Dure-Mansoor - An-Naml : 89
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا١ۚ وَ هُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍ اٰمِنُوْنَ
مَنْ جَآءَ : جو آیا بِالْحَسَنَةِ : کسی نیکی کے ساتھ فَلَهٗ : تو اس کے لیے خَيْرٌ : بہتر مِّنْهَا : اس سے وَهُمْ : اور وہ مِّنْ فَزَعٍ : گھبراہٹ سے يَّوْمَئِذٍ : اس دن اٰمِنُوْنَ : محفوظ ہوں گے
جو شخص نیکی لے کر آئے گا اسے اس سے بہتر ملے گا اور ایسے لوگ اس دن گھبراہٹ سے پر امن ہوں گے
1۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا آیت من جاء بالحسنۃ فلہ خیر منہا سے مراد ہے لا الہ الا اللہ ومن جاء بالسیءۃ فکبت وجوہہم فی النار سے مراد ہے شرک۔ 2۔ ابن مردویہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے دو ثابت ہونے والی چیزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا من جاء بالحسنۃ فلہ خیر منہا، وہم من فزع یومئذ اٰمنون، ومن جاء باسیءۃ فکبت وجوہہم فی لنار، ہل تجزون الا ماکنتم تعملون۔ سے مراد ہے وہ شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ اس کے ساتھ شرک کرتا تھا تو وہ دوزخ میں داخل ہوا۔ 3۔ الحاکم نے الکنی میں صفوان بن عسال ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا تو ایمان اور شرک رب کے سامنے گھٹنوں کے بل حاضر ہوں گے اللہ تعالیٰ ایمان سے فرمائیں گے کہ تو اور ایمان والاجنت میں چلا جائے اور شرک سے فرمائیں کہ تو اور شرک کرنے وال ادوزخ کی طرف چلا جائے پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت من جاء بالحسنۃ فلہ خیر منہا یعنی نیکی سے مراد ہے لا الہ الا اللہ کہنا آیت من جاء بالحسنہ یعنی برائی سے مراد ہے شرک آیت فکبت وجوہہم فی لنار یعنی ان کو اوندھے منہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ 4۔ ابن مردویہ نے ابوہریرہ وانس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا اخلاص اور شرک قیامت کے دن آئے گا وہ دونوں رب کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہوں گے رب تعالیٰ اخلاص سے فرمائیں گے تو اور مخلص جنت میں چلے جاؤ پھر شرک سے فرمائیں گے کہ تو اور مشرک آگ کی طرف چلے جاؤ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی آیت ’ ’ فکبت وجوہہم فی النار، یعنی لا الہ اللہ کی شہادت کے ساتھ آیت ” فلہ خیر منہا، یعنی آیت ” بالخیر “ سے مراد ہے جنت آیت من جاء بالحسنۃ سے مراد ہے شرک آیت وجوہہم فی النار کہ ان کو اوندھے منہ آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ 5۔ ابو الشیح وابن مردویہ والدیلمی نے کعب بن عجرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول من جاء بالحسنہ فلہ خیر منہا کے بارے میں فرمایا یعنی لا الہ اللہ کی شہادت کے ساتھ آئے گا۔ آیت ومن جاء بالسیءۃ یعنی شعک کے ساتھ آئے گا تو کہا جائے گا کہ یہ نجات دے گا اور یہ ہلاک کردے۔ 6۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم والحاکم وصححہ والبیہقی فی الاسماء والصفات والخرائطی فی مکارم الاخلاق ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ آیت من جاء بالحسنۃ یعنی لا الہ اللہ کے ساتھ آئے گا آیت ومن جاء بالسیءۃ اور جو شرک کو لے کر آیا۔ 7۔ سعید بن منصور وابن المنذر نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ حذیفہ ؓ ایک ھلقہ میں بیٹھے ہوئے تھے پوچھا تم لوگ اس آیت کے بارے میں کیا کہتے ہو آیت من جاء بالحسنۃ فلہ خیر منہا، وہم من فزع یومئذ امنون، ومن جاء بالسیءۃ فکبت وجوہہم فی النار۔ تو لوگوں نے کہا ہاں ابو حذیفہ کہ جو ایک نیکی لے کر آئے گا تو اسے دس گنا اجر ثواب چیاجائے گا پھر انہوں نے سنگریزوں کی ایک مٹھی بھری پھ ران کو زمین پر پھینک دیا اور فرمایا ہلاکت ہو تمہارے لیے اور آپ بڑے ذہین تھے۔ اور فرمایا جو شخص لا الہ الا اللہ لے کر آیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی اور جس نے شرک کیا اس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی۔ 8۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والبیہقی ابن عبا ؓ سے روایت کیا کہ آیت من جاء الحسنہ یعنی جو لا الہ الا اللہ کہے، آیت فلہ خیر منہا تو اس کے لیے اس میں سے بہترے ہے، آیت ومن جاء بالسیءۃ یعنی جو شرک کرے۔ 9۔ الفریابی وعبد بن حمید وابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ من جاء بالحسنۃ سے مراد ہے لا الہ الالہ کے ساتھ ومن جاء بالسءۃ یعنی جو شرک لے کر آیا۔ 10 عبد بن حمید نے حسن و ابراہیم واب و صالح سعید بن جبیر وعطاء و قتادہ اور مجاہ درحمہم اللہ تعالیٰ سے بھی اسی کی مثل روایت نقل کی ہے۔ 11۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت فلہ خیرمنہا سے مراد ہے ثواب۔ 21۔ عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت من جاء بالحسنۃ سے مراد ہے شہادۃ لا الہ الا اللہ فلہ خیر منہا، یعنی اسے اس کے بدلہ میں جنت عطا کی جائے گی۔ جنت کی قیمت لا الہ الا اللہ 13۔ عبد بن حمید نے ھسن (رح) سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا جنت کی قیمت لا الہ الا اللہ ہے۔ 24۔ ابن ابی حاتم نے زرہع بن ابراہیم (رح) سیر وایت کیا کہ آیت من جاء بالحسنۃ سے مراد ہے لا الہ الا اللہ فلہ خیر فیہا کہ لا الہ الا اللہ خیر ہے کوئی چیز لا الہ الا اللہ سے زیادہ خیر والی نہیں۔ 15۔ عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ وہ آیت “ وہم من فزع یومئذ اٰمنون “ میں فزع کو تنوی کے ساتھ یومئذ کو منصوب پڑھتے تھے۔
Top