Dure-Mansoor - Ash-Shu'araa : 63
فَاَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ١ؕ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِۚ
فَاَوْحَيْنَآ : پس ہم نے وحی بھیجی اِلٰى : طرف مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنِ : کہ اضْرِبْ : تو مار بِّعَصَاكَ : اپنا عصا الْبَحْرَ : دریا فَانْفَلَقَ : تو وہ پھٹ گیا فَكَانَ : پس ہوگیا كُلُّ فِرْقٍ : ہر حصہ كَالطَّوْدِ : پہاڑ کی طرح الْعَظِيْمِ : بڑے
سو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی لاٹھی کو مارو۔ سو وہ پھٹ گیا ہر حصہ اتنا بڑا تھا جیسے بڑا پہاڑ
1۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” کا الطود “ سے مراد ہے جیسے پہاڑ۔ 2۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” کا الطود “ سے مراد ہے جیسے پہاڑ۔ 3۔ عبدبن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کہ آیت ” الطود “ سے مراد ہے پہاڑ۔ 4۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” وازلفنا ثم الاخرین “ سے فرعون کی قوم مراد ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو قریب کیا یہاں تک کہ ان کو دریا میں غرق کردیا۔ 5۔ ابن مردویہ نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو ایسے کلمات نہ سکھاؤں جو موسیٰ (علیہ السلام) نے اس وقت کہے جب سمندر پھٹ گیا تھا میں نے عرض کیا ضرور بتائی ؁ فرمایا یہ کلمات تھے۔ اللہم لک الحمد والیک المتکل وبک المستغاث وانت المستعان ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ترجمہ : اے اللہ تیرے لیے سب تعریفیں ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرنے والا ہوں اور تجھ سے مدد مانگے والا ہوں اور تو ہی وہ ذات ہے جس سے مدد مانگی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہ کسی میں نیکی کرنے کی طاقت ہے اور نہ برائی سے بچنے کی قوت ہے۔ ابن مسعود ؓ عہ نے فرمایا میں نے ان کلمات کو نہیں چھوڑا جب سے میں نے اس کو نبی ﷺ سے سنا۔ 6۔ ابن ابی حاتم نے محمد بن حمزہ بن یوسف عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت کی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب دریا پر پہنچے تو ان کلمات کے ساتھ دعا کی۔ یا من کا قبل کل شیء والمکون لکل شیء ولکائن بعد کل شیء اجعل لنا مخرجا تجرمہ : اے وہ ذات جو ہر چیز سے پہ ہے تھی اور ہر چیز کو وجود میں لانیوالی اور یر چیز کے بعد موجود رہنے والی ہمارے لیے نکلنے کا راستہ بنا دے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی آیت ” ان اضرب بعصاک البحر “ کہ سمندر کو اپنی لاٹھی کے ساتھ مارو۔ 7۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ سمندر پر سکون تھا کوئی حرکت نہیں کر رہا تھا جب رات ہوئی موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو لاٹھی ماری تو اس میں اتار چڑھاؤ آگیا۔ 8۔ ابن ای حاتم نے قیس بن عباد (رح) سے روایت کیا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر دریا پر پہنچے تو بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا کہاں ہے جو تو نے ہم سے وعدہ کیا تھا یہ سمندر ہمارے سامنے ہ اور یہ فرعون اور اس کا لشکر ہمارے پیچھے سے ہم پر رات کیے ہوئے ہے موسیٰ نے سمندر سے فرمایا اے ابو خالد پھٹ جا اس نے کہا میں ہرگز نہیں پھٹوں گا تیرے لیے اے موسیٰ میں تجھ سے پہلے پیدا کیا گیا ہوں اور پیدائش کے لحاظ سے تجھ سے زیادہ مضبوط ہوں۔ تو اللہ کی طرف سے آواز دی گئی۔ آیت ” ان اضرب بعصاک البحر “ رومی بادشاہ کے چار سوالات 9۔ ابو العباس محمد بن اسحاق السراج نے اپنی تاریخ میں وابن عبدالبر نے تمہید میں یوسف بن مہران کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ روم کے بادشاہ نے حضرت معاویہ ؓ کی طرف خط لکھا اور ان سے افضل کلام کے بارے میں پوچھا کہ وہ کون سے ہیں پھر دوسری، تیسری، اور چوتھی درجہ والی کلام کونسی ہے۔ اور اللہ کے زندیک مخلوق میں سے سب سے زیادہ عزت والی کونسی ہے اور نبیوں میں سب سے زیادہ عزت والے نبی کون سے ہیں اور مخلوق میں سے چار کے بارے میں جنہوں نے رحم میں حرکت نہیں کی اور اس قبر کے بارے میں جو اپنے ساتھی کو لے کر چل پڑی اور مجرہ کے بارے میں اور قوس کے بارے میں اور اس مکان کے بارے میں کہ جس میں سورج نہ طلوع ہوا اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔ جب معاویہ نے خط کو پڑھا تو فرمایا اللہ اس کو رسوا کرے مجھے تو یہ بھی علم نہیں کہ یہاں کیا ہے ان سے کہا گیا ابن عباس کی طرف لکھو اور ان سے سوال کرو۔ چناچہ معاویہ ؓ نے ابن عباس کی طرف لکھا اور ان سے یہ سو الا پوچھے ابن بع اس نے ان کی طرف یہ بات لکھی کہ افضل الکلام لا الہ الا اللہ ہے اور یہ کلمہ اخلاص ہے کوئی عمل اس کے بغیر قبول نہیں ہوتا اور اس کے بعد سبحان اللہ وبحمدہ ہے جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے اور اس کے الحمد للہ ہے جو شکر کا کلمہ ہے اور اسکے بعد اللہ اکبر ہے جو نمازوں اور رکوع اور سجود کو شروع کرنے کا ذریعہ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والی مخلوق حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور اللہ تعالیٰ کی بندیوں میں سب سے زیادہ عزت والی حضرت مریم ہیں وہ چار افراد جو رحم میں نہیں سئے وہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا اور وہ مینڈھا جو حضرت اسماعیل کی جگہ فدیہ میں دیا گیا۔ اور موسیٰ کی لاٹھی جس کو آپ نے پھینکا تو وہ سانپ بن گیا اور وہ قبر جو اپنے ساتھی کو لے کے ساتھ چلنے لگی وہ مچھلی جب اس نے یونس (علیہ السلام) کو نگل لیا اور مجرہ آسمان کا دروازہ ہے اور قوس زمین والوں کے لیے امان نوح (علیہ السلام) کی قوم کے غرق ہونے کے بعد اور وہ مکان جس میں سورج اس سے پہلے طلوع ہوا تھا اور نہ اس کے بعد یہ وہجگہ ہے جہاں بنی اسرائیل کے لیے سمندر پھٹ گیا تھا۔ جب ان پر یہ خط پڑھا گیا تو انہوں نے روم کے بادشاہ کو بھیج دیا اس نے کہا یقینی بات ہے کہ میں جانتا ہوں کہ معاویہ کو اس کا علم علم نہیں تھا نبوت کے خاندان کا فرد ہی ان کا صحیح جواب دے سکتا ہے۔ 10۔ سعید بن منصور وابن جریر نے عبداللہ بن شداد بن ہاد (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے پاس آئے اور ان پر اون کا ایک جبہ تھا اور ان کے پاس ایک لاٹھی تھی تو فرعون ہنس پڑا موسیٰ نے لاٹھی کو ڈال دیا تو وہ اس کی طرف چلنے لگا گویا کہ وہ بختی اونٹ ہے جس میں نیزوں کی طرح کوئی چیزیں جھوم رہی ہیں فرعون نے پیچھے ہٹنا شروع کیا اور وہ اپنے پلنگ پر بیٹھا ہوا تھا فرعون نے کہا اس کو پکڑ اور میں مسلمان ہوتا ہوں سانپ اسی حال میں لوٹ آیا جیسے وہ تھا اور فرعون پھر کافر ہوگیا موسیٰ کو حکم ملا کہ سمندر کی طرف چلیں اور موسیٰ (علیہ السلام) چھ لاکھ افراد کے ساتھ چلے جب سمندر پر پہنچے تو سمندر کو حکم دیا گیا جب موسیٰ اپنی لاٹھی کو ماریں تو ان کے لیے پھٹ جانا موسیٰ نے اپنی لاٹھی سے سمندر کو ماراتو وہ سمندر بارہ راستوں میں سپھت گیا ہر قبیلہ کے لیے ان میں سے ایک راستہ بن گیا اور ان کے لیے سمندر میں روشندان بنا دئیے گئے ان کا بعض بعض کو دیکھ رہا تھا۔ فرعون آٹھ لاکھ لشکر کے ساتھ روانہ ہوا یہاں تک کہ سمندر پر آگیا جب اس نے سمندر کو دیکھا تو ڈر گیا اور اپنے گھوڑے پر تھا ایک فرشتہ گھوڑ پر اس کے سامنے آیا فرعون اپنے گھوڑے کو قابو نہیں کرسکا یہاں تک کہ اسے سمندر میں ڈال دیا بنی اسرائیل میں سے آخر آدم نکل گیا۔ یعنی سمندر کے پار ہوگیا۔ فرعون کے ساتھی بھی داخل ہوگئے یہاں تک کہ سب سمندر میں پہنچ گئے تو سمندر ان پر مل گیا اور فرعون اپنے ساتھیوں سمیت غرق ہوگیا۔ فرعون کے لشکر کی تعداد دس لاکھ 11۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کی طرف وحی کی راتوں رت میرے بندوں کو لے کر نکل جا اور تم پیچھا کیے جاؤ گے موسیٰ رات کو ہی بنی اسرائیل کو لے کر چل دئیے فرعون دس لاکھ گھوڑوں کے ساتھ ان کے پیچھے لگا جبکہ گھوڑیاں اس کے علاوہ تھیں جبکہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں کی تعداد چھ لاکھ تھی جب اس کو فرعون نے دیکھا تو کہنے لگا آیت ” ان ہؤلاء لشر ذمۃ قلیلون، وانہم لنا لغائظون “ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر چلتے رہے یہ ان تک کہ وہ سمندر تک جا پہنچے انہوں نے یچھے مڑ کر دیکھا تو اچانک وہ فرعون کے گھوڑوں کے غبار میں ہیں اور کہنے لگے اے موسیٰ آیت ” اوذینا من قبل ان تاتینا ومن بعد مائتنا “ یعنی تیرے آنے سے پہلے بھی ہمیں تکلیفیں دی گئیں اور تیرے آنے کے بعد بھی یہ سمندر ہمارے سامنے ہے اور یہ فرعون اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہم پر چھایا جارہا ہے۔ موسیٰ نے فرمایا آیت ” عسی ربکم ان یہلک عدوکم ویستخلفکم فی الارض فینظر کیف تعملون “ (الاعراف آیت 19) یعنی عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کردے گا اور تم کو خلیفہ بنادے گا زمین میں اور وہ دیکھے گا کس طرح تم عمل کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی کے ساتھ سمندر کو مارو اور سمندر کی طرف وحی بھیجی کہ موسیٰ کی بات کو سن اور اطاعت کر جب وہ تجھ کو ماریں سمندر سمٹ گیا اور اس پر کپکپی طاری تھی۔ اور وہ نہیں جانتا تھا کہ کس جانب سے مارا جائے گا۔ یوشع نے موسیٰ سے فرمایا آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے ؟ موسیٰ نے فرمایا میں حکم دیا گیا ہوں کہ میں سمندر کو ماروں یوشع نے کہا پھر مارئیے اس کو موسیٰ نے اپنی لاٹھی کے ساتھ سمندر کو مارا تو وہ پھٹ گیا اور اس میں بارہ راستے بن گئے ہر راستہ بڑے پہاڑ کی طرح تھا ہر قبیلہ کے لیے اس میں ایک راستہ تھا کہ وہ اس میں چل رہے تھے جب وہ راستے بن گئے اس کے بعض نے بعض سے کہا ہم کو کیا ہوا کہ ہم نے اپنے ساتھیوں کو نہیں دیکھا تو انہوں نے موسیٰ سے کہا ہم اپنے ساتھیوں کو نہیں دیکھتے، موسیٰ نے فرمایا چلنے دو بلاشبہ وہ تمہارے راستوں کی طرح ایک راستہ پر ہیں انہوں نے کہا ہم ہرگز تسلیم نہیں کریں گے جب تک ہم ان کو نہ دیکھیں گے موسیٰ نے فرمایا اے اللہ میری مدد فرما ان کی بری عادتوں کے خلاف اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ وہ انی لاٹھی کے ساتھ یہ کہو اور اپنے ہاتھ کے ساتھ اشارہ کرو اور اس کو سمندر پر گھماؤموسی نے اپنے لاٹھی کو دیواروں پر اس طرح اٹھایا تو اس میں روشندان بن گئے اور اسکا بعض بعض کی طرف دیکھنے لگا وہ چلتے رہے یہاں تک کہ سمندر سے باہر ہوگئے جب موسیٰ (علیہ السلام) کا آخری آدمی پار ہوگیا تو فرعون دریا پر پہنچا اور اس کے ساتھی بھی اور فرعون سیاہ گھوڑے پر تھا جب وہ سمندر پر آیا تو اس کا گھوڑا اس میں گھسنے سے ڈر گیا تو جبرئیل (علیہ السلام) گھوڑی پر سوار ہو کر اس کے سامنے آگئے جب گھوڑے نے اس کو دیکھ اتو اس گھوڑی کے پیچھے داخل ہوگیا۔ اور موسیٰ سے کہا گیا آیت ” واترک البحر رہوا۔ (الدخان آیت 24) یعنی سمندر کو اپنی حالت پر چھوڑد و فرعون اور اس کی قوم دریا میں داخل ہوگئی جب فرعون کی قوم کا آخری آدمی داخل ہوگیا اور موسیٰ کی قوم کا آخری آدمی پار ہوگیا تو سمندر مل گیا فرعون اور اس کی قوم پر اور وہ غرق ہوگئے۔ 12۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب رات کو بنی اسرائیل کو لے کر چلے تو فرعون کو یہ بات پہنچی تو اس نے ایک بکری ذبح کرنے کا حکم کیا بکری کو ذبح کردیا گیا پھر اس نے کہا اس کی کھال کھینچنے سے فارغ نہ ہوں یہاں تک کہ قبط میں سے چھ لاکھ جمع ہوجائیں موسیٰ چلے یہاں تک کہ سمندر پر پہنچے اور اس سے کہا پھٹ جا سمندر نے ان سے کہا آپ نے مجھ سے بہت زیادہ چیز کا مطالبہ کیا اور کہا میں آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے کسی کے لیے پھٹا ہوں ؟ اور موسیٰ کے ساتھ ان کے گھوڑے پر ایک اور آدمی سوار تھا اس نے پوچھا اے اللہ کے نبی ! ان لوگوں کو آپ نے کہاں کا حکم دیا ہے فرمایا میں نہیں حکم دیا مگر اسی جگہ کا اس نے اپنے گھوڑے کو دریا میں گھسا دیا اس نے پانی کو چھو پھر وہ باہر نکل آیا اور کہا اے اللہ کے نبی ان کے بارے میں آپ کو کیا حکم دی گیا ہے ؟ فرمایا مجھے اس سمت کا حکم دیا گیا تھا فرمایا نہ میں نے جھوٹ بولا اور نہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کی طرف وحی فرمائی کہ سمندر کو انی لاٹھی کے ساستھ مارو۔ موسیٰ نے اپنی لاٹھی کے ساتھ اس کو مارا تو وہ پھٹ گیا اور اس میں بارہ راستے بن گئے ہر قبیلہ کے لیے ایک راستہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے جب موسیٰ کے ساتھ سمندر سے نکل گئے اور فرعون کے ساتھی اس میں داخل ہوگئے تو سمندر ان پر مل گیا۔ اور ان کو غرق کردیا۔ 13۔ عبد بن حمید والفریابی وابن ابی حاتم والحاکم وصححہ وابو موسیٰ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب ارادہ کیا کہ بنی اسرائیل کو لے جائیں تو راستہ بھول گئے۔ بنی اسرائیل کو فرمایا یہ کیا ہے ؟ بنی اسرائیل کے علماء نے ان سے کہا یوسف (علیہ السلام) کو جب موت حاضر ہوئی تو ہم سے ایک وعدہ کیا تھا کہ تم مصر سے نہیں نکلوگے یہاں تک کہ ہم آپ کو ساتھ لے جائیں گے موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا تم میں سے کوئی جانتا ہے کہ ان کی قبر کہاں ہے ؟ انہوں نے فرمایا ہم نہیں جانتے ان کی قبر کی جگہ کو مگر بنی اسرائیل کی ایک بڑھیا جانتی ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو بلا بھیجا اور اس سے فرمایا ہم کو یوسف (علیہ السلام) کی قبربتادو۔ اس نے کہا میں نہیں بتاؤں گی یہاں تک کہ تم میری شرط کو پورانہ کر گے پوچھا تیری شرط کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ میں تیرے ساتھ جنت میں رہوں گی گو کہ شرط تو ان کو ناگوار گزری حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اس کی بات مان لیں وہ بڑھیا ان کے لیے گئی پانی کے تالاب کی طرف جبکہ پانی سے آواز آرہی تھی عورت نے لوگوں سے کہا اس سے پانی نکالوں انہوں نے ایسا ہی کیا اس نے کہا یہاں سے گڑھا کھودو انہوں نے گڑھا کھودا اور یوسف کی قبر کو نکالا جب انہوں نے نے یوسف (علیہ السلام) کے تابوت کو باہر نکالا تو راستہ دن کی طرح روشن ہوگیا۔ 14۔ ابن عبدالحکم فی فتوح مصرف سماک بن حرب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر رات کو چکلے تو ان کو بادل نے ڈھانک لیا جو ان کے اور راستے کے درمیان حائل وگیا کہ وہ راستہ کو نہ دیکھیں موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ تم ہرگز اس راستے کو عبور نہیں کرسکتے جب تک آپ کے ساتھ یوسف (علیہ السلام) کی ہڈیاں نہ ہوں گی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا وہ کہاں ہیں تو انہوں نے کہا اس کی بیٹی ایک بوڑی عورت ہے جس کی آنکھیں جا چکی تھی ہم نے اس کو گھر میں چھوڑ ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) لوٹے جب اس بڑھیا نے ان کی آہٹ کو سنا تو کہنے لگی موسیٰ ہیں فرمایا موسیٰ ہوں کہنے لگی آپ کیا چھوڑ کر آئے ہو (یعنی کیا حکم دیا گیا) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے یوسف (علیہ السلام) کی ہڈیوں اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے کہنے لگی تم نہیں ڈھونڈ سکتے جب تک میں تمہارے ساتھ نہ ہوں موسیٰ نے فرمایا یوسف (علیہ السلام) کی ہڈیوں کے بارے میں مجھ کو بتاؤ کہنے لگی میں ہرگز ایسا نہیں کروں گی مگر یہ کہ آپ مجھ کو وہ نہ دیں گے جس کا میں آپ سے سوال کروں موسیٰ نے فرمایا تیرے لیے وہ ہے جو تو سوال کرے گی کہنے لگی میرا ہاتھ پکڑیے انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تو وہ نیل کے کنارے ایک ستون کی طرف پہنچی اس کی جڑ میں لوہے کا ایک صندوق تھا جس میں میخیں لگی ہوئی تھٰں اور اس میں زنجیر تھی۔ کہنے لگی ہم نے اس کو اس جانب دفن کیا تھا یہ جانب سرسبز ہوگئی اور دوسری جانب خشک ہوگئی جب ہم نے یہ دیکھا تو ہم نے ان کی ہڈیوں کو جمع کیا تھ ان لوہے کے ایک صندوق میں رکھا اور نیل کے وسط میں پھینکا تو نیل کی دونوں جانب سرسبز شاداب ہوگئیں پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے صندوق کو اپنی گردن پر رکھ دیا اور اس بڑھیاکا ہاتھ پکڑا اور اس کو لشکر تک لے آئے اور اس سے کہا سوال کر جو تو چاہتی ہے کہنے لگی میں آپ سے سوال کرتی ہوں کہ میں اور تو جنت میں ایک ہی درجہ میں ہوں اور لوٹا دیا جائے میری آنکھوں کو اور میری جوانی کو یہاں تک کہ میں جوان ہوجاؤ جیسے میں تھی موسیٰ نے فرمایا تیرے لیے وہ کچھ ہے جو تو نے سوال کیا۔ 15۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے عکرمہ سے روایت کیا کہ یوسف (علیہ السلام) نے وصیت فرمائی اگر کوئی نبی میرے بعد آئے اس کو کہو اس بستی میری میری ہڈیوں کو نکال دے فرعون کے ساتھ جھگڑے کے کے موقعہ پر جو موسیٰ (علیہ السلام) کا معاملہ وہا تو اس بستی سے گزرے جس میں یوسف کی قبر تھی تو انہوں نے ان کی قبر کے بارے میں پوچھا کسی کو نہ پایا جو اس کے خبردے ان سے کہا گیا یہاں ایک بڑھیا ہے یوسف (علیہ السلام) کی قوم میں سے موسیٰ (علیہ السلام) اس کے پاس آئے اور اس سے کہا کیا تو یوسف (علیہ السلام) کی قبر کا مجھے بتاؤ گی اس نے کہا میں ایسا نہیں کروں گی یہاں تک کہ مجھے میری شرطیں پوری کردے جو میں تجھ پر شرط لگاؤں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ اس کی شرطیں پوری کرو موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے پوچھا تو کیا چاہتی ہے اس نے کہا میں جنت میں تیری بیوی بننا چاہتی ہوں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو قبول کرلیا تو اس عورت نے اس کی قبر کا بتادیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے قبر کو کھودا پھر اپنی چادر کو بچھایا اور یوسف کی ہڈیوں کو نکالا ان کو اپنی چادر کے درمیان رکھا پھر ہڈیوں کو کپڑے میں لپیٹ لیا پھر اس کو اپنے داہنے کندھے پر اٹھالیا فرشتے نے ان سے کہا جو ان کی داہنی طرف ہوتا ہے کیا وزن داہنے کندھے پر اٹھایا جاتا ہے۔ موسیٰ نے فرمایا تو نے سچ کہا وہ بائیں کندھے پر ہوتا ہے اور میں نے اس کو ایسا کیا ہے یوسف (علیہ السلام) کی عظمت کے لیے۔ 16۔ ابن عبدالحکیم من طریق الکلبی ابو صالح سے روایت کیا اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یوسف (علیہ السلام) نے اپنی موت کے وقت یہ وعدہ لیا تھا کہ ان کی ہڈیوں کو ان کے ساتھ مصر سے نکال لینا انہوں نے کہا جب قوم بنی اسرائیل تیار ہوگئی اور نکل کھڑی ہوئی تو راستہ بھول گئی موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا یوسف (علیہ السلام) کی ہڈیوں کی وجہ سے تم راستہ گم کربیٹھے۔ کون ان کی قبر بتائے گا ایک بڑھیا نے کہا جس کو شارح بنت یعقوب کہتے تھے کہ میں نے اپنے چچا یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا جب وہ دفن کیے گئے مجھے کیا دو گے اگر میں تجھ کو بتادوں ؟ میں تجھ کو بتادوں ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا جو تو چاہے تو اس بوڑھی عورت نے موسیٰ کی رہنمائی کی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کی ہڈیوں کو اٹھا لیا پھر اس سے فرمایا تو مجھ کو حکم کر اس بڑھیا نے کہا کہ میں تیرے ساتھ جنت میں ہوجاؤں جہاں تو ہو۔ بنی اسرائیل کی تعداد چھ لاکھ 17۔ ابن عبدالحکیم من طریق الکلبی ابو صالح سے روایت کیا اور انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو رات کو لے چل۔ اور بنی اسرائیل نے فرعون کی قوم سے زیورات اور کپڑے مستعار لے لیے تھے کہ ہماری عید ہے ہم عید کو جائیں گے پھر موسیٰ ان کو رات کو لے کر نکلے اور وہ چھ لاکھ اور تین ہزار سے زائد تھے۔ اور یہ فرعون کا قول تھا آیت ” ان ہؤلاء لشرذمۃ قلیلون “ یعنی یہ لوگ تھوڑی سی جماعت ہیں اور فرعون نکلا اور اس کے لشکر کا اگلا حصہ پانچ لاکھ کا تھا دونوں جانب اور درمیان والا لشکر الگ تھا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) سمندر کی طرف پہنتے تو یوشع بن نون اپنے گھوڑے پر آگے بڑھے اور پانی پر چلے دوسرے لوگ بھی تھے اپنے گھوڑوں کے ساتھ گھس گئے اور وہ پانی میں کود پڑے اور فرعون ان کی طلب میں نکلا سورج طلوع ہونے کے بعد اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ” فاتبعوہم مشرقین۔ فلما تراء الجمعن قال اصحب موسیٰ انا لمدروکن۔ یعنی ان کے پیچھے لگا سورج نکلنے کے وقت جب دونوں جماعتیں باہم دکھائی دینے لگیں تو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم تک یہ پہنچ گئے یعنی ہم کو یہ پکڑ لیں گے موسیٰ نے اپنے رب سے دعا کی تو ایک غبار موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان چھا گیا۔ اور ان سے کہا گیا اپنی لاٹھی کو سمندروں پر مارو انہوں نے ایسا ہی کیا آیت ” فانفلق فکان کل فرق کالطود العظیم “ یعنی دریا پھٹ گیا گویا ہر حصی ایک بڑے پہاڑ کی طرح ہوگیا ان میں سے بارہ راستے بن گئے انہوں نے کہا ہم ڈرتے ہیں کہ اس میں گھوڑے دنس جائیں گے موسیٰ نے اپنے رب سے دعا فرمائی تو اس پر ہوا چلی تو راستے خشک ہوگئے پھر کہنے لگے ہم ڈرتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی غرق ہوجائے اور ہم کو پتہ بھی نہ چلے۔ تو انہوں نے اپنی لاٹھی کے ساتھ پانی کو سوراخ کردیا تو ان کے درمیان روشند ان بن گیا یہاں تک کہ ان کا بعض بعض کو دیکھ رہا تھا پھر وہ داخل ہوئے سمندر میں یہاں تک کہ اس کے پار ہوگئے۔ فرعون بھی چلا یہاں تک کہ اس جگہ پہنچا جہاں سے موسیٰ (علیہ السلام) نے عبور کیا تھا اور اس کے راستے اسی طرح موجود تھے راستہ بنانے والوں نے فرعون سے کہا کہ موسیٰ نے دریا پر جادو کردیا ہے یہاں تک کہ ایسے ہوگیا جیسے تو دیکھتا ہے اسی کو فرمایا آیت ” واترک البحر رہوا “ (الدخان آیت 43) یعنی اس کو چھوڑد و جیسے وہ ہے یہاں تک کہ ہم ان سے جا ملیں اور سمندر میں تین دن کا فاصلہ ہے اور اس دن فرعون گھوڑے پر تھا جبرئیل (علیہ السلام) ایک گھوڑی لے کر آئے تینتیس فرشتوں کے ساتھ اور لوگوں میں پھیل گئے اور جبرئیل (علیہ السلام) فرعون کے آگے ہوگئے اور فرعون ان کے پیچھے لگ گیا فرشتوں نے لوگوں میں آواز دی بادشاہ کے ساتھ مل جاؤ یہاں تک کہ جب ان کا آخری آدمی بھی داخل ہوگیا اور ان کا اول پار ہو کر نہ نکلا تو سمندران پر مل گیا اور وہ غرق ہوگئے سمندر ملا تو بنواسرائیل نے سمندر کی آواز سنی پوچھا یہ کیا ہوا ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا فرعون اور اس کے ساتھ غرق کردئیے گئے بنی اسرائیل ان کو دیکھنے کے لیے لوٹے تو سمندر نے فرعونیوں کو ساحل پر ڈال دیا۔ 18۔ ان عبدالحمیم وعبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ جبرئیل (علیہ السلام) بنی اسرائیل اور فرعون والوں کے درمیان تھے تو جبرئیل کہتے تھے تم آہستہ چلو تاکہ تمہارا آخری آدمی بھی تم سے مل جائے۔ بنواسرائیل نے کہا ہم نے اس سے بہتر کوئی ہانکنے والا نہیں دیکھ ار فرعون والوں نے کہا ہم نے اس جیسا لشکر کو ترتیب دینے والا نہیں دیکھا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل سمندر پر پہنچے آل فرعون کے مومن نے کہا اے اللہ کے نبی آپ کو کہاں کا حکم دیا گیا ہے یہ دریا آپ کے آگے ہے اور ہم کو ڈھانپ لیا فرعون والوں نے پیچھے سے موسیٰ نے فرمایا میں حکم دیا گیا ہوں دریا کا تو آل فرعون کے مومن نے اپنے گھوڑے کو اس سمندر میں ڈال دیا تو سمندر کی موجوں نے اسے لوٹا دیا موسیٰ (علیہ السلام) نہیں جانتے تھے کہ وہ کیسے کریں گے اللہ تعالیٰ نے سمندر کی طرف وحی بھیجی کہ موسیٰ کی اطاعت کر اور اس کی نشانی یہ ہوگی جب وہ تجھ کو لاٹھی کے ساتھ مارے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھ سمندر پر مارو جب انہوں نے اس کو مارا آیت ” فانفلق فکان کل فرق کالطود العظیم۔ یعنی دریا پھٹ گیا اور ہر پھٹن ایک بڑا پہاڑ تھی بنواسرائیل سمندر میں داخل ہوئے اور فرعون والے ان کے پیچھے لگ گئے تو ان پر اللہ تعالیٰ نے سمندر کو ملادیا۔ 19۔ ابن المنذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ جبریل (علیہ السلام) فرعون کے غرق کے دن نازل ہوئے اور ان پر کالی پگڑی تھی۔ 20۔ الخطیب نے المتفق والمفترق میں ابودرداء ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگے اور بنی اسرائیل اور ان کی سرکشی پر تعجب کرنے لگے جب وہ سمندر پر پہنچے اور ان کا دشمن ان تک آپہنچا تو وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے اور کہا ہمارا دشمن آپہنچا ہے آپ کو کیا حکم دیا گیا تھا ؟ فرمایا کہ تم اس جگہ اتر جاؤ میرا رب مجھ کو فتح دے گا اور ان کو شکست دے اور میرے لیے یہ سندر پھاڑ دیا جائے گا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب سمندر پر ضرب لگائی تو سمندر نے یوں آواز لگائی جس طرح جانور ذبح کے وقت آواز نکالتے ہیں پھر دوسری مرتبہ مارا تو وہ پھٹ گیا اور فرمایا یہ میرے رب کی طاقت ہے سمندر کو پار کیا اور نہیں سنا گیا اس قوم کا جو گناہ میں بنی اسرائیل سے بڑھ کر اور بہت جلدی توبہ کرنے والی ہو۔
Top