Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 192
رَبَّنَاۤ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَهٗ١ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ
رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو مَنْ : جو۔ جس تُدْخِلِ : داخل کیا النَّارَ : آگ (دوزخ) فَقَدْ : تو ضرور اَخْزَيْتَهٗ : تونے اس کو رسوا کیا وَمَا : اور نہیں لِلظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کے لیے مِنْ : کوئی اَنْصَارٍ : مددگار
اے ہمارے رب اس میں شک نہیں کہ جسے آپ دوزخ میں داخل فرما دیں تو واقعی آپ نے اس کو رسوا کردیا، اور ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں۔
(1) ابن ابی شیبہ وابن ابی حاتم نے ابو درداء اور ابن عباس ؓ دونوں سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا نام رب ہے۔ (2) ابن جریر ابن ابی حاتم نے انس ؓ سے لفظ آیت ” من تدخل النار فقد اخزیتہ “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس سے مراد ہے کہ جس کو آپ ہمیشہ دوزخ میں داخل فرما دیں تو تحقیق آپ نے اس کو رسوا کردیا۔ (3) عبد الرزاق وعبد بن حمید وابن المنذر نے سعید بن حسیب (رح) سے لفظ آیت ” ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ حکم خاص ان لوگوں کے لیے ہے جن کو جہنم سے نہیں نکالا جائے گا۔ (4) ابن جریر والحاکم نے عمرو بن دینار (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہمارے پاس جابر بن عبد اللہ ؓ عمرہ میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا مجھے رسول اللہ ﷺ نے بتایا کہ اس سے کافر مراد ہیں میں نے (پھر) جابر ؓ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” انک من تدخل النار فقد اخزیتہ “ سے کیا مراد ہے تو انہوں نے فرمایا کہ اس شخص کو اللہ نے رسوا نہیں کیا جس کو اس نے جلایا رسوا کرنا اس سے کم درجہ کا عذاب ہے۔ (5) ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” منادیا ینادی للایمان “ سے محمد ﷺ مراد ہیں۔ (6) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم والخطیب نے المتفق میں محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” سمعنا منادیا ینادی للایمان “ سے قرآن مراد ہے کیونکہ سب نبی ﷺ کے فرمان کو نہیں سن پاتے۔ (7) عبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ انہوں نے اللہ کی طرف سے دعوت کو سنا اور اس کو قبول کیا اچھی طرح (عمل) کیا اور (عمل) کرنے میں جو تکلیفیں آئیں ان پر صبر کیا اللہ تعالیٰ تم کو خبر دیتا ہے مومن انسان کے بارے میں کہ اس نے کہا اور مومن جنوں کے بارے میں خبر دیتا ہے اس نے کہا جیسے کہ مومن جن نے کہا لفظ آیت ” انا سمعنا قرآن عجبا (1) یھدی الی الرشد فامنا بہ ولن نشرک بربنا احد (2) “ اور جیسے مومن انسان نے کہا لفظ آیت ” ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان امنوا بربکم فامنا ربنا فاغفرلنا ذنوبنا وکفر عنا سیاتنا وتوفنا مع الابرار (193) “۔ (8) ابن جریر ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ربنا واتنا ما وعدتنا علی رسلک “ سے مراد ہے کہ عنقریب تم کو جزا دیں گے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ وعدہ کیا تھا۔ (9) عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولا تخزنا یوم القیمۃ “ سے مراد ہے کہ (اے اللہ) ہم کو رسوا نہ کر قیامت کے دن (پھر فرمایا) ” انک لا تخلف المیعاد “ یعنی یہ وعدہ اس شخص کے لیے ہے جس نے ” لا الہ الا اللہ “ کہا (پھر فرمایا) ” فاستجاب لہم ربہم انی لا اضیع عمل عامل منکم “ یعنی لا الہ الا اللہ اور توحید اور اخلاص والوں کے لیے یہ وعدہ ہے کہ ان کو قیامت کے دن رسوا نہیں کروں گا۔ قیامت کے دن کی شرمندگی (10) ابو یعلی نے جابر ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شرمندگی اور رسوائی قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حد تک پہنچے گی کہ بندہ یہ تمنا کرے گا کہ اس کو جہنم میں پھینکنے کا حکم دیا جائے۔ (11) ابوبکر الشافعی نے اپنی رباعیات میں ابو قرصافہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ یوں دعا کیا کرتے تھے اے اللہ ہم کو قیامت کے دن رسوا نہ فرما اور ہم کو ملاقات کے دن بےعزت نہ فرما۔ (12) ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب تم میں سے کوئی ایک نماز میں تشہد سے فارغ ہوجائے تو اس کو چاہیے کہ وہ اس طرح کہے۔ ” اللہم انی اسئلک من الخیر کلہ ما علمت منہ وما لم اعلم واعوذبک من الشر کلہ ما علمت منہ وما لم اعلم، اللہم انی اسئلک من خیر ما سئلک عبادک الصالحون واعوذبک من شر ما اعاذ منہ عبادک الصالحون “ ترجمہ : اے اللہ میں سے آپ سے ساری خیر کا سوال کرتا ہوں جس کو میں جانتا ہوں اور جس کو میں نہیں جانتا اور آپ سے اس ساری برائی سے پناہ مانگتا ہوں جس کو میں جانتا ہوں اور جس کو میں نہیں جانتا اے اللہ ! میں آپ سے خیر کا سوال کرتا ہوں کہ جس کا آپ کے نیک بندوں نے سوال کیا اور میں آپ سے اس شر سے پناہ مانگتا ہوں کہ جس سے تیرے نیک بندوں نے پناہ مانگی “۔ پھر آپ نے لفظ آیت ” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار (201) “ پڑھی اور فرمایا اے ہمارے رب ہم آپ پر ایمان لے آئے پھر یہ دعا پڑھی ” فاغفرلنا ذنوبنا وکفر عنا سیاتنا وتوفنا مع الابرار “ سے لے کر ” انک لا تخلف المیعاد “ تک یعنی ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے اور ہماری برائیوں کو مٹا دے اور ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ موت دے۔ (13) ابن ابی شیبہ نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ فرض نماز میں قرآن کی دعائیں مانگی جائے۔ (14) ابن ابی شیبہ نے محمد بن سیرین (رح) سے روایت کیا کہ ان سے دعا کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا بہترین دعا وہ ہے جو قرآن کے موافق ہو۔ (15) احمد وابن ابی حاتم نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وادی عسقلان (دو عرسوں یعنی دلہن دولہا سے) ایک ہے اللہ تعالیٰ اس میں سے اٹھائیں گے ستر ہزار (لوگوں) کو ان پر کوئی حساب نہ ہوگا اور پھر اس میں سے اللہ تعالیٰ پچاس ہزار شہدا کو اٹھائے گا وفد کی صورت میں جن کے ساتھ شہداء کی صفیں ہوں گی جن کے سر خون بہا رہے ہوں گے ان کے ہاتھوں میں اور ان کی آنتوں سے خون بہہ رہا ہوگا اور وہ کہہ رہے ہوں گے لفظ آیت ” ربنا واتنا ما وعدتنا علی رسلک انک لا تخلف الیمعاد “ تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میرے بندون نے سچ کہا ان کو نہر بیضہ میں غسل دو تو وہ سفید ہو کر نکلیں گے اور وہ جنت میں سیر کریں گے جہاں چاہیں گے۔
Top