Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 196
لَا یَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فِی الْبِلَادِؕ
لَا يَغُرَّنَّكَ : نہ دھوکہ دے آپ کو تَقَلُّبُ : چلنا پھرنا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) فِي : میں الْبِلَادِ : شہر (جمع)
ہرگز دھوکہ میں نہ ڈالے آپ کو کافروں کا شہروں میں آنا جانا۔
(1) عبد بن حمید وابن المنذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” لا یغرنک تقلب الذین کفروا “ سے مراد ہے کہ ان کافروں کا رات اور دن گھومنا پھرنا اور دنیا کی نعمتوں کا مل جانا کافروں کے دھوکے میں نہ ڈالے پھر فرمایا لفظ آیت ” متاع قلیل ثم ماوہم جہنم وبئس المعھاد “ عکرمہ (رح) نے کہا کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اس سے مراد ہے کہ جہنم کتنا برا ٹھکانہ ہے۔ (2) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” لا یغرنک تقلب الذین کفروا فی البلاد “ سے مراد ہے کہ ان کا شہروں میں سفر کرنا (دھوکہ میں نہ ڈالے) ۔ (3) ابن جریر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اللہ کی قسم ! کافر اللہ کے نبی ﷺ کو دھوکہ نہ دے سکے نہ آپ نے سپرد کیا ان کی طرف کا کوئی حکم یہاں تک کہ اسی (حال) پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو (اس دنیا سے) اٹھا لیا۔ قولہ تعالیٰ : ” وما عند اللہ خیر الابرار “ (4) بخاری نے الادب المفرد میں وعبد بن حمید وابن ابی حاتم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام ابرار رکھا اس لیے انہوں نے باپوں اور بیٹوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ جیسا کہ تیرے والد کا تجھ پر حق ہے۔ اسی طرح تیری اولاد کا تجھ پر حق ہے۔ ابن مردویہ نے ابن عمر ؓ سے یہ مرفوع روایت نقل کی ہے لیکن پہلی روایت زیادہ صحیح ہے جو اپنی اولاد کو تکلیف نہیں دیتے ہوں۔ (5) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ ابرار سے مراد ہے، وہ لوگ جو اپنی اولاد کو ایذا نہیں دیتے۔ (6) ابن جریر نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وما عند اللہ خیر الابرار “ سے وہ شخص مراد ہے جو اللہ عزوجل کی اطاعت کرتا ہے۔
Top