Dure-Mansoor - An-Naml : 20
وَ تَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ١ۖ٘ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ
وَتَفَقَّدَ : اور اس نے خبر لی (جائزہ لیا) الطَّيْرَ : پرندے فَقَالَ : تو اس نے کہا مَا لِيَ : کیا ہے لَآ اَرَى : میں نہیں دیکھتا الْهُدْهُدَ : ہدہد کو اَمْ كَانَ : کیا وہ ہے مِنَ : سے الْغَآئِبِيْنَ : غائب ہونے والے
اور سلیمان نے پرندوں کی حاضری لی تو کہا کیا بات ہے جو میں ہدہد کو نہیں دیکھ رہا ہوں، کیا وہ کہیں غائب ہے ؟
بلقیس کی حکومت کی خبر 1۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ سلیمان (علیہ السلام) کا ہدہد پرندوں کے درمیان سے گم کیسے ہوگیا فرمایا کہ سلیمان ایک منزل پر اترے اور انہوں نے نہیں جانا کہ پانی کہاں ہے اور ہدہد سلیمان کو پانی کے باے میں بتاتا تھا انہوں نے اس سے پوچھنے کا ارادہ فرمایا تو اس کو گم پایا ابن عباس ؓ سے کہا گیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ ہد ہد کے لیے جال لگایا جاتا ہے اور اسمیں مٹی ڈال دی جاتی ہے تو وہ اس میں پھنس جاتا ہے بچہ ہد ہد کے لیے پھندہ لگاتا ہے اور وہ بچہ اس سے غائب ہوجاتا ہے اور اس کا شکار کرلیتا ہے تو انہوں نے فرمایا جب قضا آتی ہے تو نظر جاتی رہتی ہے۔ 2۔ سعید بن منصور ابن ابی حاتم نے یوسف بن مالک (رح) سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق ازارقہ والے عبداللہ بن عباس ؓ کے پاس آیا کرتے تھے جب ابن عباس فتوی دیتے اور وہ خیال کرتے فتوی درست نہیں ہے تو فرماتے ٹھہرجائیے آپ نے یہ فتوی کیسے دیا ہے اور یہ کہاں سے لیا ہے ؟ ابن عباس فرماتے ہیں کیا وہ کذا کذا والا مرچکا ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن ہدہد کا ذکر کیا اور فرمایا وہ جانتا ہے زمین میں پانی کی مسافت کو ابن رزق نے ان سے کہا ٹھہرئیے ٹھہرئیے اے ابن عباس آپ کس طرح گمان کرتے ہیں کہ ہد ہد دیکھتا ہے کہ پانی کی مسافت کو زمین کے نیچے سے۔ حالانکہ اس کے لیے پھندا نصب کیا جاتا ہے اور اس پر مٹی ڈال کر اس کو شکار کرلیا جاتا ہے۔ ابن عباس نے فرمایا اگر یہ بات نہ ہوتی کہ یہ جانے گا اور یوں باتیں کرے گا تو میں اس کوئی بات نہ کرتا بیشک نظر اس وقت فائدہ دیتی ہے جب تک تقدیر نہ آئی ہو جب تقدیر آجاتی ہے تو آنکھ سامنے رکاوٹ بن جاتی ہے ابن ازرق نے کہا کہ میں آپ سے اس کے بعد کسی چیز کے بارے میں جھگڑا نہیں کروں گا۔ ہد ہد پانی کی خبر لاتا تھا 3۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان کسی منزل پر اترنے کا ارادہ فرماتے تو ہد ہد کو بلاتے تاکہ ان کو پانی کے بارے میں بتلائے اور جب آپ نے یہ کہا تھا کہ یہاں جنوں نے چٹانیں کاٹیں اور چشمے جاری ہوگئے ان کے گھر بنانے سے پہلے (پھر) آپ نے ارادہ کیا کہ وہ ایک منزل پر اتریں تو ہدہد کو تلاش کیا اور اسکو نہ دیکھا اور فرمایا آیت ” مالی لا اری الہدہد، ام کان من الغائبین، (یعنی مجھے کیا ہوا کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا ہوں یا وہ غائب ہونے والوں میں سے ہے۔ 4۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو ذکر کیا گیا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے ایک جگہ ٹھہرنے کا ارادہ فرمایا تو ہد ہد جس کو بلایا وہ ہدہدہ جو کہ بلایا گیا وہ ہدہدوں کا سردار تھا تاکہ وہ پانی کی مسافت کو جان لے۔ ہدہد کو ایسی نظر دی گئی ہے جو پرندوں میں سے کسی کو نہیں دی گئی اور ہم کو یہ بھی یہ ذکر کیا گیا کہ وہ زمین میں پانی کو دیکھ سکتا ہے۔ جیسے تم میں سے کوئی شیشیے کے پیچھے سے اپنی تصویر کو دیکھ لیتا ہے۔ 5۔ ابن ابی حاتم نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان (علیہ السلام) کی ہدہد کا نام عنبر تھا۔ 6۔ عبدالرزاق والفریابی و سعید بن منصور عبد بن حمید وابن جرری وابن ابی حاتم وابن المنذر والحاکم وصححہ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” العذبنہ عذابا شدید “ سے مراد ہے پروں کو اکھیڑ لینا۔ 7۔ الفریابی وابن جریر وعبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” لاعذبنہ عذابا شدیدا “ سے مراد ہے کہ اس کے سارے پر اکھیڑ لیے جائیں گے۔ 8۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید اور ابن جریر (رح) نے قتادہ (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ 9۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ اس کے پروں کو اکھیڑ لیاجائے اور اس کو چیونٹیوں کے لیے دھوپ میں ڈال دیا جائے گا۔ 10۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے یزید بن رومان (رح) سے روایت کیا کہ حضرت سلیمان کے پرندوں کو سزا دینے کا طریقہ یہ تھا کہ اس کے پر اکھیڑ لیے جائیں۔ 11۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” او لیاتینی بسلطن مبین “ سے مراد ہے کہ وہ میرے پاس سچی اور واضح خبر لائے۔ 12۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” اولیاتینی بسلطن مبین “ سے مراد ہے واضح عذر۔ 13۔ عبد بن حمید وابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس نے فرمایا کہ قرآن مجدی میں ہر سلطان سے مراد حجت ہے اور وہ آیت جو سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق ہے یعنی آیت ” او لیاتینی بسلطن مبین “ یعنی ہدہد کے لیے کونسی دلیل ہوگی۔ 14۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ہدہد سے سزا کو ہٹا دیا اپنی والدہ کے لیے ساتھ حسن سلوک کرنے کی وجہ سے۔ 15۔ الحکیم الترمذی وابوالشیخ فی الظمہ عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سلیمان کی سزا کو ہدہد سے اس لیے ہٹا دیا چونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والی تھی۔ 16۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” احطت بما لم تحط بہ “ یعنی میں ایسی چیز پر مطلع ہوا جس پر کوئی اور مطلع نہیں ہوا۔ 17۔ ابن المنزر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” وجئتک من سباء بنبا یقین “ سے مراد ہے سچی خبر۔ 18۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وجئتک من سبا بنبا “ سے وہ سبا مراد ہے جو یمن کی سرزمین ہے۔ جس کو مآرب کہا جاتا ہے اس کے اور صنعاء کے درمیان تین راتوں کا فاصلہ ہے آیت ” من سبا بنبا “ یعنی سچی خبر۔ 19۔ ابن ابی حاتم نے ابن لہیعہ (رح) سے روایت کیا کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ مآرب بلقیس کا شہر ہے۔ اس کے اور بیت المقدس کے درمیان ایک میل کا فاصلہ ہے جب اس کے بعد اس پر اللہ کا غصہ ہوا اور وہ آج یمن ہے اور اسی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر فرمایا آیت ” لقد کان لسبا فی مسکنہم آیۃ “ 20۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ سبا کی طرف بارہ نبی بھیجے گئے ان میں تبع بھی تھے۔ 21۔ ابن ابی حاتم نے حسن سے روایت کیا کہ انہوں نے اسکو یوں پڑھا آیت ” من سبا بنبا یقین “ اور سبا کو علاقہ قررار دیا۔ 22۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے اسے آیت ” من سبا بنبا ‘ پڑھا اور اسے مرد قرار دیا۔ 23۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے آیت ” انی وجدت امرأۃ تملکہم “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس کا نام بلقیس بنت ابی شبرہ تھا اور بہت لمبے بالوں والی تھی۔ 24۔ ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ آیت انی وجدت امرأۃ تملکہم “ سے بلقیس بن شراحیل مراد ہے جو ملک سبا کی ملکہ تھی۔ 25۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ وہ عورت تھی جس کو بلقیس بن شراحیل کہا جاتا تھا اس کے والدین میں سے ایک جن تھا اس کے قدموں میں سے ایک پچھلا حصہ چوپائے کے کھر کی طرح تھا اور وہ اپنی مملکت کے کمرے میں تھی۔ 26۔ ابن ابی حاتم نے زہیر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ وہ بلقیس بنت شراحیل بن مالک بن ریان تھی اور اس کی ماں فارعہ جنی عورتوں میں سے تھی۔ 27۔ ابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ وہ عورت بلقیس بنت ابی شرح تھی اور اس کی ماں بلقہ تھی۔ 28۔ ابن مردویہ (رح) نے سفیان، ثوری (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ 29۔ ابن عساکر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ ملکہ سبا کا نام لیلیٰ تھا اور سبا یمن کا شہر ہے اور بلقیس حمیرہ قبیلہ تھی۔ 30۔ ابن جریر وابو الشیخ فی العظمۃ وابن مردویہ وابن عساکر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلقیس کے والدین میں سے ایک جن تھا۔ 31۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو ذکر کیا گیا کہ وہ ملک کے ایک گھر میں رہتی تھی۔ جس کو بلقیس بنت شراحیل کہا جاتا تھا اس کے گھر والے فوت ہوگئے اور اس کی قوم نے اس کو بادشاہ بنا دیا۔ 32۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ سبا کی ملکہ کی ماں جنی عورت تھی۔ 33۔ الحکیم الترمذی وابن مردویہ نے عثمان بن حاضر (رح) سے روایت کیا کہ بلقیس کی ماں جنات میں سے ایک عورت تھی جس کو بلقمہ بنت شیصان کہا جاتا تھا۔ ملکہ سبا کون تھی 34۔ ابن عساکر نے حسن بصری (رح) سیر وایت کیا کہ ان سے ملکہ سبا کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کے والدین میں سے ایک جن تھا اور فرمایا جنوں میں تولد نہیں ہوتا یعنی انسان میں کوئی عورت جنوں میں سے کسی مرد کا بچہ نہیں جنتی۔ 35۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ سلیمان کی بیوی کے بارہ ہزار رئیس تھے اور ہر رئیس کے نیچے ایک لاکھ افراد تھے۔ 36۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک رھمۃ اللہ علیہ سیر وایت کیا کہ جب ہدہد نے کہا آیت ” انی وجدت امرأۃ تملکہم “ (تو فرمایا) کہ سلیمان (علیہ السلام) نے انکار کیا کہ زمین پر ان کے علاوہ کوئی اور بادشاہ ہو۔ 37۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” واوتیت من کل شیء “ سے مراد ہے کہ دنیا کی ہر قسم کی چیز دی گئی۔ 39۔ ابن جریر وابن المنذر نے ابن لمبارک (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ولہا عرش عظیم “ سے مراد ہے سونے کا بنا ہوا عظیم تخت جس کے پائے جواہرات اور موتیوں کے تھے خوبصورت بناوٹ اور مہنگی قیمت والا تھا۔ 40۔ ابن ابی حاتم نے زہیر بن محمد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ولہا عرش عظیم “ سے مراد ہے سونے کا ایک پلنگ اور اس کی دونوں جانب یاقوت اور زبرجد سے آراستہ کی گئیں تھیں۔ اس کی لمبائی اسی ہاتھ اور چوڑائی چالیس ہاتھ تھی۔ 41۔ ابن ابی حاتم نے یزید بن رومان (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وجدتہا وقومہا یسجدون للشمس “ سے مراد ہے اس کے کمرے میں ایک روشندان تھا جب سورج طلوع ہوتا اس کی طرف دیکھتی اور اس کو سجدہ کرتی تھی۔ 42۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” یخرج الخبء “ سے مراد ہے کہ وہ جانتا ہے ہر پوشیدہ چیز کو آسمان میں اور زمین میں۔ 43۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” یخرج الخبء “ سے مراد ہے غیب۔ 44۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” یخرج الخبء “ سے مراد ہے راز۔ 45۔ عبدالرزاق اور عبد بن حمید رحمہما اللہ نے حضرت قتادہ (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ 46۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” یخرج الخبء “ سے مراد ہے پانی۔ 47۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن المنذر وابو الشیخ فی العظمۃ حکیم بن جابر ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” یخرج الخبء “ سے مراد ہے بارش۔ 48۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد ہے آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزیں جن کو (مخلوق کا) رزق بنادیا (اس طرح سے کہ) آسمان سے بارش برستی ہے نباتات زمین سے (اگتی ہے) 49۔ ابن المنزر نے ابن جیرج (رح) سیر وایت کیا کہ آتی ” سننظر اصدقت ام کنت من الکذبین “ یعنی (ہدہد کی بات کی نہ تصدیق کی اور اس کو جھٹلایا۔ 50۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” اذہب بکتبی ہذا “ یعنی اس کو ایک خط دیا اور فرمایا آیت ” اذہب بکتبی “ ہذا فالقہ الیہم ثم تول عنہم “ (یعنی میرے اس خط کو لے کر جا اور ان کی طرف ڈال کر ایک طرف ہوجانا پھ ردیکھتے رہنا وہ لوگ باہم کیا گفتگو کرتے ہیں) یعنی ان کے قیرب ہوجانا۔ آیت ” فانظر ماذا یرجعون “۔ ہدہد خط لے کر گیا یہاں تک کہ جب اس کے عرش کے درمیان پہنچا تو خط اس پر پھینک دیا درباری نے وہ خط اسے پڑھ کر سنایا تو اس میں یہ لکھا ہوا تھا آیت ” انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم “ (یعنی وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ ہے۔ ہدہد خط لے کر پہنچا 51۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ سبا کی ملکہ جب سوتی تھی تو دروازے بند کردیتی تھی اور چابیوں کو اپنے سر کے نیچے رکھ لیتی تھی جب دروازے بند کردئیے گئے اور وہ اپنے بستر پر لیٹ گئی ہدہد اس کے پاس آیا یہاں تک کہ روشندان سے اس کے کمرے میں داخل ہوگیا اور اس خط کو اس کی رانوں کے درمیان ڈال دیا اس نے کط کو اٹھایا اور اس کو پڑھا کہن لگی، آیت ” یا ایہا الملؤا انی القی الی کتب کریم “ یعنی مجھ پر ایک معزز خط ڈالا گیا ہے وہ کہتی اس میں جو کچھ ہے وہ بہت اچھا ہے۔ 52۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” کتاب کریم “ سے رماد ہے مہر لگایا ہوا خط۔ 53۔ ابن ابی حاتم نے زہیر بن محمد رحمۃ اللہ عیہ سے روایت کیا کہ آیت ” کتاب کریم “ سے مراد ہے کہ وہ ارادہ کرتی تھی کہ یہ خط مہر لگا ہوا ہے بادشاہ اسی طرح سے اپنے خط کو مہرلگاتے ہیں اور باہم خطوط جائز نہیں سمجھتے مگر مہر کے ساتھ۔ 54۔ ابن المنذرنے ابن جریج آیت ” انہ من سلیمن وانہ بسم اللہ الحمن الرحیم “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کا ذکر کیا ہے جتنا انہوں نے گمان کیا تھا۔ 55۔ ابن ابی حاتم نے یزید بن رومان (رح) سے روایت کیا کہ مکتوب پر یہ لکھا تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم سلیمان بن داوٗد علیہ اسلام کی طرف سے بلقیس بنت ذی شرح اور اس کی قوم کی طرف۔ 56۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان بن داوٗد (علیہ السلام) نے ملکہ سبا کی طرف خط لکھا جس پر یہ تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ کے بندے سلیمان بن داوٗد کی طرف سے بلقیس ملکہ سبا کی طرف۔ سلام ہو اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے۔ اما بعد ! آیت ” الا تعلوا علی واتونی مسلمین “۔ (یعنی میرے سانے غرور نہ کرو اور اطاعت گزار ہو کر میرے پاس حاضر ہوجاؤ) 57:۔۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ سلیمان علیہ اسللام نے ملکہ سبا کو جو کط لکھا تھا اس میں وہی کچھ تھا مگر جو تم پڑھتے ہو قرآن میں یعنی ” انہ من سلیمن وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم “۔ 58:۔۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے آیت ” انہ من سلیمن وانہ بسم اللہ الرحمن الا تعلوا علی “ کے بارے میں روایت کیا یعنی تم میری مخالفت نہ کرو آیت ” وأتونی مسلمین “ یعنی مسلمان ہو کر میرے پاس چلے آؤ (پھر) فرمایا اسی طرح انبیاء (علیہم السلام) خوبصورت خط لکھتے تھے اور وہ طلب کرتے تھے اور زیادہ کلام نہ کرتے۔ 59:۔۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے سفیان بن منصور (رح) سے روایت کیا کہ کہا جاتا تھا کہ سلیمان بن داوئد (علیہ السلام) تمام لوگوں سے زیادہ بلیغ خط لکھنے والے اور تھوڑی گفتگو کرنے والے تھے پھر یہ آیت ” انہ من سلیمان “ پڑھی۔ 60۔ عبدالرزاق وابن سعد وابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ جاہلیت والے ” باسمک اللہم “ لکھتے نبی ﷺ نے ابتداء میں یہی یہی لکھا ” باسمک اللہم “ یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی آیت ” بسم اللہ مجریہا ومرساہا “ آپ ” نے ” بسم اللہ “ لکھا پھ ریہ آیت نازل ہوئی آیت ” ادعوا اللہ اوادعو الرحمن “ بسم اللہ الرحمن لکھنے کا حکم دیا یہ آیت نازل ہوئی جو سورة طس میں ہے۔ آیت ” انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم “ پھر آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا۔ 61۔ ابوعبید نے اپنے فضائل میں حارث العکلی (رح) سے روایت کیا کہ مجھے شعبی (رح) نے فرمایا نبی ﷺ نبی ﷺ تم کو کیسے خط لکھا کرتے تھے میں نے کہا ” باسمک اللہم “ پھر فرمایا کہ یہ پہلا خط تھا کہ جو نبی ﷺ نے مجھ سے لکھوایا۔ تو یہ سلسلہ چلتا رہا جتنا اللہ نے چاہا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی آیت ” بسم اللہ مجریہا ومرساہا (ھود آیت 41) تو آپ نے بسم اللہ کھایا تو یہ سلسلہ چلتا رہا جتنا اللہ نے چاہا پھر یہ آت نازل ہوئی آیت ” ادعو اللہ اوادعوا الرحمن “ تو پھر آپ ﷺ نے بسم اللہ الرحمن لکھوایا تو یہ دور چلتا رہا جتنا اللہ نے چاہا پھر یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت ” انہ من سلیمن وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم “ پھر آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوایا۔ 62۔ ابن ابی حاتم نے میمون بن مہران (رح) سے روایت کیا کہ نبی ﷺ ” باسمک اللہم “ لکھواتے تھے۔ یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی آیت ” انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔ 63۔ عبدالرزاق وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ پہلے لوگ آیت ” ابسمک اللہم “ لکھا کرتے تھے تیہاں تک کہ یہ آیت ” انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم “ نازل ہوئی۔ 24۔ ابو داوٗد نے اپنی مراسیل میں ابو مالک (رح) علیہ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ باسمک اللہم لکھا کرتے تھے جب یہ آیت نازل ہوئی آیت ” انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم تو پھر آپ نے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھوا یا۔ 65۔ ابوعبید نے اپنے فضائل میں وابن ابی شیبہ نے سعید بن المسیب (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے نے کسری قیصر اور نجاشی کی طرف خطوط لکھے۔ امابعد ! آجاؤ ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے۔ کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہیں بنائیں۔ اور نہ بنائے ہمارا بعض، بعض کو رب اللہ کو چھوڑ کر اگر وہ روگردانی کریں تو تم کہو گواہ رہنا کہ مسلمان ہیں جب نبی ﷺ کا خط قیصر کی طرف پہنچا تو اس نے پڑھ کر کہا میں نے کسی کو نہیں دیکھا سلیمان بن داوٗد اور سلیمان (علیہ السلام) کے بعد کہ اس نے یہ لکھا ہو آیت ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “۔
Top