرح اعلان کروں ؟ فرمایا تین مرتبہ کہو اے لوگو ! اپنے رب کی دعوت کو قبول کرو۔ تو بندوں نے جواب دیا اور کہا لبیک اللہم ربنا لبیک۔ مخلوق میں سے جس نے اس دن ابراہیم (علیہ السلام) کے اس اعلان کا جواب دیا سو وہ حج کرنے والا ہے۔ 77۔ عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جب ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) بیت اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ حج کے لیے اعلان کیجئے تو وہ صفا پر کھڑے ہوئے تو اونچی آواز سے اعلان فرمایا جس کو مشرق اور مغرب کے درمیان سب نے سن لیا (فرمایا) اے لوگو ! اپنے رب کی دعوت قبول کرو۔ تو سب نے جواب دیا جو اپنے آباء کی اصلاب میں تھے۔ سب نے کہا لبیک راوی نے فرمایا کہ آج وہی شخص بیت اللہ کا حج کرتا ہے جس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اس دن جواب دیا تھا۔ 78۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو حج کے اعلان کا حکم دیا گیا تو انہوں نے اعلان فرمایا اے لوگو ! اپنے رب کا حکم مانو تو تو ہر خشک اور تر چیز نے لبیک کہا۔ مقام ابراہیم پر حج کے لیے پکارا گیا۔ 79۔ سعید بن منصور وابن المنذر وابن ابی حاتم والبیہقی نے شعب میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ لوگوں میں حج کا اعلان کریں۔ تو وہ مقام ابراہیم پر کھڑے ہوئے اور اونچی آواز سے پکارا جس کو مشرق اور مغرب کے درمیان والوں نے سن لیا۔ اے لوگو ! اپنے رب کی دعوت کو قبول کرو۔ 80۔ سعید بن منصور وابن المنذر وابن ابی حاتم والبیہقی نے شعب میں مجاہد (رح) سے ورایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا میں کس طرح کہوں ؟ فرمایا آپ کہہ دیجئے اے لوگو ! اپنے رب کی دعوت کو قبول کرو۔ پس جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا، پہاڑ میں سے، درخت میں سے اور کوئی چیز فرمانبرداری کرنے والوں میں سے سب نے کہا لبیک اللہم لبیک تو یہ الفاظ تلبیہ بن گئے۔ 81۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جس پتھر پر آپ نے کھڑے ہو کر اعلان فرمایا وہ زمین میں بلند ترین پہاڑوں کی طرح بلند ہوگیا پھر آپ نے حج کا اعلان کیا تو آپ کی آواز سات سمندروں کے نیچے بھی سنائی دی اور انہوں نے کہا ” لبیک اطعنا “ (ہم حاضر ہیں ہم اطاعت کریں گے) ۔ ” لبیک اجبنا “ ہم حاضر ہیں ہم نے دعوت قبول کرلی) قیامت تک جو بھی حج کرے گا وہ ان میں سے ہوگا جس نے اس دن لبیک کہا تھا۔ 82۔ عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا گیا آیت ” واذن فی الناس بالحج “ (یعنی لوگوں میں حج کا اعلان کیجئے) تو پوچھا اے میرے رب ! میں کس طرح کہوں ؟ فرمایا یوں کہو لبیک اللہم لبیک۔ پس ابراہیم (علیہ السلام) پہلے آدمی تھے جنہوں نے لبیک کہی۔ 83۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو حج کا اعلان کا حکم دیا گیا تو انہوں نے مقام (ابراہیم) پر کھڑے ہو کر آواز لگائی جس کو سب زمین والوں نے سن لیا۔ (فرمایا) خبردار تمہارے رب نے گھر بنایا ہے اور تم کو حکم دیا ہے کہ اس کا حج کرو۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے قدموں کے نشانات کو اس پتھر میں ثبت کر کے (قیامت کے لے) ایک نشانی بنادی۔ 84۔ عبد بن حمید بن وابن المنذر نے عطا (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) صفا پر چڑھے۔ اور فرمایا اے لوگو ! اپنے رب کی دعوت کو قبول کرو۔ تو اس آواز کو اس زندہ نے سن لیا جو مردوں کی اصلاب میں تھا۔ 85۔ عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) نے فرمایا ابراہیم کی پکار کا ہر انسان اور جن اور ہر درخت اور پتھر نے جواب دیا۔ 86۔ ابن جریر وابن ابی حاتم والطبرانی والبیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو لوگوں میں اعلان کرنے کا حکم دیا گیا تو ان کے لیے پہاڑوں کو جھکا دی گیا اور زمین کو اونچا کردیا گیا تو انہوں نے کھڑے ہو کر فرمایا اے لوگو ! اپنے رب کی دعوت کو قبول کرو۔ 87۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) ابو قبیس پہاڑ پر چرھے اور فرمایا اللہ اکبر اللہ اکبر میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں۔ اے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے مجھ کو حکم فرمایا ہے کہ میں لوگوں میں حج کا اعلان کرو۔ اے لوگو ! اپنے رب کی دعوت کو قبول کرو۔ پس قیامت تک وہ جواب دے گا کہ جس سے اللہ تعالیٰ نے حج کرنے کا عہد لیا۔ 88۔ ابن جریر نے فرمایا کہ ابن عباس ؓ نے آیت ” واذن فی الناس بالحج “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد اہل قبلہ ہیں کیا تم نے یہ فرمان نہیں سنا آیت ” ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبرکا وہدی للعلمین، فیہ اٰیت بینات مقام ابراہیم ومن دخلہ کان اٰمنا “۔ پھر فرمایا پس بیت اللہ میں وہ داخل ہوں گے جن میں اعلان کرنے کا حکم دیا گیا اور جن پر حج فرض کیا گیا۔ 89۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” یاتوک رجالا “ یعنی آئیں گے تیرے پاس پیدل۔ آیت ” علی کل ضامر “ یعنی اونٹ پر آیت ” یاتین من کل فج عمیق “ یعنی دور سے۔ 90۔ خطیب نے تاریخ میں محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عباس ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا مجھے کسی چیز پر کوئی غم نہیں مگر یہ کہ میں نے پیدل حج نہیں کیا کیونکہ میں نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا آیت ” یاتوک رجال وعلی کل ضامر “ اور اسی طرح وہ اس کو پڑھتے تھے۔ پیدل حج کرنے کی تمنا اور آرزو 91۔ ابن ابی شیبہ وابن سعد وعبن بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مجھے کسی چیز کا کوئی غم نہیں کہ وہ مجھ سے فوت ہوگئی مگر اس بات کا غم ہے کہ میں نے پیدل حج نہیں کیا یہاں تک کہ میں بڑھاپے کو پالیا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا آیت ” یاتوک رجالا وعلی کل ضامر “ تو (اس آیت میں) سوار ہونے والوں سے پہلے پیدل چلنے والوں کا ذکر فرمایا۔ 92۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما اسلالام دونوں نے پیدل حج کیا۔ فرماتے ہوئے سنا جس شخص نے مکہ سے پیدل حج کیا یہاں تک کہ مکہ کی طرف لوٹ آیا۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر قدم کے عوض حرم کی نیکیوں میں سے سات سو نیکیاں لکھ دیں گے۔ کہا گیا حرم کی نیکیوں سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا ہر نیکی کے بدلے ایک لاکھ نیکیاں۔ 94۔ ابن سعد وابن مردویہ والضیاء نے مختارہ میں ابن عباس (رح) سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا سوار ہونے والے حاجی کے لیے ہر قدم کے عوض ستر نیکیاں ہیں جو اس کی سواری قدم رکھے گی اور پیدل والے کے ہر قدم پر سات سو نیکیاں ہیں حرم کی نیکیوں میں سے، کہا گیا یا رسول اللہ ! حرم کی نیکیاں کیا ہیں ؟ فرمایا کہ ہر نیکی کے بدلے ایک لاکھ نیکیاں۔ 95۔ البیہقی وضعفہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سوار حاجیوں سے فرشتے مصافحہ کرتے ہیں اور پیدل حاجیوں سے معانقہ کرتے ہیں۔ 96۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا۔ آیت ” یاتوک رجالا “ کہ یعنی اپنے پاؤں پر چل کر (آئیں گے) آیت ” وعلی کل ضامر “ یعنی اونٹ پر سوار ہو کر، آیت ” یاتین من کل فج عمیق، یعنی دور جگہ سے۔ 79۔ ابن جریر وعبدالرزاق نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لوگ حج کرتے تھے مگر زاد راہ نہیں لاتے تھے تو اللہ نے (یہ حکم) دیا۔ آیت ” وتزودوا “ (یعنی زاد راہ لے لیا کرو) اور لوگ حج کرتے اور سوار نہ ہوتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آیت ” یاتوک رجالا وعلی کل ضامر “ تو ان کو زاد راہ لینے کا حکم فرمایا اور ان کے لیے سوار ہونے کی اور تجارت کرنے کی رخصت عطا فرمائی۔ 98۔ طستی نے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) نے ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت ” من کل فج عمیق “ کے بارے میں پوچھا۔ تو فرمایا اس سے مراد ہے (دور کا راستہ پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی کو جانتے ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے شاعر کا قول نہیں سنا۔ فساروا العناء وسدوا الفجاج باجساد عاد لہ ا یدات ترجمہ وہ چلے جھکتے ہوئے اور انہوں نے روک دیا دور کے راستوں کو اجساد کے ساتھ۔ 99۔ ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” یاتوک رجا لا وعلی کل ضامر “ سے مراد ہے پیدل اور سوار۔ 100۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” یاتوک رجال وعلی کل ضامر “ سے مراد ہے کہ وہ شخص جس کو ساری پہنچائے اور کمزور ہوجائے۔ 101۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” من کل فج عمیق “ یعنی دور کا راستہ۔ 102۔ ابن المنذر نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت من کل فج عمیق سے مراد ہے دور جگہ۔ عبدالرزاق وابن جریر نے قتادہ (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ 103۔ عبدالرزاق نے مسنف میں عبید بن عمیر (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ ایک قافلہ سے ملے جو بیت اللہ کا ارادہ رکھتے تھے۔ عمر ؓ نے پوچھا تم کون ہو ؟ ان میں سے ایک نوجوان نے جواب دیا ی مسلمان بندے ہیں۔ پھر پوچھا تم کہاں سے آئے ہو عرض کیا دور جگہ سے پھر پوچھا تم کہاں کا ارادہ کرتے ہو ؟ کہا بیت عتیق کا، عمر ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم اپنے کلام کی تفسیر کرو۔ تمہارا امیر کون ہے تو انہوں نے ان میں سے ایک بوڑھے کی طرف اشارہ کیا تو عمر ؓ نے فرمایا بلکہ تو ان کا امیر ہے اتنی کم عمری میں جس نے یہ جواب دیا۔ 104۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” لیشہدوا منافع لہم “ یعنی عربوں کے بازار تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جو منافع کا ذکر فرمایا ہے وہ دنیا کا ہے۔ 105۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” لیشہدوا منافع لہم، میں منافع سے رماد دنیا وآخر ت کے منافع ہیں آخرت کے منافع سے مراد اللہ کی رضامندی ہے اور دنیا کے منافع سے مراد اس دن جانوروں کا گوشت حاصل کرنا اور تجارت کرنا ہے۔ 106۔ عبد بن حمید وابن جریرنے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت لیشہدوا منافع لہم سے مراد ہے آخرت میں اجر اور دنای میں تجارت۔ 107۔ ابن ابی حاتم نے مقاتل (رح) سے روایت کیا کہ آیت ویذکروا اسما لالہ یعنی جانوروں کے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لو 108۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے روایت کیا کہ قتادہ (رح) نے آیت ویذکروا اسم اللہ کے بارے میں فرمایا کہ کہا جاتا تھا۔ جب تو اپنی قربانی کو ذبح کرو تو بسم اللہ، اللہ اکبر کہو۔ اللہم ہذمنک ولک عن فلان، کہو پھر کھا اور کھلاؤ جیسے کہ اللہ نے تجھ کو حکم فرمایا پڑوسی کو پھر قریبی رشتہ دار کو پھر اس سے قریبی رشتہ دار کو۔ 109۔ ابوبکر المروزی نے کتاب العیدین میں اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ ے سروایت کیا کہ ” الایام معلومت “ سے مراد ہیں ذی الحجہ کے دس دن۔ 110۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت الایام معلومت، سے مراد ہیں قبانی کا دن اور اس کے بعد تین دن۔ 111۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت فی ایام معلومت سے مراد ہیں ایام تشریق۔ 112۔ ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ آیت فی ایام معلومات، یعنی ایام تشریق آیت علی مارزقہم من بہیمۃ النعام سے مراد ہے بد ن (یعنی اونٹ ) 113۔ اب المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ آیت، ایام معلومات ومعدودات سے کل چار دن مراد ہیں۔ معلومات سے مراد ہیں قبانی کا دن اور اس کے بعد دو دن اور معدودات سے مراد ہیں قربانی کے دن کے بعد تین دن۔ 114۔ ابن المنذر نے علی ؓ سے روایت کیا کہ ایاما معلومات سے قربانی کا دن اور اس کے بعد تین دن مراد ہیں 115۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت فی ایام معلمات سے مراد ہیں یوم ترویہ یعنی آٹھویں ذوالحجہ سے پہلے ایک دن اور آٹھویں ذوالحجہ کا دن اور عرفہ کا دن۔ 116۔ عبد بن حمید نے عطاء (رح) اور مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت فی ایام معلومات سے مراد ہیں دس دن سعیید بن جبیر اور حسن (رح) سے اسی طرح روایت کیا گیا۔ 117۔ عبدالرزاق و سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابراہیم (رح) 9 سے روایت کیا کہ مشرکین اپنی حج کی قربانیوں میں سے نہیں کھاتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی آیت ” فکلوا منہا واطعموا البائس الفقیر “ تو مسلمانوں کو اجازت فرمادی کہ جو چاہے کھائے اور جو چاہے نہ کھائے۔ 118۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر اور بیہقی نے سنن میں مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ رخصت ہے اگر چاہے کھائے اگر چاہے نہ کھائے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے فرمایا آیت ” واذا حللتم فاصطادوا “ (المائدہ : 2) یعنی جب تم حلال ہوجاؤ یعنی احرام کھول لو تو شکار کرو۔ اگر چاہو۔ 119۔ عبد بن حمید نے عطاء (رح) سے روایت کیا آیت فکلوا منہا واطعموا، کہ یعنی جب تم ذبح کرو تو ہدیہ دو خود کھاؤ اور فقیروں کو کھلاؤ اور اپنے پاس بھی قربانی کے گوشت رکھو۔ 120۔ عبد بن حمید نے عطاء (رح) سے روایت کیا آیت ” فکلوا منہا واطعموا البائس الفقیر “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ حکم قربانیوں کے متعلق ہے۔ 121۔ عبد بن حمید نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ اگر چاہو تو حج کی اور عید کی قربانی میں سے کھاؤ اگر چاہو تو نہ کھاؤ۔ 122۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے آیت ” فکلوا منہا “ کے بارے میں فرمایا کہ ابن مسعود ؓ جسے ہدی کا جانور دے کر بھیجتے تھے تو اس کو فرماتے کہ تیسر حصہ خود کھانا اور ایک تہائی صدقہ کرنا اور آل عتبہ کو ایک تہائی ہدیہ دینا۔ 123۔ ابن ابی حاتم نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر اونٹ میں سے ایک ٹکڑا کاٹا پھر اس کو ہانڈی میں ڈالا (پھر) گوشت میں سے رسول اللہ ﷺ اور علی ؓ نے کھایا اور اس کا شوربا پیا۔ سفیان ؓ نے فرمایا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آیت ” فکلوا منہا “ یعنی اس میں سے کھاؤ۔ 124۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” واطعموا البائس “ سے مراد اپاہج ہے (کہ اس کو کھلاؤ) 125۔ الطستی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا نافع بن ارزق (رح) نے ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت ” واطعموا لبائس الفقیر “ کے بارے میں بتائیے۔ تو انہوں نے فرمایا ” البائس “ سے مراد ہے وہ شخص جو شدید حاجت کے (وقت) بھی کچھ نہ پائے۔ پوچھا کیا عرب کے لوگ اس سے واقف ہیں۔ فرمایا ہاں کیا تو نے طرفہ کو نہیں سنا وہ کہتا ہے۔ یغشا ہم البائس المدقع والضیف والجار مجاور جنب ترجمہ انتہائی مجبور اور ضرورت مند اور مہمان اور پڑوسی ان پر غالب آگئے۔ 126۔ عکرمہ و مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” البائس “ سے مراد ہے وہ شخص جو لوگوں سے سوال کرنے کے لیے اپنی ہتھیلوں کو پھیلاتا ہے۔ 127۔ عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ” البائس “ سے مراد ہے وہ مبور آدمی جو بھوکا ہو ” الفقیر “ سے مراد ہے ضعیف۔ 128۔ ابن ابی حاتم وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” البائس الفقیر “ دونوں کا ایک ہی معنی ہے۔ 129۔ ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” البائس الفقیر “ سے مراد وہ شخص ہے جو لولا ہو وہ فقیر ہے۔
Top