Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے اسْتَجَابُوْا : قبول کیا لِلّٰهِ : اللہ کا وَالرَّسُوْلِ : اور رسول مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَآ : کہ اَصَابَھُمُ : پہنچا انہیں الْقَرْحُ : زخم لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو اَحْسَنُوْا : انہوں نے نیکی کی مِنْھُمْ : ان میں سے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کی اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو مان لیا اس کے بعد کہ ان کو زخم پہنچ چکا تھا ان میں سے جنہوں نے نیکی کے کام کئے اور تقویٰ اختیار کیا ان کے لئے بڑا ثواب ہے۔
(1) ابن اسحاق وابن جریر والبیہقی نے دلائل میں عبد اللہ بن ابی بکر محمد بن عمرو بن حزم ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حمرؤ الاسد کے لیے نکلے اور ابو سفیان نے رسول اللہ ﷺ کی اور آپ کے اصحاب پر دو ماہ پہلے حملے کا ارادہ کیا تھا اور کہنے لگے ہم لوٹ آئے ان کو مکمل طور پر رجم کرنے سے ہم ان کے باقی لوگوں پر ضرور پلٹ کر حملہ کریں گے اور ان کو یہ بات کہ نبی صلی اللہ ﷺ نکل چکے ہیں اپنے اصحاب کے ساتھ ان کی تلاش میں نکلے ہیں اس خبر نے اسے اور ابو سفیان کو واپس جانے پر مجبور کردیا عبد القیس میں سے کچھ سوار گذرے تو ابو سفیان نے ان سے کہا محمد ﷺ کو یہ بات پہنچا دو کہ ہم نے آپ کے صحابہ پر دوبارہ حملہ کرنے کا ارادہ کیا تاکہ ان کو نیست ونابود کردیں جب یہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرے حمرؤ الاسد تو انہوں نے آپ کو خبر دی کہ ابو سفیان نے کہا تھا تو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھ ایمان والوں نے کہا لفظ آیت ” الذین استجابوا للہ والرسول “۔ (2) موسیٰ بن عقبہ نے اپنی مغازی میں اور بیہقی نے دلائل میں ابن شہاب (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو سفیان کے بدر کے وعدہ (کو پورا کرنے) کے لیے مسلمانوں کو نکلنے کے مطالبہ پر آمادہ کیا شیطان نے اپنے دوستوں کو لوگوں میں سے تو وہ لوگون میں چلے اور ان کو ڈرانے لگے اور انہوں نے کہا ہم کو یہ خبر پہنچی ہے کہ قریش نے کہا تمہارے خلاف لشکر جمع کیا ہے مثل رات کے وہ ارادہ کرتے ہیں تم پر حملہ آور ہوں اور تم سے سب کچھ چھین لیں اس لیے اپنے بچاؤ کرو (مسلمان) اللہ اور رسول کا کہنا مانتے ہوئے اپنے تجارتی سامان کو لے کر نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا اگر ابو سفیان سے ملاقات ہوگئی تو وہ ہماری مقصود ہے اگر اس سے ملاقات نہ ہوئی تو ہم فروخت کریں گے اپنے سامان کو اور بدر میں تجارت کی جگہ ہوتی تھی جو تمام سال کی ضروریات کو پورا کرتی یہ لوگ چلے یہاں تک کہ بدر کے تجارتی میلہ میں پہنچے خریدوفروخت کی انہوں نے اس سے اپنی ضرورت کو پورا کیا ابو سفیان نے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کی وہ اور اس کے ساتھی نہ آئے ابن حمام صحابہ پر گزرا تو اس نے کہا یہ کون لوگ ہیں انہوں نے جواب دیا یا رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ ہیں ابو سفیان اور اس کے ساتھ قریش کا انتظار کر رہے ہیں ابن حمام جب قریش کے پاس آیا تو اس نے ان کو خبر دی ابو سفیان پر رعب طار ہوگیا اور مکہ کی طرف لوٹ گیا رسول اللہ ﷺ مدینہ کی طرف واپس تشریف لے گئے اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ اور اس کے غزوہ کو غزوہ جیش سویق کا نام دیا گیا اور یہ غزوہ شعبان 3 ہجری میں ہوا۔ (3) ابن جریر نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے ابو سفیان کے دل میں رعب ڈال دیا احد کے دن جبکہ مسلمان اس سے تکلیف اٹھا چکے تھے وہ مکہ کی طرف لوٹ گیا نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ابو سفیان تم نے اپنا حصہ لیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں رعب ڈال دیا اور یہ احد کا واقعہ شوال میں ہوا تاجر آتے تھے مدینہ میں ذیقعد کے مہینہ میں اور وہ لوگ ہر سال بدر صغری کے مقام پر قیام کرتے اور اب وہ احد کے واقعہ کے بعد آئے تھے اور مسلمانوں کو تکلیف پہنچی تھی اور رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو بلایا تاکہ وہ ان کے ساتھ چلیں اور آپ نے فرمایا بیشک تم اب چلو گے تو تم حج کا مرتبہ پاؤ گے اور اس چیز پر تم اگلے سال قادر نہ ہوگے شیطان آیا اور اس نے ڈرایا اپنے دوستوں کو اور کہا لفظ آیت ” ان الناس قد جمعوا لکم “ یعنی لوگ تمہارے لیے جمع ہوچکے ہیں تو لوگوں نے آپ کے ساتھ جانے سے انکار کردیا آپ ﷺ نے فرمایا میں جارہا ہوں اگرچہ کوئی بھی میرے ساتھ نہ چلے تو آپ کے ساتھ ابوبکر ؓ عمر ؓ عبد اللہ بن مسعود ؓ حذیفہ بن یمان ؓ ابو عبیدہ بن جراح ؓ ستر صحابہ کے قریب نکلے یہ لوگ چلے ابو سفیان کی تلاش میں اور اس کی تلاش میں لگے رہے یہاں تک کہ صغراء کے مقام پر پہنچے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت ” الذین استجابوا للہ والرسول “۔ صحابہ کرام کا جذبۂ ایمانی (4) النسائی وابن ابی حاتم والطبرانی نے صحیح سند کے ساتھ عکرمہ کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا جب مشرکین احد سے لوٹ گئے تو انہوں نے کہا نہ تم نے محمد ﷺ کو قتل کیا نہ تم نے نوجوان عورتوں کو پیچھے بٹھایا تم نے کتنا برا کیا تم واپس لوٹ جاؤ اس بات کو رسول اللہ ﷺ نے سنا تو آپ نے مسلمانوں کو بلایا صحابہ ؓ نے آپ کی دعوت پر لبیک کہی یہاں تک حمرء الاسدتک پہنچ گئے یا ابو عتبہ کے کنوئیں پر پہنچ گئے ابو سفیان کو شک ہوا مشرکوں نے کہا ہم واپس لوٹتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ واپس لوٹ آئے اور یہ واقعہ غزوہ میں شمار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت ” الذین استجابوا للہ والرسول “ ابو سفیان نے نبی ﷺ سے وعدہ کیا تھا اگلی جنگ بدر کے تجارتی میلہ کے موقع پر ہوگی جہاں تم نے ہمارے ساتھیوں کو قتل کیا تھا لیکن بزدل تو لوٹ گیا لیکن بہادر نے جنگ اور تجارت کا سامان لیا وہ لوگ بدر کے مقام پر آئے تو انہوں نے کسی کو بھی نہ پایا تو صحابہ نے کاروبار شروع کردیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ” فانقلبوا بنعمۃ من اللہ وفضل “۔ (5) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ بدر صغری کی طرف نکلے حالانکہ صحابہ کرام ؓ زخمی تھے یہ سب لوگ ابو سفیان کے وعدہ (کو پورا) کرنے کے لیے نکلے تو ان کے ساتھ ایک دیہاتی گذرا پھر وہ دیہاتی ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ بھی گذرا اور وہ کہہ رہا تھا : ونفرت من رفقتی وعجوۃ منثورہ کا لغجد ترجمہ : میں محمد ﷺ کے ساتھیوں سے بھی گذرا اس حال میں کہ عجوہ کھجور بکھری پڑی تھی جو ردی کشمش کی طرح تھیں۔ ابوسفیان اس (دیہاتی) سے ملا اور کہنے لگا افسوس ہے تجھ پر تو کیا کہہ رہا ہے اس نے محمد ﷺ اور اس کے اصحاب ؓ کو میں نے بدر صغری میں چھوڑا ہے ابو سفیان نے کہا وہ جو کہتے ہیں سچ بولتے ہیں اور ہم جو کہتے اور سچی بات نہیں کرتے عکرمہ رجی اللہ عنہ نے فرمایا انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” الذین استجابوا للہ والرسول “ سے لے کر ” فانقلبوا بنعمۃ من اللہ وفضل “ تک۔ (6) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں نے مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی اور واپس لوٹ گئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابو سفیان لوٹ گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں رعب ڈال دیا پس کون چلتا ہے اس کی طلب میں ؟ نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور (ان کے ساتھ) ابوبکر ؓ عمر ؓ عثمان ؓ علی ؓ اور صحابہ ؓ میں سے بہت سے لوگ آپ کے ساتھ چل دئیے اور مشرکین کا پیچھا کیا جب یہ بات ابو سفیان کو پہنچی کہ نبی ﷺ اس کی تلاش میں ہیں تاجروں کا ایک قافلہ اس سے ملا تو اس نے کہا محمد ﷺ کو (کسی طرح سے) لوٹا دو اور تمہارے لیے اتنا اتنا انعام ہوگا اور ان کو بتلادو کہ میں نے ان کے لیے (بڑا لشکر) تیار کیا ہے اور میں ان کی طرف لوٹنے والا ہوں جب وہ تاجر آئے تو انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ بات بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا ” حسبنا اللہ “ (ہم کو اللہ کافی ہے) یہ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا لفظ آیت ” الذین استجابوا للہ والرسول “۔ احد سے واپسی پر مشرکین کا تعاقب (7) ابن جریر اور ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھے اس بات کی خبر دی گئی کہ ابو سفیان اور اس کے ساتھی جب غزوہ احد کے دن واپس ہوئے تو مسلمانوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! وہ لوگ مدینہ منورہ کی طرف لوٹے رہے ہیں آپ نے فرمایا اگر وہ گھوڑوں پر سوار ہیں اور انہوں نے اونٹوں کو چھوڑ دیا ہے تو (سمجھ لو) کہ انہوں نے لوٹنے کا ارادہ کیا ہے اور اگر وہ اپنے اونٹوں پر بیٹھے ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنے گھوڑوں کو چھوڑ دیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر رعب کو ڈال دیا تو وہ اب نہیں لوٹیں گے (جب دیکھا گیا) تو وہ اپنے اونٹوں پر بیٹھے ہوئے پھر حضور ﷺ نے لوگوں کو آواز دی کہ ان کا پیچھا کریں تاکہ ان کو اپنی قوت دکھائیں مسلمانوں نے (کافروں کا) دو یا تین راتیں پیچھا کیا (مگر وہ نہ ملے) تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی ” الذین استجابوا للہ والرسول “۔ (8) سعید بن منصور وابن ابی شیبہ واحمد بخاری ومسلم وابن ماجہ وابن ابی حاتم والبیہقی نے دلائل میں حضرت عائشہ ؓ سے اس آیت ” الذین استجابوا للہ والرسول “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ انہوں نے عروہ ؓ سے فرمایا اے میرے بھانجے تیرے دونوں باپ یعنی زبیر اور ابوبکر ان لوگوں میں سے تھے جب اللہ کے نبی ﷺ کو احد کے دن جو تکلیف پہنچی تو مشرکین وہاں سے چلے گئے تو حضور ﷺ نے خوف محسوس کیا کہ شاید وہ لوٹ کر پھر نہ آجائیں آپ نے فرمایا کون ان کے پیچھے جائے گا ؟ تو ان میں سے (یعنی صحابہ میں سے) ستر آدمی تیار ہوگئے ان میں سے ابوبکر اور زبیر ؓ تھے یہ لوگ اس قوم کے پیچھے نکلے اور کافروں سے ان کے بارے میں سنا (تو وہ بھاگ نکلے) اور یہ لوگ اللہ کی نعمت فضل کے ساتھ واپس ہوئے اور دشمن سے ملاقات نہیں ہوئی۔ (9) ابن ابی حاتم نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ہم کو اٹھارہ آدمیوں کے بارے میں نازل ہوا یعنی لفظ آیت ” الذین استجابوا للہ والرسول “۔ (10) ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ احد کا واقعہ نصف شوال ہفتہ کے دن واقع ہوا جب غزوہ احد کا اگلا دن سولہ شوال آیا تو رسول اللہ ﷺ کے موذن نے کافروں کا پیچھا کرنے کا حکم دیا موذن نے یہ اعلان بھی کیا کہ ہمارے ساتھ چلے جو کل ہمارے ساتھ چلا تھا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! بیشک میرے باپ نے مجھے چھوڑا ہے میری سات بہنوں پر اور کہا کہ اے میرے بیٹے میرے لئے اور تیرے لیے یہ مناسب نہیں کہ ہم چھوڑیں ان عورتیں کو جن میں کوئی مرد نہیں اور میں تجھے اس بات میں بھی ترجیح نہیں دیتا کہ تم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جہاد پر جاؤ بس تم پیچھے رہ جاؤ اپنی بہنوں پر تو اس وجہ سے میں پیچھے رہ گیا تھا رسول اللہ ﷺ نے ان کو اجازت دے دی تو وہ آپ کے ساتھ روانہ ہوگئے رسول اللہ صلی اللہ دشمن کو پیچھے رہ گیا تھا رسول اللہ ﷺ نے ان کو اجازت دے دی تو وہ آپ کے ساتھ روانہ ہوگئے رسول اللہ ﷺ دشمن کو ڈرانے کے لیے نکلے تھے تاکہ ان کو یہ خبر پہنچ جائے کہ وہ نکلے ہیں ان کی طلب میں اور کفار یہ گمان کریں کہ آپ کے پاس بڑی قوت ہے مسلمانوں کو جو تکلیف پہنچی ہے اس نے ان کو دشمن کا مقابلہ کرنے سے کمزور نہیں کیا۔ (11) ابو السائب مولی عائشہ بنت عثمان سے روایت کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے جو بنی عبد الاشھل کے قبیلے میں سے تھے احد کی جنگ میں حاضر ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ میں اور میرا بھائی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احد میں شریک ہوا تھا تو ہم واپس ہوئے زخمی ہو کر جب رسول اللہ ﷺ نے دشمن کا پیچھا کرنے کا اعلان فرمایا تو میں نے اپنے بھائی سے کہا یا اس نے مجھ سے کہا ہم سے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کون ہوجائے گا نہیں ہے ہمارے پاس کوئی جانور جس پر کوئی سواری کر سکین اور ہم سخت زخمی ہیں پس ہم نکلے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اور میں اس سے کم زخمی تھا اور جب اس کا چلنا مشکل ہوجاتا تو میں اسے ایک گھاٹی اٹھا لیتا اور ایک گھاٹی وہ خود چلتا یہاں تک کہ ہم پہنچ گئے جہاں مسلمان پہنچ چکے تھے رسول اللہ ﷺ تشریف لے گئے یہاں تک کہ حمراء الاسد تک پہنچ گئے اور یہ مدینہ منورہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے آپ نے وہاں تین دن قیام فرمایا پیر منگل اور بدھ کے دن پھر آپ واپس مدینہ تشریف لے آئے یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” الذین استجابوا للہ والرسول “۔ (12) ابن جریر نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ ؓ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اس دعوت پر لبیک کہی۔ (13) ابن المنذر نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” من بعد ما اصابہم القرح “ سے ” الجراحات “ مراد ہیں یعنی زخم۔ (14) سعید بن منصور نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ اس طرح پڑھا کرتے تھے لفظ آیت ” من بعد ما اصابہم القرح “۔ (15) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ان دونوں (آیتوں) لفظ آیت ” للذین احسنوا منہم واتقوا اجر عظیم “ اور ” الذین قال لہم الناس “ کے درمیان فصل کیا کرو۔ (16) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب ابو سفیان اور اس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ سے واپس ہو کر نادم ہوئے تو انہوں نے (آپس میں) کہا لوٹ جاؤ اور ان کو جڑ سے اکھاڑ دو (یعنی) ان کو ملیا میٹ کردو تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا تو وہ واپس لوٹ گئے ایک دیہاتی ان کو (راستے میں) ملا تو انہوں نے اس کو کچھ اجرت دی اور اس سے کہا کہ اگر تو محمد ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ سے ملے تو ان کو یہ خبر دے دینا کہ ہم نے ان کے لیے بڑا لشکر تیار کیا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو اس کی خبر دے دی تو آپ نے حمرء الاسد تک ان کا پیچھا کیا وہ دیہاتی راستے میں ملا تو اس نے ان کو (کافروں کے جمع ہونے کی) خبر دی تو صحابہ ؓ نے فرمایا لفظ آیت ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “ پھر صحابہ کرام ؓ حمرء الاسد سے واپس لوٹے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اور اس دیہاتی کے بارے میں جو ان سے ملا تھا (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” الذین قال لہم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوہم “۔ (17) ابن سعد نے ابن ابزی (رح) سے ” الذین قال لہم الناس “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ ابو سفیان نے قافلہ والوں کو کہا تھا اگر تم محمد ﷺ کے ساتھیوں سے ملو تو ان کو خبر دے دو کہ ہم ان کے لیے لشکر تیار کئے ہیں قافلہ والوں نے رسول اللہ ﷺ کو بتایا تو صحابہ ؓ نے کہا لفظ آیت ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “ (ہمارے لئے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے) ۔ (18) ابن جریر نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ابو سفیان احد سے لوٹتے وقت ایک تجاری قافلے سے ملا جو مدینہ منورہ میں اپنے سامان کو لے کر آ رہا تھا جبکہ قریش اور نبی اکرم ﷺ کے درمیان پہاڑ حائل تھا ابو سفیان نے ان (قافلے والوں) سے کہا مجھ پر لازم ہے کہ انعام دیکر تم کو راضی کر دوں اگر تم محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو واپس کر دو اور اگر تم ان کو میری طلب میں پاؤ تو ان کو یہ خبر دے دو کہ میں نے ان (کے مقابلہ) کے لیے بڑا (لشکر) جمع کرلیا ہے یہ قافلہ رسول اللہ ﷺ سے ملا تو ان لوگوں نے کہا اے محمد ! ﷺ ہم آپ کو خبر دیتے ہیں کہ ابو سفیان نے آپ (کے مقابلہ) کے لیے ایک بڑا لشکر جمع کرلیا ہے اور مدینہ منورہ کی طرف بڑھ رہا ہے اگر آپ چاہیں تو مدینہ کی طرف لوٹ جائیں مگر اس (خبر) نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کے یقین کو اور زیادہ کردیا اور انہوں نے کہا لفظ آیت ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “ اور اللہ تعالیٰ (یہ آیت) نازل ہوئی لفظ آیت ” الذین قال لہم الناس ان الناس قد جمعوا “۔ صحابہ کرام ؓ کی قوت ایمانی کا ذکر (19) عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ میں سے ایک جماعت ان کے پیچھے چلی ابو سفیان اور اس کے ساتھیوں کے احد سے چلے جانے کے بعد یہاں تک کہ وہ جب ذوالحلیفہ میں تھے تو دیہاتی اور دوسرے لوگ ان کے پاس آئے اور ان کو کہنے لگے کہ ابو سفیان لوگوں کے ساتھ تم پر (دوبارہ) حملہ کرنے والا ہے تو صحابہ کرام ؓ نے فرمایا لفظ آیت ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “ تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری ” الذین قال لہم الناس “۔ (20) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ابو مالک ؓ سے لفظ آیت ” الذین قال لہم الناس “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ ابو سفیان نے احد کے دن یا احزاب کے دن قریش غطفان اور ھوازن (قبائل) کی طرف کہلا بھیجا کہ رسول اللہ ﷺ پر لشکر بنا کر آجاؤ یہ بات رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو پہنچی تو یہ کہا گیا کہ مسلمانوں میں ایک جماعت جائے جو تمہاری خبر لے آئے تو ایک جماعت چلی گئی یہاں تک کہ جب وہ اس جگہ پر تھی کہ جس کے بارے میں ان کو بتایا گیا تھا کہ وہ اس (جگہ) میں ہیں لیکن انہوں نے کسی کو نہ دیکھا تو وہ واپس لوٹ آئے۔ (21) ابن مردویہ اور خطیب نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ احد کے دن تشریف لائے تو آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ ! ” ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوہم “ یعنی لوگ تمہارے لئے جمع ہو رہے ہیں اس لئے تم ڈر جاؤ۔ تو آپ نے فرمایا ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ” الذین قال لہم الناس “۔ (22) ابن مردویہ نے ابو رافع (رح) سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی ؓ کو چند افراد کے ساتھ ابو سفیان کی تلاش میں بھیجا تو (قبیلہ) خزاعہ کے ایک دیہاتی ان سے ملا اور اس نے کہا لفظ آیت ” ان القوم قد جمعوا لکم “ تو انہوں نے فرمایا ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “ تو ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (23) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے اس آیت ” ان القوم قد جمعوا لکم “ کے بارے میں روایت کیا ابو سفیان نے محمد ﷺ کو احد کے دن کہا تھا ہمارا آئندہ مقابلہ بدر کے مقام پر ہوگا جہاں تم نے ہمارے ساتھیوں کو قتل کیا تھا محمد ﷺ نے فرمایا ممکن ہے ایسا ہو اس لیے رسول اللہ ﷺ اپنے وعدہ کے مطابق چلے یہاں تک کہ آپ بدر کے مقام پر اترے اور بازار میں پہنچے خریدو خروخت کی اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فانقلوا بنعمۃ من اللہ وفضل لم یمسسہم “ اور یہ بدر صغریٰ کا واقعہ ہے۔ (24) سعید بن منصور وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ بدر تجارتی منڈی تھی جاہلیت کے زمانے میں اور رسول اللہ ﷺ نے وعدہ فرما لیا تھا ابو سفیان سے کہ وہ اس مقام پر ملیں گے پس صحابہ ؓ کو ایک آدمی ملا اور ان سے کہا کہ مشرکین کا وہاں پر بڑا لشکر اکٹھا ہے پس جو بزدل تھے وہ لوٹ آئے جو بہادر تھے انہوں نے تجارت اور جنگ کا سامان ساتھ لے لیا اور انہوں نے کہا لفظ آیت ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “ یعنی ہم کو اللہ کافی ہے اور بہترین کارساز ہے پھر صحابہ ؓ کی طرف نکلے یہاں تک کہ اس مقام یعنی بدر کے مقام پر آئے اور انہوں نے خوب تجارت کی اور کسی ایک دشمن سے بھی ملاقات نہیں کی اس پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” الذین قال لہم الناس “ قول ” بنعمۃ من اللہ وفضل “۔ (25) ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فزادہم ایمانا “ سے مراد ہے کہ ایمان زیادہ بھی ہوتا ہے اور کم بھی ہوتا ہے۔ (26) بخاری و نسائی وابن ابی حاتم و بیہقی نے دلائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “ کہ یہ کلام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کی تھی جب وہ آگ میں ڈالے گئے اور محمد ﷺ نے اس کلام کو کہا جب لوگوں نے کہا تھا لفظ آیت ” ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوہم فزادہم ایمانا وقالوا حسبنا اللہ ونعم الوکیل “ یعنی لوگ تمہارے لیے جمع ہوچکے ہیں پس تم ان سے ڈر جاؤ اس بات نے ان کے ایمان کو اور زیادہ کردیا اور انہوں نے کہا اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور بہترین کار ساز ہے۔ (27) بخاری وابن المنذر وحاکم اور بیہقی نے الاسماء الصفات میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ آخری بات ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ تھی جب وہ آگ میں ڈالے گئے یعنی لفظ آیت ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “ اور تمہارے نبی نے اسی طرح کہا تھا۔ لفظ آیت ” الذین قال لہم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوہم فزادہم ایمانا وقالوا حسبنا اللہ ونعم الوکیل “۔ (28) عبد الرزاق ابن ابی شیبہ نے ابن جریر اور ابن المنذر نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ وہ کلمہ ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تھا جب وہ لوگ آگ میں ڈالے گئے یعنی لفظ آیت ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “ اور یہ وہ کلمہ ہے جس کو تمہارے نبی اور آپ کے صحابہ نے کہا تھا جب ان سے کہا گیا لفظ آیت ” ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوہم “ یعنی لوگ تمہارے لئے جمع ہوچکے ہیں پس تم ان سے ڈر جاؤ (لیکن انہوں نے کہا ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور بہترین کارساز ہے) ۔ (29) ابن مردویہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم کسی بڑی پریشانی میں واقع ہوجاؤ تو یوں کہا کرو لفظ آیت ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “۔ (30) ابن ابی الدنیا نے ذکر میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ کو جب سخت غم پیش آتا تو آپ اپنے ہاتھ کو اپنے سر اور داڑھی پر پھیرتے پھر آپ لمبی سانس لیتے ہوئے یوں فرماتے اللہ میرے لیے کافی ہے اور بہترین کارساز ہے۔ (31) شداد بن اوس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لفظ آیت ” حسبی اللہ ونعم الوکیل “ یہ امان ہے ہر خوف زدہ کے لیے۔ فجر کے بعد دس کلمات کہنے کی برکات (32) الحکیم الترمذی نے حضرت بریدہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص دس کلمات کہے ہر صبح کی نماز کے بعد پائے گا اللہ تعالیٰ کو ان کے پاس کفایت شعاری کرنے والا اور جزا دینے والا (یہ کلمات) پانچ دنیا کے لیے ہیں اور پانچ آخرت کے لیے ہیں (جن کا ترجمہ یہ ہے) کافی ہے اللہ تعالیٰ میرے دین کے لیے کافی ہے اللہ تعالیٰ اس کام کے لیے جس کا میں ارادہ کروں کافی ہے اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے جو مجھ پر بغاوت کرے کافی ہے اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے جو میرے ساتھ حسد کرے کافی ہے اللہ تعالیٰ میرے لیے موت کے وقت کافی ہے اللہ تعالیٰ میرے لئے سوال کرنے کے وقت قبر میں کافی ہے اللہ تعالیٰ میرے لیے کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اسی پر بھروسہ کیا اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔ (33) بیہقی نے دلائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فانقلبوا بنعمۃ من اللہ وفضل “ میں (النعمۃ) سے مراد ہے کہ وہ صحیح سالم واپس آئے اور الفضل سے مراد ہے کہ ایک قافلہ گزرا اور موسم کے دنوں میں رسول اللہ ﷺ نے اس قافلے سے کچھ خرید فرمایا آپ نے بہت سا نفع کمایا پھر آپ نے نفع کو اپنے صحابہ میں تقسیم فرمایا۔ (34) ابن جریر ابن المنذر ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ الفضل سے مراد ہے تجارت اور نفع۔ (35) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو دراہم دئیے گئے بدر صغریٰ کے موقع پر جب آپ غزوہ کی طرف نکلے جس سے خریدوفروخت کی بدر کی تجارتی میلہ میں اور ان سے نفع کمایا اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قول ہے لفظ آیت ” فانقلبوا بنعمۃ من اللہ وفضل لم یمسسہم سوء “ راوی نے فرمایا کہ نعمت سے مراد عافیت ہے اور فضل سے مراد تجارت ہے اور سوء سے مراد قتل ہے۔ (36) ابن جریر وابن ابی حاتم کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” لم یمسسہم سوء “ سے مراد ہے کہ ان میں سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچی اور لفظ آیت ” واتبعوا رضوان اللہ “ سے مراد ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی۔ (37) الفریابی وعبد بن حمید ابن ابی حاتم وابن الانباری نے المصاحف میں عطا کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ اس آیت کو یوں پڑھتے تھے لفظ آیت ” انما ذلکم الشیطن یخوف اولیاء ہ “۔ (38) ابن جریر نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” انما ذلکم الشیطن یخوف اولیاء ہ “ کہ اس آیت سے مراد ہے کہ شیطان ایمان والوں کو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے۔ (39) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” انما ذلکم الشیطن یخوف اولیاء ہ “ سے مراد ہے کہ وہ ایمان والوں کو کافروں سے ڈراتا ہے۔ (40) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” یخوف اولیاء ہ “ سے مراد ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو بڑا بناتا ہے تمہاری آنکھوں میں۔ (41) ابن المنذر نے عکرمہ ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس کی تفسیر یہ ہے کہ وہ تم کو ڈراتا ہے اپنے دوستوں سے۔ (42) ابن المنذر نے ابراہیم (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس سے مراد ہے شیطان کا ڈرانا ہے اور شیطان سے اس کا دوست ہی ڈرتا ہے۔
Top