Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 2
اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُؕ
اللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : معبود اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا الْحَيُّ : ہمشہ زندہ الْقَيُّوْمُ : سنبھالنے والا
اللہ ایسا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ ہے قائم رکھنے والا ہے۔
(1) ابن الانباری نے المصاحف میں ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے لفظ آیت ” ھو الحی القیوم “ پڑھا (2) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے ” القیوم “ سے مراد ہے ہر چیز کو قائم کرنے والا۔ (3) ابو عبید سعید بن منصور اور طبرانی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے اس طرح پڑھا ” الحی القیام “۔ (4) ابو عبید سعید بن منصور محمد بن حمید ابن داؤد ابن الانباری اکٹھے مصاحف میں ابن المنذر اور حاکم نے اس کو صحیح کہا کہ حضرت عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے عشاء کی نماز پڑھی تو سورة آل عمران کو شروع فرمایا اور یوں پڑھا لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “۔ (5) ابن ابی داؤد نے اعمش (رح) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ ؓ کی قرات میں لفظ آیت ” الحی القیوم “ تھا۔ (6) ابن جریر ابن الانباری نے علقمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے لفظ آیت ” الحی القیوم “ پڑھا۔ (7) ابن جریر ابن الانباری نے ابو معمر (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں نے علقمہ کو یوں پڑھتے ہوئے سنا ” الحی القیوم “ اور حضرت عبد اللہ ؓ کے اصحاب ” الحی القیوم “ پڑھتے تھے۔ (8) ابن ابی شیبہ نے مصنف میں عاصم بن کلیب (رح) سے روایت کیا ہے کہ اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ جمعہ میں جب خطبہ دیتے تھے تو سورة آل عمران کو پڑھنا پسند فرماتے تھے۔ وفد نجران کا تذکرہ (9) ابن اسحاق ابن جریر اور ابن المنذر نے محمد بن جعفر بن زبیر ؓ سے روایت کیا ہے کہ نجران کا وفد نبی اکرم ﷺ کے پاس ساٹھ سواروں کے ساتھ آیا ان میں سے چودہ آدمی ان کے سرداروں میں سے تھے ان میں سے ابو حارثہ بن علقمہ، عاقب، عبد المسیح اور ایہم السید نے رسول اکرم ﷺ سے بات کی وہ ایہم نصرانیت میں اپنے بادشاہ کے دین پر تھا ان کا آپس میں باہم اختلاف تھا (بعض ان میں سے) کہتے تھے کہ (عیسیٰ علیہ السلام) وہی خدا ہے اور (بعض) کہتے تھے وہ خدا کا بیٹا ہے اور بعض کہتے تھے کہ وہ تین خداؤں میں سے ایک ہے اسی طرح نصرانیوں کا قول ہے اور وہ لوگ اپنے قول میں (اس بات سے) دلیل پکڑتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ (عیسیٰ علیہ السلام) وہی خدا ہے کیونکہ وہ مردوں کو زندہ کردیتے تھے بیماروں کو اچھا کردیتے تھے غیب کی خبریں دیتے تھے اور مٹی سے پرندے کی شکل بنا کر اس کو پھونک دیتے تھے تو وہ اصلی پرندہ بن جاتا تھا حالانکہ یہ سارے کام اللہ کے حکم سے ہوتے ہیں تاکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو لوگوں کے لیے ایک معجزہ بنا دے اور بیٹا ہونے کا استدلال وہ اس سے کرتے کہ وہ کہتے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا کوئی باپ نہیں تھا اور آپ نے گہوارہ (یعنی ماں کی گود) میں بات کی۔ آدم کے بیٹوں میں سے کسی نے پہلے ایسا نہیں کیا اور وہ لوگ جو تین میں کا تیسرا خدا ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول سے دلیل پکڑتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فعلنا (ہم نے کیا) امرنا (ہم نے حکم دیا) خلقنا (ہم نے پیدا کیا) اور قضینا (ہم نے فیصلہ کیا) اگر ایک خدا ہوتا تو فرماتا فعلت (میں نے کہا) اور امرت (میں نے حکم دیا) اور قضیت (میں نے فیصلہ کیا) اور خلقت (میں نے پیدا کیا) لیکن (وہ تین خدا ہیں) اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) اور (ان کی والدہ) مریم (علیہا السلام) ( اس لیے جمع کے الفاظ استعمال فرمائے) ان تمام کے عقیدہ کے مطابق قرآن نازل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے لیے ان کے قول کے بارے میں ذکر فرمایا جب ان کے دو بڑے علماء نے بات کی تو ان کو رسول ﷺ نے فرمایا تم اسلام لے آؤ انہوں نے کہا ہم تو اس سے پہلے اسلام لا چکے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا تم نے جھوٹ کہا تم کو اسلام قبول کرنے سے یہ چیزیں مانع ہے جبکہ تم نے یہ عقیدہ بنا رکھا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا بیٹا ہے اور تم صلیب کی عبادت کرتے ہو اور خنزیر کھاتے ہو ان دونوں نے کہا پھر کون اس کا (یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کا) باپ ہے ؟ آپ خاموش رہے اور ان کو کوئی جواب نہ دیا (اس پر) اللہ تعالیٰ نے ان کے عقیدہ اور ان کے دین کے اختلاف کے بارے میں سورة آل عمران کی اسی سے زائد آیات کو نازل فرمایا (اللہ تعالیٰ نے) سورة کو شروع فرمایا ان کے عقائد سے اپنی پاکی اپنے خالق ہونے اور لا شریک ہونے کا ذکر فرمایا اور انہوں نے اپنی طرف سے جو کفر گھڑ رکھا تھا اور جو اللہ تعالیٰ کے شریک بنا رکھے تھے ان پر رد فرمایا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو وہ اعتقادات رکھتے تھے۔ ان سے ان کے اختلاف استدلال کیا تاکہ اس کے ذریعہ ان پر ان کی گمراہی واضح کر دے اور فرمایا لفظ آیت ” الم۔ اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ یعنی اس کے علاوہ اس کے ساتھ اس کے کام میں کوئی شریک نہیں وہ ذات زندہ ہے اس کو موت نہیں آتی اور عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے عقیدہ کے مطابق مرچکے ہیں ان کے عقیدے کے مطابق قیوم اسے کہتے ہیں جس کی بادشاہت قائم رہے زوال نہ آئے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو زوال آچکا (ان کے قول میں یعنی وہ جا چکے) ۔ (10) ابن اسحاق نے کہا کہ مجھے محمد بن سہل بن ابو امامہ ؓ نے بیان کیا جب نجران والے رسول ﷺ کے پاس آئے تاکہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں سوال کریں تو ان کے بارے میں سورة آل عمران کی ابتدائی اسی آیات نازل ہوئیں۔ (11) ابن جریر ابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے روایت کیا ہے کہ نصاری رسول اکرم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جھگڑا کیا اور کہنے لگے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ کون ہے ؟ اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ اور بہتان باندھنے لگے ان کو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ بیٹا اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے انہوں نے کہا کیوں نہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ ہمارا رب زندہ ہے اس کو موت نہیں آتی اور عیسیٰ (علیہ السلام) پر موت آچکی ہے انہوں نے کہا کیوں نہیں پھر آپ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے ہو کہ ہمارا رب زندہ ہے اس کو موت نہیں آتی اور عیسیٰ (علیہ السلام) پر موت آچکی ہے انہوں نے کہا کیوں نہیں پھر آپ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے نہیں کہ ہمارا رب ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے اس کی نگرانی کرنے والا ہے اور اس کی حفاظت کرنے والا ہے اور اس کو رزق دینے والا ہے انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں پھر فرمایا کیا عیسیٰ (علیہ السلام) اس میں سے کسی چیز کی طاقت رکھتے ہیں ؟ انہوں نے کہا نہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز زمین میں چھپی ہوئی نہیں اور نہ آسمان میں۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کیا عیسیٰ (علیہ السلام) اس کے علاوہ بھی کوئی جانتے ہیں جو ان کو علم دیا گیا (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) انہوں نے کہا نہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا بلاشبہ ہمارے رب نے رحم میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی صورت بنائی۔ جس طرح چاہی کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور نہ اس سے نجاست خارج ہوتی ہے انہوں نے کہا کیوں نہیں پھر فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس کی ماں نے اپنے پیٹ میں اٹھایا جیسے کہ دوسری عورت اٹھاتی ہے۔ پھر اس کو جنا جیسا کہ دوسری عورت اپنے بچے کو جنتی ہے۔ پھر اس کو غذا دی جیسا کہ دوسری عورت اپنے بچے کو غذا دیتی ہے۔ پھر وہ کھانا کھاتے تھے اور پیتے تھے اور وہ قضائے حاجت بھی کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں پھر آپ نے فرمایا پھر یہ کس طرح سے ہوگا جیسا کہ تم گمان کرتے ہو انہوں نے (ان سب باتوں کو) پہچان لیا پھر انکار کردیا معارضہ کرتے ہوئے تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے لفظ آیت ” الم۔ اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ کو نازل فرمایا۔ (12) سعید بن منصور اور طبرانی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ” القیام “ پڑھا۔ (13) ابن جریر نے علقمہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ لفظ آیت ” الحی القیوم “ پڑھتے تھے۔ (14) الفریابی۔ عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” نزل علیک الکتب بالحق مصدقا لما بین یدیہ “ سے مراد ہے کہ جو کچھ اس سے پہلے کتاب یا رسول میں سے تھے۔ (15) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” مصدقا لما بین یدیہ “ سے مراد ہے (ان) معجزات میں سے جو اتارے گئے نوح، ابراہیم، ہود اور دوسرے انبیاء (علیہم السلام) پر۔ (16) عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” نزل علیک الکتب “ میں کتاب سے مراد قرآن ہے لفظ آیت ” مصدقا لما بین یدیہ “ سے مراد وہ کتابیں ہیں جو اس سے پہلے گزر چکی ہیں لفظ آیت ” وانزل التورۃ والانجیل۔ من قبل ھدی للناس “ میں (تورات اور انجیل) دونوں کتابیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیان ہے۔ اور عصمت کا وعدہ ہے جنہوں نے ان کتابوں کو لیا اور ان کی تصدیق کی اور عمل کیا جو ان میں (احکام) ہیں ” وانزل الفرقان “ میں فرقان سے مراد قرآن ہے جو فرق کرتا ہے درمیان حق اور باطل کے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حلال کیا گیا اور اس کی حرام کردہ چیزوں کو حرام قرار دیا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حلال کیا گیا اور اس کی حرام کردہ چیزوں کو حرام قرار دیا اور اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو بیان کیا گیا اور اس میں اس کی حدود کی وضاحت کی گئی اور اس کے فرائض کو اس میں فرض کیا گیا اور اس میں اس کے بیان کو بیان کیا گیا اس کی اطاعت کا حکم دیا اور اس کی نافرمانی سے روکا گیا۔ (17) ابن جریر نے محمد بن جعفر بن زبیر (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وانزل الفرقان “ یعنی الگ الگ کرنے والا ہے درمیان حق اور باطل کے جن گروہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کیا تھا (پھر فرمایا) لفظ آیت ” ان الذین کفروا بایت اللہ لہم عذاب شدید واللہ عزیز ذوانتقام “ یعنی اللہ تعالیٰ انتقام لینے والے ہیں کہ جو لوگ آیات کا علم رکھنے کے باوجود اور ان میں موجود احکام کی معرفت کے بعد انکار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرمان لفظ آیت ” ان اللہ لا یخفی علیہ شیء فی الارض ولا فی السماء “ یعنی جو کچھ وہ ارادہ کرتے ہیں جو کچھ وہ پروگرام بناتے ہیں اور جو کچھ وہ ناحق باتیں کرتے ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کہ انہوں نے اس کو رب بنا لیا اور خدا بنا لیا اور ان کے پاس اس کے برعکس علم ہے سب اللہ تعالیٰ جانتے ہیں دھوکہ کرتے ہوئے اللہ سے اور اس کا انکار کرتے ہوئے پھر فرمایا لفظ آیت ” ھو الذی یصورکم فی الارحام کیف یشاء “ یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں میں سے تھے جن کی (اللہ تعالیٰ نے) رحم میں صورت بنائی (ان باتوں کو) نہ وہ دفع کرسکتے ہیں اور نہ ان کا انکار کرسکتے تھے۔ جیسا کہ نبی آدم میں سے اس کے علاوہ دوسری صورتیں بنائیں۔ وہ کس طرح خدا ہوسکتا ہے جبکہ ان کا یہ مرتبہ ہے۔ (18) ابن المنذر سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ لفظ آیت ” یصورکم فی الارحام کیف یشاء سے مراد ہے کہ مذکر اور مونث (جسے چاہے بنا دیں) ۔ رحم مادہ میں صورت گری (19) ابن جریر نے سدی کے طریق سے ابو مالک سے ابو صالح سے حضرت ابن عباس ؓ سے قرہ سے ابن مسعود سے اور دوسرے صحابہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ھو الذی یصورکم فی الارحام کیف یشاء “ سے مراد ہے کہ جب نطفہ رحم میں واقع ہوتا ہے تو وہ جسم میں چالیس دن اسی طرح رہتا ہے چالیس دن کے بعد جما ہوا خون بن جاتا ہے پھر وہ چالیس دن (کے بعد) گوشت کی بوٹی بن جاتا ہے جب وہ پیدا ہونے کے قریب پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو بھیجتے ہیں جو اس کی صورت بناتا ہے وہ فرشتہ اپنی انگلیوں کے درمیان مٹی کو لے کر آتا ہے اور اس میں گوشت کی بوٹی کو ملا دیتا ہے پھر اس کے ساتھ گوندھتا ہے پھر اس کی صورت بناتا ہے جس طرح حکم دیا جاتا ہے پھر (اللہ تعالیٰ سے) پوچھتا ہے مرد ہو یا عورت بدبخت ہو یا نیک بخت اور اس کا رزق کتنا ہوگا اور اس کی عمر کیا ہوگی اس کے اثر اور اس کے مصائب (یعنی تکلیفیں اور پریشانیاں) کیا ہوں گی تو اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں حکم فرما دیتا ہے تو (اسی طرح) فرشتہ لکھ دیتا ہے جب وہ مرجاتا ہے وہیں دفن ہوتا ہے جہاں سے مٹی لی گئی۔ (20) عبد بن حمید ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ھو الذی یصورکم فی الارحام کیف یشاء “ سے مراد ہے مرد ہو یا عورت سرخ سفید سیاہ پوری پیدائش والا یا نا مکمل پیدائش والا۔ (21) ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ (رح) سے لفظ آیت ” ھو العزیز الحکیم “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ عزیز یعنی غالب ہے اپنے انتقام لینے میں جب وہ انتقام لے (اور) الحکیم یعنی وہ حکمت والا ہے اپنے حکم میں یعنی اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔
Top