Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 26
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ١٘ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ١ؕ بِیَدِكَ الْخَیْرُ١ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
قُلِ : آپ کہیں اللّٰهُمَّ : اے اللہ مٰلِكَ : مالک الْمُلْكِ : ملک تُؤْتِي : تو دے الْمُلْكَ : ملک مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتَنْزِعُ : اور چھین لے الْمُلْكَ : ملک مِمَّنْ : جس سے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُعِزُّ : اور عزت دے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے وَتُذِلُّ : اور ذلیل کردے مَنْ : جسے تَشَآءُ : تو چاہے بِيَدِكَ : تیرے ہاتھ میں الْخَيْرُ : تمام بھلائی اِنَّكَ : بیشک تو عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
آپ یوں کہیئے کہ اللہ جو ملک کا مالک ہے تو ملک دیتا ہے جس کو چاہے اور ملک چھین لیتا ہے جس سے چاہے اور تو عزت دیتا ہے جس کو چاہے اور ذلت دیتا ہے جس کو چاہے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائی ہے، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
(1) عبد بن حمید ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب سے سوال کیا کہ اس فارس اور روم کے ملک آپ کی امت کو دے دیئے جائیں تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” قل اللہم ملک الملک تؤتی الملک من النار “۔ (2) ابن المنذر نے حسن بصری (رح) سے روایت کیا ہے کہ جبرئیل (علیہ السلام) نبی اکرم ﷺ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے محمد ﷺ اپنے رب سے اس طرح سوال کیجئے لفظ آیت ” قل اللہم ملک الملک تؤتی الملک من تشاء “ سے لے کر ” وترزق من تشاء بغیر حساب “ تک پھر جبرئیل (علیہ السلام) آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا اے محمد ! اپنے رب سے سو ال کر (یعنی کہہ) لفظ آیت ” وقل رب ادخلنی مدخل صدق واخرجنی مخرج صدق واجعل لی من لدنک سلطنا نصیرا “ (الآیۃ) تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ چیزیں عطا فرما دیں۔ (3) الطبرانی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا وہ اسم اعظم جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کی جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتے ہیں وہ آل عمران کی اس آیت میں ہے ” قل اللہم ملک الملک تؤتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء “۔ (4) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم (اس آیت میں ہے) لفظ آیت ” قل اللہم ملک الملک سے ” بغیر حساب “ تک۔ (5) ابن ابی الدنیا نے دعا میں معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو قرضہ کی شکایت کی جو مجھ پر تھا آپ نے فرمایا اے معاذ ! کیا تو اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تیرا قرضہ ادا ہوجائے ؟ میں نے عرض کیا ہاں ! آپ نے فرمایا یہ دعا پڑھ : ” قل اللہم ملک الملک تؤتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء وتعز من تشاء وتذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شیء قدیر “۔ ترجمہ : تو کہہ اے اللہ تو مالک ہے (سارے) ملک کا جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے تیرے ہاتھ میں خیر ہے اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔ ” رحمن الدنیا والاخرۃ ورحیمہما تعطی ما تشاء وتمنع منھما ما تشاء اقض عنی دینی فلو کان علیک ملء الارض ذھبا ادعندک “۔ ترجمہ : دنیا اور آخرت کے رحم کرنے والے اور ان دونوں میں نہایت رحم کرنے والے تو دیتا ان میں سے جس کو چاہتا ہے اور روک لیتا ہے ان میں سے جس کو چاہتا ہے، میرے قرضے کو دور فرما دے اگر تیرے اوپر زمین بھر سونے کے برابر قرضہ ہوگا تو (اللہ تعالیٰ ) تیری طرف سے ادا کریں گے۔ اداء قرض کی دعاء (6) الطبرانی نے معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ کو جمعہ کے دن گم پایا جب رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھ لی تو حضرت معاذ ؓ کے پاس آئے آپ نے فرمایا اے معاذ ! کیا ہوا تجھ کو کہ میں نے تجھ کو نہیں دیکھا عرج کیا ایک یہودی کا مجھ پر ایک اوقیہ سونا قرضہ ہے میں آپ کی طرف نکلا تو اس نے مجھے قید کرلیا آپ نے فرمایا کیا میں تم کو ایسی دعا نہ سکھاؤں کہ جس کے ذریعہ تو دعا کرے اگر تیرے اوپر پہاڑ کے برابر قرضہ ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو تیری طرف سے ادا کردیں گے اے معاذ اللہ تعالیٰ سے ان الفاظ کے ساتھ دعا کرو : لفظ آیت ” قل اللہم ملک الملک تؤتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء وتعز من تشاء وتذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شیء قدیر۔ تولج الیل فی النھار وتولج النھار فی الیل وتخرج الحی من المیت وتخرج المیت من الحی وترزق من تشاء بغیر حساب “۔ ترجمہ : کہہ دے تو اے اللہ مالک ہے (سارے) ملک کا دیتا ہے ملک جس کو چاہتا ہے اور کھینچ لیتا ہے ملک جس سے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے ذلت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے تیرے ہاتھ میں خیر ہے تو ہر چیز پر قادر ہے داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں اور نکالتا ہے زندہ سے مردے کو اور نکالتا ہے مردہ سے زندہ کو اور رزق دیتا ہے جس کو چاہتا ہے بغیر حساب کے ” رحمن الدنیا والاخرۃ ورحیمھا تعطی من تشاء منھما من تشاء ارحمنی تغنی بھا عن رحمۃ من سواک اللہم اغنی من الفقر واقض عنی الدین وتوفنی فی عبادتک وجھاد فی سبیلک۔ ترجمہ : دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والے اور ان دونوں میں نہایت رحم کرنے والے جس کو چاہتا ہے ان میں سے دیتا ہے اور روک لیتا ہے ان میں سے جس کو چاہتا ہے مجھ پر رحم فرمارحمت کے ساتھ اپنی رحمت سے اپنے سوا دوسروں سے بےپرواہ کردے اے اللہ مجھ کو تنگدستی سے بےپرواہ کر دے اور مجھ سے قرضہ کو دور کردے اور مجھ کو اپنی عبادت اور اپنے راستے میں جہاد کرنے کے ساتھ مجھے موت دے۔ (7) الطبرانی نے صغیر میں جید سند کے ساتھ انس بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ معاذ ؓ سے فرمایا کیا میں تجھ کو ایسی دعا نہ سکھاؤں کہ جس کے ذریعہ تو دعا کرے اگر احد پہاڑ کے برابر تیرے اوپر قرضہ ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کو تیری طرف سے ادا فرما دیں گے تو کہہ اے معاذ ! : لفظ آیت ” قل اللہم ملک الملک تؤتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء وتعز من تشاء وتذل من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شیء قدیر۔ رحمن الدنیا والاخرۃ ورحمھما من تشاء منھما وتمنع من تشاء منھما ارحمنی تغنی بھا عن رحمۃ من سواک “ (8) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” تؤتی الملک من تشاء “ سے مراد نبوت ہے۔ (9) ابن جریر نے محمد بن جعفر بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” قل اللہم ملک الملک “ سے مراد ہے کہ بندوں کے ملک کے رب ! ان میں تیرے علاوہ کوئی فیصلہ نہیں کرتا ” تؤتی الملک من تشاء “ یعنی یہ ملک تیرے ہاتھ میں ہے تیرے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہے ” انک علی کل شیء قدیر “ تیرے علاوہ اس پر کوئی قادر نہیں ہے تیری بادشاہی کے ساتھ اور تیری قدرت کے ساتھ۔ (10) عبد بن حمید ابن جریر ابن المنذر ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” تولج الیل فی النھار وتولج النھار فی الیل “ سے مراد ہے کہ سردی کے موسم سے گرمی کا موسیٰ اور گرمی کے موسم سے سردی کا موسم (اور) ” وتخرج الحیت من المیت “ یعنی نکالتا ہے زندہ آدمی مردہ نطفہ سے ” وتخرج المیت من الحی “ یعنی مردہ نطبہ کو نکالتا ہے زندہ آدمی سے۔ (11) سعید بن منصور اور ابن المنذر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” تولج الیل فی النھار وتولج النھار فی الیل “ سے مراد ہے کہ سردی کے موسم کی لمبی راتوں میں دنوں کو چھوٹا کرنا اور گرمی کے موسم کے لمبے دنوں میں راتوں کو چھوٹا کرنا ہے۔ (12) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” تولج الیل فی النھار وتولج النھار فی الیل “ سے مراد ہے کہ جو رات میں سے (وقت) کم کرتا ہو اس کو دن میں داخل کردیتا ہے اور جو دن میں سے کم کرتا ہے اس کو رات میں داخل کردیتا ہے۔ (13) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” تولج الیل فی النھار “ سے مراد ہے کہ یہاں تک رات پندرہ گھنٹے کی ہوجاتی ہے اور دن نو گھنٹے کا (پھر فرمایا) ” وتولج النھار فی الیل “ یہاں تک کہ دن پندرہ گھنٹے کا اور رات نو گھنٹے کی ہوجاتی ہے۔ (14) عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” تولج الیل فی النھار وتولج النھار فی الیل “ سے مراد ہے کہ ان دونوں (یعنی رات اور دن) میں سے ہر ایک اپنے ساتھ یعنی دوسرے کا وقت لے لیتا ہے۔ (15) عبد بن حمید نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” تولج الیل فی النھار وتولج النھار فی اللیل “ سے مراد ہے کہ دن رات میں سے (وقت) لے لیتا ہے یہاں تک کہ رات لمبی ہوجاتی ہے۔ (16) ابن المنذر ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وتخرج الحی من المیت وتخرج المیت من الحی “ سے مراد ہے کہ نکالتا ہے مردہ نطفہ کو زندہ انسان سے پھر اس نطفہ سے زندہ آدمی کو نکالتا ہے۔ (17) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وتخرج الحی من المیت وتخرج المیت من الحی “ سے مراد ہے زندہ لوگ مردہ نطفہ سے اور مردہ نطفہ سے زندہ لوگوں کو نکالتا ہے جانوروں اور نباتا میں سے بھی اسی طرح ہے۔ (18) ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وتخرج الحی من المیت “ سے مراد وہ انڈا ہے جس کو تو زندہ سے نکالتا ہے حالانکہ وہ مردہ ہوتا ہے پھر اس میں سے زندہ جانور کو نکالتا ہے۔ (19) ابن جریر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وتخرج الحی من المیت وتخرج المیت من الحی “ سے مراد ہے کہ تو کھجور کا درخت گٹھلی سے اور (پھر) کھجور کے درخت سے گٹھلی نکالتا ہے اور دانہ خوشہ سے نکالتا ہے۔ (20) ابن جریر ابو الشیخ نے حسن ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وتخرج الحی من المیت وتخرج المیت من الحی “ سے مراد ہے یعنی مؤمن کافر سے اور کافر مؤمن سے نکالتا ہے (یعنی پیدا کرتا) اور مؤمن وہ بندہ ہے جس دل زندہ ہے اور کافر وہ بندہ ہے جس کا دل مردہ ہے۔ مٹی سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا (21) سعد بن منصور ابن جریر ابن المنذر ابن ابی حاتم بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابو الشیخ نے افطہ میں سلمان ؓ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی مٹی کا چالیس دنوں تک خمیر بنایا پھر اپنے ہاتھ مبارک کو اس میں رکھا اور اس مٹی پر اچھی اور خبیث چیز اوپر کو اٹھ آئی پھر بعض کو بعض سے ملا دیا پھر اس میں سے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا اس لیے فرمایا لفظ آیت ” وتخرج الحی من المیت وتخرج المیت من الحی “ یعنی کافر سے مؤمن کو نکالتا ہے (یعنی پیدا کرتا ہے) اور مؤمن کو کافر سے نکالتا ہے۔ (22) ابن مردویہ نے ابو عثمان النہدی کے طریق سے سلمان فارسی ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا فرمایا تو اس کی اولاد کو نکالا اور اس میں سے ایک مٹی اپنے دائیں ہاتھ میں بھری اور فرمایا یہ جنت والے ہیں اور مجھ کو کوئی پرواہ نہیں اور بائیں ہاتھ مٹھی بھری اس میں تمام ناکارہ لوگ آگئے پھر فرمایا یہ دوزخ والے ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں پھر ان کے بعض کو بعض کے ساتھ ملا دیا تو کافر سے مؤمن کو نکالتا ہے (یعنی پیدا کرتا) اور مؤمن سے کافر کو نکالتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” وتخرج الحی من المیت وتخرج المیت من الحی “۔ (23) ابن مردویہ نے ابو عثمان النھدی کے طریق سے ابن مسعود یا سلمان ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا لفظ آیت ” وتخرج الحی من المیت وتخرج المیت من الحی “ کافر مؤمن سے اور مؤمن کافر سے نکالتا ہے۔ (24) عبد الرزاق، ابن سعد، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے زھری کے طریق سے خالدہ بنت اسود بن عبد یعوث ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں تو آپ نے پوچھا یہ کون ہے ؟ کہا گیا یہ خالدہ بنت اسود ؓ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ پاک ہیں جو زندہ سے مردہ کو نکالتے ہیں اور وہ نیک عورت تھیں لیکن ان کا والد کافر تھا۔ (25) ابن المنذر نے حضرت عائشہ ؓ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کیا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ اس آیت ” وتخرج الحی من المیت وتخرج المیت من الحی “ میں لفظ میت کو مخفف پڑھتے تھے۔ (26) عبد بن حمید نے یحییٰ بن وثاب سے روایت کیا ہے کہ وہ اس آیت ” وتخرج الحی من المیت وتخرج المیت من الحی “ اور ” بلدمیت “ (اس آیت) میں میت کے لفظ کو مشدد پڑھتے تھے۔ (27) ابن جریر وابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے اس قول لفظ آیت ” وترزق من تشاء بغیر حساب “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اللہ رزق کو حساب کے ساتھ نہیں نکالتا اس خوف سے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ کم نہ ہوجائے بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ ہے وہ کم نہیں ہوتا (دینے سے) ۔ (28) ابن ابی حاتم نے میمون بن مہران (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” بغیر حساب “ کا مطلب ہے کثرت کے ساتھ۔ (29) ابن جریر نے محمد بن جعفر بن زبیر سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” تولج الیل فی النھار وتولج النھار فی الیل وتخرج الحی من المیت وتخرج المیت من الحی “ یعنی اس قدرت کے ساتھ کہ جس کے ذریعے تو ملک دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور چھین لیتا ہے جس سے چاہتا ہے لفظ آیت ” وترزق من تشاء بغیر حساب “ جسے چاہتا ہے بےحساب رزق عطا فرماتا ہے تیرے علاوہ اس پر (یعنی رزق دینے) پر کوئی قدرت نہیں رکھتا اور اس کام کو تیرے سوا کوئی نہیں کرتا یعنی اگر میں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بعض چیزوں (جیسے مردوں کو زندہ کرنا بیماروں کو تندرست کردینا مٹی سے (اصلی) پرندہ بنا دینا اور غیب کی باتوں کی خبر دینا پر قدرت دی ہے تاکہ تمہارے لیے نشانی بنا دے اور ان کی نبوت کے لیے تصدیق بنا دے کہ جس کے ساتھ آپ نے ان کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تھا (لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا) کہ بلاشبہ میری بادشاہی اور میری قدرت میں سے وہ چیزیں ہیں جو میں نے ان کو عطا نہیں کیں (جیسے) نبوت کے ساتھ ملکوں کا مالک بنانا اور اس (نبوت) کو میں جہاں چاہوں رکھوں اور رات کا داخل کرنا دن میں اور دن کا داخل کرنا رات میں اور زندہ کو نکالنا مردہ سے اور مردہ کو نکالنا زندہ سے اور نیک اور بدکردار کو جس کو میں چاہوں بغیر حساب کے رزق دوں ان سب کاموں کا میں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اختیار نہیں دیا اور نہ ان کو مالک بنایا کیا ان کے لیے اس میں عبرت اور نشانی نہیں ہے کہ اگر وہ خدا ہوتے تو یہ سارے کام ان کے اختیار میں ہوتے جیسا کہ ان نصاریٰ کے علم میں ہے کہ بادشاہوں سے بھاگتے تھے اور ان سے منتقل ہوتے رہتے تھے شہروں میں سے ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف۔
Top