Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 183
اَلَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ عَهِدَ اِلَیْنَاۤ اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّٰى یَاْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْكُلُهُ النَّارُ١ؕ قُلْ قَدْ جَآءَكُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِیْ بِالْبَیِّنٰتِ وَ بِالَّذِیْ قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوْهُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے قَالُوْٓا : کہا اِنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ عَهِدَ : عہد کیا اِلَيْنَآ : ہم سے اَلَّا : کہ نہ نُؤْمِنَ : ہم ایمان لائیں لِرَسُوْلٍ : کسی رسول پر حَتّٰى : یہاں تک يَاْتِيَنَا : وہ لائے ہمارے پاس بِقُرْبَانٍ : قربانی تَاْكُلُهُ : جسے کھالے النَّارُ : آگ قُلْ : آپ کہ دیں قَدْ جَآءَكُمْ : البتہ تمہارے پاس آئے رُسُلٌ : بہت سے رسول مِّنْ قَبْلِيْ : مجھ سے پہلے بِالْبَيِّنٰتِ : نشانیوں کے ساتھ وَبِالَّذِيْ : اور اس کے ساتھ جو قُلْتُمْ : تم کہتے ہو فَلِمَ : پھر کیوں قَتَلْتُمُوْھُمْ : تم نے انہیں قتل کیا اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صٰدِقِيْنَ : سچے
جنہوں نے کہا بیشک اللہ نے ہم سے یہ فرمایا کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک کہ ہمارے پاس ایسی قربانی کی چیز نہ لائے جسے آگ کھاجائے، آپ فرما دیجئے مجھ سے پہلے بہت سے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے اور جو تم کہہ رہے ہو وہ بھی لائے پھر تم نے ان کو کیوں قتل کیا اگر تم سچے ہو ؟
(1) ابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” حتی یاتینا بقربان تاکلہ النار “ سے مراد ہے کہ ایک آدمی ہم میں سے صدقہ کرتا تھا اور وہ جب قبول ہوتا تھا تو اس پر آسمان سے آگ اترتی تھی جو اس کو کھا لیتی تھی۔ (2) ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم سے پہلی امتوں میں سے جب کوئی قربانی پیش کرتا تھا تو لوگ باہر نکل آتے تھے اور دیکھتے تھے کہ قربانی قبول ہوتی ہے یا نہیں اگر وہ قبول ہوتی تو آگ نہ ہوتی تو لوگ پہچان لیتے کہ اس کی قربانی قبول نہیں جب اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو بھیجا تو ان سے اہل کتاب نے قربانی لانے کا سوال کیا (تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا) لفظ آیت ” قل قد جاء کم رسل من قبلی بالبینت وبالذی قلتم “ یعنی مجھ سے پہلے تمہارے پاس آئے دلائل لے کر اور اس چیز کو لے کر آئے جو تم نے کہا قربانی ” فلم قتلتموہم “ پھر تم نے ان کو کیوں قتل کیا) یعنی ان کو عار دلائی ان کے کفر کی وجہ سے۔ (3) ابن المنذر ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے لفظ آیت ” الذین قالوا ان اللہ عہد “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ وہ یہودی تھے جنہوں نے محمد ﷺ سے کہا اگر تو ہمارے پاس قربانی کو لے آئے جس کو آگ کھالے تو پھر ہم تیری تصدیق کریں گے ورنہ تو نبی نہیں ہے۔ (4) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے شعبی (رح) سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی کسی آدمی کے خون میں شریک ہوجاتا ہے جبکہ اس انسان کو اس کی پیدائش سے پہلے ہی قتل کیا گیا ہوتا ہے پھر شعبی (رح) نے یہ آیت تلاوت فرمائی لفظ آیت ” قل قد جاء کم رسل من قبلی بالبینت وبالذی قلتم فلم قتلتموہم “ اس زمانہ کے لوگوں کو ان کا قاتل قرار دیا گیا جبکہ سات سو سال پہلے ان کو قتل کردیا گیا تھا ان کی پیدائش سے پہلے لیکن ان لوگوں نے کہا یہ لوگ حق اور سنت پر قتل کئے گئے۔ (5) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے لفظ آیت ” قالوا ان اللہ عھد الینا “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا۔ ہر نبی کو معجزہ دیا گیا (6) ابن ابی حاتم نے العلاء بن بدر (رح) سے روایت کیا کہ رسول ﷺ معجزات لے کر آئے تھے اور بعض رسولوں کی نبوت کی نشانی یہ تھی کہ ان میں کا ایک آدمی گائے کے گوشت کو اپنے ہاتھ پر رکھ لیتا تھا آسمان سے ایک آگ آکر اس کو کھا جاتی تھی اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” قل قد جاء کم رسل من قبلی بالبینت وبالذی قلتم “۔ (7) ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے ” فان کذبوک “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس سے مراد یہودی ہیں کہ انہوں نے جھوٹ بولا۔ (8) ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فقد کذب رسل من قبلک “ سے مراد ہے کہ وہ اپنے نبی کو اذیت دیتا تھا۔ (9) ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے اور وہ اپنے اساتذہ سے روایت کرتے ہیں کہ ” بالبینت “ سے مراد ہے حلال اور حرام ” والزبر “ سے انبیاء کی کتابیں مراد ہیں اور ” والکتب المنیر “ سے قرآن مراد ہے۔ (10) ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے ” والزبر والکتب المنیر “ سے مراد ہے ایک چیز کو کئی گنابڑھا دیا جاتا ہے حالانکہ وہ ایک ہوتی ہے۔ قولہ تعالیٰ : کل نفس ذائقۃ الموت : (11) ابن ابی حاتم نے علی بن ابی طالب سے روایت کیا ہے کہ نبی ﷺ کی وفات ہوئی تو تعزیت کرنے والے آتے ایک آنے والا ان کے پاس اس طرح آیا کہ وہ اس کی آواز کو سن رہے تھے لیکن اس آدمی کو نہیں دیکھ رہے تھے اس نے کہا اسلام علیکم اے گھر والو ورحمۃ اللہ وبرکاتہ لفظ آیت ” کل نفس ذائقۃ الموت وانما توفون اجورکم یوم القیمۃ “ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے لیے صبر ہے پس تم اللہ پر اعتماد کرو اور اسی سے امید رکھو کیونکہ جو ثواب سے محروم رہا وہ حقیقت محروم زدہ ہے حضرت علی نے فرمایا یہ خضر تھے۔ (12) ابن ابی شیبہ وھناد وعبد بن حمید اور ترمذی اور حاکم دونوں نے اس کو صحیح کہا وابن حبان وابن جریر وابن ابی حاتم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک کوڑے کی جگہ جنت میں دنیا اور اس میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے اور تم پڑھ لو اگر تم چاہو ” فمن زحرح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور “۔ (13) ابن مردویہ نے سہل بن سعد ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک کوڑے کی جگہ جنت میں دنیا ومادفیھا سے بہتر ہے پھر یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” فمن زحرح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز “۔ (14) عبد بن حمید نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک صبح اور ایک شام اللہ کے راستے میں بہتر ہے دنیا سے اور جو کچھ اس میں ہے اور ایک کمان کے فاصلے کے برابر ان میں سے ایک آدمی کی جگہ جنت میں بہتر ہے دنیا وما فیھا سے اور جو کچھ اس میں ہے۔ (15) ابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے روایت کیا ہے کہ آخری آدمی جو جنت میں داخل ہوگا اس کو اتنی روشنی دی جائے گی کہ وہ برابر روشنی میں چلتا رہے گا یہاں تک کہ پل صراط سے پار ہوجاتا ہے اسی کو فرمایا لفظ آیت ” فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز “۔ (16) احمد نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص یہ پسندکرے کہ وہ آگ سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے تو وہ اپنے موت کو یوں پائے کہ وہ اللہ پر اور دن آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ لوگوں کی طرف وہ چیز لائے جو وہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس بھی وہی چیز لائی جائے۔ (17) الطستی نے اپنے مسائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نافع بن ازرق نے ان سے لفظ آیت ” فقد فاز “ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا وہ سعادت مند ہوگیا نجات پا گیا حضرت نافع نے پوچھا کیا عرب کے لوگ اس (معنی) کو جانتے ہیں انہوں نے فرمایا ہاں کیا تو نے عبد اللہ بن رواحہ ؓ کا یہ قول نہیں سنا : وعسی ان افوز ثمت القی حجۃ اتقی بھا الفتانا ترجمہ : امید ہے میں نجات پاؤں گا پھر ایسی دلیل ڈالوں گا جس سے فتنوں سے بچ جاؤں گا۔ (18) ابن جریر نے عبد الرحمن بن سبط (رح) سے لفظ آیت ” وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ جیسے توشہ ہے گدڑئیے کا کہ وہ توشہ بنا لیتا ہے کھجوروں کی ایک مٹھی یا تھوڑے سے آٹے سے زادرہ بنا لیتا ہے اور اس کے اوپر دودھ کو پی لیتا ہے۔ (19) ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور “ سے مراد ہے کہ یہ متروک سامان ہے اللہ کی قسم ممکن ہے یہ لوگوں سے کم ہوجائے اللہ کی قسم اگر تم طاقت رکھتے پس لے لو تم اس سامان سے اللہ کی اطاعت کو جہاں تک ممکن ہو اور نہیں ہے قوت مگر ساتھ اللہ کے۔
Top