Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 171
یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ١ۙ وَّ اَنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ٤ۚۛ۠   ۧ
يَسْتَبْشِرُوْنَ : وہ خوشیاں منا رہے ہیں بِنِعْمَةٍ : نعمت سے مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَفَضْلٍ : اور فضل وَّاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ لَا يُضِيْعُ : ضائع نہیں کرتا اَجْرَ : اجر الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
وہ خوش ہو رہے ہیں وجہ نعمت اور فضل خداوندی کے اور اس بات سے خوش ہیں کہ بلاشبہ اللہ ضائع نہیں فرماتا مومنین کے اجر کو۔
(1) ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے لفظ آیت ” یستبشرون بنعمۃ من اللہ وفضل “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ آیت نے سارے ایمان والوں کو جمع کردیا سوائے شہداء کے اور بہت کم ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی فضیلت کا ذکر فرمایا اور ان کے ثواب کا جو ان کو عطا کیا گیا۔ (2) الحاکم نے اس کو صحیح کہا اور عبد الرحمن بن جابر (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے سنا جب احد والوں کا ذکر کیا گیا اللہ کی قسم میں پسند کرتا ہوں اس بات کو کہ قتل کیا جاؤں اپنے اصحاب کے ساتھ پہاڑ کے دامن میں نحص الجبل سے مراد ہے اس کی جڑ یعنی دامن۔ حضرت حمزہ ؓ کی نماز جنازہ (3) الحاکم نے اس کو صحیح کہا اور حضرت جابر (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حمزہ کو گم پایا کہ لوگ فارغ ہوگئے لڑائی سے تو ایک آدمی نے کہا میں نے ان کو دیکھا ہے ان درختوں کے پاس وہ کہہ رہے تھے میں اللہ کا شیر ہوں میں اس کے رسول کا شیر ہوں اے اللہ میں بری ہوتا ہوں تیری طرف ان کاموں سے جس کو یہ ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں نے کیا اور جو بھاگے تھے اس سے میں آپ کی خدمت میں معذرت پیش کرتا ہوں پس رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لائے جب دیکھا ان کے بدن کو تو رو پڑے اور جب دیکھا ان کے کٹے ہوئے اعضاء کو تو سسکیاں لینے لگے اور فرمایا کیا ان کو کفن دیا جائے گا ؟ تو ایک آدمی کھڑا ہوا انصار میں سے اور اس نے ان پر ایک کپڑا ڈالا پھر دوسرا کھڑا ہوا اس نے بھی ان پر ایک کپڑا ڈالا پھر حضرت جابر ؓ نے کہا یہ کپڑا ہے میرے باپ کے لیے اور یہ کپڑا ہے میرے چچا کے لیے پھر حضرت حمزہ کو لایا گیا آپ نے اس پر نماز پڑھائی پھر دوسرے شہداء کو لایا گیا اور حضرت حمزہ ؓ کی جانب میں رکھ دیا گیا آپ نے ان پر بھی نماز پڑھائی دوسرے شہداء کے جنازوں کو اٹھا لیا جاتا لیکن حضرت حمزہ کا جنازہ پڑا رہتا تھا یہاں تک کہ سارے شہداء پر نماز پڑھی گئی حضرت جابر ؓ نے عرض کیا پس میں لوٹ آیا میں بہت بوجھل تھا کیونکہ میرے باپ نے مجھ پر قرضہ اور اہل و عیال چھوڑے تھے رات کا وقت ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلوا بھیجا اور فرمایا اے جابر ؓ بیشک اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا تیرے باپ کو اس سے کلام فرمایا اس سے پوچھا تو کوئی تمنا کر تو انہوں نے عرض کیا میں تمنا کرتا ہوں میری روح کو لوٹا دیا جائے اور میری پیدائش کو اسی طرح بنا دیا جائے جیسے تھا اور مجھے لوٹا دیا جائے اپنے نبی کی طرف پھر میں قتل کروں تیرے راستے میں اور دوسری مرتبہ پھر قتل کیا جاؤں اللہ تعالیٰ نے فرمایا بیشک میں فیصلہ کرچکا ہوں کہ ان شہداء کو نہیں لوٹاؤں گا (دنیا میں) اور راوی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کہ تمام شہداء کے سردار اللہ کے نزدیک قیامت کے دن حضرت حمزہ ؓ ہوں گے۔ (4) ابن ابی شیبہ اور حاکم نے اس کو صحیح کہا حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت حمزہ ؓ کا کفن ایک دھاریدار چادر تھی جب اس سے سر کو چھپاتے تو ان کے پاؤں باہر نکل آتے تھے (یعنی چادر چھوٹی تھی) تو نبی ﷺ نے حکم فرمایا کہ اس کو سر پر کھینچ دو اور ان کے پاؤں پر ازخر گھاس ڈال دو اور فرمایا اگر صفیہ ؓ کی گھبراہٹ (کا خوف) نہ ہوتا تو ہم حمزہ ؓ کو دفن نہ کرتے یہاں تک کہ وہ (قیامت کے دن) پرندوں اور درندوں کے پیٹوں میں سے اٹھائے جاتے۔ (5) ابن ابی شیبہ نے کعب بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے احد کے دن فرمایا کس نے حمزہ ؓ کی قتل ہونے کی جگہ کو دیکھا ہے ؟ ایک آدمی نے کہا میں نے آپ تشریف لے گئے ہم نے آپ کو دکھایا حتی کہ آپ حضرت حمزہ ؓ (کی لاش) کے پاس کھڑے ہوئے آپ نے اس کو دیکھا کہ ان کا پیٹ چیر دیا گیا تھا اور ان کو مثلہ کردیا گیا تھا (یعنی ان کے اعضاء بھی کاٹ دئیے گئے تھے) رسول اللہ ﷺ نے یہ دیکھنا پسند نہ کیا اور آپ شہداء احد کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا میں گواہ ہوں ان شہداء پر انہیں ان کے خونوں کے ساتھ دفن کردو کیونکہ یہ ایسا زخمی نہیں ہے جو زخمی ہوتا ہے مگر اس کے زخم سے قیامت کے دن خون بہہ رہا ہوگا اس کا رنگ خون کا رنگ ہوگا اور اس کی خوشبو مشک کی خوشبو ہوگی (پھر حکم فرمایا) کہ ان شہداء میں سے جس کو قرآن زیادہ یاد تھا اس کو آگے کر دو اور ابن سب کو لحد میں دفن کر دو ۔ (6) نسائی والحاکم اور اس کو صحیح کہا اور انہوں نے سعید بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نماز کی طرف آیا اس حال میں کہ نبی ﷺ ہم کو نماز پڑھا رہے تھے جب وہ صف تک پہنچا تو اس نے کہا اے اللہ ! مجھ کو عطا فرما افضل اس سے جو تو نے اپنے نیک بندوں کو عطا فرمایا ہے جب نبی ﷺ نماز پوری کرچکے تو آپ نے فرمایا ابھی کس نے بات کی تھی ؟ اس نے کہا میں نے آپ نے فرمایا (اگر تو اللہ تعالیٰ سے فضل لینا چاہتا ہے) تو پھر تیرے گھوڑے کو زخمی کیا جائے گا اور تو اللہ کے راستے میں شہید کیا جائے گا۔ (7) احمد ومسلم و نسائی اور حاکم نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا جنت والوں میں سے ایک آدمی کو لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے اے آدم کے بیٹے ! تو نے اپنے ٹھکانہ کو کیسے پایا ؟ وہ عرض کرے گا اے میرے رب ! بہترین ٹھکانہ ہے (پھر) اللہ تعالیٰ فرمائیں گے سوال کر تمنا کر (جو تیری تمنا ہو) وہ عرض کرے گا میں آپ سے اس بات کا سوال کرتا ہوں کہ مجھے دنیا کی طرف دوبارہ لوٹا دیں پھر تیرے راستے میں دس بار قتل کیا جاؤں جب وہ شہادت کی فضیلت کو دیکھے گا (تو یہ تمنا کرے گا) پھر ایک اور آدمی کو دوزخ والوں سے لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے اے آدم کے بیٹے ! تو نے اپنے ٹھکانہ کو کیسے پایا ؟ وہ کہے گا اے میرے رب ! سب سے برا ٹھکانہ ہے پھر اللہ تعالیٰ (اس سے) فرمائیں گے زمین بھر سونا کیا تو اس کے بدلہ میں دے گا ! وہ کہے گا ہاں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو نے جھوٹ کہا میں نے تجھ سے اس سے کم کا سوال کیا تھا تو نے اس کو (پورا) نہ کیا ( اب تجھ سے کوئی امید نہیں) ۔ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے افراد (8) ابن ابی شیبہ نے و ترمذی وابن ماجہ وابن خزیمہ وابن حبان نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھ پر تین افراد پیش کئے گئے جو جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں گے اور مجھ پر وہ تین افراد پیش کئے گئے جو دوزخ میں سب سے پہلے داخل ہوں گے پہلے تین جو جنت میں داخل ہوں گے (پہلا) شہید ہوگا (دوسرا) وہ غلام جس نے اپنے رب کی بھی اچھی عبادت کی اور اپنے آقا کی خیر خواہی بھی کی اور پاک دامن صاحب اولاد اور پہلے تین آدمی جو دوزخ میں داخل ہوں گے وہ امیر جو لوگون پر مسلط ہوا اور مال والا جس نے اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کیا اور فقیر فخر کرنے والا۔ (9) الحاکم نے سہل بن ابی امامہ بن سہیل سے روایت کیا ہے اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شہید کے خون کا جب پہلا قطرہ گرتا ہے تو اس کے گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے۔ (10) الحاکم نے اس کو صحیح کہا اور ابو ایوب ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے صبر کیا یہاں تک کہ شہید کردیا جائے یا وہ غالب رہے تو اپنی قبر میں عذاب نہیں دیا جائے گا۔ (11) ابن سعد وابن ابی شیبہ نے واحمد و بخاری نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حارثہ بن سراقہ ؓ (دشمن) کو دیکھنے کے لیے باہر نکلے تو ایک تیر ان کو لگا کہ وہ شہید ہوگئے اس کی والدہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ حارثہ کی محبت جو مجھ سے ہے جانتے ہیں پس اگر وہ جنت میں ہیں تو صبر کرتی ہوں ورنہ آپ دیکھیں گے میں کیا کرتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا اے حارثہ کی ماں ! ایک جنت نہیں بلکہ بہت جنتیں ہیں اور بلاشبہ حارثہ ؓ افضل جنت میں ہیں یا فرمایا وہ فردوس کے اعلیٰ مقام میں ہیں۔ (12) احمد و نسائی نے عبادہ بن صامت ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی آدمی زمین پر فوت ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا اچھا بدلہ ہوتا ہے تو وہ (کبھی) دنیا کی طرف لوٹنے کو پسند نہیں کرتا مگر اللہ تعالیٰ کے راستے میں شہید ہونے والا اس بات کی تمنا کرے گا کہ مجھے (دنیا میں) لوٹا دیا جائے اور دوسری مرتبہ قتل کیا جاؤں۔ (13) احمد وعبد بن حمید و بخاری ومسلم و ترمذی و بیہقی نے شعب میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جنت والوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کو یہ بات خوش لگے کہ وہ دنیا کی طرف واپس لوٹ آئے اگرچہ اس کا دس گنااجر ہے مگر شہید بیشک وہ اس بات کو پسند کرے گا کہ وہ دنیا کی طرف لوٹا دیا جائے دس مرتبہ اور شہید کردیا جائے جب وہ دیکھے گا کہ شہادت کی فضیلت کو۔ (14) ابن سعد واحمد و بیہقی نے قیس الجذامی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیشک شہید ہونے والے کے لیے اللہ کے نزدیک چھ انعامات ہیں بخش دیا جاتا ہے اس کے گناہوں کو جب خون کا پہلا قطرہ گرتا ہے اسے پناہ دے دی جاتی ہے قبر کے عذاب سے کرامت کا لباس پہنایا جاتا ہے اور دکھایا جاتا ہے اس کو ٹھکانہ جنت میں جو اس کو دیا جائے گا بڑی گھبراہٹ سے اور شادی کی جائے گی موٹی آنکھوں والی حوروں سے۔ شہید کے خون کے پہلے قطرہ کے ساتھ جنت میں ٹھکانہ پانا (15) ترمذی نے اس کو صحیح کہا وابن ماجہ و بیہقی نے مقدام بن معدی کرب ؓ سے روایت کیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بیشک شہید کے لیے اللہ کے نزدیک خاص انعامات ہیں بخش دیا جاتا ہے جب اس کے خون کا پہلا قطرہ گرتا ہے دکھایا جاتا ہے اس کا ٹھکانہ جنت میں ایمان کا حلہ پہنایا جاتا ہے اسے پناہ دی جاتی ہے قبر کے عذاب سے اور محفوظ رکھا جاتا ہے بڑی گھبراہٹ کے دن سے اور رکھا جاتا ہے اس کے سر پر وقار کا تاج اس کا ایک یاقوت بہتر ہے دنیا اور مافیہا سے اور اس کی شادی کی جاتی ہے بہتر موٹی آنکھوں والی حوروں سے اور شفاعت قبول کی جائے گی ستر انسانوں کے بارے میں اس کے رشتہ داروں میں سے۔ (16) البزار والبیہقی والاصبہانی نے اپنی ترغیب میں ضعیف سند کے ساتھ انس بن مالک سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شہداء تین قسم کے ہیں وہ آدمی جو نکلا اپنی جان اور اپنے مال کے ساتھ ثواب کی امید رکھتے ہوئے اللہ کے راستے میں اور ارادہ کرتا ہے کہ نہ قتل کرے گا اور نہ قتل کیا جائے گا اور نہ لڑائی لڑے گا (البتہ) زیادہ کرے گا ایمان والوں کی جماعت کو اگر وہ مرگیا اور قتل ہوگیا اور شہید ہوگیا تو بخش دیا جائے اس کے سارے گناہوں کو اور پناہ دیا جائے گا قبر کے عذاب سے اور امن دیا جائے گا بڑی گھبراہٹ سے شادی کیا جائے گا موٹی آنکھوں والی حور سے اسے کرامت کا لباس پہنایا جائے گا اور رکھا جائے گا اس کے سر پر وقار کا اور خلد کا تاج اور دوسرا آدمی جو نکلا اپنی جان اور اپنے مال کے ساتھ ثواب کی امید رکھتے ہوئے ارادہ کرتے ہوئے کہ وہ قتل کرے گا اور قتل نہ کیا جائے گا اگر وہ مرگیا یا قتل ہوگیا تو اس کی سواری ہوگی ابراہیم خلیل الرحمن کی سواری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے لفظ آیت ” فی مقعد صدق عند ملیک مقتدر “ یعنی سچی بیٹھنے کی جگہ میں قدرت والے بادشاہ کے پاس اور تیسرا وہ آدمی جو نکلا اپنی جان اور اپنے مال کے ساتھ ثواب کی امید رکھتے ہوئے ارادہ کرتے ہوئے کہ وہ قتل کرے گا اور شہید ہوجائے گا پس اگر وہ مرگیا یا قتل کیا گیا تو آئے گا قیامت کے دن تلوار سونتے ہوئے اور تلوار رکھی ہوئی ہوگی اپنے کندھے پر اور لوگ گرے ہوئے ہوں گے گھٹنوں پر وہ کہے گا کشادگی کرو ہمارے لیے دو مرتبہ بیشک ہم نے خرچ کیا اپنے خونوں کو اور اپنے مالوں کو اللہ کے لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر وہ یہ بات ابراہیم خلیل الرحمن کو کہے یا کسی نبی کو کہے ابتدا میں سے تو چھوڑ دیا ان کے راستہ کیونکہ وہ اس کے حقوق سے آگاہ ہیں یہاں تک کہ وہ آئیں گے نور کے منبروں میں سے عرش کے دائیں طرف سے پس وہ بیٹھیں گے اور دیکھیں گے کس طرح فیصلہ ہوتا ہے لوگوں کے درمیان وہ نہیں پائیں گے موت کے غم کو اور نہ وہ غم کریں گے برزخ میں اور نہ ان کو گھبراہٹ ہوگی چیخنے والی آواز سے اور نہ ان کو غمگین کرے گا حساب نہ میزان نہ پل صراط وہ دیکھیں گے فیصلہ ہوتا ہے لوگوں کے درمیان اور وہ جس چیز کا سوال کریں گے وہ ان کو دے دی جائے گی ان کی سفارش قبول کیا جائے گی اور یہ جنت میں سے ہر چیز دئیے جائیں گے جس کو پسند کریں گے اور جنت میں ٹھہریں گے جس جگہ کو وہ پسند کریں گے۔ (17) احمد و طبرانی وابن حبان و بیہقی نے عتبہ بن عبد السلمی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا شہداء تین طرح کے ہیں وہ مومن آدمی جس نے جہاد کیا اپنی جان اور مال کے ساتھ اللہ کے راستے میں یہاں تک کہ جب وہ دشمن سے ملتا ہے اور ان سے لڑتا ہے یہاں تک کہ وہ شہید ہوجاتا ہے یہ وہ شہید ہے جو آرام پکڑنے والا ہے اللہ کے خیمے میں اس کے عرش کے نیچے نہ فضیلت پائیں گے اس سے نبی مگر نبوت کے درجہ کی وجہ سے اور دوسراوہ مومن آدمی جس نے ظلم کیا اپنی جان پر گناہوں سے اور خطاؤں سے اور جہاد کیا اپنے مال اور اپنی جان کے ساتھ اللہ کے راستے میں یہاں تک کہ جب دشمن سے ملا اس سے لڑا یہاں تک کہ شہید کردیا گیا یہ پاک کئے ہوئے شہداء ہیں اس کے گناہ اور اس کی خطائیں ختم کردی جائیں گی بیشک تلوار مٹانے والی ہے گناہوں کو اور داخل کیا جائے گا جنت کے دروازے میں سے جس سے چاہے گا جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور دوزخ کے سات دروازے ہیں اور بعض دروازے بعض سے فضیلت رکھتے ہیں تیسرا منافق جو اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کرتا ہے یہاں تک کہ وہ دشمن کا سامنا کرتا ہے اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے یہاں تک کہ وہ قتل کردیا جاتا ہے بیشک یہ آدمی آگ میں ہے کیونکہ وہ تلوار نہیں مٹاتی ہے نفاق کو۔ (18) احمد وحاکم نے عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شہید کا ہر گناہ بخش دیا جاتا ہے سوائے قرضہ کے۔ شہید کا ہر گناہ معاف سوائے قرضہ کے (19) احمد نے عبد اللہ بن حجش ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ ! میرے لیے کیا اجر ہوگا اگر میں قتل کردیا جاؤں اللہ کے راستہ میں آپ نے فرمایا جنت جب اس نے پیٹھ پھیری آپ نے فرمایا مگر قرضہ جبرئیل (علیہ السلام) نے ابھی ابھی مجھے خبر دی ہے۔ (20) احمد و نسائی نے ابن ابی عمیرہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ جو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی مسلمان آدمی ایسا نہیں ہے کہ اس کا رب اس کی روح کو قبض کرے اور وہ تمہاری طرف آنے کو پسند کرے اور اس کے لیے دنیا اور مافیھا ہو سوائے شہید کے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیشک میں قتل کیا جاؤں اللہ کے راستے میں زیادہ محبوب ہے میری طرف محل والوں اور مکانات والوں سے۔ (21) ترمذی نے اس کو صحیح کہا و نسائی وابن ماجہ وابن حبان نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شہید کو قتل ہونے کی اتنی تکلیف ہوتی ہے جیسے تم سے کسی کو چیونٹی کے کاٹنے سے۔ (22) الطبرانی نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جب بندے حساب کے لیے کھڑے ہوں گے ایک قوم آئے گی جو اپنی تلوارون کو اپنے گردنوں پر رکھے ہوئے ہوں گے ان سے خون ٹپک رہا ہوگا وہ رشک کریں گے جنت کے دروازے پر کہا جائے گا یہ لوگ کون ہیں کہا گیا یہ شہداء ہیں جن کو رزق دیا جائے گا۔ (23) احمد وابو یعلی والبیہقی نے الاسماء والصفات میں نعیم بن ہمار ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کون سے شہدا افضل ہیں آپ نے فرمایا جو صف میں شامل ہوتے ہیں اور اپنے چہروں کو نہیں موڑتے یہاں تک کہ شہید کر دئیے جاتے یہی لوگ ہیں جو جنت کے اعلیٰ مقامات میں گھومتے پھرتے ہیں اور ان کا رب ان کی طرف (دیکھ کر) ہنسے گا اور جب تیرا رب ہنسے گا کسی بندے کی طرف دنیا میں تو اس کا حساب نہیں ہوگا۔ (24) الطبرانی نے ابو سعید خدری (رح) سے روایت کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ کے نزدیک قیامت کے دن سب سے بہتر جہاد کرنے والے وہ لوگ ہوں گے جو پہلی صف میں شامل ہوتے ہیں۔ اور نہیں پھیرتے اپنے چہروں کو یہاں تک کہ شہید کر دئیے جاتے ہیں یہ جنت کے بالا خانوں میں گھومتے پھرتے ہوں گے ان کا رب ان کی طرف (دیکھ کر) ہنسے گا اور جب کسی قوم کی طرف (اللہ تعالیٰ ) ہنستے ہیں تو ان کا کوئی حساب نہ ہوگا۔ شہید کا خون خشک ہونے سے پہلے دو بیویاں مل جاتی ہیں (25) ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ شہید کا ذکر کیا گیا نبی ﷺ کے پاس آپ نے فرمایا نہیں خشک ہوتی ہے زمین شہید کے خون سے یہاں تک کہ جلدی آتی ہیں اس کے پاس دو بیویاں گویا کہ وہ دائیاں ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو گم کردیا بےآباد زمین میں اور ان میں سے ایک کے ہاتھ میں ایک جوڑا ہوگا جو دنیا اور مافیھا سے بہتر ہوگا۔ (26) النسائی نے راشد (رح) سے روایت کیا ہے کہ اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک صحابی سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ کیا حال ہے ان ایمان والوں کا جو آزمائے جاتے ہیں اپنی قبروں مگر شہید (نہیں آزمائے جاتے) آپ نے فرمایا ان کے سروں پر تلوارون کا چمکنا ان کی آزمائش کے لیے کافی ہے۔ (27) حاکم نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے اور اس کو صحیح کہا ایک کالا آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ ! بیشک میں ایک کالا آدمی ہوں بدبو والا اور بدصورت چہرہ والا ہوں میرے پاس کوئی مال نہیں اگر میں ان (کافروں) کے ساتھ لڑوں یہاں تک کہ میں قتل ہوجاؤں تو میں کہاں ہوں گے آپ نے فرمایا جنت میں وہ لڑتا رہا یہاں تک کہ شہید ہوگیا نبی اکرم ﷺ اس کے پاس تشریف لائے اور فرمایا تحقیق اللہ تعالیٰ نے سفید کردیا تیرے چہرے کو اور اچھا کردیا تیری خوشبو کو اور زیادہ کردیا تیرے مال کو اور اسی کے لیے اس کے علاوہ کسی اور کے لیے فرمایا البتہ تحقیق میں نے دیکھا اس کی بیوی کو حورعین میں سے اس نے کھینچا ہے اس کے جیسے کو جو اون کا ہے اور وہ داخل ہوگئی اس کے درمیان۔ (28) البیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ گزرے ایک بدو کے خیمے سے اور آپ اپنے صحابہ کے رمیان میں تھے جو جنگ کا ارادہ رکھتے تھے اور پوچھا کون قوم ہے اس سے کہا گیا رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ ہیں جو جنگ کا ارادہ کرتے ہیں تو وہ بھی ان کے ساتھ چل پڑا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں اس کی جان ہے بیشک وہ آدمی البتہ جنت کے بادشاہوں میں سے ایک ہے صحابہ ؓ نے دشمن سے جنگ کی وہ بدو شہید ہوگیا اور انہوں نے اس کی خبر رسول اللہ ﷺ کو پہنچا دی آپ ان کے پاس تشریف لائے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ گئے آپ خوش تھے اور مسکرا رہے تھے پھر آپ نے منہ پھیرلیا ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم آپ کو دیکھ رہے تھے آپ خوش تھے مسکرا رہے تھے پھر آپ نے اس سے منہ پھیرلیا آپ نے فرمایا تم نے میری خوشی کو دیکھا یہ اس وقت ہوا جب میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی روح کی تعظیم کو دیکھا لیکن میرا سے اعراض کرنا کیونکہ اس کی بیوی حورعین میں سے ابھی تک اس کے سر کے پاس موجود ہے۔ (29) عناد نے الزھد میں وعبد بن حمید و طبرانی نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت کیا ہے کہ پہلا قطرہ جو شہید کے خون سے ٹپکتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کے سابقہ سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ دو فرشتوں کو بھیجتے جنت کی خوشبو اور جنت کے کفن کے ساتھ اور آسمان کے کناروں پر فرشتے عرض کیا کرتے ہیں اللہ کی ذات پاک ہے آج زمین میں سے پاکیزہ خوشبو اور پاکیزہ روح آئی ہے جس دروازہ سے وہ روح گذرتی ہے تو دروازہ اس کے لیے کھول دیا جاتا ہے اور جس فرشتے کے پاس سے یہ روح گذرتی ہے تو وہ اس پر رحمت کی دعا کرتا ہے اور اس کا استقبال کرتا ہے یہاں تک کہ رحمن کی طرف لائی جاتی ہے تو وہ روح اس کے لیے (یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے) فرشتوں سے پہلے سجدہ کرتی ہے اور اس کے بعد فرشتے سجدہ کرتے ہیں پھر اس کو شہداء کی طرف جانے کا حکم ہوتا ہے وہ (فرشتے) ان (شہداء) کو سبز باغوں اور ریشم کے قبوں میں پاتے ہیں ان کے پاس ہی بیل اور مچھلیاں کھیل رہی ہوتی ہیں وہ ہر روز ایسا کھیل کھیلتی ہیں جو انہوں نے گزشتہ روز نہیں کھیلا تھا وہ مچھلی (سارا دن) جنت کے نہروں میں حرکت کرتی رہتی ہے جب شام ہوتی ہے تو بیل اس کو اپنے سینگ سے ٹکر مارتا ہے پھر ان دونوں کو ان (شہداء) کے لیے ذبح کردیا جاتا ہے وہ لوگ اس کے گوشت میں سے کھاتے ہیں اور اس گوشت میں سے جنت کی نہروں کے ذائقہ کی خوشبو کو پاتے ہیں اور بیل رات بھر جنت میں چرتے ہوئے گزرتا ہے جب صبح ہوتی ہے تو صبح سویرے (پھر) مچھلی آجاتی ہے اسے دم ماتی ہے تو جنتی اس بیل کا گوشت کھاتے ہیں اور جنت کے پھلوں میں سے ہر پھل کا ذائقہ اس میں پاتے ہیں وہ لوگ دیکھتے ہیں اپنی منزلوں کو صبح اور شام اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ قیامت قائم ہو اور جب کوئی مومن بندہ وفات پاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دو فرشتوں کو بھیجتے ہیں جنت کے درمیان اور جنت کے ایک کپڑے کے ساتھ جس میں اس کی روح قبض کی جاتی ہے اور اس سے کہا جاتا ہے اے اطمینان پکڑنے والی جان نکل روح ریحان اور اپنے رب کی طرف جس کو تجھ پر غصہ نہیں ہے پس وہ نکلتی ہے عمدہ خوشبو کے ساتھ جس عمدہ خوشبو کو کوئی ناک نہیں پاتی اور آسمان کے کناروں پر فرشتے عرض کرتے ہیں اللہ کی ذات پاک ہے آج زمین میں سے عمدہ خوشبو اور پاکیزہ روح آئی ہے جس دروازہ سے گزرتی ہے تو اس کے لیے کھول دیا جاتا ہے اور جس فرشتہ سے گذرتی ہے تو وہ اس کے لیے رحمت کی دعا کرتا ہے اور استقبال کرتا ہے یہاں تک کہ رحمن کی طرف لائی جاتی ہے اس سے پہلے فرشتے (اللہ تعالیٰ کو) سجدہ کرے اور وہ ان کے بعد سجدہ کرتی ہے پھر میکائیل (علیہ السلام) کو بلایا جاتا ہے اور (اللہ تعالیٰ ) اس سے فرماتے ہیں اس جان کو لے جاؤ اور مومنین کی جانوں کے ساتھ اس کو ملا دو یہاں تک کہ تجھ سے ان کے بارے میں قیامت کے دن سوال کروں گا اور حکم کیا جاتا ہے قبر کی طرف اور وہ ستر (گز) لمبی اور ستر (گز) چوڑی ہوجاتی ہے اور اس (قبر) میں خوشبو ڈال دی جاتی ہے اور ریشم بچھا دیا جاتا ہے اگر اسے قرآن مجید کا کوئی حصہ یاد ہو تو اس کو نور پہنا دیا جاتا ہے اگر اسے قرآن کا کوئی حصہ یاد نہیں ہوتا تو سورج کی طرح ایک روشنی اس کے لیے کردی جاتی ہے اس کی مثال دلہن کی طرح ہوتی ہے اس کو وہ شخص آکر جگاتا ہے جو اس کے اہل و عیال میں سے اس کو محبوب ترین ہوتا ہے اور کافر کی وفات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دو فرشتوں کو بھیجتے ہیں دھاری دار کپڑے کے ٹکڑے کے ساتھ جس میں ہر بد بودار چیز میسر ہوتی ہے اور بہت کھردرا ہوتا ہے ہر کھردری چیز میں سے اس سے کہا جاتا ہے اے خبیث روح باہر نکل آ اور بہت برا کیا ہے جو کچھ تو نے اپنے لیے آگے بھیجا ہے پس وہ روح باہر نکلتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور اس پر سانپ بھیجے جاتے ہیں جو اونٹ کی طرح بہت موٹے ہوتے ہیں جو اس کے گوشت کو کھاتے ہیں اور مسلط کئے جاتے ہیں ایسے فرشتے جو بہرے گونگے اور اندھے ہوتے ہیں نہ سنتے ہیں ان کی آواز اور نہ اس کو دیکھتے ہیں کہ اس پر رحم کریں وہ اکتاتے بھی نہیں جب اس کو مارتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اس پر ہمیشہ مسلط رہیں یہاں تک اسے جہنم میں ڈال دیا جاتا ہے۔ (30) الطیالسی و ترمذی نے اس کو حسن کہا اور بیہقی نے شعب میں حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ شہداء چار قسم کے ہیں وہ مومن جس کا ایمان اچھا ہے وہ دشمن سے جنگ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سچا جانتا ہے اور دشمن سے لڑتا ہے یہاں تک کہ اسے شہید کردیا جاتا ہے یہ وہ شہید ہے لوگ اس کی طرف اپنی آنکھوں کو اٹھائیں گے آپ نے اپنی نظر اٹھائی یہاں تک کہ گر پڑی ان کی ٹوپی جو ان کے سر پر تھی یا عمر کے سر پر تھی پس یہ پہلے درجے کا شہید ہے اور دوسرا وہ مومن آدمی جس کا ایمان اچھا ہے جب وہ دشمن سے ملتا ہے تو بزدلی کی وجہ سے گویا اس کی جلد میں کیکر کے کانٹے پیوست ہوگئے اچانک ایک نامعلوم تیر اس کے پاس آتا ہے وہ اس کو قتل کردیتا ہے یہ شہید دوسرے درجے میں ہے اور تیسرا وہ مومن آدمی جس نے ملا دیا نیک عمل کو دوسرے برے عمل کے ساتھ وہ ملا دشمن سے اس حال میں کہ اس نے اللہ کی تصدیق کی اور وہ شہید ہوگیا پس یہ شہید تیسرے درجے میں ہے۔ وہ آدمی جس نے اپنی جان پر زیادتی کی وہ دشمن سے ملا اس سے لڑا یہاں تک کہ وہ شہید ہوگیا یہ شہید چوتے درجے میں ہے۔ (31) ابو داؤد وابن حبان نے ابو الدرداء ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ شہید سفارش کرے گا ستر آدمیوں کے بارے میں گھر والوں میں سے۔ جہاد و نماز کی صف بندی کی فضیلت (32) الطبرانی والبیہقی نے البعث والنشور میں یزید بن شجرہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب لوگ نماز کے لیے صف بناتے ہیں اور لڑائی کے لیے صف بناتے ہیں تو آسمان اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور حورعین کو سجا دیا جاتا ہے اور ان کو بھیج دیا جاتا ہے جب مجاہد لڑنا شروع کرتا ہے تو حوریں کہتی ہیں اے اللہ اس کی مدد فرما اور جب وہ لڑائی سے پیٹھ پھیرتا ہے تو اس سے پردہ کرلیتی ہیں اور کہتی ہیں اے اللہ اس کی مغفرت فرما اور دشمن کے پرخچے اڑا دو اور حورعین کو رسوا نہ کرو جب پہلا قطرہ خون میں سے تم میں سے کسی ایک کا ٹپکتا ہے اس کے عمل میں سے ہر چیز کو معاف کردیا جاتا ہے اور حورعین میں سے اس کی دو بیویاں اس کی طرف نازل ہوتی ہیں جو اس کے چہرے سے مٹی کو پونچھتی ہیں اور کہتی ہیں ہم تیرے لیے ہیں اور وہ کہتا ہے میں تمہارے لیے ہوں پھر وہ جوڑا اس کو پہنایا جاتا ہے جو نبی آدم کا بنا ہوا نہیں ہوتا اگر ان کو رکھ دیا جائے دو انگلیوں کے درمیان تو وہ سما جائیں اور وہ کہتے تھے کہ تلواریں جنت کی چابیاں ہیں۔ (33) البیہقی نے الشعب میں ابوبکر محمد بن احمد التمیمی (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں قاسم بن عثمان الجوعی (رح) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے بیت اللہ کے گرد طواف میں ایک آدمی کو دیکھا جو نہیں زیادہ کرتا تھا (یعنی وہ اپنی دعا میں صرف یہی الفاظ کہتا تھا) جس کا ترجمہ یہ ہے اے اللہ تو نے محتاجوں کی حاجت کو پورا فرمایا لیکن میری حاجت کو پورا نہ فرمایا میں نے اس سے کہا کہ تجھے کیا ہوا تو اس کلام کو زیادہ نہیں کرتا یعنی صرف یہی الفاظ کہتا ہے تو اس نے کہا میں تجھ سے بیان کرتا ہوں کہ ہم سات ساتھ تھے مختلف شہروں سے ہم نے دشمن کی زمین پر جنگ کی مگر سب لوگ قیدی بنا لیے گئے پھر ہم کو الگ کردیا گیا تاکہ ہماری گردنوں کو اڑا دیا جائے میں نے آسمان کی طرف دیکھا اچانک سات دروازے کھلے ہوئے تھے ان پر سات لڑکیاں تھیں حورعین میں سے ہر دروازے پر ایک لڑکی تھی میں نے دیکھا کہ ایک لڑکی کو تو اس کے ہاتھ میں رومال ہے اور وہ زمین پر اتری یہاں تک کہ چھ (ساتھیوں) کی گردنیں مار دی گئیں اور میں باقی رہ گیا اور ایک دروازہ اور ایک لڑکی باقی رہ گئی جب مجھے لایا گیا تاکہ میری گردن اڑاد دی جائے تو امیر کے ساتھیوں میں سے ایک نے مطالبہ کیا مجھے اس کے حوالے کردیا جائے تو امیر نے مجھے اس کے حوالے میں نے سنا اس لڑکی کو جو کہہ رہی تھی کون سی چیز تجھ سے فوت ہوئی اور اس نے دروازہ بند کردیا اور اے میرے بھائی میں حسرت کرنے والا ہوں اس چیز پر جو مجھ سے فوت ہوئی قاسم بن عثمان (رح) نے فرمایا میں خیال کرتا ہوں اس کو ان کا افضل آدمی کیونکہ اس نے وہ چیز دیکھی جو انہوں نے نہیں دیکھی اور اس کو چھوڑ دیا گیا کہ عمل کرتا رہے شوق و محبت رکھتے ہوئے۔ (34) ابو داؤد اور حاکم نے اس کو صحیح کہا اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہمارے رب بہت خوش ہوتے ہیں دو آدمیوں پر ایک وہ آدمی جو اپنے بستر اور اپنے لحاف کو چھوڑ دیتا ہے حالانکہ وہ اپنی بیوی اپنے گھر والوں اور اپنے پیاروں کے درمیان موجود ہوتا ہے اور نماز کی طرف جاتا رغبت کے ساتھ ان نعمتوں میں جو میرے پاس ہیں اور ڈرتے ہوئے اس عذاب سے جو میرے پاس ہیں اور وہ دوسرا آدمی جس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا اور اس کے ساتھ بھاگ گئے اور کتنا (اجرو ثواب) ہے اس کے لیے (جنگ کی طرف) لوٹنے میں پس وہ لوٹ آیا یہاں تک کہ اس کا خون بہا دیا گیا اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتے ہیں دیکھو تم میرے بندے کی طرف لوٹ آیا رغبت کرتے ہوئے ان چیزوں میں جو میرے پاس ہیں اور ڈرتے ہوئے میرے عذاب سے اس نے ایسا کیا یہاں تک کہ اس کا خون بہا دیا گیا۔ تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ محبت فرمائیں گے (35) البیہقی نے الاسماء والصفات میں ابو درداء ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں اور ان کی طرف (دیکھ کر) ہنستے ہیں اور ان سے خوش ہوتے ہیں ایک وہ آدمی کہ جب جماعت بھاگ جاتی ہے اس کے بعد وہ اکیلا ہو کر اللہ کی رضا کے لیے لڑتا رہتا ہے یا اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائے گا اور اس کو کافی ہوجائے گا (اس کو دیکھ کر) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں دیکھو میرے بندے کی طرف کس طرح اس نے میرے لیے اکیلے صبر کیا اور وہ آدمی جس کی خوبصورت بیوی ہے اور نرم اور عمدہ بستر ہے اور وہ رات کو کھڑا ہوتا ہے اپنی خواہش کو چھوڑ دیتا ہے اور مجھے یاد کرتا ہے اور مجھ سے سرگوشی کرتا ہے اگر چاہے سوجائے اور وہ آدمی جو سفر میں ہے اور اس کے ساتھ قافلہ کے لوگ نہیں اور وہ لوگ جاگتے ہیں یہاں تک کہ تھک جاتے ہو پھر سو جاتے ہیں وہ سحری کے وقت کھڑا ہوتا ہے اور وہ خوشی اور تنگی دونوں حالتوں میں بیدار ہوتا ہے۔ (36) حاکم نے اس کو صحیح کہا اور حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ اسے شہادت کا مرتبہ نصیب ہوجائے پھر وہ طبعی موت مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو شہدا کا اجر عطا فرمائیں گے۔ (37) احمد ومسلم و ابوداؤد والترمذی نے والنسائی وابن ماجہ والحاکم نے سہل بن ابی امامہ بن سہل بن حنیف (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ سے شہادت کا سوال کیا سچے دل سے تو اللہ تعالیٰ اس کو شہادت کی منزلوں میں پہنچا دیں گے اگرچہ اپنے بستر پر اس کی موت آجائے۔ (38) احمد ومسلم نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے شہادت کو طلب کیا سچے دل سے اسے اس کا پیغام دے دیا جاتا ہے اگرچہ وہ اس (شہادت) کو نہیں پہنچا۔
Top