Dure-Mansoor - Al-Qasas : 76
اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى فَبَغٰى عَلَیْهِمْ١۪ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِ١ۗ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ
اِنَّ : بیشک قَارُوْنَ : قارون كَانَ : تھا مِنْ : سے قَوْمِ مُوْسٰي : موسیٰ کی قوم فَبَغٰى : سو اس نے زیادتی کی عَلَيْهِمْ : ان پر وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے دئیے تھے اس کو مِنَ الْكُنُوْزِ : خزانے مَآ اِنَّ : اتنے کہ مَفَاتِحَهٗ : اس کی کنجیاں لَتَنُوْٓاُ : بھاری ہوتیں بِالْعُصْبَةِ : ایک جماعت پر اُولِي الْقُوَّةِ : زور آور اِذْ قَالَ : جب کہا لَهٗ : اس کو قَوْمُهٗ : اس کی قوم لَا تَفْرَحْ : نہ خوش ہو (نہ اترا) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْفَرِحِيْنَ : خوش ہونے (اترانے) والے
بلاشبہ قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا سو وہ ان کے مقابلہ میں تکبر کرنے لگا اور ہم نے اسے خزانوں میں سے اس قدر دیا تھا کہ اس کی چابیاں ایسی جماعت کو گراں بار کردیتی تھیں جو قوت والے لوگ تھے جبکہ اس کی قوم نے اس سے کہا کہ تو مت اترا بلاشبہ اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا
قارون موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا 1۔ ابن شیبہ نے المصنف میں وابن المنذر وابن ابی حاتم والحاکم وصححہ وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے آیت ان قارون کان من قوم موسیٰ کے بارے میں روایت کیا کہ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا اور وہ علم کو تلاش کرنا چاہتا تھا یہاں تک کہ اس نے علم کو جمع کرلیا وہ اسی طرح رہا یہاں تک کہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر بغاوت کی اور حسد کیا موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے زکوٰۃ لینے کا حکم فرمایا ہے تو اس نے انکار کردیا اور کہنے لگا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے مالوں کو کھانے کا ارادہ رکھتا ہے تمہارے پاس نماز کو لائے اور دوسری چیزوں کو تمہارے پاس لائے تم نے ان کو اپنے ذمہ لے لیا سو تم اب اس کو برداشت کرو گے کہ وہ تمہارے مال لے۔ لوگوں نے کہا اس کی طاقت نہیں رکھتے۔ تیری کیا رائے ہے۔ قارون نے ان سے کہا کہ میرے رائے یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی بدکار عورتوں میں سے ایک عورت کو پیغام بھیجوں ہم اس عورت کو موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف بھیجیں گے اور وہ ان پر تہمت لگائے گی کہ اس موسیٰ نے میرے ساتھ برے کام کا ارادہ کیا ہے۔ لوگوں نے اس عورت کو بلوایا اور اس سے کہا کہ ہم تجھے منہ مانگی قیمت دیں گے شرط یہ ہے کہ تو موسیٰ پر بدکاری کی تہمت لگادے اس عورت نے کہا ہاں میں ایسا کروں گی قارون موسیٰ کے پاس آیا اور کہا بنی اسرائیل کو جمع کرو اور ان کو اس کام کے بارے میں بتادے جو آپ کو آپ کے رب نے حکم فرمایا ہے موسیٰ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو جمع کیا تو لوگوں نے ان سے کہا رب نے تجھے کس چیز کا حکم دیا ہے موسیٰ نے فرمایا مجھے حکم فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ صلہ رحمی کرو اور اس طرح دوسرے احکام ان کو بتاؤ اور مجھے حکم دیا ہے زنا کے بارے میں کہ جب کوئی شادی شدہ زنا کرے تو اس کو رجم کیا جائے لوگوں نے کہا اگر آپ زنا کریں فرمایا ہاں مجھے رجم کیا جائے لوگوں نے کہا آپ نے زنا کیا ہے فرمایا میں نے انہوں نے اس عورت کو بلوایا جب وہ آئی تو انہوں نے پوچھا تو موسیٰ پر کیا گواہی دیتی ہے ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس عورت سے فرمایا میں تجھ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تو سچ کہے گی۔ اس عورت نے کہا جب تو نے مجھے اللہ کا واسطہ دے دیا ہے تو میں سچ بتاتی ہوں کہ انہوں نے مجھے بلایا اور آپ پر الزام لگانے کی صورت میں انعام مقرر کیا تھا اور میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ اس الزام سے بری ہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں یہ سن کر موسیٰ (علیہ السلام) روتے ہوئے سجدے میں گرپڑے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ آپ کیوں روتے ہیں ؟ ہم نے زمین پر حکومت دی ہے تو اس کو حکم کر وہ تیری اطاعت کرے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے سر اٹھا یا اور زمین کو حکم فرمایا اس کو پکڑ لے تو زمین نے ان کو ایڑیوں تک پکڑ لیا وہ لوگ کہنے لگے اے موسیٰ اے موسیٰ پھر زمین کو حکم دیا کہ ان کو پکڑلے تو اس نے ان کو ان کی گردنوں سے پکڑ لیا وہ التجا کرنے لگے اے موسیٰ میرے بندوں نے تجھ سے سوال کیا اور تیری طرف آہ وزاری کی مگر تو نے قبول نہ کی میری عزت کی قسم اگر وہ مجھے پکارتے تو میں ان کی درخواست کو قبول کرلیتا۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت فخسفنا بہ وبدارہ الارض سے مراد ہے کہ ان کو نچلی زمین کی طرف دھنسا دیا گیا۔ 2۔ الفریابی نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا۔ 3۔ ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے آیت ان قارون کان من قوم موسیٰ کے بارے میں فرمایا کہ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا اس کا نسب یوں ہے قارون بن مصر بن فاھث بن قاھث جبکہ حضرت موسیٰ بن عرموم بن فاھث یا قاھث اور عرموم عربی زبان میں عمران کو کہتے ہیں۔ قارون نے بنی اسرائیل کے ساتھ سمندر پار کیا 4۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ قارون موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا اور اس نے بنی اسرائیل کے ساتھ سمندر کو عبور کیا تھا اور تورات کو اچھی آواز سے پڑھنے کی وجہ سے اس کو نور کے نام سے پکارتے تھے لیکن اللہ کے دشمن نے منافقت کی جیسے مساوی نے منافقت کی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی بغاوت کی وجہ سے اس کو ہلاک کردیا اور اسنے مال اور اولاد کی کثرت کی وجہ سے بغاوت کی۔ 5۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت فبغی علیہم یعنی ان پر بلند ہوگیا 6۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے شہر بن حوشب (رح) سے آیت ان قارون کان من قوم موسیٰ فبغی علیہم کے بارے میں روایت کیا کہ اس نے غرور وتکبر کی وجہ سے اپنے کپڑوں کو ایک بالشت لمبا کرلیا تھا۔ 7۔ ابن ابی حاتم نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ آیت واتینہ من الکنوز سے مراد ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کے خزانوں میں سے اس نے ایک خزانہ پالیا تھا۔ 8۔ ابن ابی حاتم نے ولید بن زروان (رح) سے روایت کیا کہ آیت واتینہ من الکنوز سے مراد ہے کہ قارون علم کیمیاجانتا تھا۔ 9۔ ابن مردویہ نے سلمان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قارون کے گھر کی زمین چاندی کی تھی اور اس کی بنیادیں سونے کی تھیں۔ 10۔ سعید بن منصور وابن المنذر نے خیثمہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے انجیل میں پایا کہ قارون کے خزانے کی چابیاں ساٹھ خچروں کا بوجھ تھے جو سفید پیشانی اور سفید پاؤں والے تھے ان میں سے کوئی چابی ایک انگلی سے بڑی نہ تھی اور ہر چابی ایک خزانے کی تھی۔ 11۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے خیژمہ (رح) سے روایت کیا کہ قارون کے خزانے کی چابیاں چمڑے کی تھیں۔ ہر چابی ایک علیحدہ خزانے کی تھی جب وہ سفر پر روانہ ہوتا تو چابیوں کو ستر ایسے خچروں پر لادا جاتا تھا جو سفید پیشانی اور سفید پاؤں والے تھے۔ 12۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ چابیاں اونٹ کے چمڑے کی بنی ہوئی تھیں۔ 13۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے نافع بن ازرق (رح) نے اللہ تعالیٰ کے اس قول آیت لتنواء بالعصبۃ کے بارے میں پوچھا کہ تو فرمایا اس سے مراد ہے کہ وہ بوجھل بنادیتی پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے امء القیس کو نہیں سنا جب کہ وہ کہتا ہے تمشی فتثقلہا عجیتہا مشی الضعیف ینوء بالوسق ترجمہ : وہ چلتی ہے جبکہ بوجھل کردیتی ہے اس کو اس کی سرین اس کمزور آدمی کے چلنے کی طرح جو ایک وسق وزن اٹھانے سے بوجھل ہوجاتا ہے 15۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت العصبۃ سے مراد ہے دس سے پندرہ تک درمیان آیت اولی القوۃ سے مراد ہے پندرہ ہے۔ 16۔ عبدالرزاق وابن المنذر نے کلبی رحمۃ اللہ علہ سے روایت کیا کہ آیت بالعصبۃ پندرہ سے چالیس افراد 17۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت بالعصبۃ سے مراد ہے چالیس افراد 18۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم یہ بیان کرتے تھے کہ بالعصبۃ سے دس سے چالیس افراد مراد ہیں۔ 19۔ ابن ابی حاتم نے ابو صالح مولی ام ہانی نے فرمایا کہ آیت بالعصب سے ستر افراد مراد ہیں پھر فرمایا کہ اس کا خزانہ چالیس خچروں پر اٹھایا جاتا تھا۔ 20۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آیت اذقال لہ قومہ لا تفرح یعنی ان میں سے جو مومن تھے انہوں نے کہا تھا اے قارون جو تجھے عطا کیا گیا ہے اس پر خوش نہ ہو سو وہ اترانے لگے۔ 21۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ان اللہ لای ؓ الفرحین سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ اکڑ کر چلنے والے تکبر کرنے والے اور نازونخرے کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا۔ 22۔ الحاکم وصححہ والطبرانی وابو نعیم والبیہقی فی الشعب والخرائطی فی اعتدال القلوب ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ ہر غم زدہ دل کو محبوب رکھتا ہے۔ 23۔ الحاکم وصححہ والبیہقی فی شعب الایمان ابوذر رضیا للہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قبروں کی زیارت کیا کرو کہ جس کے ذریعہ آخرت کو یاد کرے گا اور مردوں کو غسل دیا کرو کیونکہ خالی جسم کو نہلانا بہت بڑی نصیحت ہے اور جنازوں پر نماز پڑھو شاید یہ تجھ کو غم میں ڈال دے کیوں کہ غمگین قیامت کے دن اللہ کے سایہ میں ہوگا۔ 24۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ان اللہ لا یحب الفرحین میں الفرح سے مراد بغاوت ہے۔ 25۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ان اللہ لا یحب الفرحین سے مراد ہے کہ خوش ہونے والے اور تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے آیت تلک الدار الاخرۃ اور تجھ کو خدا نے جو دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کی بھی جستجو کیا کر یعنی صدقہ کر اور اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل اور صلہ رحمی کر۔ 26۔ ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ان اللہ لا یحب الفرحین سے مراد ہے اترانے والے کہ اللہ ان کو پسند نہیں فرماتے آیت وابتغ فیما اٰتک اللہ الدار الاٰخرۃ ولا تنس نصیبک من الدنیا یعنی دنیا میں اللہ کے لیے کام کرنا نہ چھوڑ۔ 27۔ دنیا میں آخرت کے لیے عمل کیا جائے 27۔ الفریابی وابن ابی حاتم نے دوسری سند سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ولا تنس نصیبک من الدنیا سے مراد ہے کہ تو دنیا میں اپنی آخرت کے لیے کام کرنا نہ بھول۔ 28۔ عبدالرزاق والفریابی وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ولا تنس نصیبک من الدنیا سے مراد ہے اللہ کی اطاعت کے ساتھ عمل کرنا کہ یہ دنیا میں اس کا ایک حصہ ہوگا جس پر آخرت میں ثواب دیا جائے گا۔ 29۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وابن المنذر وابن ابی حاتم نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا کہ آیت ولاتنس نصیبک سے مراد ہے کہ زائد کو آگے بھیج دو جو تجھے کفایت کرے اس کو روک لو اور دوسرے لفظ میں یوں فرمایا کہ ایک سال کی خوراک روک لے اور صدق کردے جو باقی بچے۔ 30۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ولاتنس نصیبک من الدنیا سے مراد ہے کہ تو دنیا میں سے لے لے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے کیونکہ اس میں تیرے لیے مالداری ہے اور کفایت ہے۔ 31۔ عبداللہ بن احمد زوائد الزہد میں منصور (رح) سے روایت کیا کہ آیت ولا تنس نصیبک من الدنیا سے مراد ہے کہ وہ دنیا کے سامان میں سے ایک سامان نہیں ہے لیکن تیری عمر تیرا نصیب ہے کہ تو اس میں سے اس آکرت کے لیے بھی بھیج دے۔ 32۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت قال انما اوتیتہ علی علم عندی سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وہ بھلائی جو میرے پاس ہے اور وہ علم جو میرے پاس ہے۔ 33۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آیت قال انما اوتیتہ علی علم عندی سے مراد ہے کہ میں اس کا اہل ہوں۔ 34۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ ر اللہ علیہ سے روایت کیا کہ آی ولا یسئل عن ذنوبہم الجمرون سے مراد ہے مشرکین کہ ان کے گناہوں کے بارے میں ان سے سوال نہیں کیا جائے گا۔ اور ان سے جہنم میں داخل ہونے کے لیے حساب نہیں لیاجائے گا یعنی بغیر حساب کے ان کو جہنم میں داخل کیا جائے گا۔ 35۔ الفریابی وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ولا یسئل عن ذنوبہم المجرمون کہ مجرمین سے ان کے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے۔ آیت یعرف المجرمون بسیمہم فیوخذ بالنواصی وہ اپنے چہروں پہچانے جائیں گے کہ ان کے چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلی ہوں گی فرشتے ان سے سول کریں گے اور ان کو پہلے ہی پہچان لیں گے۔ 36۔ الفریابی وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت فخرج علی قومہ فی زینتہ یعنی وہ سفید ترکی گھوڑے پر نکلا جس پر ارجون کی بنی ہوئی زین تھی اور اس پر عصفر رنگ والے کپڑے تھے۔ 37۔ ابن ابی حاتم نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ فخرج علی قومہ فی زینتہ یعنی وہ دو سرخ کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ 38۔ عبد بن حمید نے ابو الزبیر ؓ سے روایت کیا کہ قارون اپن قوم میں دو سرخ کپڑوں میں نکلا جو عصفری رنگ کے تھے جو قرمز کی طرح تھا۔ 39۔ سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن المنذر ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا کہ آیت فخرج علی قومہ فی زینتہ یعنی وہ زرد اور سرخ کپڑوں میں تھا۔ 40۔ ابن ابی حاتم نے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا کہ آیت فخرج علی قومہ فی زینتہ یعنی وہ ستر ہزار آدمیوں کے درمیان میں نکلا جن پر عصفری رنگ کے کپڑے تھے اور یہ زمین میں پہلا دن تھا کہ جس میں عصفری رنگ کو دیکھا گیا۔ 41۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت فخرج علی قومہ فی اینتہ سے مراد ہے کہ وہ جاہ و حشمت میں نکلا اور ہم کو یہ بتایا گیا کہ وہ لوگ چار ہزار جانوروں پر نکلے جن پر سرخ کپڑے تھے ان میں ایک ہزار سفید خچر تھے اور ان کے جانوروں پر مخملی سرخ چادریں تھیں۔ 42۔ ابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ آیت فخرج علی قومہ فی زینتہ یعنی قارون سفید اور سیاہ مائل سیاہ خچر پر نکلا کہ اس پر سرخ زین پوش تھا۔ جن پر تین سو لونڈیاں سوار تھیں جنہوں نے سرخ لباس پہنے ہوئے تھے اور وہ سفید مائل خچروں پر سوار تھیں۔ 43۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) نے آیت فخرج علی قومہ فی زینتہ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ اپنی سفید لونڈیوں کے درمیان میں نکلا سونے کی زینیں اور ارجوانی رنگ کے کپڑوں اور سفید خچروں پر سوارتھیں جو سرخ کپڑے اور سونے کے زیور پہنے ہوئے تھیں۔ 44۔ ابن مردویہ نے اوس بن اوس ثقفی ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے آیت فخرج علی قومہ فی زینتہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ چار ہزار خچروں کے لشکر میں نکلا۔ 45۔ ابن ابی حاتم نے عبیدہ بن لبابہ (رح) سے روایت کیا کہ قارون وہ پہلا آدمی تھا جس نے سیاہ خضاب لگایا۔ 46۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت قال الذین یریدون الحیوۃ الدنیا ان لوگوں نے کہا جو دنیا کی زندگی کا ارادہ کرتے تھے توحید والوں سے ان لوگوں نے کہ آیت یلیت لنا مثل ماوتی قارون یعنی اے کاش ہم کو بھی اتنا دیا جاتا جتنا قارون کو دیا گیا۔ اور فرمایا آیت ولا یلقاہا الا الصبرون۔ یعنی اللہ کے ثواب اور درست ہاتھ کو نہیں پائیں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) پر تہمت اور قارون کی ہلاکت 47۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ آیت انہ لذو حظ عظیم یعنی عظمت والا 48۔ عبدالرزاق وابن ابی حاتم نے عبداللہ بن حرث ؓ سے روایت کیا اور وہ ابن نوفل ہاشمی ہیں اس نے کہا کہ ہم کو یہ ابت پہنچی ہے کہ قارون کو خزانے اور مال دیا گیا یہاں تک کہ اس نے اپنے گھر کے دروازے کو سونے کا بنادیا اور اپنے سارے گھر کو سونے کی پتریوں سے بنادیا اور بنی اسرائیل کے سردار اس کے پاس صبح اور شام کو آتے تھے وہ ان کو کھانا کھلاتا تھا اور وہ لوگ اس کے پاس بیٹھ کر باتیں کرتے تھے اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو تکلیف دیا کرت تھا اس کو دل کی سختی اور خواہشتا نے نہیں چھوڑا یہاں تک کہ اس نے بنی اسرائیل کی ایک عورت کو بلا بھیجا جو خوبصورتی میں مشہور تھی اس کو ربیہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا قارون نے اس سے کہا کیا تجھ کو یہ پسند ہے کہ میں تجھ کو مالا مال کردوں اور میں تجھ کو بہت سا مال دوں اور میں تجھ کو اپنی عورتوں کے ساتھ ملادوں۔ اس شرط پر کہ تو میرے پاس اس وقت آئے کہ بنی اسرائیل کے سردار میرے پاس موجود ہوں اور تو کہے اے قارون کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) کو مجھ سے منع نہیں کرے گا اس عورت نے کہا کیوں نہیں میں ایسا کردوں گی جب اس کے ساتھی آئے اور اس کے پاس اکٹھے ہوگئے تو اس نے اس عورت کو بلایا تو وہ عورت ان کے سامنے کھڑی ہوگئی تاکہ وہ موسیٰ پر زنا کی تہمت لگائے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو بدل دیا اور اسکو توبہ کی توفیق نصیب فرمائی تو وہ دل میں کہنے لگی آج میں اس سے فضیلت والی توبہ نہیں پاتی کہ میں اللہ کے دشمن کو جھٹلادوں اور رسول اللہ (علیہ السلام) کو تہمت سے بری کردوں تو کہنے لگی قارون نے مجھے بلا بھیجا اور کہا کیا تجھ کو یہ پسند ہے کہ میں تجھ کو مالا مال کردوں اور میں تجھ کو بہت مال دوں اور میں تجھ کو اپنی عورتوں میں شاملکردوں اس شرط پر کہ تو میرے پاس اس وقت آئے اور بنی اسرائیل کے سردار میرے پاس موجود ہوں اور تو کہہ دے اے قارون ! کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) کو مجھ سے نہیں روکے گا بلاشبہ آج میں اس سے افضل توبہ نہیں پاتی کہ میں اللہ کے دشمن کو جھٹلادوں اور رسول اللہ۔۔ کی براءت کا اظہار کروں یہ سن کر قارون نے اپنے سر کو جھکا لیا اور اسے پتہ چل گیا کہ وہ ہلاک ہوجائے گا۔ اور یہ بات لوگوں میں پھیل گئی یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی پہنچ گئی اور موسیٰ (علیہ السلام) سخت غصہ والے تھے جب ان کو یہ بات پہنچی تو آپ نے وضو فرمایا پھر نماز پڑھی اور سجدہ کر کے رونے لگے اور فرمایا اے میرے رب تیرا دشمن قارون مجھے تکلیف دیتا رہا پھ رچند چیزوں کا ذکر فرمایا تو نے اسے نہ روکا یہاں تک کہ اس نے میری رسوائی کا ارادہ کرلیا۔ اے میرے رب مجھے اس پر مسلط کردے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ تو زمین کو حکم کر جو تو چاہے گا تیرا کہنا مانے گی موسیٰ (علیہ السلام) قارون کی طرف آئے جب قارون نے ان کو دیکھا تو ان کے چہرے میں غصے کو پہچان لیا قارون نے کہا اے موسیٰ مجھ پر رحم کر موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو حکم فرمایا اے زمین اس کو پکڑ لے اس کے گھر میں لرزہ طاری ہوگیا اور اس کو اور اس کے ساتھیوں کو اپنے اندر دھنسا لیا یہاں تک کہ ان کے قدم بھی غائب ہوگئے اور ان کے گھر اسی قدر زمین دھنس گئے۔ قارون نے کہا اے موسیٰ مجھ پر رحم کر تو موسیٰ نے حکم فرمایا اے زمین ان کو پکڑ لے تو زمین اسے اور اس کے گھروں کو اور اس کے ساتھیوں کو نگل گئی۔ جب زمین اسے نگل گئی تو ان سے کہا گیا اے موسیٰ تو کتنا سخت دل ہے۔ میر عزت کی قسم اگر وہ مجھ سے دعا کرتا تو میں اس پر ضرور رحمت کرتا ابو عمران جونی نے فرمایا کہ موسیٰ عیہ السلام سے کہا گیا کہ میں آپ کے بعد کسی کے لیے زمین کو تابع دار نہیں کروں گا۔ 49۔ الفریابی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت فخسفنا بہ وبدارہ الارض سے مراد ہے کہ ان کو نچلی زمین کی طرف دھنسادیا گیا۔ 50۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ کے طریق سے ابی میمون سے روایت کیا اور انہوں نے سمرہ بن جندب ؓ سے روایت کیا کہ قارون اور اس کی قوم اپنے قد کے برابر روزانہ زمین میں دھنسائے جاتے ہیں قیامت کے دن تک نچلی زمین میں پہنچیں گے۔ 51۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو بتایا گیا کہ ان کے قد کے برابر روازنہ زمین میں دھنساتا رہے گا اور وہ لگاتار زمین میں دھنستا رہے گا اور قیامت کے دن تک اس کی تہہ کو نہیں پہنچے گا۔ 52۔ ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ 53۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم فرمایا کہ ایک ساعت تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اطاعت کرے۔ 54۔ عبد بن حمید نے مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ ہر دن قد کے برابر دھنسایا جاتا رہے گا۔ 55۔ عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ جب قارون کو دھنسایادیا گیا تو وہ زمین کے اندر جارہا تھا اور موسیٰ اس کے قریب ہی تھے تو اس نے کہا اے موسیٰ اپنے رب سے دعا کر وہ مجھ پر رحم کرے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ وہ زمین میں چلا گیا اللہ تعالیٰ ان کی طرف وحی بھیجی کہ قارون نے تجھ سے مدد مانگی تھی مگر تو نے اس کی مدد نہ کی میرے عزت اور میرے جلال کی قسم اگر وہ یوں کہتا اے میرے رب مجھ پر رحم فرما تو میں ضرور اس پر رحم کرتا۔ 56۔ احمد نے الزہد میں عون بن عبداللہ القاری (رح) سے روایت کیا کہ جو عمر بن عبدالعزیز کے دیوان فلسطین پر عامل تھا کہ ان کو یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ عزوجل نے زمین کو حکم فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قارون کے بارے میں اطاعت کر موسیٰ (علیہ السلام) نے زمین سے فرمایا میرا حکم مانتے ہوئے اس کو گھٹنوں تک پکڑے تو زمین نے اسے گھٹنوں تک اپنے اندر دھنسا لیا پھر فرمایا میر اطاعت کر تو اس نے اسے پیٹ تک چھپایا اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی بھیجی اے موسیٰ آپ کا دل کیسا سخت ہے میری عزت میرے جلال کی قسم اگر وہ مجھ سے مدد مانگتا تو میں ضرور اس کی مدد کرتا عرض کیا اے میرے رب تیری وجہ سے ناراضگی کی بنا پر میں نے ایسا کیا۔ 57۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت فماکان لہ من فءۃ ینصرونہ من دون اللہ وما کان من المنتصرین یعنی کوئی جماعت نہ تھی جو اس کی مدد کرتی اللہ کے علاوہ اور نہ وہ بدلہ لینے والوں میں سے تھا اس کے پاس کوئی ایسے پناہ کی جگہ نہیں تھی جس کے ذریعہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جاتا۔ 58: عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ رحمۃ اللہ عیہ سے روایت کیا کہ آیت ویکان اللہ یعنی کیا وہ نہیں جانتا ہے، آیت ویکان اللہ یبسط الرزق، یعنی اللہ تعالیٰ رزق کشادہ کردیتے ہیں اور فرمایا آیت ویکانہ لا یفلح الکفرون کیا وہ نہیں جانتا کہ کافر فلاح نہیں پاتے۔ واللہ اعلم۔
Top