Dure-Mansoor - An-Naml : 10
وَ اَلْقِ عَصَاكَ١ؕ فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْ١ؕ یٰمُوْسٰى لَا تَخَفْ١۫ اِنِّیْ لَا یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَۗۖ
وَاَلْقِ : اور تو ڈال عَصَاكَ : اپنا عصا فَلَمَّا : پس جب اسے رَاٰهَا : اسے دیکھا تَهْتَزُّ : لہراتا ہوا كَاَنَّهَا : گویا کہ وہ جَآنٌّ : سانپ وَّلّٰى : وہ لوٹ گیا مُدْبِرًا : پیٹھ پھیر کر وَّلَمْ يُعَقِّبْ : اور مڑ کر نہ دیکھا يٰمُوْسٰي : اے موسیٰ لَا تَخَفْ : تو خوف نہ کھا اِنِّىْ : بیشک میں لَا يَخَافُ : خوف نہیں کھاتے لَدَيَّ : میرے پاس الْمُرْسَلُوْنَ : رسول (جمع)
اور تم اپنی لاٹھی کو ڈالدو، سو جب اس لاٹھی کو دیکھا کہ وہ اس طرح حرکت کررہی ہے جیسے سانپ ہو تو وہ پیٹھ پھیر کر لوٹے اور مڑ کر بھی پیچھے نہ دیکھا، اے موسیٰ تم نہ ڈرو، بلاشبہ میرے حضور میں پیغمبر نہیں ڈرتے
1۔ ابن جریر وابن المنذر نے ابن جریرج (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” فلما راٰ ہا تہتز کانہا جان “ یعنی جب وہ سانپ کی شکل میں بدل گیا اور دوڑنے لگا۔ 2۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ولم یعقب کہ وہ واپس نہیں مڑا آیت ” الا من ظلم ثم بدل حسنا بعد سوء “ یعنی پھر اس نے توبہ کی اپنے عمل کے بعد اور اپنے گناہ کے بعد۔ 3۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ولی مدبرا “ سے مراد ہے بھاگنے والا آیت ” ولم یعقب “ یعنی وہ متوجہ نہ ہوا۔ آیت ” انی لایخاف لدی “ یعنی میرے پاس (پیغمبر نہیں ڈرتے “ آیت ” الا من ظلم “ یعنی اللہ ظالم کو پناہ نہیں دیتا پھر اللہ تعالیٰ اس میں اپنی رحمت فرماتے ہیں پھر فرمایا آیت ” حسنا بعد سوء “ یعنی پھر وہ بندہ برے اعمال کے بعد اچھے اعمال کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آیت ” فانی غفور رحیم “ (بلاشبہ میں بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہوں) 4۔ ابن المنذر نے میمون (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا آیت ” انی لایخاف لدی المرسلون، الا من ظلم “ اور میرے پاس ظالم کے لیے کوئی امان نہیں یہاں تک کہ وہ توبہ کرے۔ 5۔ سعید بن منصور نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے آیت ” الا من ظلم “ پڑھا۔ 6۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) ایک جبہ پہنے ہوئے تھے (کہ اس کی آستین کہنیوں تک نہیں پہنچتی تھیں۔ واللہ تعالیٰ نے ان کو فمایا۔ آیت ” وادخل ید فی جیبک “ کہ یعنی (اپنے بازوؤں کو) کہ یعنی (اپنے بازوؤں کو) اس میں داخل کرلو۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اس میں اپنا ہاتھ داخل کیا۔ 7۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر نے مقسم (رح) سے روایت کیا کہ ان سے کہا گیا آیت ” وادخل ید فی جیبک “ (کہ اپنے) ہاتھوں کو اپنے گریبان میں داخل کرلو کیونکہ اس جبہ کی آستین نہیں تھی۔ 8۔ ابن جریروابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ان پر ایک جبہ تھا جو آپ کے ہاتھ کے بعض حصہ تک پہنچتا تھا۔ یعنی اس کی آستین نہیں تھی۔ اگر اس کی آستین ہوتی تو ان کو حکم ہوتا کہ اپنے ہاتھ کو اپنی آستین میں داخل کرو۔ 9۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آتی ” وادخل یدک فی جیبک “ سے مراد ہے حکم ہوا کہ اپنی قمیص کے گریبان میں اپنا ہاتھ داخل کرو۔ 10۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ رھمۃ اللہ علیہ سیر وایت کیا کہ آیت ” وادکل ید فی جیبک “ یعنی اپنی قمیض کے گریبان میں اپنا ہاتھ داخل کرو۔ آیت ” تخرج بیضاء من غیر سوء “ یعنی بغیر برص کی بیماری کے سفید نکلے گا۔ آیت ” فی تسع اٰیت ‘] سے مراد ہیں کہ نو معجزات موسیٰ (علیہ السلام) کا ہاتھ روشن ہونا آیت ” فی تسع اٰیت “ تو معجزات میں سے ہیں ابن عباس ؓ فرمایا کرتے تھے وہ نو نشانیاں تھیں موسیٰ کا ہاتھ اور ان کی لاٹھی طوفان، مکڑی، جوئیں، مینڈک، خون اور قحط سالی ان کی وادیوں میں اور ان کے مویشیوں میں اور ان کے شہروں کے پھلوں میں نقصان (پھر فرمایا) آیت ” فلما جاء تہم اٰیتنا مبصرۃ “ یعنی واضح نشانیاں آیت ” وجحدو بہا “ یعنی قوم نے اللہ کی آیات کا انکار کیا بعد اس کے کہ ان کے دل یقین کرچکے تھے کہ وہ سچی ہیں اور جحود اس انکار کو کہتے ہیں جو معرفت کے بعد ہو۔ 11۔ ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت ہے آیت ” ظلما وعلوا “ سے مراد ہے بڑا بنتے ہوئے اور تکبر کرتے ہوئے۔ 12۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آتی ” واستیقنتہا انفسہم ظلما وعلوا “ سے مراد ہے کہ انہوں نے تکبر کیا حالانکہ ان کے دل یقین کرچکے تھے اور اس کلام میں تقدیم وتاکیر ہے۔ 13 عبد بن حمید نے اعمش (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو یوں پڑھا آیت ” ظلما وعلیہا “ اور عاصم (رح) نے یوں پڑھا آیت ” وعلوا “ عین اور لام کے رفع کے ساتھ۔
Top