Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 188
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا وَّ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
لَا تَحْسَبَنَّ : آپ ہرگز نہ سمجھیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَفْرَحُوْنَ : خوش ہوتے ہیں بِمَآ : اس پر جو اَتَوْا : انہوں نے کیا وَّيُحِبُّوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْمَدُوْا : ان کی تعریف کی جائے بِمَا : اس پر جو لَمْ يَفْعَلُوْا : انہوں نے نہیں کیا فَلَا : پس نہ تَحْسَبَنَّھُمْ : سمجھیں آپ انہیں بِمَفَازَةٍ : رہا شدہ مِّنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
آپ ہرگز خیال نہ کریں کہ جو لوگ اپنے کئے پر خوش ہوتے ہیں اور اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ جو کام انہوں نے نہیں کئے ان پر ان کی تعریف کی جائے ان کے بارے میں آپ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ وہ عذاب سے چھوٹ گئے اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
(1) بخاری ومسلم واحمد ترمذی و نسائی وابن جریر ابن المنذر وابن ابی حاتم و طبرانی وحاکم و بیہقی نے شعب الایمان میں حمید بن عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا ہے کہ مروان نے اپنے دربان سے کہا اے رافع ابن عباس ؓ کے پاس جاؤ اور اس سے کہو اگر ہر آدمی ہم میں سے اپنے کئے پر خوش ہو اور وہ محبوب رکھتا ہے اس بات کو کہ اس کی تعریف کی جائے اس کام پر جو اس نے نہیں (کیا) اس پر اس کو عذاب ہوگا یا ہم (سب کے سب) ضرور عذاب دئیے جائیں گے ابن عباس ؓ نے فرمایا تمہارا اس آیت سے کیا تعلق یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی پھر ابن عباس ؓ نے یہ آیت بھی تلاوت فرمائی لفظ آیت ” واذ اخذ اللہ میثاق الذین اوتوا الکتب لتبیننہ للناس “ اور یہ آیت بھی تلاوت فرمائی ” لا تحسبن الذین یفرحون بما اتوا “ پھر ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ان کے نبی نے ان سے ایک چیز پوچھی تو انہوں نے اس کو چھپایا اور اس کے علاوہ دوسری بات بتادی وہ لوگ باہر نکلے اور یہ ظاہر کر رہے تھے کہ آپ نے جو ان سے پوچھا تھا وہی ان کو بتایا اور اس پر تعریف کے طالب ہوئے اور چھپانے پر خوش ہونے لگے جو ان سے سوال کیا گیا تھا۔ (2) بخاری ومسلم وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے اور البیہقی نے شعب الایمان میں ابو سعیدخدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ منافقین میں سے کچھ لوگ پیچھے رہ جاتے تھے جب رسول اللہ کسی جنگ میں تشریف لے جاتے تھے تو یہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف اپنے بیٹھ رہنے سے خوش ہوتے تھے جب رسول اللہ ﷺ جنگ سے واپس تشریف لاتے تو یہ لوگ آپ سے عذر کرتے اور قسمیں اٹھاتے اور اس بات کو پسند کرتے کہ جو کام انہوں نے نہیں کیا اس پر ان کی تعریف کی جائے تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” لا تحسبن الذین یفرحون بما اتوا “۔ منافقین جہاد میں نکلنے سے عذر کرتے تھے (3) عبد بن حمید نے زید بن اسلم سے روایت کیا رافع بن خدیج اور زید بن ثابت ؓ دونوں حضرات مروان کے پاس تھے جبکہ وہ مدینہ منورہ کے گورنر تھے مروان نے کہا اے رافع ! کس چیز کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” لا تحسبن الذین یفرحون بما اتوا “ رافع نے کہا یہ آیت منافقین کے بعد لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جب نبی ﷺ (کسی جنگ کے لیے) باہر نکلتے تھے تو یہ لوگ عذر کردیتے تھے اور وہ کہتے تھے آپ کے ساتھ جانے سے ہم کو مصروفیات نے روک لیا ورنہ ہم آپ کے ساتھ جانے کو پسند کرتے تھے تو ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی مروان نے اس بات سے انکار کیا رافع اس سے گھبرا گئے تو اس نے زید بن ثابت سے کہا میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو جو میں نے کہا اس نے کہا ہاں جب دونوں مروان سے (ہو کر) باہر آئے تو زید نے اس سے کہا کیا تو میری تعریف نہیں کرتا کہ میں نے تیرے لیے شہادت دی اس نے کہا تیری تعریف کرتا ہوں کہ تو نے سچی گواہی دی زید ؓ نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ نے حق بات کہنے والوں کی تعریف فرمائی ہے۔ (4) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ لوگ منافق تھے جو نبی ﷺ کو کہتے تھے اگر آپ (جہاد کے لیے) نکلے تو ہم بھی آپ کے ساتھ نکلیں گے جب وہ نبی ﷺ (جہاد کے لیے) نکلے تو وہ پیچھے رہ گئے انہوں نے جھوٹ بولا اور اس حرکت پر خوش ہو رہے تھے اور وہ یہ خیال کررہے تھے کہ یہ ایک حیلہ تھا جو انہوں نے کیا۔ (5) ابن اسحاق وابن جریر وابن ابی حاتم نے عکرمہ کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس سے مراد فخاص اور اشیع اور ان جیسے دوسرے علماء ہیں جو خوش ہوتے تھے دنیا کا مال ومتاع مل جانے سے کیونکہ وہ لوگوں کے لیے گمراہی کا راستہ مزین کرتے (اور فرمایا) لفظ آیت ” ویحبون ان یحمدوا بما لم یفعلوا “ یعنی وہ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ ان کی تعریف کی جائے جو کام انہوں نے کہا (اس طرح سے) کہ لوگ ان کو علماء کہیں حالانکہ وہ اہل علم نہیں تھے لوگوں کو ہدایت پر اور نہ خیر پر آمادہ کرتے جبکہ پسند کرتے تھے کہ لوگ ان کے لیے یہ کہیں کہ انہوں نے یہ عمل کیا ہے۔ (6) ابن جریر وابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس سے مراد اہل کتاب ہیں ان پر کتاب نازل کی گئی مگر انہوں نے ناحق فیصلے کئے اور اللہ کے احکام میں تحریف کر ڈالی اور اس پر خوش ہوئے اور اس بات کو انہوں نے پسند کیا کہ اس کام پر ان کی تعریف کی جائے اور خوش ہوئے کہ انہوں نے محمد ﷺ کا انکار کیا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف نازل فرمایا اس کا بھی انکار کیا اور وہ اس خیال میں رہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر رہے ہیں اور روزے رکھتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں اور اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے رسول محمد ﷺ کا انکار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا بھی انکار کرتے ہیں اور (الٹا) یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے جو وہ نماز اور روزے کے اعمال کرتے ہیں۔ (7) عبد بن حمید وابن جریر نے ضحاک (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہود کے بعض لوگوں نے (اپنے) بعض لوگوں کو لکھا کہ محمد ﷺ نبی نہیں ہیں اپنی (اس) بات پر جمے رہو انہوں نے ایسا ہی کیا اور اس پر خوش بھی ہوئے اور محمد ﷺ کے انکار پر بھی اکٹھے ہو کر خوش ہوئے۔ (8) ابن جریر نے سدی (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ انہوں نے محمد ﷺ کے نام کو چھپایا اور اس پر خوش ہوئے جب سب نے اس کام پر اتفاق کیا اور وہ اپنے آپ کو پاکیزہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے ہم روزہ نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں اور ہم ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہیں تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” لا تحسبن الذین یفرحون بما اتوا “ یعنی محمد ﷺ (کے نام) کو چھپانے سے خوشی کا اظہار کرتے ہو پھر فرمایا لفظ آیت ” ویحبون ان یحمدوا بما لم یفعلوا “ یعنی وہ اس بات کو محبوب رکھتے ہیں کہ عرب تمہاری تعریف کریں تمہاری پاکیزگی پر جبکہ تم ایسے نہیں ہو۔ (9) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر ؓ سے ” لا تحسبن الذین یفرحون بما لم یفعلوا “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ ان کا قول تھا کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہیں۔ (10) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہودی اس بات پر خوش تھے کہ لوگ خوش ہیں ان کے کتاب تبدیل کرنے پر اور اس پر ان کی تعریف کرتے ہیں حالانکہ یہودی اس (تبدیلی) کے مالک نہیں تھے اور ہرگز وہ ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ (11) ابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس سے مراد وہ یہودی ہیں جو خوش ہوتے تھے اس چیز سے جو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو عطا فرمائی۔ خیبر کے یہود کی شرارت (12) عبد بن حمید وابن نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ خیبر کے یہودی نبی ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے یہ خیال کیا وہ اس دین پر راضی ہیں جو وہ اب لے کر آئے اور وہ اسی کی تابعداری کرنے والے ہیں جبکہ وہ گمراہی کو پکڑنے والے تھے اور انہوں نے یہ بھی ارادہ کیا کہ نبی ﷺ ان کی اس بات پر تعریف کریں جو انہوں نے عمل نہیں کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے اتارا لفظ آیت ” لا تحسبن الذین یفرحون “۔ (13) عبد الرزاق وابن جریر نے وجہ آخر سے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ خیبر والے نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم آپ کی رائے پر ہیں اور ہم آپ کے حمایتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کو جھوٹا قرار دیا۔ (14) ابن ابی حاتم نے حسن بصری (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ خیبر والوں میں سے (کچھ) یہودی نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے ہم نے دین کو قبول کیا اور ہم اس پر راضی ہوگئے (لیکن) وہ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ ان کی تعریف کی جائے اس کام پر جو انہوں نے نہیں کیا۔ (15) مالک وابن سعد والبیہقی نے دلائل میں محمد بن ثابت (رح) سے روایت کیا ہے کہ ثابت بن قیس ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں ڈر رہا ہوں کہ میں ہلاک نہ جاؤں آپ نے فرمایا کیوں ! عرض کیا ہم کو اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا کہ ہم تعریف کو پسند نہ کریں اس کام پر جو ہم نے نہیں کیا اور میں اپنے آپ کو پاتا ہوں کہ تعریف کو پسند کرتا ہوں اور ہم کو تکبر سے منع کیا گیا اور میں اپنے آپ کو پاتا ہوں کہ میں خوبصورتی کو پسند کرتا ہوں اور ہم کو آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا آپ کی آواز سے اور میں اونچی آواز والا آدمی ہوں آپ نے فرمایا اے ثابت ! کیا تو پسند نہیں کرتا کہ تو اچھی زندگی گذارے اور شہید ہو کر مرے اور تو جنت میں داخل ہوجائے انہوں نے اچھی زندگی گذاری اور مسیلمہ کذاب کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ (16) الطبرانی نے محمد بن ثابت (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو ثابت بن قیس ؓ نے بیان فرمایا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یقینی طور پر میں ڈرتا ہوں آگے اسی طرح اس کو ذکر فرمایا۔ (17) ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا ہے کہ بنی اسرائیل میں کچھ لوگ عبادت کرنے والے فقہاء تھے بادشاہ ان کے پاس حاضر ہوئے ان علماء نے بادشاہوں کو رخصتیں دیں اور بادشاہوں نے ان کو (خوب) ہدایا اور عطیات دئیے علماء اس بات پر خوش تھے کہ جو بادشاہوں نے ان کی بات مان لی ہے اور جو ان کو عطیات دئیے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ” لا تحسبن الذین یفرحون بما اتوا “۔ (18) عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ابراہیم (رح) سے لفظ آیت ” لا تحسبن الذین یفرحون بما اتوا “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہودیوں میں سے کچھ لوگوں نے رسول ﷺ سے (لڑنے) کے لیے ایک ایک فوجی دستہ تیار کیا۔ (19) ابن ابی حاتم نے احنف بن قیس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے ان سے کہا کیا آپ جھکیں گے نہیں تاکہ آپ کی پیٹھ پر سوار ہوں فرمایا شاید آپ عراضین میں ہوجائیں پوچھا عراضون کون ہیں ؟ اس نے کہا لفظ آیت ” الذین یفرحون بما اتوا ویحبون ان یحمدوا بما لم یفعلوا “ (یعنی جو لوگ اس بات کو) پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے ان کاموں پر جو انہوں نے نہیں کئے (پھر فرمایا) جب تیرے لئے حق بات کو پیش کیا جائے تو اسی کا ارادہ کرلے اور اس کے علاوہ سب کو چھوڑ دے۔ (20) ابن ابی حاتم نے یحییٰ بن یعمر (رح) سے لفظ آیت ” فلا تحسبنہم “ کے بارے میں نقل کیا ہے۔ (21) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” فلا تحسبنہم “ پڑھا یعنی سین کے کسرہ اور باء کے رفع کے ساتھ۔ (22) ابن المنذر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” بمفازۃ “ سے مراد ہے ” بمفازۃ “ نجات کے ساتھ۔
Top