Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 155
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ یَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ١ۙ اِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوْا١ۚ وَ لَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ تَوَلَّوْا : پیٹھ پھیریں گے مِنْكُمْ : تم میں سے يَوْمَ : دن الْتَقَى الْجَمْعٰنِ : آمنے سامنے ہوئیں دو جماعتیں اِنَّمَا : درحقیقت اسْتَزَلَّھُمُ : ان کو پھسلا دیا الشَّيْطٰنُ : شیطان بِبَعْضِ : بعض کی وجہ سے مَا كَسَبُوْا : جو انہوں نے کمایا (اعمال) وَلَقَدْ عَفَا : اور البتہ معاف کردیا اللّٰهُ : اللہ عَنْھُمْ : ان سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : حلم ولا
بیشک تم میں سے جو لوگ اس دن پشت پھیر کر چلے گئے جس دن دونوں جماعتیں آپس میں مقابل ہوئی تھیں بات یہی ہے کہ ان کو شیطان نے لغزش دے دی بعض ایسے اعمال کے سبب جو انہوں نے کئے، اور البتہ تحقیق اللہ نے ان کو معاف فرما دیا بیشک اللہ بخشنے والا ہے حلم والا ہے۔
(1) ابن جریر نے کلیب (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے جمعہ کے دن خطبہ دیا اور آل عمران کی تلاوت کی خطبہ کے وقت اس سورة کی تلاوت آپ کو اچھی لگتی تھی جب آپ اس آیت (یعنی) لفظ آیت ” ان الذین تولو منکم یوم التقی الجمعن “ تک پہنچے تو فرمایا جب احد کا دن تھا تو ہم بھاگ گئے اور میں بھاگا یہاں تک کہ پہاڑ پر چڑھ گیا اور البتہ تحقیق میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں کود رہا ہوں گویا میں پہاڑی بکرا ہوں اور لوگ کہہ رہے تھے محمد ﷺ شہید کر دئیے گئے میں نے کہا میں نے کسی کو اگر پاؤں گا یہ کہتے ہوئے کہ محمد ﷺ شہید کر دئیے گئے تو میں اس کو قتل کر دوں گا یہاں تک کہ ہم پہاڑ پر جمع ہوئے۔ تو یہ (آیت) ” ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعن “ نازل ہوئی۔ (2) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے عبد الرحمن بن عوف سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعن “ سے وہ تین آدمی مراد ہیں ایک مہاجرین میں اور دو انصار میں سے۔ (3) ابن مندہ معرفۃ الصحابہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعن “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت عثمان رافع بن المعلی اور حارثہ بن زید کے بارے میں نازل ہوئی۔ (4) ابن جریر نے عکرمہ ؓ سے لفظ آیت ” ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعن “ کے بارے میں روایت کیا یہ آیت رافع بن المعلی اور دوسرے انصار ابو حذیفہ بن عتبہ اور دوسرے ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی۔ (5) عبد بن حمید وابن المنذر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ” ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعن “ عثمان ولید بن عقبہ خارجہ بن زید اور زمامہ بن معلی ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ (6) عبد بن حمید نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے وہ لوگ جو اس دن پیٹھ پھیر کر بھاگے تھے وہ عثمان بن عفان سعد بن عثمان عقبہ بن عثمان اور دو بھائی انصاری تھے بنو زریق میں سے۔ رسول اللہ ﷺ کی آواز پر واپس لوٹنا (7) ابن جریر وابن المنذر نے ابن اسحاق (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعن “ سے فلاں سعد بن عثمان عقبہ بن عثمان یہ دونوں انصاری اور بنو زریق میں سے تھے اور لوگ رسول اللہ ﷺ کو چھوڑ گئے تھے یہاں تک کہ ان کا بعض (مقام) منقی تک جا پہنچا اعوض، اور عقبہ بن عثمان اور سعد بن عثمان بھاگ گئے یہاں تک جلعب تک پہنچ گئے جو ایک پہاڑ سے مدینہ کے اطراف میں جو اغوص سے ملتا ہے یہ لوگ وہاں تین دن ٹھہرے پھر رسول اللہ ﷺ کی طرف لوٹ آئے اور انہوں نے گمان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا البتہ تحقیق تم چلے گئے تھے ایسی جگہ میں جہاں ایک کھلی جگہ تھی۔ (8) عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ آیت ” ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعن “ کے بارے میں کہ یہ احد کا دن تھا جو نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے تھے جنگ سے اور حضور ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ گئے اس دن یہ سب کچھ شیطان کے کام اور اس کے ڈرانے کی وجہ سے تھا پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری جس کو تم سنتے ہو کہ اللہ نے ان صحابہ سے ایسی بات کو در گزر فرما دیا اور ان کو معاف فرمادیا۔ (9) احمد وابن المنذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ان الذین تولوا منکم “ یعنی تم لڑائی سے بھاگ گئے شکست کھا کر ” یوم التقی الجمعن “ یعنی احد کے دن جب دونوں جماعتیں ملیں مسلمان اور مشرک جمع ہوئے اور مسلمان نبی ﷺ کو چھوڑ گئے صرف اٹھارہ آدمی باقی رہے لفظ آیت ” انما استزلہم الشیطن ببعض ما کسبوا “ یعنی جب انہوں نے مرکز کو چھوڑ دیا اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کی نافرمانی کی جب آپ نے تیر اندازوں کو فرمایا تھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا لیکن بعض تیر اندازوں نے اسی جگہ کو چھوڑ دیا لفظ آیت ” ولقد عفا اللہ عنہم “ یعنی جب ان کو سزا نہیں دی اور سب کو نیست ونابود نہ کیا (لیکن) ” ان اللہ غفور حلیم “ یعنی بدر کی لڑائی کے بعد احد کے دن جو بھاگ گئے ان کے لیے آگ (عذاب) کو مقرر نہیں فرمایا جیسے بدر کے دن (بھاگ جانے والوں) کے لیے مقرر فرمایا تو یہ رخصت ہے سختی کے بعد۔ (10) ابن ابی حاتم نے شفیق سے روایت کی ہے کہ عبد الرحمن بن عوف ؓ سے ملے۔ ولید نے اس سے کہا کیا ہوا تجھ کو میں دیکھتا ہوں تجھ کو کہ تو نے امیر المومنین حضرت عثمان ؓ پر زیادتی کرتے ہو، عبد الرحمن ؓ نے اس سے کہا کہ ان کو خبر دو کہ میں عینین کے دن نہیں بھاگا۔ یعنی احد کے دن اور میں بدر کے دن غائب نہیں تھا اور میں نے حضرت عمر ؓ کے طریقہ کو نہیں چھوڑا۔ (یہ سن کر) وہ چلے تاکہ اس بات کی خبر حضرت عثمان ؓ کو دے دیں۔ تو انہوں نے فرمایا ان کا یہ کہنا کہ میں عینین کے دن نہیں بھاگا پھر کس طرح مجھے اس بات کی عار دلاتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو معاف فرما دیا ہے اور فرمایا ہے لفظ آیت ” ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعن انما استزلہم الشیطن ببعض ما کسبوا ولقد عفا اللہ عنہم “ اور ان کا یہ کہنا کہ میں بدر کے دن غائب نہیں تھا تو حضرت رقیہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی بیمار کی تیمار داری کرتا تھا یہاں تک کہ وفات پاگئی (تو میں ان کی تیمار داری کی وجہ حاضر نہ ہوسکا) رسول اللہ ﷺ نے میرے لئے حصہ (مال غنیمت میں سے) اور جس شخص کے لئے رسول اللہ ﷺ نے حصہ مقرر فرمایا ہو تو (گویا) وہ (لڑائی میں) حاضر رہا اور ان کا یہ کہنا کہ میں نے حضرت عمر ؓ کے طریقہ کو نہیں چھوڑا تو نہ میں اس کی طاقت رکھتا تھا اور نہ وہ۔ پس وہ ان کے پاس آئے اور یہ باتیں بتائیں۔ (11) ابن ابی حاتم اور بیہقی نے شعب میں رجاء بن ابو سلمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ حلم زیادہ اونچا ہے عقل سے اس لئے کہ اللہ عزوجل نے اپنا نام حلیم رکھا ہے۔
Top