Dure-Mansoor - Al-Hajj : 5
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَّ غَیْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَیِّنَ لَكُمْ١ؕ وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْۤا اَشُدَّكُمْ١ۚ وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْلَا یَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَیْئًا١ؕ وَ تَرَى الْاَرْضَ هَامِدَةً فَاِذَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْهَا الْمَآءَ اهْتَزَّتْ وَ رَبَتْ وَ اَنْۢبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍۭ بَهِیْجٍ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو فِيْ رَيْبٍ : شک میں مِّنَ : سے الْبَعْثِ : جی اٹھنا فَاِنَّا : تو بیشک ہم خَلَقْنٰكُمْ : ہم نے پیدا کیا تمہیں مِّنْ تُرَابٍ : مٹی سے ثُمَّ : پھر مِنْ نُّطْفَةٍ : نطفہ سے ثُمَّ : پھر مِنْ عَلَقَةٍ : جمے ہوئے خون سے ثُمَّ : پھر مِنْ مُّضْغَةٍ : گوشت کی بوٹی سے مُّخَلَّقَةٍ : صورت بنی ہوئی وَّ : اور غَيْرِ مُخَلَّقَةٍ : بغیر صورت بنی لِّنُبَيِّنَ : تاکہ ہم ظاہر کردیں لَكُمْ : تمہارے لیے وَنُقِرُّ : اور ہم ٹھہراتے ہیں فِي الْاَرْحَامِ : رحموں میں مَا نَشَآءُ : جو ہم چاہیں اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقررہ ثُمَّ : پھر نُخْرِجُكُمْ : ہم نکالتے ہیں تمہیں طِفْلًا : بچہ ثُمَّ : پھر لِتَبْلُغُوْٓا : تاکہ تم پہنچو اَشُدَّكُمْ : اپنی جوانی وَمِنْكُمْ : اور تم میں سے مَّنْ : کوئی يُّتَوَفّٰى : فوت ہوجاتا ہے وَمِنْكُمْ : اور تم میں سے مَّنْ : کوئی يُّرَدُّ : پہنچتا ہے اِلٰٓى : تک اَرْذَلِ الْعُمُرِ : نکمی عمر لِكَيْلَا يَعْلَمَ : تاکہ وہ نہ جانے مِنْۢ بَعْدِ : بعد عِلْمٍ : علم (جاننا) شَيْئًا : کچھ وَتَرَى : اور تو دیکھتا ہے الْاَرْضَ : زمین هَامِدَةً : خشک پڑی ہوئی فَاِذَآ : پھر جب اَنْزَلْنَا : ہم نے اتارا عَلَيْهَا : اس پر الْمَآءَ : پانی اهْتَزَّتْ : وہ تروتازہ ہوگئی وَرَبَتْ : اور ابھر آئی وَاَنْۢبَتَتْ : اور اگا لائی مِنْ : سے كُلِّ زَوْجٍ : ہر جوڑا بَهِيْجٍ : رونق دار
اے لوگو ! اگر تم اٹھائے جانے کی طرف سے شک میں ہو تو بلاشبہ ہم نے مٹی سے پھر نطفہ سے پھر خون کے لوتھرے سے پھر بوٹی بنی ہوئی صورت سے اور جو صورت ابھی نہ بنی ہو اس سے تمہی پیدا کیا تاکہ ہم تمہیں بتائیں اور ہم اپنی مشیت کے موافق مقررہ مدت تک رحموں میں ٹھہراتے ہیں پھر تمہی اس ھال میں نکالتے ہیں کہ تم بچہ کی صورت میں ہوتے ہو، پھر تاکہ تم اپنی قوتوں کو پہنچ جاؤ، اور تم میں سے بعض وہ ہیں جو اٹھالیے جاتے ہیں اور اور تم میں سے بعض وہ ہیں جو نکمی عمر کو پہنچ جاتے ہیں۔ تاکہ علم کے بعد کچھ بھی نہ جانیں۔ اور اے مخاطب تو زمین کو بھی سوکھی پڑی ہوئی دیکھتا ہے پھر جب ہم اس پر پانی اتارتے ہیں تو وہ لہلہانے لگتی ہے اور وہ بڑھ جاتی ہے اور ہر طرح کے خوشنما جوڑے اگا دیتی ہے
1۔ احمد والبکاری ومسل موابوداوئد والترمذی والنسائی وابن ماجہ وابن المنذر وابن ابی حاتم والبیہقی نے شعب الایمان میں عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے بیان فرمایا۔ اور آپ ﷺ سچے ہیں اور آپ ﷺ سے سچ کہا گیا کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس طرح سے ہے کہ پہلے ماں کے پیٹ میں چالیس دن نطفہ کی صورت میں جمع کیا جاتا ہے اتنی مدت جمے ہوئے خون کی صورت میں رکھا جاتا ہے پھر اتنی مدت گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں رکھا جاتا ہے پھر اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونک دیتا ہے۔ اور اس کو چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ وہ فرتہ اس کا رزق اس کی عمر اور بدبخت یا نیک بخت ہونا لکھتا ہے۔ پر قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ بلاشبہ تم میں سے کوئی ایک اہل جنت کے عمل جیسا عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ تو اس پر لکھا ہوا سبقت کرجاتا ہے۔ تو وہ دوزخ والے عمل کرنے لگتا ہے اور اس میں داخل ہوجاتا ہے۔ 2۔ ابن عباس ؓ نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نطفہ چالیس دن رحم میں اپنے حال پر رہتا ہے۔ جب چالیس دن گزر جاتے ہیں تو جما ہوا خون بن جاتا ہے۔ پھر اسی طرح گوشت کا لوتھڑا بن جاتا جاتا ہے۔ پھر اسی طرح اس کی ہڈیاں بن جاتی ہیں۔ جب (اللہ تعالیٰ ) اس کی پیدائش کو پورا کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس کی طرف ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! کیا مذکر ہوگا یا مؤنث، کیا بدبخت ہوگا یا نیک بخت ہوگا۔ یا چھوٹا ہوگا یا لمبا ہوگا۔ ناقص ہوگا یا مکمل ہوگا۔ اس کی روزی اس کی عمر کیا ہوگی۔ تندرست ہوگا یا بیمار ہوگا۔ تو یہ ساری باتیں لکھ دی جاتی ہیں۔ 3۔ ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نطفہ جب رحم میں قرار پکڑ جائے تو ارحام پر متعین فرشتہ اس کو اپنی ہتھیلی میں لے لیتا ہے اور پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ مخلقہ (یعنی مکمل پیدائش والا) یا غیر مخلقہ (یعنی نامکمل پیدائش والا) ہوگا۔ اگر اللہ تعالیٰ فرمادیں کہ یہ غیر مخلقہ ہے تو رحم اس کو خون کی صورت پھینک دیتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اس کو مخلقہ فرمادیں تو فرشتہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ مذکر ہوگا یا مونث۔ بدبخت ہوگا یا نیک بخت، اس کی عمر کیا ہوگی۔ اس کا عمل کیا ہوگا۔ اس کا رزق کتنا ہوگا اور کسی زمین میں مرے گا۔ پھر نطفہ سے کہا جاتا ہے تیرا رب کون ہے ؟ تو وہ کہتا ہے اللہ۔ پھر کہا جاتا ہے تیرا رزاق کون ہے وہ کہتا ہے اللہ۔ پھر فرشتہ سے کہا جاتا ہے کہ لوح محفوظ کی طرف جاؤ بلاشبہ تو عنقریب اس میں اس نطفہ کا قصہ پائے گا۔ راوی نے فرمایا کہ پھر وہ بچہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اپنی مدت میں زندہ رہتا ہے اپنے رزق میں سے کھاتا ہے اور اسی تقدیر کے مطابق چلتا ہے۔ یہاں تک کہ جب اس کی عمر پوری ہوجاتی ہے تو مرجاتا ہے اور اسی جگہ میں دفن ہوجاتا ہے۔ (جہاں کی مٹی سے پیدا کیا گیا ) ۔ 4۔ ابن جریر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جب نطفہ رحم میں قرار پکڑ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں۔ وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! مخلقہ (یعنی مکمل پیدائش والا) یا غیر مخلقہ (یعنی نامکمل پیدائش والا) ہوگا۔ اگر اللہ تعالیٰ غیر مخلقہ فرماتے ہیں رحم اسے خون کی شکل میں (باہر) پھینک دیتا ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ مخلقہ قرار دیتے ہیں تو فرشتہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! اس نطفہ کی کیا صفت ہوگی۔ یہ مذکر ہوگا یا مونث ہوگا ؟ اس کا رزق کیا ہوگا۔ اس کی عمر کتنی ہوگی۔ کیا یہ بد بخت ہوگا۔ یا نیک بخت ہوگا۔ اس سے کہا جاتا ہے ام الکتاب (یعنی لوح محفوظ) کی طرف جا۔ اس میں سے نقل کرلے اس نطفہ کی صفت کو۔ فرشتہ جاتا ہے اور اس میں سے نقل کرلیتا ہے بس وہ آخری مرحلہ تک اس کے ساتھ رہتا ہے۔ پانچ باتیں ماں کے پیٹ میں لکھدی جاتی ہیں 5۔ احمد ولبکاری ومسلم والیہقی نے ” الاسماء والصفات “ میں انس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ ہر رحم کے ساتھ ایک فرشتہ مقرر فرماتے ہیں۔ وہ پوچھتا ہے اے میرے رب یہ نطفہ رہے گا یا جما ہوا خون یا گوشت کی بوٹی (بنے گا یا نہیں بنے گا) جب اللہ تعالیٰ اس کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرمالیتے ہیں تو فرشتہ عرض کرتا ہے اے میرے رب ! یہ بدبخت ہوگا یا نیک بخت ہوگا۔ مذکر ہوگا یا مونث ہوگا۔ رزق کیا ہوگا۔ عمر کتنی ہوگی۔ بس یہ سب چیزیں فرشتہ اس کے ماں کے پیٹ میں لکھ دیتا ہے۔ 6۔ احمد ومسلم والبیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت حذیفہ بن اسید غفاری ؓ سے روایت کیا کہ میں نے اپنے ان دونوں کانوں سے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ نطفہ رحم میں چالیس راتیں ٹھہرتا ہے۔ اور دوسرے لفظ میں جب جب نطفہ بیالیس راتیں گزار لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں وہ اس کی صورت بناتا ہے اور اس کے کان بناتا ہے اور اس کی آنکھیں بناتا ہے اور اس کی کھال اور اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں بناتا ہے۔ پھر فرشتہ پوچھتا ہے مذکر ہوگا یا مونث تو تیرا رب فیصلہ فرماتا ہے جو چاہتا ہے اور فرشتہ اسے لکھ لیتا ہے۔ پھر پوچھتا ہے اے میرے رب ! اس کی عمر کتنی ہوگی۔ تو تیرا رب فرماتا ہے جو چاہتا ہے۔ اور فرشتہ اس کو لکھ لیتا ہے۔ پھر پوچھتا ہے اے میرے رب اس کا رزق کتنا ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ فیصلہ فرماتے ہیں جو چاہتے ہیں۔ فرشتہ اس کو لکھ لیتا ہے پھر فرشتہ نکال دیتا ہے اعمال نامے کو اپنا ہاتھ میں۔ پھر اس میں نہ زیادتی ہوتی ہے اور نہ کمی ہوتی ہے۔ اور دوسرے لفظ میں یوں ہے۔ کہ فرشتہ داخل ہوتا ہے نطفہ پر رحم میں اس کے قرار پکڑنے کے بعد چالیس یا پینتالیس راتوں تک۔ پھر فرشتہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ بدبخت ہوگا یا نیک بخت۔ تو وہ ان کو لکھ لیتا ہے۔ پھر وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ مرد ہوگا یا عورت ہوگی۔ تو وہ اس کو بھی لکھ لیتا ہے۔ پھر فرشتہ اس کا عمل اور اس کا اثر اور اس کی عمر اور اسکا رزق لکھ دیتا ہے۔ پھر صحیفہ لپیٹ دیا جاتا ہے۔ نہ اس میں زیادتی کی جاتی ہے اور نہ کمی کی جاتی ہے۔ 7۔ ابن ابی حاتم نے وصححہ ابن عباس ؓ سے روایت کہ مخلقہ وہ ہوتا ہے جو زندہ ہوتا ہے اور ” غیر مخلقہ “ وہ ہوتا ہے جو (ادھورا ‘ گر جاتا ہے۔ 8۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ ” العلقہ “ سے مراد ہے خون اور ” المضغۃ “ سے مراد ہے گوشت اور ” المخلقہ “ سے مراد ہے جس کی تخلیق مکمل ہوگئی ہو ” وغیر مخلقہ “ سے مراد ہے جس کی تخلیق مکمل نہ ہو۔ 9۔ عبدالرزاق عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ” مخلقۃ وغیر مخلقۃ، میں مخلق سے مراد ہے مکمل اور غیر مخلقہ سے مراد ہے نامکمل۔ 10۔ عبد بن حمید وابن جریر نے ابوالعالیہ ؓ سے روایت کیا کہ ” غیر مخلقہ “ سے مراد ہے (ادھورے بچے کا) گرجانا۔ 11۔ عبد بن حمدی وابن جریر نے شعبی ؓ سے روایت کیا جب بچہ چوتھی تخلیق (کے مرحلہ) میں داخل ہوجائے تو اس میں روح پھونکی جاتی ہے اور اس کو مخلقہ کہتے ہیں اور جب اس سے پہلے ہوتا ہے تو وہ غیر مخلقہ ہے۔ 12۔ عبد بن حمید وابن جریر و سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد ؓ سے روایت کیا کہ ” مخلقہ وغیر مخلقہ “ میں مخلقہ سے مراد ہے جس کی پیدائش مکمل ہو اور غیر مخلقہ سے مراد ہے جس کی پیدائش مکمل نہ ہو۔ آیت ونقر فی الارحام مانشاء الی اجل مسمی، سے مراد ہے پوری مدت۔ 13۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے، آیت ونقر فی الارحام ما نشاء الی اجل مسمی، کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد وہ بچہ ہے جو پورا پیدا کیا جاتا ہے۔ وہ ادھورا بچہ نہیں ہوتا۔ 15۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ آیت لنبین لکم یعنی بلا شبہ تم بھی اسی طرح ماؤں کے پیٹوں میں تھے۔ 16۔ ابن جریر نے ابن جریج ؓ سے روایت کیا۔ کہ آیت وتری الارض ھامدۃ میں ھامدۃ اس زمین کو کہتے ہیں جس میں کوئی نبات نہ ہو۔ 17۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ آیت وتری الارض ہامدۃ، یعنی ایسی زمین جو خش اور قحط زدہ ہو، آیت فاذا انزلنا علیہا الماء اہتزت وربت یعنی جب ہم اس کی شوریل اور اونچی زمین میں رحمت کا پانی نازل کرتے ہیں۔ آیت وانبتت من کل زوج بہیج۔ تو خوش نما جوڑے اگاتی ہے۔ 18۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ نے آیت زوج بہیج کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے خوبصورت
Top