Dure-Mansoor - Al-Hajj : 46
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَاۤ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَا١ۚ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا : پس کیا وہ چلتے پھرتے نہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَتَكُوْنَ : جو ہوجاتے لَهُمْ : ان کے قُلُوْبٌ : دل يَّعْقِلُوْنَ : وہ سمجھنے لگتے بِهَآ : ان سے اَوْ : یا اٰذَانٌ : کان (جمع) يَّسْمَعُوْنَ : سننے لگتے بِهَا : ان سے فَاِنَّهَا : کیونکہ درحقیقت لَا تَعْمَى : اندھی نہیں ہوتیں الْاَبْصَارُ : آنکھیں وَلٰكِنْ : اور لیکن (بلکہ) تَعْمَى : اندھے ہوجاتے ہیں الْقُلُوْبُ : دل (جمع) الَّتِيْ : وہ جو فِي الصُّدُوْرِ : سینوں میں
کیا یہ لوگ زمین میں نہیں چلے پھر تاکہ ان کے ایسے دل ہوتے جن کے ذریعہ سمجھتے اور ایسے کان ہوتے جن کے ذریعہ سنتے سو بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں لیکن دل ادندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں (
1۔ ابن ابی الدنیا نے کتاب التفکر میں ابن دینار (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ لوہے کے جوتے اور ایک لاٹھی بناؤ پھر زمین میں چلو پھرو۔ اور زمین میں نشانات اور عبرتوں کو ڈھونڈو۔ یہاں تک کہ جوتے گھس جائیں اور لاٹھی ٹوٹ جائے۔ 2۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت فانہا لاتعمی الابصار سے مراد ہے یہ سروں کی آنکھیں کیا ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو منافع کا باعث بنایا لیکن نفع دینے والی آنکھیں وہ ہیں جو دل میں ہیں۔ ہم کو ذکر کیا گیا کہ یہ آیت عبداللہ بن زائدہ یعنی ابن ام مکتوم ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ 3۔ حکیم ترمذی نے بوادر الاصول میں اور ابو نصر السجزی نے شعب الایمان میں ابانہ میں اور دیلمی نے مسند الفردوس میں عبداللہ بن جراد ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ وہ اندھا نہیں ہے جو ظاہری آنکھوں سے اندھا ہو لیکن اندھا وہ ہے جو بصیرت سے اندھا ہو۔
Top