Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 186
لَتُبْلَوُنَّ فِیْۤ اَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ١۫ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَذًى كَثِیْرًا١ؕ وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ
لَتُبْلَوُنَّ : تم ضرور آزمائے جاؤگے فِيْٓ : میں اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال وَاَنْفُسِكُم : اور اپنی جانیں وَلَتَسْمَعُنَّ : اور ضرور سنوگے مِنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دی گئی مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَمِنَ : اور۔ سے الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا : جن لوگوں نے شرک کیا (مشرک) اَذًى : دکھ دینے والی كَثِيْرًا : بہت وَاِنْ : اور اگر تَصْبِرُوْا : تم صبر کرو وَتَتَّقُوْا : اور پرہیزگاری کرو فَاِنَّ : تو بیشک ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے عَزْمِ : ہمت الْاُمُوْرِ : کام (جمع)
تم لوگ ضرور ضرور آزمائے جاؤگے اپنی جانوں اور مالوں کے بارے میں اور جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی اور جن لوگوں نے شرک کیا ان کی طرف سے ضرور بالضرور بہت سی باتین دل آزاری کی سنو گے، اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو بلاشبہ یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔
(1) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” لتبلون “ الایہ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بتایا کہ وہ ایمان والوں کو عنقریب آزمائیں گے اور دیکھیں گے کس طرح وہ صبر کرتے ہیں اپنے دین پر۔ (2) ابن جریر وابن ابی حاتم نے زہری (رح) سے اس بارے میں روایت کیا ہے کہ اس سے مراد کعب بن اشرف ہے اور وہ ابھارتا تھا مشرکین کو نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ پر اپنے شعروں میں اور ہو ہجو کرتا تھا نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کی۔ (3) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے لفظ آیت ” ولتسمعن من الذین اوتوا الکتب “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس سے مراد یہودی اور نصرانی ہیں اور مسلمان یہودیوں کی یہ باتیں سنتے تھے کہ عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ سے یہ سنتے تھے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور مسلمان ان کے جنگ بھی کرتے تھے اور ان سے اللہ کے ساتھ شرک کرنے کو بھی کم کرتے تھے (اسی پر یہ آیت اتری) لفظ آیت ” وان تصبروا وتتقوا فان ذلک من عزم الامور “ یعنی ان چیزوں میں سے کہ جس کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا اور تم کو اس کے ساتھ حکم فرمایا وہ قوی ہے۔ (4) ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وان تصبروا وتتقوا “ الآیہ۔ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو حکم فرمایا کہ وہ ان کی تکلیفوں پر صبر کریں اے محمد ﷺ کے صحابہ تم کچھ بھی نہیں ہو ہم بہترین ہیں تم سے اللہ کے ہاں تم گواہ ہو تو حکم فرمایا گیا کہ ان سے گزر جاؤ اور صبر کرو۔ (5) ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” فان ذلک من عزم الامور “ سے مراد ہے کہ یہ صبر کرنا ہے تکلیفوں پر نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے میں سے ہے لفظ آیت ” من عزم الامور “ سے مراد ہے کہ ان کاموں میں سے ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔
Top