Dure-Mansoor - Ash-Shu'araa : 192
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَتَنْزِيْلُ : البتہ اتارا ہوا رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
اور بلاشبہ یہ رب العالمین کا اتارا ہوا ہے
1۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وانہ لتنزیل رب العالمین “ سے مراد ہے یہ قرآن ” نزل بہ الروح الامین “ سے مراد ہے جبرئیل علیہ السلام۔ 2۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” نزل بہ الروح الامین “ میں الروح الامین سے مراد ہے جبرئیل (علیہ السلام) میں نے دیکھا کہ اس کے چھو پر ہیں موتیوں سے انہوں نے پھیلادیا تو وہ مور کے پروں کی طرح تھے۔ 3۔ ابن مردویہ نے سعد ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اس وقت روح امین یعنی جبرئیل (علیہ السلام) نے میرے دل میں یہ بات پھونک دی کہ ہرگز کوئی نفس نہیں مرے گا یہاں تک کہ اپنے رزق کو پورا نہ کرے اگرچہ وہ اس پر پہنچنے میں دیر لگائے۔ اپنی روزی پوری کرنے سے پہلے موت نہیں آئے گی 4۔ ابن ابی شیبہ نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے لوگو نہیں ہے کوئی چیز جو تم کو جنت سے قریب کردے اور تم کو دوزخ سے دور کردے سوائے ان چیزوں کے جن کا میں نے تم کو حکم دیا ہے اور نہیں کوئی چیز جو تم کو دوزخ سے قریب کردے اور تم کو جنت سے دور کردے مگر جن چیزوں سے میں نے تم کو منع کیا ہے اور بلاشبہ الروح الامین یعنی جبرئیل نے میرے دل میں یہ بات پھونک دی کہ کوئی نفس نہیں مرے گا جب تک کہ اپنے رزق کو پورا نہ کردے سو تم اللہ سے ڈروا اور رزق کے حصول میں اچھی طرح طلب کرو اور رزق ملنے میں دیر لگ جانا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس کو اللہ کی نافرمانی کے ساتھ طلب کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کی اطاعت کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ 5۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ بلسان عربی مبین۔ سے مراد ہے قریش کی زبان میں نازل کیا اگر یہ قرآن غیر عربی میں ہوتا تو وہ لوگ اس کو نہ سمجھ سکتے 6۔ ابن النجار نے اپنی تاریخ میں بریدہ ؓ سے روایت کیا کہ آیت “ بلسان عربی مبین “ سے مراد قبیلہ بنو جرہم کی زبان ہے 7۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے بریدہ ؓ سے اسی طرح روایت کیا۔ ابن مردویہ عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت کیا کہ قریش کی ایک جماعت مکہ والوں میں سے کسی کام سے بنو قریظہ کے یہودیوں کے پاس آئی ان کو پایا کہ وہ تورت پڑھ رہے تھے قریشیوں نے کہا ہم اس سے کیا فائدہ پائیں گے جو تمہاری یہ تورات پڑھے گا۔ یہ لوگ تو ہم پر محمد ﷺ اور ان کے اصحاب سے بھی زیادہ سخت ہیں یہودیوں نے کہا ان لوگوں سے ہم بری ہیں یہ لوگ تو تورات اور اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں کو جھٹلاتے ہیں وہ تو صرف دنیا کے سامان کا ارادہ کرتے ہیں قریشیوں نے کہا جب تم ان سے ملاقات کرو تو ان کو خاموش کردو منافقوں نے کہا اسے تو ان جیسا ایک انسان تعلیم دیتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی آیت ” وانہ لتنزیل رب العالمین “ سے لے کر آیت ” وانہ لفی زبر الاولین “ تک یعنی نبی ﷺ کا اور آپ کی صفت اور آپ کی تعریف اور اللہ کا حکم پہلی کتابوں میں موجود ہے۔ 8۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وانہ لفی زبر الاولین “ بلاشبہ یہ ان کتابوں میں ہے جو پہلے رسولوں پر اتاری گئیں۔ 9۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وانہ لفی زبر الاولین “ یعنی پہلی کتابوں میں آیت ” اولم یکن لہ اٰیۃ ان یعلمہ علمٰؤ بنی اسرائیل “ میں بنی اسرائیل سے مراد یہود و نصاری ہیں وہ جانتے تھے کہ محمد ﷺ کو اپنے پاس تورات میں اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے تھے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ 10۔ عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس طرح پڑھا آیت ” اولم یکن لہم اٰیۃ “ یاء کے ساتھ۔ 11۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” اولم یکن لہم اٰیۃ ان یعلمہ علمؤ بنی اسرائیل “ میں علماء اسرائیل سے مراد عبداللہ بن سلام ؓ اور دوسرے علماء ہیں۔ 12 ابن جریر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عبداللہ بن سلام بنی اسرائیل کے علماء میں سے تھے اور وہ ان کے نیک لوگوں میں سے تھے وہ محمد ﷺ کی کتاب پر ایمان لے آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے فرمایا آیت ” اولم یکن لہم ایۃ ان یعلمہ علمؤ بنی اسرائیل (یعنی کیا ان کے یہ نشان کافی نہیں کہ علماء بنی اسرائیل رسول اللہ کو ان کی صافات تورات میں پڑھ کر جانتے ہیں۔ 13۔ ابن ابی حاتم نے مبشر بن عبیداللہ القرشی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” اولم یکن لہم اٰیۃُ “ یعنی کیا ان کے لیے قرآن نشانی نہیں ہے ؟ 14۔ ابن سعد وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عطیہ عوفی (رح) سے آیت ” اولم یکن لہم اٰیۃ “ یعنی کیا ان کے لیے قرآن نشانی نہیں ہے ؟ 14۔ ابن سعد وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عطیہ عوفی (رح) سے آیت ” اولم یکن لہم اٰیۃ ان یعلمہ علمؤ بنی اسرائیل کے بارے میں روایت کیا کہ یہ پانچ علماء تھے اسد اسید ابن یامین ثعلبہ اور عبداللہ بن سلام ؓ ۔ 15۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ولو نزلنہ علی بعض الاعجمین “ یعنی اگر اللہ تعالیٰ اس قرآن کو عجمی زبان میں نازل کرتے تو عرب کے لوگ سب سے زیادہ خسارہ پانے والے ہوتے وہ اس کو نہ سمجھتے اور وہ اس کو نہ جانتے کہ یہ کیا زبان ہے۔ 16۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ولو نزلنہ علی بعض الاعجمین “ سے مراد ہے اگر اللہ تعالیٰ اس کو کسی عجمی زبان میں نازل فرماتا تو یہ عربی لوگ لوگوں میں سب سے زیادہ خسارے والے ہوتے کیونکہ وہ عجمی زبان کو نہ پہچانتے۔ 17۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ولو نزلنہ علی بعض الاعجمین “ سے مراد ہے کہ فارس کے لوگ۔ 18۔ عبدبن حمید وابن جریر نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” کذلک سلکنہ “ یعنی شرک کو ہم نے رکھ دیا ہے آیت ” فی قلوب المجرمین “ (مجرمین کے دلوں میں۔ 19۔ ابن ابی حاتم نے ابو جہضم (رح) سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کو دیکھا گیا گویا کہ آپ حیران ہیں اور صحابہ ؓ نے اس بارے میں آپ سے پوچھا آپ نے فرمایا اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ میں اپنے دشمن ایلون کو دیکھا کہ وہ میرے بعد میری امت کو حکم دے گا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت ” افرء یت ان تعنہم سنین۔ ثم جاء ہم ماکانوا یوعدون۔ ما اغنی عنہم ما کانوا یمتعون۔ تو آپ کا دل خوش ہوگیا۔ 20۔ عبد بن حمید نے سلیمان بن عبدالملک (رح) سے روایت کیا کہ وہ ہر جمعہ کے خطبہ میں اس کو کہنا نہیں چھوڑتے تھے کہ بلاشبہ دنیا والے اس دنیا میں ایک خوف میں ہیں اور نہیں انجام تک پہنچی ان کے لیے کوئی نیت اور نہیں اطمینان پکڑا ان گھر، یہاں تک آئے گا اللہ تعالیٰ کا حکم اور وہ اس پر ہوں گے نہیں ہمیشہ ہوں گی اس کی نعمتیں۔ اور نہ امن میں ہوں گے۔ بہت مال و دولت کے ڈھیروں سے اور باقی نہ رہے گی اس میں کوئی چیز پھر یہ آیات تلاوت فرمائی آیت ” افرء یت ان متعنہم سنین۔ ثم جاء ہم ماکانوا یوعدون۔ ما اغنی عنہم ماکانوا یمتعون۔ 21۔ ابن جریروابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وما اہلکنا من قرۃ الا لہا منذرون “ میں منذورن سے مراد رسول ہیں۔ اللہ کی نافرمانی پر عذاب آتا ہے 22۔ عبدالرزاق وعبد بن حمدی وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وما اہلکنا من قریۃ الا لہا منذرون “ یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی بستی کو عذاب کے ساتھ ہلاک نہیں کیا مگر بعد اس کے کہ ان کے پاس رسول آئے اور دلیل آئی اور بیان آیا اللہ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ کی حجت ہے مکمل طریقے پر ذکری سے مراد ہے ان کے لیے یاد دہانی ہے اور نصیحت ہے اور حجت ہے اللہ کے لیے آیت “ وما کنا ظلمین “ یعنی ہم نہیں ہیں ان کو عذاب دینے والے مگر بعد گواہی اور حجت کے اور بعد عذر کے یہاں تک کہ ہم نے رسولوں کو بھیجا اور ہم نے کتابوں کو نازل کیا آیت ” وما ینبغی لہم وما یستطیعون۔ یعنی وہ اس پر قادر نہیں ہیں اور نہ وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں آیت ” انہم عن السمع لمعزولون۔ بیشک وہ آسمان سے کوئی چیز سننے سے روک دئیے گئے۔ 23۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وما تنزلت بہ الشیٰطین “ یعنی انہوں نے گمان کیا کہ شیاطین اسے رسول اللہ ﷺ پر نازل کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو خبر دی کہ وہ اس پر قادر نہیں ہیں اور نہ وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں اور ان کے لیے یہ لائق نہیں کہ وہ اس کے ساتھ اتریں اور وہ اس کام سے روک دئیے گئے ہیں۔
Top