Dure-Mansoor - Al-Qasas : 23
وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ١٘۬ وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِ١ۚ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا١ؕ قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّٰى یُصْدِرَ الرِّعَآءُ١ٚ وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ كَبِیْرٌ
وَلَمَّا : اور جب وَرَدَ : وہ آیا مَآءَ : پانی مَدْيَنَ : مدین وَجَدَ : اس نے پایا عَلَيْهِ : اس پر اُمَّةً : ایک گروہ مِّنَ : سے۔ کا النَّاسِ : لوگ يَسْقُوْنَ : پانی پلا رہے ہیں وَوَجَدَ : اور اس نے پایا (دیکھا مِنْ دُوْنِهِمُ : ان سے علیحدہ امْرَاَتَيْنِ : دو عورتیں تَذُوْدٰنِ : روکے ہوئے ہیں قَالَ : اس نے کہا مَا خَطْبُكُمَا : تمہارا کیا حال ہے قَالَتَا : وہ دونوں بولیں لَا نَسْقِيْ : ہم پانی نہیں پلاتیں حَتّٰى : جب تک کہ يُصْدِرَ : واپس لے جائیں الرِّعَآءُ : چرواہے وَاَبُوْنَا : اور ہمارے ابا شَيْخٌ كَبِيْرٌ : بہت بوڑھے
اور جب مدین کے پانی پر پہنچے تو وہاں لوگوں کی ایک جماعت کو دیکھا جو پانی پلا رہے تھے اور وہاں دو عورتوں کو دیکھا جو ان لوگوں سے روک رہی تھیں موسیٰ نے پوچھا تم دونوں کا کیا حال ہے ؟ وہ دونوں کہنے لگیں کہ ہم اس وقت تک پانی نہیں پلاتے جب تک کہ چرواہے واپس نہ چلے جائیں اور ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں
1۔ الفریابی وعبد بن حمید وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھوکے ہونے کی حالت میں ڈرتے ہوئے نکلے ان کے پاس کانے پینے کی کوئی چیز نہ تھی یہاں تک کہ مدین کے چشمہ پر پہنچے اور اس پر لوگوں کی ایک جماعت جانوروں کو پانی پلا رہی تھی۔ اور دو عورتیں اپنی بکریوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں موسیٰ نے ان سے پوچھا کیا مسئلہ ہے آیت قالتا لا نسقی حتی یصدر الرعاء وابونا شیخ کبیر، دونوں عورتوں نے کہا ہم اپنے جانوروں کو اس وقت تک پانی نہیں بلاتیں جب تک چرواہے پانی پلا کر نکال کر نہ لے جائیں اور ہمارے والد بڑے بوڑھے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا کیا تمہارے قریب بھی پانی ہے انہوں نے کہا نہیں مگر ایک کنواں ہے جس پر ایک پتھر ہے جس نے کنویں کو ڈھانپ رکھا ہے جس کو اٹھانے کی کسی طاقت نہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم دونوں چلو اور مجھے اس کو دکھاؤ وہ دونوں ان کے ساتھ چلیں موسیٰ (علیہ السلام) اپنے ہاتھ سے اس پتھر کو ہٹا دیا اور اسے کنویں سے دور کردیا پھر ان کے جانوروں کے لیے ایک ہی ڈول نکالا اور بکریں کو پانی پلادیا اس پتھر کو اپنی جگہ پر رکھ دیا پھر آپ سائے کی طرف چل دئیے اور عرض کیا آیت رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر، یعنی اے میرے رب جو نعمت آپ مجھے دیں میں اس کا سخت حاجت مند ہوں۔ ان دونوں لڑکیوں نے اس کو سن لیا جوا نہوں نے دعا مانگی وہ دونوں اپنے باپ کی طرف گئیں باپ نے ان دونوں کے جلدی آنے پر تعجب کیا اس نے ان دونوں سے پوچھا کیوں جلدی آئیں پھر انہوں نے ان کو بتایا شیخ نے ان دونوں میں سے ایک سے کہا جاؤ اور اس کو بلا کرلے آؤ۔ وہ بچی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئی اور کہنے لگی آیت قالت ان ابی یدعوک لیجزیک اجر ما سقیت لنا۔ کہ میرا باپ تجھ کو بلا رہا ہے تاکہ وہ تجھ کو بدلہ دے جو تو نے ہماری بکریں کو پانی پلایا وہ بچی موسیٰ (علیہ السلام) سے آگے چلنے لگی۔ موسیٰ نے اس سے فرمایا میرے پیچھے چل کیونکہ میں ابراہیم کی نسل میں سے ہوں میرے لیے حلال نہیں کہ میں تجھ کو دیکھوں اس کو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر حرام کردیا ہے اور مجھے راستہ بتاتی جا۔ مدین میں شعیب (علیہ السلام) کی خدمت آیت لنا فلما جاء ہ وقص علیہ القصص۔ یعنی جب موسیٰ ان کے پاس آئے اور ان کو سارا قصہ سنایا ان میں سے ایک لڑکی نے کہا اے میرے باپ اس کو اجرت پر رکھ لو کیونکہ بہترین اجرت میں رکھا ہوا۔ وہ ہوتا ہے جو قوی اور امین ہو اس کے اپنے باپ نے اس لڑکی سے پوچھا تو نے کیا دیکھا اس قوت اور اس کی امانت میں سے تو اس نے اس کام کا بتایا جو موسیٰ نے کیا تھا کہنے لگی اس کی قوت یہ ہے کہ اس نے پتھر اکیلے ہٹا دیا حالانکہ ایک جماعت اس کو ہٹاتی تھی اور اس کی امانت یہ ہے کہ اس نے مجھ سے کہا کہ میرے پیچھے چل اور مجھے راستہ بتاتی رہ اس لیے کہ میں ایک آدمی ہوں ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل میں سے میرے لیے حلال نہیں ہے کہ تجھ سے وہ چیز دیکھوں جو اللہ نے حرام قرار دی ہے۔ ابن عباس ؓ سے پوچھا گیا موسیٰ (علیہ السلام) نے کونسی مدت پوری کی۔ فرمایا جس میں زیادہ نیکی اور زیادہ پورا کرنے کا لائق تھی۔ 2۔ الفریابی وابن ابی شیبہ نے المصنف میں وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم والحاکم وصححہ عمر بن کطاب ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب مدین کے پانی پر اترے تو وہاں لوگوں کی ایک جماعت کو پایا جو جانوروں کو پانی پلا رہی تھی جو وہ پانی پلانے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے پتھر کو کنویں پر دوبارہ رکھ دیا اسے دس آدمی ہی اٹھاسکتے تھے۔ اور یہ دو عورتیں تھی جو ایک طرف کو کھڑی ہوئی تھیں۔ آیت قال ماخطبکما۔ موسیٰ نے پوچھا تمہارا کیا مسئلہ ہے انہوں نے ان کو مسئلہ بتایا موسیٰ (علیہ السلام) چٹان کے پاس آئے اس کو اکیلے اٹھادیا پھر ان کی بکریوں کو پانی پلایا آپ نے صرف ایک ڈول ہی نکالا تھا کہ ساری بکریاں سیراب ہوگئیں۔ دونوں عورتیں اپنے باپ کی طرف واپس آئیں اور اس کو سارا حال سنایا موسیٰ (علیہ السلام) ایک سائے کی طرف چل دئیے اور دعا کی آیت فقال رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر فرمایا اے میرے رب جو نعمت تو مجھے دے میں اس کا سخت حاجت من دہوں آیت احدھما تمشی علی استحیاء یعنی اس میں سے ایک لڑکی آئی جو شرماتے ہوئے چل رہی تھی اپنے کپڑے کو اپنے چہرے پر رکھے ہوئے وہ ان جری خواتین میں سے نہ تھی جو مردوں کے پاس بےباک چلی آتی ہیں۔ آیت قالت ان ابی یدعوک لیجزیک اجر ماسقیت لنا کہنے لگی میرا باپ تجھ کو بلاتا ہے تاکہ آپ کو اس کا اجر دے۔ جو تو نے ریوڑ کو پانی پلایا موسیٰ (علیہ السلام) اس کے ساتھ چل پڑے اور اس سے فرمایا میرے پیچھے چل اور مجھے راستہ بتاتی جا بلاشبہ میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ تیرے کپڑوں کو ہوا پہنچ جائے اور وہ تیرے جسم کی حالت کو بیان کردے جب اس کے باپ کے پاس پہنچے تو ان کو سارا قصہ بیان کیا ان میں سے ایک لڑکی کہنے لگی آیت یا ابت استجرہ ان خیر من استاجرت القوی الامین یعنی اے میرے باپ اس کو اجرت پر رکھ لیجیے کیونکہ جس کو آپ اجرت پر رکھ رہے ہیں وہ طاقتور اور امانت دار ہے۔ باپ نے پوچھا اے میری بیٹی تجھے اس کی قوت اور مانت کا کیسے پتہ چلا لڑکی نے کہا اسکی قوت تو یہ ہے کہ اس نے پتھر کو اٹھا لیا جس کو دس آدمی مل کر اٹھایا کرتے تھے اور اس کی امنت یہ ہے کہ اس نے کہا میرے پیچھے چلو اور مجھے راستہ بتاتی جاؤ میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ تیرے کپڑوں کو ہوا پہنچ جائے اور وہ تیرے جسم کی حالت کو بیان کردے۔ اس چیز نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میں حضرت شعیب کی رغبت میں اضافہ کردیا اور کہا آیت انی ارید ان انکحک احدی ابنتی ہتین یعنی میں ارادہ کرتا ہوں کہ میں اپنی ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک کے ساتھ تیرا نکاح کردوں، آیت ستجدنی انشاء اللہ من الصالحین عنقریب آپ مجھے پائیں گے اگر اللہ نے چاہا نیک لوگوں میں سے۔ یعنی اچھی صھبت والا اور وعدہ پورے کرنے والا جو میں نے بات کہی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا آیت قال ذلک بینی وبینک ایما الاجلین قضیت فلا عدوان علی، یعنی یہ معاملہ ہے میرے اور آپ کے درمیان میں دونوں مدتوں میں سے جو مدت میں پوری کردوں اس کے بعد مجھ پر زیادتی نہ ہونی چاہیے۔ شعیب نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے۔ آیت واللہ علی مانقول وکیل۔ اور ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر اللہ نگہبان ہے پھر حضر شعیب (علیہ السلام) نے اپنی بیٹی کی شادی آپ سے کردی اور ان کو اپنے پاس بلایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کی خدمت کے لیے کافی ہوگئے اور ان کی بکریاں چرانے میں ان کی خدمت کرتے رہے اور دوسرا کام جو کوئی ہوتا تو وہ بھی بجا لاتے حضرت شعیب نے صفورا کا نکاح کردیا اور اس کی بہن کا نام شرفا تھا اور یہی دونوں لڑکیاں اپنی بکریوں کو چراتی تھیں۔ 3۔ احمد فی الزہد وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ولما ورد ماء مدین کے بارے میں فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کنویں پر پہنچے تو کمزوری کی وجہ سے ان کے پیٹ سبزیوں کی سبزی دکھائی دے رہی تھی۔ 4۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے مدین کی طرف نکلے ان کے اور مدین کے درمیان آٹھ دنوں کا فاصلہ تھا آپ کا کھانا صرف درختوں کے پتے تھے۔ اور آپ ننگے پاؤں نکلے تھے۔ آپ مدین نہیں پہنچے یہاں تک کہ ان کے قدم کے موزے گرگئے۔ 5۔ عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ولما ورد ماء مدین کے بارے میں فرمایا کہ مدین کا سفر پینتیس دن کا تھا۔ 6۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت امۃ من الناس یسقون سے مراد ہیں لوگ آیت رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر میں خیر سے مراد ہے کھانا۔ 7۔ ابن المنذر نے مجاہد (رح) سے آیت ووجد من دونہم امرأتین کے بارے میں فرمایا کہ ان دونوں کے نام یہ تھے لیا اور صفورا اور ان دونوں چار چھوٹی بہنیں تھیں جو بکریوں کو چھوٹے چشموں سے پانی پلاتی تھیں۔ 8۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ آیت تذودان سے مراد ہے کہ وہ اپنی بکریوں کو روکے ہوئے تھیں یہاں تک کہ لوگ فارغ ہوجائیں اور ان کے لیے کنواخالی ہوجائے۔ 10۔ ابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت قالتا لانسقی حتی یصدر الرعاء سے مراد ہے کہ وہ انتظار کر رہی تھیں کہ وہ اس بچے ہوئے پانی میں سے پلائیں جو حوض میں بچا ہوا تھا۔ 11۔ عبد بن حمید نے عاصم (رح) سے روایت کیا کہ آیت حتی یصدرالرعاء میں یصدر کو یاء کے فتحہ رعاء راء کے کسرہ کے ساتھ پڑھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہی سے خیر طلب کرے 12۔ سعید بن منصور وابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا آیت رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر یعنی اے میرے رب جو نعمت آپ مجھے بھیج دیں میں اس کا محتاج ہوں حالانکہ وہ اس کی مخلوق میں سب سے زیادہ عزت والے تھے۔ اور کھجور کے ایک ٹکڑے کی طرف محتاج ہوچکے تھے۔ اور بھوک کی شدت کی وجہ سے ان کا پیٹ ان کی پیٹھ سے لگا ہوا تھا۔ 13۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے فقال رب انی الما انزلت الی من خیر فقیر کے بارے میں روایت کیا کہ انہوں نے روٹی کے ایک ٹکڑے کا سوال کیا کہ جس کے ذریعہ وہ اپنی پیٹھ کو مضبوط کریں بھوک کی وجہ سے۔ 14۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے آیت فقال رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر کے بارے میں روایت کیا کہ انہوں نے روٹی کے ایک ٹکڑے کا سوال کیا کہ جس کے ذریعہ وہ اپنی پیٹھ کو مضبوط کریں بھوک کی وجہ سے۔ 15۔ ابن مردویہ نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں لڑکیوں کے جانوروں کو پانی پلا دیا آیت ثم تولی الی الظل فقال رب رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر۔ یعنی پھر ایک سائے کی طرف لوٹ گئے اور فرمایا جو کچھ آپ میری طرف نازل فرمائیں کسی نعمت میں سے میں اس کا محتاج ہوں میں اس دن کھجور کی گٹھلی کے محتاج تھے۔ 16۔ ابن ابی شیبہ واحمد فی الزہد وعبد بن حمید وابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ آیت رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر یعنی اس وقت کھانے کی وہ مقدار طلب کر رہے تھے جو ان کی سیر کردے۔ 17۔ الفریابی واحمد نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ نہیں سوال کیا انہوں نے مگر کھانے کا جس کو وہ کھالیں۔ 18۔ الفریابی واحمد نے ابراہیم تیمی (رح) سے روایت کیا کہ آیت رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر یعنی اس نے اس لیے مانگا کہ ان کے پاس نہ روٹی تھی نہ درہم تھا۔ 19۔ سعید بن منصور وابن جریر وابن ابی حاتم عبداللہ ابی الہذیل کے طریق سے حضرت عمر بن خطاب ؓ آیت تمشی علی استحیاء کے بارے میں روایت کیا کہ وہ لڑکی آئی تو وہ اپنے چہرے کو اپنی قمیض کی آستین سے چھپائے ہوئے تھی۔ 20۔ ابن المنذر نے ابن ابی ہذیل (رح) سے اس کو موقوفا روایت ہے۔ 21۔ احمد نے مطرف بن شخیر (رح) سے روایت کیا کہ اللہ قسم اگر اللہ کے نبی کے پاس کوئی چیز ہوتی تو آپ اس دودھ ملے پانی سے گھونٹ کے پیچھے نہ لگتے۔ لیکن بھوک کی شدت نے آپ کو اس بات پر آمادہ کیا۔ کام خالص اللہ کے لیے ہونا چاہیے 22۔ ابن عساکر نے ابو حازم (رح) سے روایت کیا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) شعیب (علیہ السلام) کے پاس آئے تورات کے کھانے کا وقت تھا شعیب (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کھانا کھائیے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں۔ پوچھا کیوں ؟ کیا تم بھوکے نہیں ہو فرمایا کیوں نہیں لیکن میں ڈرتا ہوں کہ یہ اس کام کے عوض نہ ہو جو میں نے ان بکریوں کو پانی پلایا تھا جبکہ میں ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں کہ ہم آخرت کے عمل کے عوض میں زمین بھر سونا نہیں چاہتے۔ شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ کی قسم ایسا نہیں ہے لیکن میرے آباء و اجداد کا معمول ہے کہ ہم مہمانوں کی ضیافت کرتے ہیں اور کھانا کھلاتے ہٰ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) بیٹھ گئے اور کھانا کھالیا۔ 23۔ ابن ابی حاتم نے مالک بن انس ؓ سے روایت کیا کہ ان کو یہ بات پہنچی کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو واقعات سنائے تھے۔ 24۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ لوگ کہتے ہیں وہ شعیب (علیہ السلام) تھے لیکن وہ شعیب نہیں تھے لیکن اس دن وہ کنویں کا مالک تھا۔ 25۔ سعید بن منصور واب نابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابوعبیدہ (رح) سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھی اثرون تھا جو شعیب (علیہ السلام) کا بھتیجا تھا۔ 26۔ ابن المنذر وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے سسر کا نام یثربی تھا۔ 27۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ ابو مرہ کی کنیت کو ناپسند فرماتے تھے اور وہ فرعون کی کنیت تھی جس کو ناپسند فرمایا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو مزدوری پر رکھا اس کا نام یثربی تھا جو مدین کا مالک تھا۔ 28۔ سعید بن منصور نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ ابو مرہ کی کنیت کو ناپسند فرماتے تھے اور وہ فرعون کی نیت تھی جس کو ناپسند فرمایا اور موسیٰ (علیہ السلام) کی بیوی کا نام صفیرا بنت یثرون تھا۔ 29۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے القوی کے بارے میں روایت کیا کہ جو پتھر اس کنویں کے منہ پر پڑا ہوا تھا اسے ہٹا دیا اور ان سے جانوروں کو پانی پلا دیا۔ الامین سے مراد ہے کہ انہوں نے اپنی نظر کو نیچے رکھا۔ جب ان کو پانی پلایا تو اس نے مجھے اپنے پیچھے کردیا جب ان کو پانی پلایا۔ 30۔ الطبرانی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی ہونے والی بیوی نے کہا نے کہ آیت یا ابت الستاجرہ ان خیر من استجرت القوی الامین “ یعنی ان کو نوکر رکھ لو کیونکہ بہترین نوکر وہ ہوتا ہے جو قوت والا اور امانت دار ہو پوچھا اس کی قوت سے تم نے کیا دیکھا اس نے کہا وہ کنویں پر آیا اس پر ایک پتھر پڑا ہوا تھا اسے اتنے اور اتنے آدمی بھی نہیں اٹھا سکتے اور ان سے اس کو اکیلے ہی اٹادیا پھر پوچھا اس کی امانت میں سے تو نے کیا دیکھا اس نے کہا کہ میں اس کے آگے چل رہی تھی تو اس نے مجھے اپنے پیچھے کردیا۔ 31۔ ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ آیت انی ارید ان انکحک احدی ابنتی ہتین یعنی میں نے ارادہ کیا کہ میں اپنی ان دونوں بیٹیوں میں سے کسی سے تیرا نکاح کردوں پھر فرمایا مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ اس نے بڑی لڑکی کا ان سے نکاح کردیا جس نے ان کو بلایا تھا اور اس کا نام صفورا تھا اور اس کا والد شعیب کا بھتیجا تھا اس کا نام رعاویل تھا اور مجھ کو خبردی جو بہت سچ بولنے والا تھا اس کا نام کتاب میں یثرون تھا جو مدین کا کاہن تھا اور کاہن سے مراد ہے بڑا عالم۔ 32۔ ابن المنذر نے نوف شامی (رح) سے روایت کیا کہ اس عورت نے موسیٰ کا ایک لڑکا جنا اس کا نام جرثمہ تھا۔ 33۔ ابن ماجہ ولبزار وابن المنذر وابن ابی حاتم والطبرانی وابن مردویہ نے عقبہ بن المنذر السمی ؓ نے بیان فرمایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا آپ نے پڑھ طس یہاں تک کہ موسیٰ کے قصہ پر پہنچے پھر فرمایا کہ (علیہ السلام) نے آٹھ سال یا دس اپنی پاکدامنی اور کھانے پر مزدوری کی جب مدت پوری کردی تو کہا گیا یارسول اللہ ! کونسی مدت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوری کی فرمایا جو ان میں سے جو ان میں سے زیادہ قسم پوری کرنے والی اور کامل تھی۔ جب شعیب (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے علیحدہ ہونے کا ارادہ کیا تو انی بیوی کو حکم دیا کہ وہ اپنے باپ سے سوال کرے کہ وہ اپنی بکریوں میں سے اتنی مقداردے دے کہ جس سے وہ زندگی گزار سکیں تو انہوں نے اپنی بیٹی کو وہ بکریاں دیں جنہوں نے اس سال بدلے ہوئے رنگوں والے بچے جنے تھے اور ان کی بکریاں خوبصور کالے رنگ کی ٹھیں موصی (علیہ السلام) اپنی لاٹھی کی طرف چلے اس کو ایک طرف بلند کیا پھر اس کو حوض کی پست جگہ پر رکھ دیا۔ پھر ان بکریوں کو لے آئے اور ان کو پانی پلایا موسیٰ حوض کے سامنے کھڑے رہے۔ اس میں سے کوئی بکری واپس نہ جاتی مگر اس کے پہلے میں ایک ایک بکری کھڑی کرتے انہوں نے نشو نما پائی اور تین گنا ہوگئیں ان سب نے بدلے رنگ والے بچے جنے یعنی اپنی ماں کے رنگ پر نہ تھے مگر ایک یا دو بکریاں نے ان میں سے کوئی بکری ایسی نہ تھی جس کا دودھ دو ہے بغیر بہتا رہتا ہو ان میں سے کوئی بکری ایسی نہ تھی جس کا تھن کا سوراخ تنگ ہو اور نہ کوئی بکری ایسی تھی جس کا دودھ کم ہو اور نہ ہی کوئی بکری ایسی تھی جس کا تھن زائد ہو اور نہ ہی کوئی بکری ایسی تھی جس کے تھن چھوٹے ہوں جسے ہتھیلی گرفت میں نہ لائے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اگر تم شام کے ملک میں جاؤ تو ان بکریوں میں سے باقی ماندہ بکریاں دیکھو گے یہی سامریہ ہے ابن لہیعہ نے کہا فشوش سے مرا دوہ بکری ہے جس کے تھن کا سوراخ کھلا ہوا ہے اس کا دودھ خود بخود بہتارہتا ہے ضبوب وہ بکری ہے جس کی کھیری لمبی ہو سوراخ تنگ ہو۔ اور غرور جس کی کھیری چھوٹی ہو اور تفول وہ ہے جس کی کھیری بسپات کی دو پھٹنیوں کی طرح ہو اور کمشہ سے مراد وہ بکری ہے جس کی کھیری اتنی چھوٹی ہو کہ ہاتھ اسے نہ پہنچ سکے۔ 34۔ ابن جریر نے انس ؓ سے روایت کیا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھی شعیب (علیہ السلام) کو متوجہ کیا اس مدت کی طرف جو ان کے درمیان تھی تو تو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی نے ان سے کہا ہر بکری جو اپنے رنگ پر بچے جنے تو تیرے لیے اس رنگ کی بکریاں ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے ارادہ تو پانی پر ایک ڈھانچہ سا لگادیا جب بکریوں نے وہ ڈھانچہ دیکھا تو ڈر گئیں تو ایک دم پھر گئیں تو سب بکریں نے چتکبرے بچے دئیے سوائے ایک بکری کے وہ سال ان سب کے رنگ لے گیا۔ 35۔ سعید بن منصور وابن ابی شیبہ نے المصنف میں وعبد بن حمید والبخاری وابن المنذر وابن مردویہ ووابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے سوال کیا گیا کیا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں مدتوں میں سے کونسی مدت پورا کی۔ تو فرمایا کہ ان دونوں میں سے جو زیادہ اور پاکیزہ تھی۔ کیونکہ اللہ کا رسول کوئی بات کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے۔ 36۔ البزار وابو یعلی وابن جریر وابن ابی حاتم والحاکم وصححہ وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرئیل (علیہ السلام) سے سوال کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کو سنسی مدت پوری کی تھی تو جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا ان دونوں میں سے جو زیادہ کامل تھی۔ 37۔ ابن ابی حاتم نے یوسف بن سرح (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ موسیٰ علیہ السلانے نے کونسی مدت پوری کی آپ نے جبرئیل (علیہ السلام) سے پوچھا انہوں نے فرمایا مجھے علم نہیں جبرئیل نے اپنے سے بلند مرتبہ ایک فرشتے پوچھا اس نے کہا مجھے علم نہیں پھر اس فرشتے نے اپنے رب سے پوچھا تو رب عز وجل نے فرمایا اس مدت کو پورا کیا جو قسم کو زیادہ پورا کرنے والی تھی زیادہ تقوی والی تھی اور ان دونوں میں زیادہ پاکیزہ تھی۔ بطور احسان دس سال کی مدت پوری کی۔ 38۔ ابن مردویہ نے علی بن عاصم کے طریق سے ابوہریرہ اور ابو سعید ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے ان سے سوال کیا کہ دونوں مدتوں میں کونسی مدت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوری کی۔ ابو سعید خدری نے کہا میں نہیں جانتا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ سے سوال کروں تو آپ نے بھی فرمایا میں نہیں جانتا یہاں تک کہ جبرئیل (علیہ السلام) سے سوال کروں تو انہوں نے فرمایا نہیں جانتا یہاں تک کہ میں میکائیل (علیہ السلام) سے سوال کروں فرمایا نہیں جانتا یہاں تک میں رفع سے سوال کروں رفیع نے کہا میں نہیں جانتا یہاں تک کہ میں اسرافیل (علیہ السلام) سے سوال کروں فرمایا نہیں جانتا یہاں تک کہ میں رفیع سے سوال کرو۔ رفیع نے کہا میں نہیں جانتا یہاں تک کہ میں اسرافیل (علیہ السلام) سے سوال کروں انہوں نے فرمایا میں نہیں جانتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے پوچھوں۔ اسرافیل (علیہ السلام) نے اپنی بلند آواز سے پوچھا اے عزت وشان والے کونسی مدت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوری کی۔ فرمایا دونوں مدتوں میں سے کامل اور پاکیزہ یعنی دس سال علی بن عاصم نے فرمایا کہ ابو ہارون جب اس حدیث کو بیان فرمایا تو فرماتے مجھے ابو سعید خدری ؓ نے بیان فرمایا نبی ﷺ سے اور انہوں نے جبرئیل (علیہ السلام) اور انہوں نے میکائیل (علیہ السلام) اور انہوں نے رفیع سے اور انہوں نے اسرافیل (علیہ السلام) سے اور انہوں نے عزت والے تبارک وتعالیٰ سے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں مدتوں میں سے جو مکمل اور پاکیزہ تھی یعنی دس سال کی مدت پوری کی۔ 39۔ ابن مردویہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں مدتوں میں سے کونسی مدت پوری کی فمرایا ان میں جو زیادہ کامل تھی۔ 40۔ ابن مردویہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا اے محمد ﷺ اگر آپ سے یہودی پوچھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کونسی مدت پوری کی تو آپ فرمادیجیے ان میں سے جو زیادہ کامل تھی اور اگر آپ سے سوال کریں کہ ان میں سے کونسی لڑکی سے موسیٰ (علیہ السلام) نے نکاح کیا تو آپ فرمادیجیے کہ ان میں سے چھوٹی کے ساتھ 41۔ الخطیب نے اپنی تاریخ میں ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تجھ سے سولا کیا جائے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کونسی مدت پوری کی تو کہہ دینا جو ان میں سے بہترین اور زیادہ قسم پوری کرنے والی تھی اور جب تجھ سے سوال کیا جائے دونوں لڑکیوں میں سے کس کے ساتھ شادی کی تو کہہ دینا ان میں سے چھوٹی لڑکی کے ساستھ جو ان کے پاس آئی تھی اور اس نے کہا تھا آیت یا ابت استاجرہ ان خیر من استجرت القوی الامین یعنی اسے میرے باپ اسکو نوکر رکھ لو کیونکہ بہتر نوکر وہ وہتا ہے تو قوی اور امین ہو۔ باپ نے پوچھا تو نے اس کی قوت میں سے کیا دیکھا ؟ کہنے لگی کہ اس نے بھاری پتھر کو اٹھایا اور اس کو کنویں پر ڈال دیا پھر پوچھا تو نے اس کی کیا امانت دیکھی کہنے لگی کہ اس نے مجھ سے کہا میرے پیچھے چل اور میرے آگے مت چل۔ 42۔ البیہقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کون سی مدت پوری کی آپ نے فرمایا ان دونوں میں جو زیادہ تھیں اور پاکیزہ تھیں۔ 43۔ البزار وابن ابی حاتم والطبرانی فی الاوسط وابن مردویہ نے ضعیف سند کے ساتھ ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کونسی مدت پوری کی فرمایا دونوں مدتوں میں جو زیادہ قسم کو پورا کرنے والی اور کامل تھی پھر فرمایا اگر تجھ سے سوال کریں کہ دونوں لڑکیوں میں سے کونسی لڑکی کے ساتھ نکاح کیا تو کہہ دینا کہ ان میں سے چھوٹی کے ساتھ۔ 44۔ الفریابی و سعید بن منصور وابن ابی حاتم وابن ابی شیبہ نے المصنف میں وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے محمد کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ پوچھا گیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کونسی مدت پوری کی فرمایا عنقریب میں سوال کروں گا جبرئیل (علیہ السلام) سے آپ نے سوال فرمایا تو انہوں نے فرمایا میں عنقریب میکائیل (علیہ السلام) سے سوال کروں گا انہوں نے اس سے پوچھا تو انہوں نے کہا عنقریب میں اسرافیل (علیہ السلام) سے سوال کروں گا ان سے انہوں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں عنقریب رب تعالیٰ سے سوال کروں گا انہوں نے رب تعالیٰ سے سوال کیا تو فرمایا وہ مدت جو قسم کو زیادہ پوری کرنے والی اور کامل تھی۔ 45۔ ابن مردویہ نے مقسم (رح) سے روایت کیا کہ میں حسن بن علی بن ابی طالب ؓ سے ملا اور میں نے ان سے کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں مدتوں میں سے کونسی مدت پوری کی پہلی یا دوسری ؟ فرمایا دوسری مدت۔ 46۔ ابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت واللہ علی ما نقول وکیل یعنی ہم باہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اللہ اس کا گواہ ہے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے قول یعنی شعیب (علیہ السلام) کے قول پر اللہ تعالیٰ نگہبان ہے۔
Top