Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور جب آپ اپنے گھر سے صبح کے وقت نکلے مسلمانوں کو قتال کرنے کے لئے مقامات بتا رہے تھے، اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔
(1) ابن اسحاق و بیہقی نے دلائل میں ابن شہاب اور عاصم بن عمر بن قتادہ اور محمد بن یحییٰ بن حبان اور حصین بن عبد الرحمن ابن سعد معاذ ان تینوں حضرات سے روایت کیا کہ جنگ احد کا دن بلاء اور آزمایش کا دن تھا اللہ تعالیٰ نے اس دن ایمان والوں کا امتحان لیا اور اس کے ذریعہ ان کافرون کو بےآبرو کردیا جا اسلام کو اپنی زبان سے ظاہر کرتے تھے اور کفر کو چھپانے والے تھے اور وہ دن کہ اللہ تعالیٰ نے عزت کی ان لوگوں کو جو عزت کو چھپانے والے تھے اور وہ دن کہ اللہ تعالیٰ نے عزت دی ان لوگوں کو عزت دینے کا ارادہ کیا شہادت کے ساتھ اور یہ واقعہ ان واقعات میں سے تھا کہ جس میں قرآن میں سے احد کے دن کے ساٹھ آیتیں سورة آل عمران میں نازل ہوئی اور ان میں ان امور کا ذکر کیا ہے جو اس دن واقع ہوئے اور ان عتاب کا ذکر ہے جس پر عتاب فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا لفظ آیت ” واذ غدوت من اھلک تبوئ المؤمنین مقاعد للقتال واللہ سمیع علیم “۔ (2) بیہقی نے دلائل میں ابن شہاب (رح) سے روایت کیا ہے کہ احد کا واقعہ بدر کے ایک سال بعد شوال میں واقع ہوا اور عبد الرزاق کے الفاظ یہ ہیں بنو نصیر کے واقعہ کے چھ ماہ بعد یہ غزوہ ہوا اور ان دنوں مشرکین کا امیر ابو سفیان بن حرب تھا۔ (4) البیہقی نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ احد کا واقعہ ہفتہ گیارہ شوال کو اس دن صحابہ ؓ سات سو تھے اور مشرکین کی تعداد دو ہزار یا اس سے کچھ اوپر تھی۔ جنگ احد کا واقعہ (5) ابو یعلی ابن المنذر ابن ابی حاتم نے مسعود بن مخرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عبد الرحمن بن عوف ؓ سے عرض کیا اے میرے ماموں مجھے جنگ احد کا واقعہ بیان فرمائیے تو انہوں نے فرمایا سورة آل عمران کی ایک سو بیس آیات کے بعد والی آیات پڑھو تو ہمارے قصہ کو (وہاں) پالو گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لفظ آیت ” واذ غدوت من اھلک تبوئ المومنین مقاعد للقتال “ سے لے کر ” اذ ھمت طائفتن منکم ان تفشلا “ تک یہ بزدل ہوجانے والے وہ لوگ تھے جنہوں نے کافروں کی امان طلب کی تھی (اور) لفظ آیت ” ولقد کنتم تمنون الموت من قبل ان تلقوہ فقد رایتموہ “ سے شیطان کی وہ چیخ مراد ہے کہ محمد ﷺ شہید کر دئیے گئے (اور) ” امنۃ نعاسا “ سے مراد ہے کہ ان پر نیند ڈال دی گئی۔ (6) ابن جریر وابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” واذ غدوت من اھلک تبوی المومنین مقاعد للقتال “ میں یوم احد (کا واقعہ ہے) ۔ (7) ابن جریر حاتم سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” تبوئ المؤمنین “ سے مراد ہے ” یوطی “ یعنی آپ خود درست کر رہے تھے۔ (8) الطستی نے اپنے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نافع بن ازرق (رح) نے ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” تبوی المؤمنین “ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا آپ خود مومنین کو ان کی جگہ پر بٹھا رہے تھے تاکہ ان کے دلوں کو سکون حاصل ہوجائے ازرق (رح) نے عرض کیا کہ عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے اعشی شاعر کا قول نہیں سنا : وما بواء الرحمن بینک منزلا باجیاد غربی الفنا والمحرم ترجمہ : نہیں ٹھکانہ بنایا رحمن نے تیرے گھر کو رہائش کے طور پر جو (محلہ) اجیاد میں میدان حرم کی غربی جانب ہے۔ (9) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذروابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے اس آیت ” واذ غدوت من اھلک تبوئ المومنین مقاعد للقتال “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس دن نبی اکرم ﷺ پیدل اپنے پاؤں مبارک پر چل کر ایمان والوں کو (لڑنے کے لیے) ان کی جگہوں پر بٹھا رہے تھے۔ (10) ابن جریر وابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” واذ غدوت من اھلک “ سے مراد ہے یعنی محمد ﷺ ایمان والوں کو اپنی جگہوں پر بٹھا رہے تھے (جنگ) احزاب کے دن۔ احد کا واقعہ کیسے پیش آیا (11) ابن اسحاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر ابن شہاب محمد بن یحییٰ بن حبان وعاصم بن عمر بن قتادہ حصین بن عبد الرحمن بن عمروابن سعید بن معاذ وغیرہم سے روایت کیا ہے کہ ہر ایک نے کچھ واقعات نقل کئے ہیں احد کے دن کے بارے میں ان حضرات نے کہا جب قریش کو وہ مصیبت پہنچ گئی یا بدر کے دن کفار قریش مارے گئے اور ان کے تھوڑے لوگ مکہ کی طرف واپس لوٹے اور ابو سفیان بھی اپنے قافلہ کے ساتھ واپس آگیا تو اس کے پاس آئے عبد الرحمن بن ابی ربیعہ، عکرمہ بن ابی جہل صفوان بن امیہ قریش کے لوگوں میں سے تھے انہوں نے ابو سفیان بن حرب اور ان لوگوں سے جس کی تجارت کا سامان تھا قریش کے اس قافلہ میں ان سے بات کی انہوں نے کہا اے قریش کی جماعت ! بلاشبہ محمد ﷺ نے تم کو سخت تکلیف پہنچائی اور تمہارے پسندیدہ لوگوں کو قتل کیا سو اس مال سے ہماری مدد کرو شاید کہ ہم وہ بدلہ لے سکیں جو ہم کو مصیبت پہنچی ہے ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور قریش نے رسول اللہ ﷺ سے جنگ کرنے کے لیے (بہت سامان) جمع کرلیا اور اسلحہ واسباب کے ساتھ وہ نکل پڑے اور انہوں نے اپنے ساتھ عورتوں کو بھی لے لیا تاکہ وہ بھاگ نہ جائیں اور ابو سفیان لشکر کی قیادت کرتے ہوئے چلا یہ لوگ چلے یہاں تک کہ نازل ہوئے عینین پہاڑ کے پاس سبنہ میں جو قنادہ وادی میں سے ہے اس وادی میں بارشی نالے کی اس طرف اترے جو مدینہ منورہ کی طرف ہے جب رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں نے ان کے بارے میں سنا کہ وہ اس جگہ نازل ہوچکے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں نے خواب میں گائے دیکھی جس کو ذبح کردیا گیا اور میں نے اپنی تلوار کی دھار ٹوٹی ہوئی دیکھی ہے اور میں نے دیکھا کہ میں نے اپنے ہاتھ کو مضبوط زرہ میں داخل کیا ہے اور میں نے تعبیر دی ہے کہ مضبوط زرہ مدینہ ہے اگر تمہاری رائے ہو تو تم مدینہ ہی میں رہو جہاں وہ اترے ہیں ان کو وہیں رہنے دو اگر مشرک جہاں ہیں وہیں قیام پذیر رہے تو وہ ان کے قیام کے لیے بری جگہ ہے اگر وہ ہم پر داخل ہوں گے تو ہم اندر رہ کر ان سے لڑیں گے قریش اپنی منزل یعنی احد میں بد ھ کے دن اترے وہاں بدھ جمعرات جمعہ کے دن رہے اور رسول اللہ ﷺ نے کوچ فرمایا جب جمعہ کی نماز پڑھی اور صبح سویرے احد کی ایک گھاٹی میں پہنچے نصف شوال میں ہفتہ کے دن دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی عبد اللہ بن ابی (منافق) کی رائے رسول اللہ ﷺ کی رائے کے ساتھ تھی کہ دشمن کی طرف نہ نکلا جائے اور رسول اللہ ﷺ مدینہ سے (باہر) نکلنے کو ناپسند فرماتے تھے لیکن ان مسلمان مردوں نے جن کو اللہ تعالیٰ نے احد کے دن شہادت سے سرفراز فرمانا تھا اور ان کے علاوہ ان مسلمانوں نے جو بدر میں حاضر نہ ہو سکے تھے ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمیں اپنے دشمن کی طرف نکالیں تاکہ وہ یہ خیال نہ کریں کہ ہم بزدل اور کمزور ہوگئے ہیں عبد اللہ بن ابی (منافق) نے کہا یا رسول اللہ ! ہمیں اپنے دشمن کی طرف نکالیں تاکہ وہ یہ خیال نہ کریں کہ ہم بزدل اور کمزور ہوگئے ہیں عبد اللہ بن ابی (منافق) نے کہا یا رسول اللہ ! آپ مدینہ میں رہیں اور ان کی طرف نہ نکلیں اللہ کی قسم ! جب کبھی بھی ہم اپنے دشمن کی طرف شہر سے نکلے ہیں تو ہم کو شکست ہوئی اور اگر دشمن ہم پر داخل ہوا ہے تو ان کو شکست ہوئی اور اگر دشمن ہم پر داخل ہوا ہے تو ان کو شکست ہوئی ہے یا رسول اللہ ! آپ ان کو چھوڑ دیجئے اگر مشرک وہیں قیام پذیر رہیں گے تو ان کے قیام کے لیے بری جگہ ہے اگر وہ داخل ہوئے تو عورتیں بچے اور مردان کے اوپر سے پتھر مار کر ان کو قتل کریں گے اگر لوٹ کر چلے جائیں گے تو ناکام لوٹیں گے جیسے آئے تھے وہ لوگ برابر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ لگے رہے جن کو دشمن سے جنگ کرنے کی تمنا تھی یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ (گھر میں) داخل ہوگئے اور ہتھیار پہن لیے اور یہ جمعہ کا دن تھا جب آپ نماز سے فارغ ہوئے پھر آپ باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام اس بات پر نادم ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کو مجبور کیا حالانکہ ہم کو یہ لائق نہ تھا اور خدمت عالی میں عرض کیا اگر آپ چاہیں تو بیٹھ جائیں (باہر نہ نکلیں) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی نبی کے لیے لائق نہیں کہ وہ جب ہتھیار پہن لے تو اس کو رکھ دے یہاں تک کہ قتال نہ کرے۔ رسول اللہ ﷺ ایک ہزار صحابہ کرام ؓ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ شوط (مقام) پر تھے جو مدینہ اور احد کے درمیان ہے تو عبد اللہ بن ابی (منافق) ایک تہائی آدمیوں کو لے کر لوٹ گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ چلتے رہے یہاں تک بنو حارثہ کے حرہ میں داخل ہوگئے گھوڑے نے اپنی دم کے ساتھ مکھی کو اڑایا تو وہ تلوار کے قبضہ پر جا لگی تو تلوار میان سے باہر آگئی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اور آپ نیک شگون لینے کو پسند فرماتے تھے اور بر شگون نہیں لیتے تھے تلوار والے سے کہا اپنی تلوار کو نیام میں کرے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ آج تلواریں چلیں گی۔ رسول اللہ ﷺ چلتے رہے یہاں تک کہ احد کی وادی میں پہاڑ کے قریب ایک گھاٹی میں اترے اور آپ نے اپنی پیٹھ مبارک کو اور لشکر کو احد کی طرف کردیا اور رسول اللہ ﷺ نے لڑائی کے لیے لشکر کو ترتیب دیا جو سات سو آدمیوں پر مشتمل تھا اور رسول اللہ ﷺ نے تیر اندازوں پر عبد اللہ بن جبیر کو امیر مقرر فرمایا جبکہ تیر انداز پچاس آدمی تھے آپ نے فرمایا تیروں کے ساتھ دشمن کو ہم سے دور رکھو تاکہ وہ لوگ ہمارے پیچھے سے حملہ آور نہ ہوں اگرچہ وہ ہم پر غالب ہوں یا ہم ان پر غالب ہوں تم اپنی جگہ پر رہنا تیری جانب سے دشمن ہم پر وار کرے گا اور رسول اللہ ﷺ کا ظاہر (بدن) دو زر ہوں کے درمیان تھا (یعنی آپ نے دو زرہیں پہنی ہوئی ہیں) ۔ (12) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے احد کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا مجھے مشورہ دو میں کیا کروں ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ان کتوں کی طرف آپ نکل جائیے انصار نے کہا یا رسول اللہ ! ہمارے دشمن نے ہم پر غلبہ نہیں پایا (جب) وہ ہم پر اس شہر میں حملہ آور ہوا اب وہ کس طرح غالب آسکتا ہے جبکہ آپ ہمارے درمیان ہیں رسول اللہ ﷺ نے عبد اللہ بن ابی سلول کو بلوایا اس سے پہلے آپ نے اس کو کبھی بھی نہیں بلوایا تھا اس سے آپ نے مشورہ لیا تو اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! ہم کو ان کتوں کی طرف لے چلئے اور رسول اللہ ﷺ پسند فرماتے تھے کہ قریش مدینہ میں داخل ہوں اور ہم ان سے گلیوں میں قتال کریں نعمان بن مالک انصاری آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے جنت سے محروم نہ کیجئے آپ نے فرمایا کیوں ؟ اس نے کہا بلاشبہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوال کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اور بلاشبہ میں جنگ سے نہیں بھاگوں گا آپ نے فرمایا تو نے سچ کہا (اور) وہ اس دن شہید کردئیے گئے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنی زرہ منگوائی اور اس کو پہن لیا جب صحابہ کرام نے دیکھا کہ آپ نے ہتھیار پہن لیا ہے تو نادم ہوئے اور عرض کیا ہم نے برا کیا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کو مشورہ دیا حالانکہ آپ کے پاس وحی آتی ہے صحابہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے آپ کی طرف معذرت کی اور عرض کیا آپ ویسے ہی کریں جیسے آپ کی رائے ہو آپ نے فرمایا میرا خیال قتال کرنے کا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کسی نبی کے لئے لائق نہیں کہ وہ اپنے ہتھیار پہن لے اور پھر اس کو رکھ دے یہاں تک کہ قتال نہ کرے۔ رسول اللہ ﷺ ایک ہزار آدمیوں کے ساتھ احد کی طرف نکلے اور آپ نے ان سے (یعنی صحابہ کرام ؓ سے وعدہ کیا فتح کا اگر انہوں نے صبر کیا (لیکن) عبد اللہ بن ابی (منافقوں کا سردار) تین سو آدمیوں کے ساتھ لوٹ آیا ابو جابر سلیم ؓ ان کے پیچھے گئے ان کو بلایا انہوں نے آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا اور انہوں نے کہا ہم نہیں سمجھتے کہ یہ کوئی جنگ ہے اور اگر تم ہماری بات مانو ہمارے ساتھ لوٹ آؤ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” اذ ھمت طائفتن منکم ان تفشلا “ میں دو طائفوں سے مراد بنو حارثہ اور بنو سلمہ ہیں جنہوں نے واپس جانے کا ارادہ کیا جب عبد اللہ بن ابی لوٹ آیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ رکھا اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سات سو افراد باقی رہ گئے تھے۔ (13) عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” واذ غدوت من اھلک تبوئ المؤمنین “ سے مراد ہے کہ یہ احد کے دن کا واقعہ ہے صبح سویرے نبی کریم ﷺ اپنے گھر والوں سے ہو کر احد کی طرف روانہ ہوئے (اور) لفظ آیت ” مقاعد للقتال “ یعنی آپ ایمان والوں کو لڑنے کے لیے جگہوں پر جما رہے تھے اور احد مدینہ منورہ کے ایک جانب ہے۔
Top