Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 161
وَ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ١ؕ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھا۔ ہے لِنَبِيٍّ : نبی کے لیے اَنْ يَّغُلَّ : کہ چھپائے وَمَنْ : اور جو يَّغْلُلْ : چھپائے گا يَاْتِ : لائے گا بِمَا غَلَّ : جو اس نے چھپایا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن ثُمَّ : پھر تُوَفّٰي : پورا پائے گا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور نبی کی یہ شان نہیں کی وہ خیانت کرے، اور جو شخص خیانت کرے گا وہ اس خیانت کی ہوئی چیز کو قیامت کے دن لے کر آئے گا پھر ہر شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہ ہوگا۔
(1) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “ ایک سرخ کپڑے کے ٹکڑے کے بارے میں نازل ہوئی جو بدر کے دن گم ہوگیا تھا بعض لوگوں نے کہا شاید رسول اللہ ﷺ نے اس کو لے لیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “۔ (2) اعمش (رح) سے روایت کیا ہے کہ ابن مسعود ؓ یوں پڑھا کرتے تھے لفظ آیت ” ما کان لنبی ان یغل “ ابن عباس ؓ نے فرمایا کیوں نہیں یہ آیت ایک ٹکڑے کے بارے میں نازل ہوئی لوگوں نے کہا رسول اللہ ﷺ نے اس کو بدر کے دن اپنے لیے رکھ لیا تھا تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے یہ اتارا لفظ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “۔ (3) عبد بن حمید وابن جریر نے جید کے سند کے ساتھ سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “ ایک سرخ ٹکڑے کے بارے میں نازل ہوئی جو بدر کے دن غنیمت کے مال میں سے تھا۔ (4) البزار وابن ابی حاتم و طبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے ایک لشکر کو بھیجا مگر وہ یعنی ان کا جھنڈا ناکام واپس آیا پھر آپ نے بھیجا تو پھر وہ واپس آگیا اس وجہ سے کہ ان کو انہوں نے ہرن کے سر کے برابر سونے کی خیانت کی تھی (جو مال غنیمت سے ملا تھا) تو یہ آیت نازل ہوئی ” وما کان لنبی ان یغل “ (5) عبد بن حمید وابن المنذر والطبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “ یہ مراد ہے کہ (کسی) نبی کے یہ لائق نہیں کہ اس کے اصحاب اس کو تہمت لگائیں (کسی خیانت کا) ۔ مال غنیمت میں خیانت کرنا حرام ہے (6) عبد بن حمید وابن المنذر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ بدر کے دن ایک کپڑے کا سرخ ٹکڑا گم ہوگیا جو مشرکین کے (مال غنیمت میں سے لیا گیا تھا) تو بعض لوگوں نے کہا شاید نبی ﷺ نے اس کو لے لیا ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “ خصیف نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر (رح) سے عرض کیا ” ما کان لنبی ان یغل “ اس آیت کا یہ معنی ہے کہ نبی کی یہ شان نہیں کہ ان کے ساتھ خیانت کی جائے تو انہوں نے فرمایا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کی شان نہیں ہے کہ وہ خیانت کرے کیونکہ اللہ کی قسم اللہ کے نبی کے ساتھ خیانت بھی کی جاتی رہی اور انہیں قتل بھی کیا جاتا رہا۔ (7) حاکم نے اس کو صحیح کہا اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “ یا کے نصب اور غین کے رفع کے ساتھ۔ (8) ابن منیع نے اپنی مسند میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یوں پڑھا لفظ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “ یا کے فتح کے ساتھ۔ (9) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابو عبدالرحمن سے روایت کیا ہے کہ میں نے ابن عباس ؓ سے عرض کیا کہ ابن مسعود نے یوں پڑھا لفظ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “ غین کے فتحہ کے ساتھ (یعنی مجہول کا صیغہ) تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ آپ ﷺ کے ساتھ خیانت بھی ہوسکتی ہے اور آپ ﷺ کو قتل بھی کیا جاسکتا ہے تو یہاں لفظ ” یغل “ غین کے صیغہ کے ساتھ (یعنی معلوم کا صیغہ ہے) مطلب یہ کہ نبی کی شان کے لائق نہیں کہ وہ خیانت کرے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی خائن بنا کر نہیں بھیجا۔ (10) ابن ابی شیبہ وابن ابن جریر نے سلمہ بن نبی ط کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “ سے مراد ہے (کہ نبی کی شان کے یہ لائق نہیں) کہ مسلمانوں کی ایک جماعت میں مال غنیمت تقسیم کرے اور ایک جماعت کو چھوڑے اور تقسیم کرنے میں ظلم کرے لیکن (نبی) تقسیم فرماتے ہیں انصاف کے ساتھ اور اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مال لیتے ہیں اور فیصلہ فرماتے ہیں اس حکم کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے اتارا (پھر فرمایا) اللہ تعالیٰ نے ایسا نبی کوئی نہیں بنایا جو اپنے اصحاب سے خیانت کرے اگر نبی ایسا کرے تو اس کے ساتھ اس طریقہ کو اپنا لیں گے سنت کے طور پر۔ (11) ابن المنذر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ نے ایک چھوٹے سے لشکر کو روانہ فرمایا پھر (کہیں سے) رسول اللہ ﷺ کے پاس غنیمت کا مال آگیا تو آپ نے لوگوں کے درمیان تقسی فرما دیا اور اس لشکر والوں کو کچھ نہ دیا جب یہ لشکر والے آئے تو انہوں نے عرض کیا فلاں کے مال کو آپ نے تقسیم فرما دیا لیکن ہمارے لیے تقسیم نہیں فرمایا (یعنی ہم کو عطا نہیں فرمایا) تو اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “ یعنی نبی کی شان کے یہ لائق نہیں کہ وہ خیانت کرے۔ (12) عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “ سے مراد ہے آپ کی یہ شان نہیں کہ ایک جماعت میں تقسیم فرمائیں اور دوسری جماعت میں تقسیم نہ فرمائیں اور دوسری جماعت میں تقسیم نہ فرمائیں۔ (13) عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “ سے مراد ہے کہ نبی کی یہ شان نہیں کہ وہ خیانت کرے۔ (14) سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے حضرت حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “ غین کے نصب کے ساتھ (بصیغہ مجہول) یعنی یہ نبی کی شان کے خلاف ہے کہ اس کے ساتھ خیانت کی جائے۔ (15) عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ اور ربیع (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “ سے مراد ہے کہ نبی ﷺ کی شان کے یہ لائق نہیں کہ اس کے ساتھ (صحابہ) اس سے خیانت کریں اور ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ آیت نبی ﷺ پر بدر کے دن نازل ہوئی جبکہ صحابہ کرام ؓ کی مختلف جماعتوں نے خیانت کر رکھی تھی۔ (16) الطبرانی والخطیب نے اپنی تاریخ میں مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ ابن عباس ؓ ناپسند فرماتے تھے جو شخص ان پر یہ آیت اس قرات سے لفظ آیت ” وما کان لنبی ان یغل “ پڑھتا تھا اور فرماتے تھے یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ خیانت کی جبکہ آپ کو قتل کیا جاسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” وقتلہم الانبیاء بغیر حق “ (یعنی انہوں نے نبیوں کو ناحق قتل کیا) لیکن منافق نے غنیمت کے (کے مال) میں سے کسی بھی چیز کے بارے میں نبی کریم ﷺ پر تہمت لگائی تھی تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت) اتاری ” وما کان لنبی ان یغل “۔ (17) عبد الرزاق نے مصنف میں ابن ابی شیبہ اور حاکم نے اس کو صحیح کہا اور زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی حنین کے دن وفات پا گیا تو لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے (یہ واقعہ) ذکر کیا تو آپ نے فرمایا تم اس پر نماز پڑھ لوتو لوگوں کے چہرے اس بات سے تبدیل ہوگئے پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارے ساتھ نے اللہ کے راستے میں خیانت کی ہے تو ہم نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو ہم نے یہودیوں کے قیمتی پتھروں میں سے ایک پتھر کو پایا جو دو درہم کے برابر بھی نہیں تھا۔ (18) حاکم نے اس کو صحیح کہا اور حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب غنیمت کا مال پہنچ جاتا تھا تو آپ بلال ؓ کو حکم فرماتے تو وہ لوگوں میں آواز دیتے (کہ جس کے پاس غنیمت کا مال ہے وہ لے آئے تو (سب لوگ) اپنی غنیمتوں کو لے آتے آپ اس میں سے پانچواں حصہ نکال کر اس کو (مجاہدین میں) تقسیم فرما دیتے اس کے بعد ایک آدمی بالوں کی بنی ہوئی ایک لگام لے آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ﷺ ! یہ اس مال میں سے ملی ہے جس کو ہم نے غنیمت میں سے پایا آپ نے فرمایا کیا تو نے بلال ؓ (کی آواز) تین مرتبہ نہیں سنی تھی اس نے کہا ہاں (سنی تھی) پھر آپ نے فرمایا کس بات نے تجھ کو اس (لگام) کے لانے سے روکا تھا ؟ اس آدمی نے کہا میں معذرت چاہتا ہوں آپ نے (غصہ میں) فرمایا تو اس کو رکھ لے اور تو اس کو قیامت کے دن لے کر آئے گا میں اس کو ہرگز تیری طرف سے قبول نہیں کروں گا۔ (19) ابن ابی شیبہ اور حاکم نے اس کو صحیح کہا اور صالح بن محمد بن زائدہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ مسلمہ روم کی زمین میں داخل ہوا تو ان کی خدمت میں ایک آدمی لایا گیا جس نے خیانت کی تھی تو انہوں نے حضرت سالم ؓ سے اس کے بارے میں پوچھا تو فرمایا میں نے اپنے والد سے سنا جو حضرت عمر ؓ سے روایت کرتے تھے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب تم ایسے آدمی کو پاؤ جس نے خیانت کی ہو تو اس کے سامان کو جلادو اور اس کو مارو راوی فرماتے ہیں تو ہم نے اس کے سامان میں مصحف کو پایا تو اس نے سالم سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا اس کو بیچ دو اور اس کی قیمت کو صدقہ دو ۔ (20) عبد الرزاق نے المصنف میں عبد اللہ بن شفیق (رح) سے فرمایا مجھے خبر دی ایسے آدمی نے جس نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا اور آپ وادی قریٰ میں تھے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا آپ کا غلام شہید کردیا گیا آپ نے فرمایا بلکہ وہ اب کھینچتا جا رہا ہے آگ کی طرف اس چوغہ کو جو اس نے اللہ اور اس کے رسول سے خیانت کی تھی۔ (21) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے سامان پر نگران تھا جس کو کر کرہ کہا جاتا تھا وہ مرگیا تو رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا آپ کا فلاں غلام شہید ہوگیا آپ نے فرمایا ہرگز نہیں ! میں نے اس پر ایک چوغہ کو دیکھا جو اس نے مال غنیمت میں سے چرا یا تھا۔ خیانت کرنے والا شہید کا مقام نہیں پائے گا (22) ابن ابی شیبہ نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا کہ آپ کا فلاں غلام شہید ہوگیا آپ نے فرمایا ہرگز نہیں ! میں نے اس پر ایک چوغہ کو دیکھا جو اس نے مال غنیمت میں سے چرایا تھا۔ (23) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رفاعہ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بطور غلام کے پیش کیا گیا تو آپ ﷺ غلام کو خیبر کی طرف ساتھ لے گئے وہاں پڑاؤ ڈالا عصر اور مغرب کے درمیان ایک نامعلوم تیر اس غلام کو لگا جس سے وہ قتل ہوگیا ہم نے کہا مبارک ہو تیرے لیے جنت آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس کا شملہ اب بھی آگ میں جل رہا ہے جو اس نے مسلمانوں سے چوری کیا تھا اس پر انصار میں سے ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! اس دن مجھے دو جوتی کے تسمے ملے تھے آپ نے فرمایا اس کی مثل تجھ کو جہنم کی آگ میں پیش کئے جائیں گے۔ (24) ابن ابی شیبہ نے عمرو بن سالم (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہمارے اصحاب کہتے تھے کہ غنیمت کے مال میں سے چوری کرنے والے کی سزا یہ ہے کہ اس کے خیمے اور اس کے سامان کو جلا دیا جائے۔ (25) طبرانی نے کثیر بن عبد اللہ (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا نہ چوری کی اجازت ہے نہ خیانت کی (پھر فرمایا) لفظ آیت ” ومن یغلل یات بما غل یوم القیمۃ “ یعنی جو شخص غنیمت کے مال میں سے چوری کرے گا وہ قیامت کے دن اس کو لے آئے گا۔ (26) ترمذی نے اس کو روایت کیا ہے کہ اور اس کو حسن کہا معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن کی طرف بھیجا جب میں روانہ ہوا تو میرے پیچھے کسی کو بھیجا تو میں لوٹ آیا آپ نے فرمایا کیا تو جانتا ہے میں نے تیری طرف آدمی کو کیوں بھیجا ؟ (پھر آپ نے فرمایا) کسی چیز کو میری اجازت کے بغیر نہ لینا کیونکہ یہ چوری ہے (اور فرمایا) لفظ آیت ” ومن یغلل یات بما غل یوم القیمۃ “ اس لیے تجھ کو بلایا تھا سو تو اسی طریقہ پر چلتے رہنا۔ مال غنیمت جمع کروانے کی تاکید (27) عبد الرزاق نے مصنف میں وابن جریر وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ رسول اللہ ﷺ کو جب غنیمت کا مال پہنچتا تھا تو ایک آواز لگانے والے کو بھیجتے تھے تو وہ کہتا تھا خبردار ! کوئی آدمی کسی ایک سوئی یا اس سے بڑی کسی چیز کی خیانت نہ کرے خبردار ! میں ہرگز نہیں جانو ایسے آدمی کو جس نے کوئی اونٹ چوری کیا تھا تو وہ اس کو قیامت کے دن لے آئے گا جو اس کو اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے ہوگا اور وہ بلبلا رہا ہوگا۔ خبردار میں نہ جانوں ایسے شخص کو جس نے گھوڑا مال غنیمت میں سے چوری کیا تو وہ قیامت کے دن اس کو اپنی گردن پر لے آئے گا اور وہ ہنہنا رہا ہوگا۔ (پھر فرمایا) خبردار میں ہرگز نہیں پہچانوں ایسے آدمی کو جس نے ایک بکری چوری کی تھی جس کو وہ قیامت کے دن اس حال میں لائے گا کہ وہ اپنی گردن پر اس کو اٹھائے ہوئے ہوگا جو منمنا رہی ہوگی ایک دوسرے کے پیچھے یہ واقعات ہوتے رہیں گے جب تک اللہ تعالیٰ چاہیں گے کہ یہ واقعات ہوں (اور) ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے مال غنیمت میں چوری کرنے سے بچو کیونکہ یہ عیب ہے اور شرمندگی ہے اور آگ (میں جانے کا سبب) ہے۔ (28) ابن ابی شیبہ احمد بخاری مسلم وابن جریر والبیہقی نے شعب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک دن ہمارے درمیان رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور آپ نے مال غنیمت میں سے خیانت کا ذکر فرمایا اور اس کے معاملے کا اہم ہونا اور دشوار ہونا بتایا پھر آپ نے فرمایا خبردار ! میں تم میں سے کسی کو قیامت کے دن اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر ایک اونٹ بلبلا رہا ہو پھر وہ کہے گا یا رسول اللہ ! میری مدد کیجئے میں کہوں گا میں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تیری مدد نہیں کرسکتا میں نے تجھ کو (دنیا میں) پیغام پہنچا دیا تھا (ہرگز خیانت نہ کرنا) (پھر فرمایا) میں تم کو قیامت کے دن اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر ایک گھوڑا ہنہنا رہا ہو اور وہ کہے گا یا رسول اللہ ﷺ ! میری مدد کیجئے میں کہوں گا میں تیرے لیے اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا میں نے تجھ کو (دنیا میں) پیغام پہنچا دیا تھا (پھر فرمایا) میں ہرگز تم کو اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر کوئی مال لدا ہوا تو وہ کہے گا یا رسول اللہ ﷺ ! میری مدد کیجئے میں کہوں گا میں تیرے لیے اللہ تعالیٰ کے مقابلہ کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا میں نے تجھ کو (دنیا میں) پیغام پہنچا دیا تھا۔ (29) ھناد وابن ابی حاتم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے ان سے پوچھا کہ آپ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ومن یغلل یات بما غل یوم القیمۃ “ کے بارے میں بتائیے کہ ایک آدمی خیانت کرتا ہے ہزار درہم یا دو ہزار درہم اس کو (قیامت کے دن) لے آئے گا اور یہ بتائیے کہ جو آدمی سو اونٹ یا دو سو اونٹ کیا خیانت کرے اس کے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ تو ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ جس شخص کی داڑھ احد پہاڑ کی طرح ہو اور اس کی ران ورقان پہاڑ کی طرح ہو اور اس کی پنڈلی بیضاء پہاڑ کی طرھ ہو اور اس کا بیٹھنا اس جگہ کے برابر ہو جو مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ہے کیا وہ اس طرح کا وزن نہیں اٹھا سکے گا۔ (30) ابن ابی حاتم نے ابن مردویہ والبیہقی نے شعب میں حضرت بریدہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ ایک پتھر سات گابھن موٹی اونٹنیوں کے برابر وزنی کیا جائے گا تاکہ ڈالا جائے جن ہم میں وہ ستر سال تک اس میں گرتا رہے گا اور جو خیانت کی ہوگی اسے بھی لایا جائے گا اور اس کے ساتھ اسے بھی پھینک دیا جائے گا پھر اس خیانت کرنے والے کو مجبور کیا جائے گا کہ اس کا نکال کرلے آئے اور وہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے لفظ آیت ” ومن یغلل یات بما غل یوم القیمۃ “۔ (31) ابن ابی شیبہ احمد ومسلم ابوداؤد نے عدی بن عمیر کندی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے لوگو ! جو شخص تم میں سے ہمارے لیے کوئی عمل کرے پھر ہم نے اس سے ایک سوئی یا اس سے زیادہ کوئی چیز چھپالی تو یہ بھی خیانت ہے (اور دوسرے لفظ میں ہے) کہ یہ خیانت ہے جس کو وہ قیامت کے دن لے آئے گا۔ (32) ابن جریر نے عبد اللہ بن انیس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک دن وہ اور حضرت عمر ؓ صدقہ کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے تو حضرت عمر ؓ نے فرمایا کیا تو نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں سنا تھا جس وقت آپ صدقہ کی خیانت کا ذکر فرما رہے تھے کہ جس شخص نے اس میں سے کسی اونٹ یا کسی بکری کی خیانت کی تو وہ اس کو قیامت کے دن اٹھا کرلے آئے گا ؟ عبد اللہ بن انیس ؓ نے فرمایا کہ ہاں میں نے سنا تھا۔ (33) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ومن یغلل یات بما غل یوم القیمۃ “ کے بارے میں روایت کیا کہ قیامت کے دن اس چیز کو جس کی خیانت کی تھی اپنی گردن پر اٹھا کرلے آئے گا۔ (34) ابن ابی حاتم نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ تھوڑی سی خیانت کو حلال کرتا تو البتہ زیادہ کو بھی حلال کرتا جو آدمی تم میں سے کوئی خیانت کرے گا تو اس کو جن ہم کے نچلے طبقہ میں سے لانے کو کہا جائے گا۔ (35) احمد وابن ابی داؤد نے المصاحف میں خمیر بن مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب حکم دیا گیا کہ مصاحف یعنی قرآن مجید کو تبدیل کرلو (ایک ہی قرأۃ پر) تو ابن مسعود ؓ نے فرمایا (اپنے شاگردوں سے) کہ جو کوئی تم میں سے طاقت رکھتا ہو کہ اپنے قرآن مجید کو چھپالے تو اس کو چاہیے کہ چھپالے کیونکہ جو شخص کسی چیز کو چھپائے گا تو اس کو قیامت کے دن لے کر آئے گا اور قرآن مجید کا چھپانا اچھا کام ہے جس کو کوئی ایک تم میں سے قیامت کے دن لے کر آئے گا۔ (36) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” افمن اتبع رضوان اللہ “ سے مراد ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا اتباع کرے اور غنیمت میں چوری نہیں کرے (پھر فرمایا) ” کمن باء بسخط من اللہ “ سے مراد ہے مانند اس شخص کے جس نے واجب کرلیا ہے اللہ تعالیٰ کے غصہ کو خیانت کرنے کی وجہ سے سو یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ پھر ان دونوں کا ٹھکانا بیان فرمایا اور اس شخص کے لیے فرمایا جو خیانت کرتا ہے کہ لفظ آیت ” وماوہ جہنم وبئس المصیر “ یعنی خیانت کرنے والے کا ٹھکانہ (جہنم ہے) پھر اس شخص کے ٹھکانے کا بیان فرمایا جس نے خیانت نہیں کی۔ پھر آپ نے ” ہم درجت “ یعنی ان کے فضائل ہیں۔ ” عند اللہ واللہ بصیر بما یعملون “ یعنی وہ ذات دیکھنے والی ہے جس نے تم میں سے چوری کی اور جس نے نہ کی۔ (37) عبد الرزاق وابن جریر وابن المنذر وابن ابی ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” افمن اتبع رضوان اللہ “ سے مراد وہ شخص ہے جو خیانت نہ کرے اور لفظ آیت ” کمن باء بسخط من اللہ “ سے مراد ہے کیا وہ اس آدمی کی طرح ہے جو اللہ تعالیٰ کے غصہ کا مستحق بنا۔ (39) ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” افمن اتبع رضوان اللہ “ سے مراد وہ شخص ہے جس نے خمس ادا کردیا۔ (40) ابن ابی حاتم نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” افمن اتبع رضوان اللہ “ سے مراد وہ شخص ہے جس نے حلال کو لے لیا یہ بہتر ہے اس کے لیے اس شخص سے جس نے حرام کو لے لیا اور یہ خیانت اور سارے مظالم کو شامل ہے۔ (41) ابن جریر وابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ہم درجت عند اللہ “ سے ان کے درجات ہونگے اعمال کے مطابق۔ (42) عبد بن حمید ابن جریر اور ابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ہم درجت عند اللہ “ سے مراد ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمانا لفظ آیت ” لہم درجت عند اللہ “ (الانفال آیت 4) ۔ (43) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” ہم درجت “ سے مراد ہے ” لہم درجت “۔ (44) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ” ہم درجت “ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا لوگوں کے لیے درجات ہیں ان کے اعمال کے مطابق خیر میں بھی اور شر میں بھی۔ (45) ابن المنذر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ہم درجت عند اللہ “ سے مراد ہے کہ جنت والوں سے ان کے بعض لوگ بعض کے اوپر ہوں گے جس کا درجہ فضیلت والا ہوگا وہ اپنے سے کم درجے والے کو دیکھے گا لیکن جو درجے میں کم ہوگا وہ کسی کو یوں نہیں دیکھے گا کہ اس سے بھی کوئی افضل ہے۔
Top