Dure-Mansoor - Al-Qasas : 51
وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَؕ
وَلَقَدْ وَصَّلْنَا : اور البتہ ہم نے مسلسل بھیجا لَهُمُ : ان کے لیے الْقَوْلَ : (اپنا) کلام لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَذَكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور ہم نے اس کلام کو ان لوگوں کے لیے مسلسل بھیجا تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں
1۔ ابن ابی شیبہ وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابوالقاسم البغوی فی معجمہ والباوردی وابن قانع الثلاثہ فی معاجم الصحابہ والطبرانی وابن مردویہ جید سند کے ساتھ رفاعہ قرظی (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت ولقد وصلنا لہم القول لعلم یتذکرون سے لے کر اولئک یوتون اجرہم مرتین بما صبرو تک اور ہم ن اس کلام یعنی قرآن کو مسلسل نازل کیا تھا کہ وہ لوگ نصیحت حاصل کریں سے لے کر یہی لوگ ہیں ان کو دوگناملے گا۔ ان کے صبر کی وجہ سے یہ آیات دس افراد کے بارے میں نازل ہوئیں میں بھی ان میں سے ایک تھا۔ 2۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ولقد وصلنا قریش کے بارے میں نازل ہوئی۔ 3۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ولقد وصلنا لہم القول کہ ہم نے ان قریش کے لیے مسلسل بیان کیا۔ 4۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ولقد وصلنا لہم القول سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس قرآن میں مسلسل نازل کیا اور ان کو خبر دی کہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ سلوک کرتا ہے جو گزر چکے ہیں انہوں نے کیسے کیا اور ان کے ساتھ کیا کرنے والا ہے۔ 5۔ ابن جریر وابن المنذر نے ابو رفاعہ ؓ سے روایت کیا کہ اہل کتاب میں سے دس آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے نکلے ان میں ابو رفاعہ بھی تھے پھر وہ ایمان لے آئے اور ان کو تکلیف دی گئی تو یہ آیت الذین اتینہم الکتب من قبلہ ہم بہ یومنون یعنی وہ لوگ کہ ہم نے ان کو کتاب اس سے پہلے ہی دی تھی اور وہ اس کے ساتھ بھی ایمان لائے تھے۔ اہل کتاب کے لیے مومنین کے لیے دوگنا اجر ہوگا 6۔ البخاری فی تاریخہ وابن المنذر نے علی بن رفاعہ (رح) سے روایت کیا کہ میرے والد ان لوگوں میں سے تھا جو نبی ﷺ پر ایمان لائے اہل کتاب میں سے اور یہ دس آدمی تھے جب وہ آئے تو لوگوں نے ان کا مذاق بنایا اور ان پر ہنسنے لگے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی آیت اولئک یوتون اجرہم مرتین بما صبرو۔ یعنی یہی لوگ ہیں جنہیں دگنا اجر دیا جائے گا ان کے صبر کرنے کی وجہ سے۔ 7۔ الفریابی وعبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت الذین اتینہم الکتب سے لے کر آیت ما نبتغی الجہلین کہ یہ آیت اہل کتاب کے مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ 8۔ عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت الذین اتینہم الکتب من قبلہ ہم بہ یؤمنون یعنی جن کو ہم نے کتاب دی اس سے پہلے وہ اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں۔ فرمایا ہم یہ بیان کرتے تھے کہ یہ اہل کتاب کے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ جو حق کی شریعت پر قائم ہے اور شریعت کے احکام لیتے تھے اور اس کی حرام کردہ چیزوں سے رک جاتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا اور وہ اس پر جمے رہے۔ پھر فرمایا کہ ہم کو ذکر کیا گیا کہ ان میں سلیمان فارسی اور عبداللہ بن سلام ؓ ہیں۔ 9۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت الذین اتینہم الکتب من قبلہ ہم بہ یومنون اس کے مصداق وہ لوگ ہیں جو اہل کتاب میں سے محمد ﷺ پر ایمان لائے۔ 10۔ ابن مردویہ نے نے سلمان فارسی ؓ سے روایت کیا کہ میں اپنے مالکوں کے ہاتھوں گھومتا رہا یہاں تک کہ میں یثرب یعنی مدینہ منورہ میں پہنچا اس وقت کوئی قوم زمین میرے نزدیک نصٓری سے زیادہ محبوب نہ تھی اور نصرانیت سے بڑھ کر کوئی دین محبوب نہ تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے ان نصرانیوں کو مشقت کرتے ہوئے دیکھا اس درمیان کہ میں اس حال میں تھا اچانک لوگوں نے کہا کہ عرب میں ایک نبی کی بعثت ہوگئی ہے پھر انہوں نے کہا کہ وہ مدینہ منورہ تشریف لے آئے ہیں میں آپ کے پاس آیا اور میں نے آپ سے نصاری کے بارے میں پوچھنا شروع کیا آہپ نے فرمایا کہ نصٓری میں خیر نہیں اور میں نصاری کو پسند نہیں کرتا پھر میں نے آپ کو بتایا کہ میرے ساتھی نے کہا اگر میں اسے پاتا اور وہ مجھ کو آگ میں کود جانے کا حکم دیتے تو میں آگ میں کود جاتا کہا کہ میں نصاری کی محبت پر فریفتہ ہوچکا تھا میں نے اپنے دل میں بھاگ جانے کا سوچا جبکہ رسول اللہ ﷺ نے تلوار سونت لی میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا رسول اللہ ﷺ تجھ کو بلا رہے ہیں میں نے کہا تم جاؤ یہہاں تک کہ میں آتا ہوں اور میں اپنے دل میں بھاگنے کا سوچ رہا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا میں ہرگز تجھ سے جدا نہیں ہوں گا یہاں تک کہ تجھے ان کی طرف لے جاؤں گا میں اس کے ساتھ چل پڑا جب انہوں نے مجھ کو دیکھا تو فرمایا اے سلمان اللہ تعالیٰ نے تیرے عذر کے بارے میں یہ حکم نازل فرمایا ہے اور یہ آیت تلاوت فرمائی آیت الذین اتینہم الکتب من قبلہ ہم بہ یومنون۔ یعنی جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی اس سے پہلے وہ اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کا واقعہ 11۔ الطبرانی والخطیب اپنی تاریخ میں سلمان فارسی ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں رام ہرمز کے رہنے والوں میں سے ایک آدمی تھا ہم مجوسی لوگ تھے اہل جزیر میں سے ایک نصرانی آدمی ہمارے پاس آیا وہ ہمارے ہاں ٹھہرا اور ہمارے ہاں اپنی ایک عبادت گاہ بنائی اور میں فارسی زبان میں لکھنے والوں میں سے تھا مکتب میں یرے ساتھ ایک لڑکا تھا وہ مار کھا کر آتا تو رو رہا ہوتا اس کے والدین اس کو مارتے تھے۔ ایک دن میں نے اس سے کہا کہ تو کیوں روتا ہے ؟ اس نے کہا کہ میرے والدین مجھے مارتے ہیں میں نے کہ وہ تجھ کو کیوں مارتے ہیں اس نے کہا کہ اس گرجا گھر کے پاس آتا ہوں انہوں نے اس بات کو جانا یعنی میرے آنے کا ان کو پتہ چلا تو انہوں نے مجھ کو مارا اور اگر تو اس کے پاس آئے تو اس سے عجیب و غریب باتیں سنے میں نے کہا میں تیرے ساتھ جاؤں گا چناچہ ہم اس کے پاس آئے اس نے ہم کو مخلوق کی پیدائش کے آغاز اور آسمانوں اور زمین کے آغاز جنت اور دوزخ کے بارے میں ہم کو عجیب باتیں بیان کی میں ان کے پس آتا جاتا رہا دوسرے چند لڑکوں ہمارے معاملہ کو دیکھ لیا تو وہ بھی ہمارے ساتھ آنے لگے۔ جب بستی والوں نے اس بات کو دیکھا تو اس کے پاس آئے اور کہا اے آدمی تو ہمارے پناہ میں آیا ہم نے تیرے پڑوس سے سوائے اچھائی کے کچھ نہیں دیکھا اور ہمارے کچھ لڑکے ہیں جو تیرے پاس آتے جاتے ہیں اور ہم کو خوف ہے کہ تو ان کو ہمارے خلاف کردے گا ہم سے چلا جاس نے کہا ہاں ٹھیک ہے اس نے اس لر کے سے کہا جو اس کے پاس آتا تھا میرے ساتھ چلو اس نے کہا میں آس کی طاقت نہی رکھتا میرے والدین جو مجھ پر سختی کرتے ہیں تو اس کو جانتا ہے میں نے کہا میں تیرے ساتھ چلتا ہوں اور میں یتیم ہوں میرا باپ نہیں ہے میں اس کے ساتھ نکلا ہم نے رام ہرمز کا پہاڑی راستہ اختیار کیا۔ ہم چلتے رہے اور ہم توکل کرتے رہے اور کھاتے رہے درختوں کے پھلوں سے یہاں تک کہ ہم جزیرہ پہنچ گئے ہم نصیبیبن پہنچے میرے ساتھی نے مجھ سے کہا اے سلیمان یہاں ایک ایسی قوم ہے جو زمین میں رہنے والوں میں سب سے زیادہ عبادت کرنے والے ہیں میں ان کو ملنا پسند کرتا ہوں۔ ہم اتوار کے دن ان کے پاس آئے وہ جمع ہوچکے تھے میرے ساتھی نے ان کو سلام کیا انہوں نے بھی سلام کیا اور اسے دیکھ کر خوش ہوئے اور پوچھا تو اتنا عرصہ کہاں غائب رہا اس نے کہا میں فارس کے علاقہ میں اپنے دوستوں کے پاس رہا۔ اس نے ہمارے ساتھ گفتگو کی جو گفتگو کی پھر مجھ کو میرے ساتھی نے کہا اے سلیمان کھڑا ہجا اور چل میں نے کہا نہیں مجھ کو ان لوگوں کے ساتھ چھوڑدے اس نے کہا تو اس چیز کی طاقت نہیں رکھتا جس کی یہ لوگ طاقت رکھتے ہیں وہ ایک اتوار سے دوسرے اتوار تک روزے رکھتے ہیں اور رات کو سوتے نہیں انہیں میں سے ایک بادشاہ کے بیٹوں میں سے ایک تھا جس نے ملک کو چھوڑدیا تھا اور عبادت میں داخل ہوگیا تھا میں ان لوگوں میں رہا یہاں تک کہ کہ ہم نے شام کی اور ایک ایک کر کے جانا شروع کیا اپنی غار کی طرف جس میں وہ رہتے تھے جب ہم نے شام کی اس نے کہا جو بادشاہوں کے بیٹوں میں سے تھا کہ تم اس لڑکے کا کیا کرو گے ؟ چاہیے کہ تم میں سے کوئی آدمی اس کو ساتھ رکھ لے انہوں نے کہا تو اس کو ساتھ لے لے۔ اس نے مجھ سے کہا اے سلیمان کھڑا ہوجا اور میرے ساتھ چل یہاں تک کہ میں آیا اس غار میں جس میں وہ رہتا تھا اس نے مجھ سے کہا اے سلیمان یہ روٹی ہے اور یہ سالن ہے اس کو کھالینا جب تو بھوکا ہو اور روزہ رکھ لینا جب تک چستی ہو جب مناسب سمجھے عبادت کرلینا اور سو جا جب تو سست پڑجائے وہ اپنی نماز میں کھڑا ہوگیا اور مجھ سے بات نہ کی اور نہ میری طرف دیکھا مجھے غم نے آلیا ان سات دنوں میں کس نے مجھ سے بات نہ کی یہاں تک کہ جب اتوار کا دن آیا وہ میری طرف متوجہ ہوا میں ان کے مکان میں ان کی طرف گیا جس میں وہ جمع تھے اور وہ ہر اتوار کو جمع ہوتے ہیں اور اس میں وہ روزہ افطار کرتے اور ایک دوسرے سے ملاقات کرتے اور ایک دوسرے کو سلام کرتے وہ اگلے اتوار تک باہم ملاقات نہ کرتے۔ میں اپنے ٹھکانے کی طرف لوٹ آیا اس نے مجھ سے وہی کہا جو پہلی مرتبہ کہا تھا یہ روٹی ہے اور یہ سالن ہے اس میں سے کھاؤ جب تو بھوکا ہو اور روزہ رکھ جب جسم میں چستی ہو جب مناسب ہو تو عبادت کرلینا اور سوجانا جب تو سست ہوجائے پھر نماز شروع کردی۔ اور میری طرف توجہ نہیں کی اور نہ مجھ سے بات کی اگلے اتوار تک مجھے غم نے پکڑ لیا اور میرے دل نے بھاگنے پر آمادہ کیا اور میں نے کہا دو اتوار یا تین اتوار صبر کرو جب اتوار آیا تو ہم ان لوگوں کی طرف لوٹے انہوں نے روزہ افطار کیا اور جمع ہوئے اس نے ان سے کہا میں بیت المقدس کا ارادہ رکھتا ہوں انہوں نے اس سے کہا تو وہاں کیوں جانا چاہتا ہے۔ اس نے کہا مجھے کوئی کام نہیں تو انہوں نے کہا ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں تجھے کوئی حادثہ پیش نہ آجائے تو کوئی اور تجھ پر قبضہ نہ کرلے۔ اور ہم چاہتے ہیں کہ ہم تیرے ساتھ رہیں۔ اس نے کہا اس کا کوئی وعدہ نہیں۔ جب میں نے اسے یہ بات کرتے ہوئے سنا تو میں خوش ہوا میں نے کہا ہم سفر کریں گے اور لوگوں سے ملیں گے تو مجھ سے وہ غم جاتا رہا جس کو میں پات اہوں میں اور وہ نکل پڑے اور وہ ایک اتوارے سے دوسرے اتوار تک روزے رکھتا تھا۔ اور ساری رات عبادت کرتا تھا اور دن بھر چلتا تھا۔ جب ہم کسی جگہ پڑا ڈالتے تو وہ نماز پڑھنے کھڑا ہوجاتا یہی اس کا طریقہ رہا یہاں تک کہ ہم بیت المقدس پہنچ گئے دروازہ پر ایک اپاہج آدمی بیٹھا ہوا تھا جو لوگوں سے سوال کر ررہا تھا اس نے کہا مجھ کچھ دو اس نے کہا میرے پاس کوئی چیز نہیں ہم بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ جب بیت المقدس کے رہنے والوں نے اس کو دیکھا تو اس سے بہت خوش ہوئے اسنے ان سے کہا یہ میرا غلام ہے میں تم کو اس کی وصیت کرتا ہوں وہ مجھ کو لے کر چلے اور مجھ کو گوشت اور روٹی کھلائی اور وہ نماز میں داخل ہوگیا اور وہ متوجہ نہ ہوا یہاں تک کہ اگلا اتوار آگیا پھر وہ نماز سے فارغ ہوا تو مجھ سے کہا اے سلیمان میں ارادہ رکھتا ہوں کہ میں تھوڑا سا لیٹ جؤں جب سایہ فلاں جگہ پہنچ جائے تو مجھ کو جگا دینا جب سایہ وہاں تک پہنچا جہاں اس نے کہا تھا تو میں نے رحم کھاتے ہوئے اس کو نہ جگایا جب سایہ اس طرح اور اس طرح فلاں گجہ پر پہنچا تو وہ گھبرا کر اٹھا اور کہا اے سلیمان میں نے تجھ کو یہ نہ کہا تھا کہ جب سایہ اس جگہ پر پہنچے تو مجھ کو جگادینا۔ میں نے کیوں نہیں (آپ نے کہا تھا) لیکن جب میں نے تیرا طریقہ دیکھا تو تیرے ساتھ رحمت نے مجھے جگانے سے روک دیا اس نے کہا اے سلیمان ہلاکت ہو میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ مجھ سے زمانے میں سے کوئی وقت ایسافوت ہوجائے کہ جس میں میں نے اللہ کے لیے کوئی خیر کا عمل نہ کیا ہو۔ پھر مجھ سے کہا اے سلیمان ! تو جان لے کہ آج سب سے افضل دین نصرانیت ہے میں نے کہا آج کے دن کے بعد نصرانیت سے کوئی اور دین افضل ہوگا۔ یہ ایسی بات تھی جو میری زبان پر جاری کردی گئی اس نے کہا ہاں قریب ہے کہ ایک نبی مبعوث ہوگا جو ہدیہ کھائے گا صدقہ نہیں کھائے گا اور اس کے دونوں کندھوں کے درمیان نبوت کی مہر ہوگی اگر تو اس کو پالے تو اس کی اتباع کرنا اور اس کی تصدیق کرنا میں نے کہا اگرچہ وہ مجھ کو نصرانیت کے چھوڑنے کا حکم کریں ؟ اس نے کہا ہاں تب بھی اس کی اتباع کرنا۔ کیونکہ وہ اللہ کے نبی ہوں گے وہ کوئی حکم نہیں کریں گے مگر حق کے ساتھ اور کوئی بات نہیں کہیں گے مگر حق کے ساتھ اللہ کی قسم اگر میں اس کو پالیتا پھر وہ مجھ کو حکم کرتے کہ آگ میں کود جاؤ تو میں اس میں کود جاتا۔ پھر ہم بیت المقدس سے نکلے ہم اسی اپاہج کے پاس سے گذرے تو اس نے کہا تو داخل ہوا اور مجھ کچھ نہ دیا اور اب نکل رہا ہے تو مجھ کو عطا کر وہ متوجہ ہوا تو اپنے اردگرد کسی کو نہ دیکھا تو اس سے کہا مجھے اپنا ہاتھ دے۔ پھر اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا اللہ کے حکم سے کھڑا ہوجا تو وہ صحیح اور ٹھیک حالت میں کھڑا ہوگیا پھر وہ اپنے گھر والوں کی طرف چلا میں نے اپنی نگاہ اس کے پیچھے لگا دی تعجب کرتے ہوئے ان چیزوں سے جو میں نے دیکھیں میرا ساتھی نکلا اور تیز تیز چلنے لگا اور میں بھی اس کے پیچھے ہولیا بنوکلب کا ایک قافلہ مجھے ملا انہوں نے مجھے قیدی بنا لیا اور مجھے ایک اونٹ پر باندھ دیا اور میری مشکیں کس دیں میں بکتا رہا یہاں تک کہ میں مدینہ منورہ میں آپہنچا انصار میں سے ایک آدمی نے مجھے کرید لیا اور اپنے ایک کھجور کے باغ میں مجھے کام میں لگا دیا میں اس میں رہتا تھا اور میں نے کھجور کے پتوں سے ٹوکریاں بنانا سیکھ لیا میں نے ایک درہم میں کھجور کے پتے خریدے اس پر عمل کیا یعنی اس کی ٹوکری بنائی پھر اس کو دو درہم میں بیچ دیا پھر ایک درہم کے پتے خرید لیتا اور ایک درہم کرچ کردیتا اور مجھے یہ زیادہ محبوب تھا کہ میں اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاؤ ہم کو یہ بات پہنچی اور ہم مدینہ منورہ میں تھے کہ ایک آدمی مکہ سے ظاہر ہوا جو یہ اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو مبعوث کیا ہے پھر ہم ٹھہرے رہے جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ہم ٹھہرے رہیں پھر رسول اللہ ﷺ نے ہماری طرف ہجرت کی اور ہمارے پاس تشریف لے آئے میں نے کہا اللہ کی قسم میں ان کو ضرور آزاؤں گا میں بازار کی طرف گیا اور میں نے اونٹ کا گوشت کریدا پھر آٹا پیسا ایک پیالہ شربت کا بنایا میں نے اس کو اٹھایا یہاں تک کہ اس کو اپنے کندھے پر اٹھا کر آپ کے پاس لے آیا اور آپ کے سامنے رکھ دیا آپ نے پوچھا یہ کیا ہے یہ صدقہ ہے یا ہدیہ ہے ؟ میں نے کہ بلکہ یہ صدقہ ہے آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ اس کو کھالو اور خود نہ کھایا میں کچھ دن ٹھہرا رہا پھر میں نے ایک درہم کا گوشت کریدا اسی طرح اس کو بنایا اور اس کو اٹھا کر آپ کے پاس لے آیا میں نے اس کو آپ کے سامنے رکھ دیا آپ نے پوچھا یہ کیا ہے صدق ہے یا ہدیہ ہے میں نے کہا بلکہ یہ ہدیہ ہے آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ کھاؤ اور ان کے ساتھ کود بھی کھایا میں نے دل میں کہا اللہ کی قسم یہ ہدیہ کھاتے ہیں اور صدقہ نہیں کھاتے پھر میں نے مہر نبوت کو ان کے کندھوں کے درمیان دیکھا کبوتری کے انڈے کی طرح تو میں مسلمان ہوگیا۔ اس دن میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! نصاری کی قوم کیسی ہے آپ نے فرمایا ان میں خیر نہیں اور نہ ان لوگوں میں جو ان سے محبت رکھتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا اللہ کی قسم میں تو ان سے محبت رکھتا ہوں کہا یہ وہ وقت تھا جب آپ ﷺ لشکر بھیجے اور تلوار کو میان سے نکالا جاتا تو ایک لشکر لڑنے کے لیے نکلتا تھا اور ایک لشکر واپس ہو کر مسجد نبوی میں داخل ہوتا تھا اور تلوارخون ٹپکاتی تھی میں نے کہ امیرے ساتھ اب کیا معاملہ کیا جائے گا کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں میری طرف کسی کو بھیجا جائے گا اور میری گردن ماردی جائے گی اسی خوف سے میں گھر میں بیٹھ گیا ایک دن قاصد میرے پاس آیا اور کہا اے سلیمان رسول اللہ ﷺ بلا رہے ہیں میں نے کہا اللہ کی قسم میں تو ڈرتا ہوں میں نے اس سے کہا ٹھیک ہے تم چلو میں تم کو پیچھے سے ملتا ہوں اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم میں اس وقت تک نہیں جاؤں گا یہاں تک کہ تو آگے ہوگا اور میں نے دل میں یہ ارادہ کرلیا اگر وہ چلا جاتا تو میں بھاگ جاتا۔ وہ مجھے لے کر چلا یہاں تک کہ میں آپ کے پاس پہنچ گیا جب آپ نے مجھے دیکھا تو مسکرا ائے اور مجھ سے فرمایا اے سلیمان تو خوش ہوجا اللہ تعالیٰ نے تیری مصیبت کو دور کردیا ہے پھر ان آیات کو تلاوت فرمایا آیت الذین اتیناہم الکتاب من قبلہ ہم بہ یومنون، سے لے کر آیت لانستعی الجاہلین۔ تک میں نے عرض کیا یارسول اللہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں نے اپنے ساتھی کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ اگر میں ان کو یعنی آخری نبی کو پاتا پھر وہ مجھے آگ میں کود جانے کا حکم فرمائیں تو میں اس میں کو دجاتا کیونکہ وہ نبی ہوں گے اور کوئی بات نہیں کہیں گے مگر حق کے ساتھ اور کوئی حکم نہیں کریں گے مگر حق کے ساتھ۔ 12۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے آیت الذین اتینہم الکتب من قبلہ ہم بہ یومنون کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت عبداللہ بن سلام ؓ کے بارے میں نازل ہوئی جب وہ اسلام لائے تو یہ بات پسند کی کہ یہودیوں میں ان کا جو مقام اور مرتبہ ہے اس کے بارے میں نبی اکرم ﷺ کو بتائے اس لیے اپنے اور یہودیوں کے درمیان ایک پردہ ڈال دیا آپ نے ان سے بات کی اور ان کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے انکار کردیا پھر آپ نے فرمایا مجھے عبداللہ بن سلام کے بارے میں بتاؤ کہ وہ تمہارے درمیان کیسے ہیں۔ تو ان لوگوں نے کہا وہ ہمارے سردار ہیں اور ہم سے زیادہ دین کا علم رکھنے والے ہیں پھر آپ نے فرمایا تم بتاؤ اگر وہ مجھ پر ایمان لے آئیں میری تصدیق کریں کیا پھر تم مجھ پر ایمان لاؤگے اور میری تصدیق کرو گے ؟ انہوں نے کہا وہ ایسا نہیں کریں گے وہ ہمارے درمیان زیادہ سمجھ رکھنے والے ہیں اس بات سے کہ وہ اپنے دین کو چھوڑدیں اور آپ کی تابعداری کرلیں آپ نے فرمایا تم بتاؤ اگر وہ ایسا کرلیں کہ مجھ پر ایمان لے آئیں کہنے لگے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے آپ نے فرمایا تم بتاؤ اگر وہ ایسا کرلیں کہنے لگے تب تو ہم ہم بھی ایسا کرلیں گے یعنی یمان لے آئیں گے آپ نے فرمایا اے عبداللہ بن سلام باہر نکل آؤ۔ وہ ابہر نکلے اور کہا اپنے ہاتھ کو پھیلائے میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں تو انہوں نے آپ سے بیعت کرلی یہ دیکھ کر یہودی اس پر پل پڑے اور ان کو گالیاں دینے لگے اور کہنے لگے اللہ کی قسم ان سے بڑھ کر ہم میں کوئی کم علم نہیں اور اللہ کی کتاب سے اس سے زیادہ کوئی جاہل نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کیا ابھی تم نے ان کی تعریف نہیں کی۔ تو کہنے لگے کہ ہمیں اس بات سے حیا آرہی تھی کہ تم یہ کہو کلہ تم اچھے ساتھی کی عدم موجودگی میں غیبت کرتے ہو وہ حضرت عبداللہ بن سلام کو گا لیں دینے لگے تو آپ کی طرف آمین بن یامین کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ عبداللہ بن سلام سچ بولنے والے ہیں آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھا تو انہوں نے آپ سے بیعت کرلی ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت الذین اتینہم الکتب من قبلہ ہم بہ یومنون۔ واذا یتلی علیہم قالوا امنا بہ انہ الحق من ربنا انا کنا من قبلہ مسلمین۔ یعنی جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی اس سے پہلے وہ اس پر ایمان لاتے ہیں اور جب ان پر آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے کیونکہ وہ حق ہے ہمارے رب کی طرف سے کہ اس سے پہلے بھی ہم فرمانبرداری کرنے والے تھے۔ یعنی ابراہیم اسماعیل، موسیٰ اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی امتیں بھی محمد ﷺ کے دین پر تھے۔ 13۔ ابن ابی حاتم نے ربیع بن انس (رح) سے آیت اولئک یوتون اجرہم مرتین بما صبروا کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے وہ قم مراد ہے جو فترے کے زمانہ میں تھی جو اسلام کو مضبوطی سے پکڑنے والے تھے اور اس پر قائم رہنے والے تھے اور تکلیفوں پر صبر کرنے والے تھے یہاں تک کہ میں ان میں سے کچھ لوگوں نے نبی ﷺ کے زمانہ کو پایا۔ 14۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ جب حضرت جعفر اور ان کے ساتھ نجاشی کے پاس آئے تو اس نے ان کو ٹھہرایا اور ان سے اچھا سلوک کیا جب انہوں نے واپس لوٹنے کا ارادہ کیا تو اس کی مملکت کے جو لوگ ایمان لائے تھے انہوں نے کہا ہم کو اجازت دو کہ ہم ان کے ساتھی بن جائیں سمندری سفر میں اور ہم اس نبی کے پاس حاضر ہوں اور ہم ان کے ساتھ عہد و پیمان کریں یہ لوگ چلے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچ گئے۔ اور غزوہ احد اور خیبر میں آپ کے ساتھ رہے اور ان میں سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچی انہوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ ہم کو اجازت دیجیے کہ ہم اپنے وطن کو جائیں کہ ہمارے وہاں مال ہیں ہم ون کو لے کر آجائیں اور مہاجرین پر خرچ کریں گے کیونکہ ہم ان کو سخت تنگی میں دیکھ رہے ہیں آپ نے ان کو اجازت فرمادی تو وہ لوگ چلے گئے پھر وہ اپنے مالوں کو لے کر آئے اور انہوں نے مہاجرین پر خرچ کیا تو ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت اولئک یوتون اجرہم مرتین بما صبروا ویدرء ون بلاحسنۃ السیءۃ ومم رزقنہم ینفقون۔ یعنی ان لوگوں کو دو مرتبہ اجر دیا جائے گا بوجہ اس کے وہ ایمان پر جمے اور وہ بھلائی سے برائی کو دفع کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ابن ابی شیبہ وابن المنذرنے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ مشرکین میں سے ایک جماعت اسلام لے آئی تو مشرک ان کو تکلیفیں دیا کرتے تھے تو ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی آیت اولئک یوتون اجرہم مرتین بما صبروا۔ 16۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت اذا سمعو اللغو اعرضو عنہ سے اہل کتاب میں سے وہ لوگ مراد ہیں جو اسلام لے آئے اور یہودی جب ان کے پاس سے گزرتے تھے تو ان کو گالیاں دیتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی۔ جہالت اور ظلم سے باز رہنا چاہیے۔ 17۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت سلم علیکم لا نبتغی الجاہلین سے مراد ہے کہ جاہلوں اور باطل پرستوں ان کو باطل کی وجہ سے ان پر ظلم نہیں کیا کرتے تھے اللہ کی طرف سے ایسا پیغام آیا جس نے ان کو ہلاک کردیا۔ 18۔ احمد والبخاری ومسلم والترمذی والنسائی وابن ماجہ وابن مردویہ والبیہقی نے ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں جن کو دو مرتبہ اجر دیا جائے گا اہل کتاب میں سے ایک وہ آدمی جو پہلی کتاب اور آخری کتاب پر ایمان لایا اور وہ آدمی جس کی ایک باندی تھی اس نے اس کو ادب سکھایا اور اچھا ادب سکھایا پھر اس کو آزاد کرکے اس سے نکاح کرلیا اور وہ غلام جس نے اپنے رب کی اچھی عبادت کی اور اپنے آقا کی بھی خیر خواہی کی۔ 19۔ احمد والطبرانی ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اہل کتاب میں سے جو اسلام لے آیا اس کے لیے دو اجر ہیں۔
Top