Dure-Mansoor - Al-Qasas : 22
وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
وَلَمَّا : اور جب تَوَجَّهَ : اس نے رخ کیا تِلْقَآءَ : طرف مَدْيَنَ : مدین قَالَ : کہا عَسٰى : امید ہے رَبِّيْٓ : میرا رب اَنْ يَّهْدِيَنِيْ : کہ مجھے دکھائے سَوَآءَ السَّبِيْلِ : سیدھا راستہ
اور جب موسیٰ نے مدین کی طرف توجہ کی تو یوں کہا کہ امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھا راستہ چلا دے گا
ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ولما توجہ تلقاء مدین کے بارے میں روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے چار راستے آئے وہ نہیں جانتے تھے کہ کس راستے پر چلیں تو عرض کیا عسی ربی ان یہدینی سواء السبیل یعنی عنقریب میرا رب مجھ کو سیدھا راستہ دکھائے گا پھر مدین کا راستہ لیا۔ 2۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے قتادہ سے آیت تلقاء مدین کے بارے میں روایت کیا کہ مدین ایک چشمہ ہے جس پر شعیب (علیہ السلام) رہتے تھے۔ 3۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت قال عسی ربی ان یہدینی سواء السبیل یعنی عنقریب میرا رب مجھ کو سیدھا راستہ دکھائے گا سواء السبیل سے مراد ہے سیدھا راستہ اور وہ راستہ مدین کی طرف تھا۔ 4۔ ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ آیت عسی ربی ان یہدینی سواء السبیل سے مراد ہے سیدھا راستہ پھر فرمایا اللہ کی قسم اس دن اس کے رہنے والے لوگوں میں بہترین لوگ آپس میں ملے تھے اور وہ شعیب اور موسیٰ ابن عمران (علیہما السلام) تھے۔ 5۔ احمد نے الزہد میں کعب بن علقمہ (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب فرعون سے بھاگتے ہوئے نکلے تو فرمایا اے میرے رب مجھ کو وصیت فرمائیے فرمایا تجھ کو وصیت کرتا ہوں کہ تو میرے ساتھ کبھی بھی کسی کو ہم پلہ قرار نہ دینا۔ بلکہ مجھے اس پر ترجیح دینا ایسا نہ ہو تو میں اس پر رحم کرتا ہوں اور نہ اسے پاک کرتا ہوں۔ پھر عرض کیا اے میرے رب میں کس کے ساتھ اچھا سلوک کروں فرمایا اپنی ماں کے ساتھ کیونکہ اس نے تجھ کو اٹھایا کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے پھر عرض کیا پھر کس کے ساتھ حسن سلوک فرمایا میرے بندوں کے معاملات کا تجھے ذمہ دار بناؤں تو ان کی ضروریات کے معاملہ ان کو نہ تھکانا اگر تو ایسا کرے گا تو تھکائے گا میری روح کو اور بلاشبہ میں دیکھنے والا ہوں سننے والا اور مشاہدہ کرنے والا ہوں۔
Top