Dure-Mansoor - Al-Hijr : 52
وَ یُعَلِّمُهُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِیْلَۚ
وَيُعَلِّمُهُ : اور وہ سکھائے گا اس کو الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور دانائی وَالتَّوْرٰىةَ : اور توریت وَالْاِنْجِيْلَ : اور انجیل
اور اللہ سکھا دے گا اس کو کتاب اور حکمت اور توراۃ اور انجیل۔
(1) ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ویعلمہ الکتب “ سے مراد ہے قلم کے ساتھ لکھنا سکھائے گا۔ (2) ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ویعلمہ الکتب “ سے مراد ہے کہ وہ ہاتھ سے لکھنا سکھائے گا۔ (3) ابن المنذر نے صحیح سند کے ساتھ سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) سمجھ دار ہوگئے تو ان کی ماں نا کو لے کر کتاب (لکھنے پڑھنے والے) کے پاس آئی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو اس کے سپرد کردیا تو اس نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو کہا کہہ تو ” بسم اللہ “ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ (نام کے ساتھ) معلم نے کہا کہو ” الرحمن “ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ” الرحیم “ معلم نے کہا کہو ابو جاد سے عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا وہ کتاب میں ہے عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تو جانتا ہے الف سے کیا مراد ہے ؟ اس نے کہا نہیں فرمایا اللہ نعمتیں (پھر پوچھا) کیا تو جانتا ہے باء سے کیا مراد ہے ؟ اس نے کہا نہیں فرمایا اللہ کا جمال مراد ہے (پھر پوچھا) کیا تو جانتا ہے جیم سے کیا مراد ہے ؟ اس نے کہا نہیں فرمایا اللہ کی نعمتیں پھر اسی طرح تمام کی تفسیر کرنے لگے۔ (پھر معلم) نے کہا میں کیسے سکھاؤں اس کو جو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے ؟ اس کی ماں نے کہا اس کو چھوڑ دو یہ بچوں کے ساتھ بیٹھے گا پھر وہ بچوں کو بتاتے تھے جو کچھ انہوں نے کھایا ہوا ہوتا تھا۔ اور جو چیز ان کی ماؤں نے ان کے لیے ذخیرہ کر کے رکھی ہوئی ہوتی تھی۔ (4) ابن عدی اور ابن عساکر نے ابو سعید خدری اور ابن مسعود ؓ سے اس حدیث کو مرفوعا روایت کیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو ان کی والدہ نے کتاب (پڑھنے لکھنے والے کے سپرد) کردیا تاکہ اس کو پڑھائے معلم نے ان کہا بسم اللہ لکھ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا کہ بسم اللہ کیا ہے ؟ معلم نے ان سے کہا میں نہیں جانتا عیسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا الباء سے مراد بھاء اللہ یعنی اللہ کا جمال اور سین سے مراد ہے کہ اس کی (چمک) اور میم سے مراد ہے اس کی مملکت اور اللہ سے مراد ہے معبود اور الرحمن سے مراد ہے آخرت اور دنیا میں رحم کرنے والا اور الرحیم سے مراد ہے صرف آخرت میں رحم کرنے والا ابو جاد میں الف سے مراد ہے اللہ کی نعمتیں اور باء سے مراد ہے بھاء اللہ (اللہ کا جمال) جیم سے مراد ہے اللہ کا جلال دال سے مراد ہے اللہ الدائم (اللہ ہمیشہ رہنے والے) (اور) ھوڑ میں الھاء سے مراد ہے الھاویہ (جہنم کا ایک حصہ) واو سے مراد ہے ویل جو جہنم میں ایک وادی ہے دوزخ والوں کے لیے زاء سے مراد ہے دنیا والوں کی زینت حطی میں حاء اللہ سے مراد ہے وہ اللہ جو حکیم ہیں طاء سے مراد ہے اللہ تعالیٰ طلب کرنے والے ہر حق کے لیے یہاں تک کہ اس پر وارد ہوجائے یعنی دوزخ والے اور وہ بیماری ہے کلمن میں کاف سے مراد ہے اللہ کافی۔ لام سے مراد ہے اللہ قائم ہمیشہ رہنے والا میم سے مراد اللہ مالک نون سے مراد ہے اللہ کا سمندر سعفص میں سین سے مراد سلام صاد سے مراد اللہ صادق عین سے مراد اللہ تعالیٰ عالم ہے فاء سے مراد ہے اللہ ذکر ہے صاد سے مراد ہے اللہ بےنیاز قرشت میں قاف سے مراد وہ پہاڑی جو (ساری) دنیا کو احاطہ کئے ہوئے ہے جس پہاڑ کی وجہ سے آسمان سرسبز ہے راء سے مراد ہے لوگوں کا دکھاوا کرنا اس کے ساتھ شین سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کا پردہ پوشی کرنا تاء سے مراد ہے ” تمت ابدا “ یعنی ہمیشہ ہمیشہ وہ کامل ہے۔ ابن عدی (رح) نے فرمایا کہ یہ حدیث اس سند کے ساتھ باطل ہے اسمعیل بن یحییٰ کے علاوہ کسی نے اس کو روایت نہیں کیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بلوغ تک گفتگو نہیں فرماتے تھے (5) اسحاق بن بشیر، ابن عساکر نے جو یبر کے طریق سے مقاتل نے اور انہوں نے ضحاک سے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) پھر بات کرنے سے رک گئے تھے جب انہوں نے بچپن میں کلام کی تھی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئے جس طرح (دوسرے) بچے بالغ ہوتے ہیں پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو حکمت اور بیان کے ساتھ گفتگو کرنے کی قوت عطا فرمائی لیکن یہودی ان کے بارے میں اور ان کی ماں کے بارے میں بہت زیادہ جھوٹی باتیں کرنے لگے اور عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی ماں کا دودھ پیتے تھے جب ان کا دودھ چھڑایا تو کھانا کھانے لگے اور پینے لگے یہاں تک کہ (جب) سات سال کی عمر کو پہنچ گئے تو ان کی ماں نے ان کو ایک آدمی کے سپرد کیا تاکہ اس کو سکھائے جیسے بچوں کو سکھایا جاتا ہے وہ معلم آپ کو کچھ بھی تعلیم نہ دیتا تھا مگر یہ کہ اس تعلیم سے پہلے آپ اس پر عمل کرنے کی طرف متوجہ ہوتے تھے عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ابو جاد کیا ہے ؟ معلم نے کہا میں نہیں جانتا عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تو مجھے کس طرح سکھاتا ہے جب تو خود ہی نہیں جانتا معلم نے کہا تب تو آپ مجھے سکھائیے عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اپنی مجلس سے اٹھ جائیے وہ کھڑا ہوگیا تو عیسیٰ (علیہ السلام) اس کی جگہ پر بیٹھ گئے اور فرمایا مجھ سے سوال کر معلم نے کہا۔ ابو جاد کیا ہے عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا الف سے مراد اللہ تعالیٰ کی نعمتیں باء سے مراد اللہ کا جمال جیم سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کا جمال معلم اس بات سے بڑا متعجب ہوا اور عیسیٰ (علیہ السلام) حروف ابجد کی تفسیر کرنے میں پہلے آدمی تھے۔ راوی نے کہا کہ عثمان بن عفان ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ ! ابو جاد کی کیا تفسیر ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابو جاد کی تفسیر کو سیکھو کیونکہ ان سب میں بڑے عجائب ہیں ہلاکت ہے اس عالم کے لئے جو اس کی تفسیر سے جاہل ہو کہا گیا یا رسول اللہ ! ابو جاد کی کیا تفسیر ہے ؟ آپ نے فرمایا الف سے مراد اللہ نعمتیں باء سے مراد اللہ کا جمال اور اس کا جلال جیم سے مراد اللہ کی بزرگی دال سے مراد اللہ دین ھوز میں الھاء سے مراد ھاویہ ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو اس میں گرے واو سے مراد ہلاکت ہے دوزخ والوں کے لئے اور زاء سے مراد جہنم کا ایک کونا ہیں حطی میں الحاء سے مراد لیلۃ القدر میں استغفار کرنے والوں کی خطاؤں کا مٹ جانا اور جو کچھ جبرئیل (علیہ السلام) دوسرے فرشتوں کے ساتھ لے کر نازل ہوتے ہیں طلوع فجر تک (اور) الطاء سے مراد ان کے لیے خوشخبری ہے اور اچھا ٹھکانہ ہے اور یہ درخت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لگایا (اور) یاء سے مراد اللہ کا ہاتھ اپنی مخلوق کے اوپر کلمہ میں کاف سے مراد اللہ کی کلام اس کے کلام کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا (اور) اہل جنت کا آپس میں ملاقات زیارت مبارک بادی اور سلام کرنا اور دوزخ والوں کا آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنا (اور) میم سے مراد اللہ کی بادشاہی جو کبھی ختم نہیں ہوگی اور ایسا دوام ہے جو کبھی فنا نہیں ہوگا (اور) نون سے مراد لفظ آیت ” ن والقلم وما یسطرون “ (اور) صعفص میں صاد سے مراد ہے صاع بدلے صاع کے انصاف بدلے انصاف کے قصاص بدلے قصاص کے یعنی جزاء اور بدلے جزاء کے اور جیسا کرو گے ویسا بھرو گے اور اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کا ارادہ نہیں فرماتے اور قرشت یعنی (اللہ تعالیٰ ) قیامت کے دن ان کو جمع کرے گا اور ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ فرمائے گا اور وہ لوگ ظلم نہیں کئے جائیں گے۔ (6) ابن المبارک نے الزھد میں فرمایا کہ ہم کو خبر دی ابو عینیہ نے حلف بن حوشب (رح) سے روایت کیا ہے عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں سے فرمایا جس طرح بادشاہوں نے تمہارے لیے حکمت کو چھوڑا اسی طرح تم ان کے لیے دنیا کو چھوڑدو۔ (7) ابن عساکر نے یونس بن عبید (رح) سے فرمایا کہ عیسیٰ بن مریم (علیہا السلام) فرمایا کرتے تھے کوئی آدمی ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتا یہاں تک کہ دنیا کی چیزوں سے لاپرواہ نہ ہوجائے۔ (8) ابن ابی شیبہ نے مصنف میں احمد نے الزھد میں ثابت البنانی (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہا گیا اگر آپ گدھا لے لیں تاکہ اپنی ضرورت کے وقت اس پر سواری کیا کریں آپ نے فرمایا میں زیادہ اکرام والا ہوں اللہ پر اس بات سے کہ میرے لیے ایسی چیز بنا دے کہ جو مجھے اللہ تعالیٰ سے غافل کر دے۔ (9) ابن عساکر نے مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے حواریوں کے گروہ کہ بلا شبہ اللہ کا خوف اور فردوس کی محبت مشقت پر صبر کرنے کا حکم دیتی ہے اور دور کردیتی ہیں دنیا کی زیب وزینت سے۔ (10) ابن عساکر نے عتبہ بن یزید (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے آدم (علیہ السلام) کے ضعیف بیٹے اللہ سے ڈر، جہاں تو ہو اور اپنی حلال کمائی سے کھا اور مسجد کو گھر بنائے اور دنیا میں ضعیف بن جا اور عادی بنا اپنے آپ کو رونے کا اور اپنے دل کو فکر کا اور اپنے جسم کو صبر کا اور کل کے لیے اپنے رزق کی کوشش نہ کر اس لیے کہ وہ غلطی ہے جو تیرے اوپر لکھی جائے گی۔ (11) ابن ابی دنیا اور اصبہانی نے الترغیب میں محمد بن مطرف (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اور اسی طرح اس کو ذکر کیا (جیسے اوپر لکھا گیا) دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے (12) ابن ابی دنیا نے وہیب المکی (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہر برائی کی جڑ دنیا کی محبت ہے اور (دنیا) کی بعض خواہشات اس کے گھر والوں کو طویل غم کا وارث بناتی ہیں۔ (13) ابن عساکر نے یحییٰ بن سعید (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) فرماتے تھے دنیا سے گذر جاؤ اور اس میں آباد نہ ہو اور دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے اور کسی چیز کو دیکھنا دل میں شہوت کا اگاتا ہے۔ (14) احمد والبیہقی نے شعب الایمان میں سفیان بن سعید (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے اور اس میں مال بڑی بیماری ہے لوگوں نے کہا اس کی بیماری کیا ہے ؟ فرمایا مالدار فخر تکبر سے محفوظ نہیں ہوتا لوگوں نے کہا اگر وہ محفوظ رہے ؟ تو ! فرمایا مال کی حفاظت کرنا اسے غافل کردیتا ہے اللہ کے ذکر سے۔ (15) ابن المبارک نے عمران الکوفی (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے حواریوں کو فرمایا کہ تم جن کو تعلیم دیتے ہو ان سے اس کی اجرت نہ لو مگر جتنا تم نے مجھے دی ہے ہے اور اے زمین کے نمک یعنی علماء تم خراب نہ ہوجاؤ کیونکہ ہر چیز جب خراب ہوتی ہے تو اس کا نمک ہی سے علاج کیا جاتا ہے اور اگر نمک خراب ہوجائے تو اس کا کوئی علاج نہیں اور یقین کرو تم میں جاہلانہ دو عادتیں ہیں ایک بغیر تعجب کے ہنسنا دوسری بغیر شب بیدار کے صبح کرنا۔ (16) الحکیم الترمذی نے یزید بن میسرہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا نیک دلوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ زمین کو آباد فرماتے ہیں اور اگر نیک دل نہ ہو تو زمین کو برباد کردیتے ہیں۔ (17) ابن ابی الدنیا بیہقی نے شعب الایمان میں مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب عیسیٰ بن مریم (علیہا السلام) ایسے گھر کے پاس سے گذرتے جس کے رہنے والے مرچکے ہوتے تھے تو وہیں کھڑے ہو کر فرماتے افسوس ہے وہ لوگ جو تیرے ایک دوسرے کے وارث چلے آرہے تھے (آج) تیرا کوئی مالک نہیں کیسے انہوں نے سوچ بچار نہ کی۔ شاید کہ تو زمانہ ماضی کے بھائیوں کی طرح ہے۔ (18) بیہقی میں مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا ہے کہ لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کیا اے روح اللہ ! ہم آپ کے لیے ایک گھر بنا دیں ؟ فرمایا ہاں ! اس کو ساحل سمندر پر بنا دو لوگوں نے کہا تب تو پانی اس کو بہا کرلے جائے گا فرمایا تم کہاں چاہتے ہو ؟ کیا تم میرے لیے پل پر گھر بنانا چاہتے ہو۔ یقین کی بدولت پانی پر چلنا (19) احمد فی الزھد میں بکر بن عبد اللہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ (ایک مرتبہ) حواریوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو گم پایا ان کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے اور ان کو پانی پر چلتا ہوا پایا ان میں سے بعض نے کہا اے اللہ کے نبی ! کیا ہم آپ کی طرف (پانی پر) چل سکتے ہیں فرمایا ہاں ! ایک آدمی نے اپنا پاؤں (پانی میں) رکھا پھر دوسرا پانی میں رکھا تو ڈوبنے لگا فرمایا مجھے اپنا ہاتھ دے دے اے تھوڑے ایمان والے ! اگر آدم کے بیٹے کے اندر رائی کے دانہ کے برابر یقین ہو تو پانی پر چلنے لگے۔ (20) احمد نے عبد اللہ بن نمیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ میں نے سنا عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہ (دنیا) تھی اور میں نہیں تھا اور یہ ہوگی اور میں اس میں نہیں ہوں گا۔ (21) احمد نے مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث کئے گئے تو انہوں نے دنیا کو چہرے کے بل گرا دیا پس جب آپ اٹھا لیے گئے (آسمان کی طرف) تو لوگوں نے اس دنیا کو اٹھا لیا ان کے بعد۔ (22) عبد اللہ ابنہ نے اپنی زوائد میں حسن ؓ سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں نے دنیا کو اس کے چہرے کے بل گرا دیا اور اس کی پیٹھ پر سوار ہوگیا میرا کوئی لڑکا نہیں کہ وہ مرجائے اور نہ کوئی گھر ہے جو برباد ہوجائے لوگوں نے ان سے عرض کیا کیا ہم آپ کے لیے کوئی گھر نہ بنادیں فرمایا میرے لیے راستے پر ایک گھر بنا دو انہوں نے کہا یہ قائم نہیں رہے گا (پھر) لوگوں نے کہا ہم آپ کے لئے کوئی بیوی تجویز کریں فرمایا میں ایسی بیوی کا کیا کروں گا جو مرجائے۔ (23) احمد نے حیثمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گذری اور کہنے لگی خوشخبری ہے اس چھاتی کے لیے جس نے تجھ کو دودھ پلایا اور اس گود کے لیے جس نے تجھ کو اٹھایا عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جو اللہ کی کتاب پڑھے پھر جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کرے۔ (24) احمد نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ میں نے تجھ کو مسکینوں سے محبت اور ان پر رحمت کرنا ھبہ کیا تو ان سے محبت کر اور وہ تجھ سے محبت کریں گے اور وہ راضی ہوں گے تجھے امام اور قائد بنا کر اور تو ان سے راضی ہوگا ان کو اپنا ساتھی اور تابع بنانے پر اور وہ دونوں خصلتیں ہیں تو جان لے جو شخص ان دونوں خصلتوں کے ساتھ مجھ سے (قیامت کے دن) ملاقات کرے گا تو وہ مجھ سے بہترین اور محبوب ترین اعمال کے ساتھ ملاقات کرے گا۔ (25) ابن ابی شیبہ اور احمد نے میمون بن سیاہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے حواریوں کی جماعت مسجدوں کو اپنا گھر بناؤ اور اپنے گھروں کو مہمانوں کے گھروں کی طرح سمجھو اور تمہارے اس جہان میں کوئی گھر نہیں اور نہیں ہو تم مگر راستہ پر گذرنے والے یعنی مسافر ہو۔ (26) احمد نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ساتھ حق کے میں یہ بات تم کو کہتا ہوں کہ آسمان کے کنارے مالدار لوگوں سے خالی ہیں اور اونٹ کا سوئی کے ناکہ میں داخل ہونا زیادہ آسان ہے مالدار کے جنت میں داخل ہونے سے۔ (27) عبد اللہ نے اپنی زوائد میں جعفر بن فارس (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہر برائی کی جڑ دنیا کی محبت ہے اور شراب ہر شر کی چابی ہے اور عورتیں شیطان کا جال ہیں۔ حکمت اہل لوگوں کے سپرد کریں (28) احمد نے سفیان (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا بلاشبہ حکمت کے لیے اہلیت یعنی قابلیت (ہوتی) ہے اگر تو نے اس کو نااہل لوگوں میں رکھ دیا تو (گویا) اس کو ضائع کردیا اگر تو نے اس کو اہل لوگوں سے روک دیا تو (گویا) اس کو ضائع کردیا تو اس طرح رہ جس طرح طبیب ہوتا ہے وہ دوا کو وہاں رکھتا ہے جہاں اس دوا کا محل ہوتا ہے۔ (29) احمد نے محمد بن واسع (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے بنی اسرائیل ! میں تمہارے بارے میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں کہ تم ہوجاؤ عار دلانے والے اہل کتاب کے لیے اے بنی اسرائیل تمہارا قول شفا ہے جو بیماری کو لے جاتا ہے اور تمہارے اعمال ایسی بیماری ہیں جو دوا کو قبول نہیں کرتے۔ (30) احمد نے وھب (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کے علماء سے فرمایا کہ تم لوگوں کے لیے چوری کرنے والے لٹیرے اور مکار لومڑی کی طرح اور اچک لینے والی چیل کی طرح نہ بن جاؤ۔ (31) احمد نے مکحول (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہا السلام) نے فرمایا اے حواریوں کی جماعت ! کون تم میں سے اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ سمندر کی موج پر ایک گھر بنا دے ؟ انہوں نے کہا اے روح اللہ ! اس بات کی کون طاقت رکھتا ہے ؟ پھر انہوں نے فرمایا بچو تم دنیا سے اس کو ٹھہرنے کی جگہ نہ بناؤ۔ (32) احمد نے زیاد ابو عمر (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تجھ کو یہ بات نفع نہ دے گی کہ تو جان لے اس چیز کو جو تو نہیں جانتا جس پر تو عمل نہ کرے اور جو تو عمل کرے اسے نہ جانتا ہو کیونکہ علم کی کثرت بھی تکبر کو زیادہ کرتی ہے جب تک اس کے ساتھ عمل نہ کیا جائے۔ (33) احمد نے ابراہیم بن ولید بن عبدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو یہ بات پہنچی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا زھد چکر کاٹتا ہے تین دنوں میں کل گذشتہ جس سے تو نے نصیحت حاصل کی اور آج کے دن جس نے تیرے اندر زہد میں اضافہ کردیا اور کل آنے والے دن میں تو نہیں جانتا کہ تیرے لیے اس میں کیا ہے (پھر) فرمایا معاملہ بھی گھومتا ہے تین صورتوں پر ایک وہ جس کا ہدایت ہونا تجھ پر ظاہر ہوچکا تو اس کی اتباع کر اور دوسرا وہ معاملہ جو تیرے لیے اس کی گمراہی ظاہر ہوچکی ہے اس سے بچ جا اور وہ تیسرا معاملہ تیرے اوپر مشتبہ ہوگیا تو اس کو اللہ عزوجل کے سپرد کر دے۔ (34) احمد نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا مجھ سے سوال کرو کیونکہ میرا دل نرم ہے اور بلاشبہ میں اپنے دل میں چھوٹا ہوں۔ (35) احمد نے بشیرو مشقی (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ایک قوم پر گذرے اور یہ الفاظ کہے اے اللہ ! ہم کو بخش دے تین مرتبہ۔ لوگوں نے کہا اے روح اللہ ! ہم آپ سے آج کوئی نصیحت سننا چاہتے ہیں اور ہم آپ سے وہ چیز سن رہے ہیں جو ہم نے پہلے نہ سنی تھی اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ تو ان کو یوں کہہ (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) کہ جس شخص کی میں ایک مرتبہ مغفرت کردوں تو میں اس کے لیے اس کے ساتھ اس کی دنیا اور اس کی آخرت کی اصلاح کردیتا ہوں۔ (36) ابن ابی شیبہ اور احمد نے حیثمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) جب آپ نے قراء کو بلایا تو آپ ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے پھر فرمایا تم بھی اسی طرح قراء کے ساتھ کیا کرو۔ حسن سلوک کی بدولت ولی بننا (37) احمد نے یزید بن میسرہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اگر تم اس بات سے محبت رکھو کہ تم اللہ تعالیٰ کے اصفیاء بن جاؤ اور بنی آدم کا نور بن جاؤ اس کی مخلوق میں سے تو معاف کر دو اس کو جو تم پر ظلم کرے اور اس کی عیادت کرو جو تمہاری عیادت نہ کرے اور نیک سلوک کرو اس شخص کی طرف جو تمہاری طرف نیک سلوک نہ کرے اور اس کو قرضہ دو جو تم کو بدلہ نہیں دیتا۔ (38) ابن ابی شیبہ واحمد نے عبید بن عمیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بالوں سے بنا ہوا لباس پہنتے تھے اور درخت کے پتوں سے کھاتے تھے اور رات گذارتے تھے جہاں شام ہوجاتی نہ شام کا کھانا ساتھ رکھتے اور نہ ہی کل کے لیے کھانا ساتھ ہوتا تھا۔ اور فرماتے تھے ہر دن اپنا رزق لے کر آتا ہے۔ (39) احمد نے وھب (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے گھر جو برباد ہونے والا ہے اور تیرے رہنے والے فنا ہونے والے ہیں اے نفس (نیک) عمل کر رزق دیا جائے گا اے جسم (اللہ کے راستے میں تکلیف اٹھا آرام پائے گا ) ۔ (40) احمد نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں سے فرمایا حق کے ساتھ میں تم سے کہتا ہوں اور عیسیٰ (علیہ السلام) اکثر حق کے ساتھ فرماتے تھے پھر فرمایا میں تم سے کہتا ہوں اگر تم دنیا کی محبت میں سخت ہوگے تو تم مصیبت پر بےصبری کرنے میں بھی زیادہ سخت ہوگے۔ (41) احمد نے عطاء ازرق (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے حواریوں کی جماعت ! جو کی روٹی کھاؤ اور زمین سے اگنے والی چیزیں کھاؤ اور خالص صاف پانی پیو اور بچو تم گندم کی روٹی سے اس لیے کہ تم اس کا شکر ادا نہیں کرسکتے اور جان لو ! کہ دنیا کی حلاوت آخرت کی کڑواہٹ ہے اور دنیا کی سخت کڑواہٹ آخرت کی مٹھاس ہے۔ (42) ابنہ نے اپنی زوائد میں عبد اللہ بن شوذب (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا عمدہ کپڑے دل کی خود پسندی (یعنی تکبر) سے ہوتی ہے۔ (43) احمد نے سفیان (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تم کو باتیں اس لیے نہیں بتاتا کہ تم تعجب کرو بلکہ میں اس لیے بیان کرتا ہوں تاکہ تم سیکھ لو۔ (44) ابنہ نے ابو حسان (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہا السلام) نے فرمایا کہ تم طبیب عالم کی طرح ہوجاؤ جو دوا کو وہاں رکھتا ہے جہاں نفع دے۔ (45) عمران بن سلیمان (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو یہ بات پہنچی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے بنی اسرائیل ! حقیر جانو دنیا کو تم پر بھی وہ حقیر ہوجائے گی حقیر جانو دنیا کو تم پر آخرت عظمت والی بنا دی جائے گی دنیا کی عزت نہ کرو ورنہ تم پر آخرت حقیر ہوجائے گی بلاشبہ دنیا کریم لوگوں کے لیے نہیں ہے اور ہر دن دنیا بلاتی ہے فتنہ اور نقصان کی طرف۔ (46) ابن المبارک واحمد نے ابو غالب (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی وصیت میں یوں ہے اے حواریوں کی جماعت اللہ کی طرف محبت کرو نافرمانوں سے بغض رکھتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجاؤ ان سے نفرت کرتے ہوئے اور اس کی رضا کو تلاش کرو اور ان سے غصہ کرتے ہوئے لوگوں نے کہا اے اللہ کے نبی ! ہم کون سی مجلس میں بیٹھیں ؟ تو انہوں نے فرمایا اس شخص کی مجلس میں بیٹھو جو تمہارے علم میں اضافہ کرے اپنی گفتگو سے اور جس کا دیکھنا تم کو اللہ تعالیٰ یاد دلائے اور دنیا میں اس کا عمل تم کو پرہیزگار بنا دے۔ (47) احمد نے مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھجی کہ اپنے آپ کو نصیحت کرو اگر تم خود نصیحت حاصل کرو (پھر) لوگوں کو نصیحت کرو ورنہ مجھ سے حیا کرو۔ (48) احمد نے وھب (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے حواریوں سے فرمایا جتنے قدر تم یہاں تکلیف اٹھاتے ہو اتنے قدر وہاں آرام پاؤ گے اور جتنے قدر تم یہاں آرام کروگے اتنے قدر وہاں تکلیف پاؤ گے۔ (49) ابن المبارک واحمد نے سالم بن ابی جعد (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جس کی زبان نے غم کا اظہار کیا اور اپنے گھر کو وسیع کرلیا اور اپنی خطاؤں کو یاد کر کے رو دیا۔ (50) ابن المبارک ابن ابی شیبہ نے بلال بن سیاف (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے جب تم میں سے کوئی صدقہ کے اپنے داہنے ہاتھ سے تو اس کو چاہیے کہ اس کو بائیں ہاتھ سے مخفی رکھے اور جب روزہ رکھے تو اس کو چاہیے کہ تیل لگا لے ار اپنے ہونٹوں کو تیل مل لے تاکہ دیکھنے والا جب اس کو دیکھ تو اس کو روزہ دار نہ سمجھے اور جب نماز پڑھے تو اس کو چاہیے کہ اپنے اوپر دروازے کا پردہ نیچے کردے (تا کہ نماز میں یکسوئی ہوجائے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ثناء کو اسی طرح تقسیم فرماتے ہیں جس طرح رزق کو تقسیم فرماتے تھے۔ مسلمان کی پردہ پوشی کی تعلیم (51) احمد ابن ابی الدنیا خالد ربعی (رح) سے روایت کیا ہے کہ یہ بات ثابت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے اصحاب سے فرمایا تم بتاؤ اگر تم میں سے کوئی اپنے مسلمان بھائی کے پاس آئے اور وہ سو رہا ہو اور ہوا نے اس کے بعض کپڑے کو کھول دیا ہو (یعنی ستر ظاہر ہوچکا ہو) ؟ تو قوم نے کہا ہم کپڑا اس پر ڈال دیں گے عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا نہیں بلکہ تم وہ کپڑا بھی کھول دو گے جو باقی ہے یہ مثال بیان کی اس قوم کی جو کسی آدمی کی برائی سنتے ہیں پھر وہ اس سے زیادہ (دوسروں) کے سامنے بیان کرتے ہیں۔ (52) احمد نے ابو الجید (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہا السلام) نے فرمایا میں نے مخلوق میں غورفکر کیا سو جو شخص (ابھی) پیدا نہیں ہوا میرے نزدیک زیادہ قابل رشک تھا اس شخص سے جو پیداہو چکا اور فرمایا لوگوں کے گناہوں کی طرف نہ دیکھو مگر یہ کہ تم (ان کے) مالک یا آقا ہو لیکن اپنے گناہوں میں نظر کرو گویا کہ تم غلام ہو (اللہ تعالیٰ کے) اور لوگ دو قسم کے ہیں ایک وہ آدمی جو کسی مصیبت میں مبتلا ہوا دوسرا وہ جو عافیت میں ہے پس تم مصیبت والوں پر رحم کرو اور عافیت پر اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرو۔ (53) ابن ابی شیبہ اور احمد نے ابو الھذیل (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) یحییٰ (علیہ السلام) سے ملے اور (ان سے) فرمایا مجھے کچھ وصیت کیجئے فرمایا غصہ نہ کر انہوں نے کہا میں اس کی طاقت نہیں رکھتا (پھر) فرمایا مال کی وجہ سے فتنہ میں نہ پڑ انہوں کہا شاید یہ کام کرلوں۔ (54) احمد، ابن ابی الدنیا نے مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے حواری ایک مردہ کتے پر سے گذرے انہوں نے کہا اس کی کتنی بدبو ہے آپ نے فرمایا اس کے دانت کتنے سفید ہیں یہ لوگوں کو نصیحت کر رہے ہیں اور غیبت سے ان کو منع کر رہے ہیں۔ حلال ذریعہ آمدن اختیار کرنے والوں سے خوش ہونا (55) احمد نے اوزاعی (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) (ایسے) بندے کو پسند فرماتے تھے جو کسی پیشہ کو سیکھتے جس کے ذریعہ وہ لوگوں سے بےپرواہ ہوجائے اور اس بندے کو ناپسند کرتے تھے جو علم سیکھے اور اس کو پیشہ (کمانے کا ذریعہ) بنائے۔ (56) ابن ابی شیبہ احمد اور ابن ابی الدنیا نے سالم بن ابو الجعد (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ کے لیے عمل کرو اور اپنے پیٹوں کے لیے عمل نہ کرو اس پرندے کی طرف دیکھو وہ صبح کو گھونسلہ سے نکلتا ہے اور شام کو واپس آتا ہے نہ کھیتی کرتا ہے نہ کاٹتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو رزق دے رہے ہیں اگر تم یہ بات کہو کہ ہم پرندے سے بڑے پیٹ والے ہیں ان وحشی گائیوں اور وحشی گدھوں کی طرف دیکھو جو صبح کو جاتے ہیں اور شام کو لوٹتے ہیں نہ کھیتی کرتے ہیں نہ کاٹتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو رزق دے رہے ہیں فضول دنیا سے بچو کیونکہ فضول دنیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک عذاب (کا باعث ہے ) ۔ (57) احمد نے وھب (رح) سے روایت کیا ہے کہ ابلیس نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تو یہ گمان کرتا ہے کہ تو مردون کو زندہ کرتا ہے اگر تو اس طرح کرسکتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ اس پہاڑ کو روٹی بنا دے عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا کیا تم روٹی کھا کر زندگی گذارتے ہو اگر ایسا ہی ہے تو کہتا ہے تو یہیں بیٹھو بلاشبہ فرشتے عنقریب تجھ کو ملیں گے پھر فرمایا بلا شبہ میرے رب نے مجھ کو حکم دیا کہ میں اپنے اوپر تجربہ نہ کروں میں نہیں جانتا مجھ کو سلامت رکھے گا یا نہیں۔ (58) احمد نے سالم بن ابو الجعد (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے سائل کے لیے حق ہے اگرچہ وہ ایسے گھوڑے پر آئے جو چاندی کے طوق پہنے ہوئے ہو۔ (59) ان کے بعض لوگوں سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی اگر تیرے دل کو یہ بات خوش نہ لگے کہ تیری تعریف کریں کہ میرے اندر زہد ہے میں تجھ کو اپنے پاس راہب (عبادت کرنے والا) نہیں لکھوں گا اگر لوگ تیرے ساتھ دشمنی رکھیں تو تجھ کو یہ بات نقصان نہ دے گی جب میں تجھ سے راضی ہوں اور لوگوں کی محبت تجھے نفع نہ دے گی اگر میں تجھ پر ناراض ہوں۔ (60) احمد نے حضرمی، ابن ابی الدنیا اور ابن عساکر (رح) سے دونوں حضرات نے فضیل بن عیاض (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہا گیا کس چیز کے ذریعہ آپ پانی پر چلتے ہیں فرمایا ایمان اور یقین کے ساتھ لوگوں نے کہا بلاشبہ ہم ایمان لے آئے جیسا کہ آپ ایمان لائے اور ہم نے یقین کیا جیسا کہ تم نے یقین کیا فرمایا تب تو چلو (پانی پر) وہ لوگ آپ کے ساتھ چلے ایک موج آئی تو وہ غرق ہوگئے ان کو عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم کو کیا ہوا ؟ انہوں نے کہا ہم موج سے ڈر گئے تھے فرمایا کیا تم موج کے رب سے نہیں ڈرتے پھر آپ نے ان کو باہر نکالا (اور) پھر اپنے ہاتھ زمین پر مارے ان کو بند کیا پھر کھول دیا۔ اچانک ان کے ایک ہاتھ میں سونا تھا اور ایک ہاتھ میں مٹی کا ڈھیلا تھا اور فرمایا ان دونوں سے تمہارے دلوں میں کون سی چیز قدرت ومنزلت والی ہے ؟ لوگوں نے کہا سونا آپ نے فرمایا میرے نزدیک دونوں برابر ہیں۔ (61) ابن المبارک ابن ابی شیبہ احمد نے اور ابن عساکر نے شعبی (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جب قیامت کا ذکر کیا جاتا تو چیخ مارتے اور فرماتے کہ ابن مریم (علیہا السلام) کے لیے یہ لائق نہیں ہے کہ اس کے پاس قیامت کا ذکر کیا جائے پھر خاموش ہوجائے۔ (62) احمد اور ابن عساکر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) بال (کے کپڑے پہنتے تھے اور درخت سے کھاتے تھے) اور کل کے لیے بچا کر نہ رکھتے تھے جہاں رات پڑجاتی وہیں رات گذار لیتے ان کی کوئی اولاد نہ تھی جس کا خوف ہوتا کہ وہ مرجائے گا اور نہ (ان کا) گھر تھا جس کے ویران ہونے کا ڈر ہوتا۔ (63) ابن عساکر نے حسن (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے دن زاہد لوگوں کے امام ہوں گے اور جو لوگ اپنے دین کو بچانے کے لیے بھاگے ہوں گے وہ قیامت کے دن عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) کے ساتھ ہوں گے ایک مرتبہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے ابلیس گذرا اور وہ ایک پتھر پر تکیہ لگائے ہوئے تھے اور آپ نیند سے لطف اٹھا رہے تھے ابلیس نے ان سے کہا اے عیسیٰ ! کیا تو یہ خیال کرتا ہے کہ تو دنیا کی کسی چیز کا ارادہ نہیں کرتا یہ پتھر دنیا کے سامان میں سے ہے ؟ عیسیٰ (علیہ السلام) کھڑے ہوگئے اور پتھر کو اٹھا کر شیطان کو مارا اور فرمایا یہ تیرے لیے ہے دنیا کے ساتھ۔ (64) ابن عساکر نے کعب ؓ سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) جو کھاتے تھے پیدل چلتے تھے جانور پر سوار نہ ہوتے تھے گھروں میں رہائش نہ رکھتے تھے چراغ نہ جلاتے تھے روئی (کے کپڑے) نہ پہنتے تھے عورتوں کو نہ چھوتے تھے خوشبو نہ لگاتے تھے اور پینے کی چیز میں کبھی کوئی چیز نہ ملاتے تھے اور نہ اس کو ٹھنڈا کرتے تھے سر میں کبھی تیل نہ لگاتے تھے اپنے سر اور داڑھی کو کسی چیز سے کبھی نہ دھوتے تھے زمین اور آپ کے جسم کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہوتی مگر صرف ان کا لباس ہوتا تھا صبح کے لیے کبھی کوئی چیز تیار نہ کرتے تھے اور نہ عشاء کے لئے کوئی چیز تیار کرتے تھے اور دنیا کی لذات میں کسی چیز کی لذت نہیں اٹھاتے تھے اور ضعیف دائمی مریضوں اور مسکین لوگوں کے ساتھ بیٹھتے تھے اور کسی چیز میں کھانا رکھ کر پیش کیا جاتا تو اس کو زمین پر رکھ دیتے تھے اور کھانے کے ساتھ سالن کبھی نہیں کھاتے تھے اور دنیا سے قلیل مقدار جس سے زندہ رہا جائے لیتے تھے اور فرماتے تھے یہ (مقدار) اس شخص کے لیے ہے جو مرنے والا ہے اور اس نے اس بارے میں حساب دینا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے نکاح نہیں کیا (65) ابن عساکر نے حسن ؓ سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) سے کہا گیا آپ نکاح کرلیں تو فرمایا میں نکاح کرنے سے کیا کروں گا ؟ لوگوں نے کہا آپ کے لیے اولاد پیدا ہوگی فرمایا اولاد اگر زندہ رہی تو فتنہ میں ڈال دیتی ہے اگر مرگئی غمگین کرے گی۔ (66) ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے شعب میں شعب بن اسحاق (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہا گیا اگر آپ گھر بنا لیتے (تو اچھا تھا) فرمایا ہمارے لیے بوسیدہ گھر کافی ہے جو ہم سے پہلے لوگوں کے تھے۔ (67) ابن ابی الدنیا والبیہقی نے میسرہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہا گیا کیا آپ اپنے لیے گھر نہیں بناتے ؟ فرمایا میں دنیا میں سے اپنے لیے کوئی چیز نہیں چھوڑوں گا کہ اس کے ذریعہ یاد کیا جاؤں۔ (68) ابن عساکر نے ابو سلیمان (رح) سے روایت کیا ہے کہ اس درمیان عیسیٰ (علیہ السلام) ایک گرمی کے دن چل رہے تھے اور آپ کو گرمی اور پیاس نے ستایا ہوا تھا تو ایک خیمہ کے سایہ میں بیٹھ گئے تو خیمے والا ان کی طرف نکلا اور کہا اے عبد اللہ ! ہمارے سائے سے کھڑا ہوجا عیسیٰ (علیہ السلام) کھڑے ہوگئے اور دھوپ میں بیٹھ گئے اور فرمایا تو نہیں ہے جس نے مجھے کھڑا کیا بلاشبہ مجھ کو کھڑا کیا اس ذات نے جس نے نہیں ارادہ کیا کہ دنیا میں سے کوئی چیز مجھ کو پہنچ جائے۔ (69) احمد نے سفیان بن عینیہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ اور یحییٰ (علیہما السلام) دونوں ایک بستی میں آئے عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس بستی کے شریر لوگوں کے بارے میں سوال کیا اور یحییٰ (علیہ السلام) نے اس بستی کے اچھے لوگوں کے بارے میں سوال کیا یحییٰ (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا آپ برے لوگوں کے پاس کیوں جاتے ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میں طبیب ہوں اور مریضوں کی دوا کرتا ہوں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیمات (70) احمد نے ہشام دستوائی (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی حکمت میں سے یہ بھی ہے کہ تم عمل کرتے ہو دنیا کے لیے اور تم اس میں رزق دئیے جاتے ہو بغیر عمل کے اور تم آخرت کے لیے عمل نہیں کرتے جبکہ تم کو وہاں بغیر عمل کے رزق نہیں دیا جائے گا۔ افسوس ہے تم پر (اے) برے علماء اجر کو تم لے لیتے ہو اور عمل کو ضائع کردیتے ہو عنقریب تم دنیا سے جاؤ گے قبر کے اندھیرے اور اس کی تنگی کی طرف اور اللہ تعالیٰ عزوجل تم کو گناہوں سے روکتے ہیں جیسا کہ تم کو روزہ اور نماز کا حکم کرتے وہ آدمی کیسے ہوسکتا ہے اہل علم سے کہ اس کے نزدیک دنیا سب سے زیادہ پسندیدہ ہو اس کی آخرت سے اور وہ دنیا میں زیادہ رغبت کرنے والے ہو وہ آدمی کیسے ہوسکتا ہے اہل علم میں سے جو دنیا میں اپنے مرتبہ پر ناراض ہو اور اسے حقیر جانے جبکہ وہ خوب جانتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی قدرت سے ہے وہ آدمی کیسے ہوسکتا ہے اہل علم میں سے کہ جو اللہ تعالیٰ پر تہمت لگائے اس کے فیصلوں میں اور اس پر راضی نہ ہو جو اس کو تکلیف پہنچی ہے وہ آدمی کیسے ہوسکتا ہے اہل علم میں سے جو علم اس لیے حاصل کرتا ہے کہ گفتگو کرے اور اس لیے حاصل نہیں کرتا کہ اس پر عمل کرے۔ (71) احمد نے سعید بن عبد العزیز (رح) سے روایت کیا ہے وہ اپنے شیوخ سے روایت کرتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) وادی افیق سے گذرے ان کے ساتھ ایک آدمی ان کے حواریوں میں سے تھا ایک آدمی ان کو پیش آگیا اور ان کو راستہ سے روکا اور کہنے لگا میں تم دونوں کو یہاں سے نہیں گذرنے دوں گا یہاں تک کہ تم میں سے ہر ایک کو تھپڑ ماروں گا ان دونوں نے حیلہ سے جان چھڑانے کی کوشش کی مگر اس نے انکار کیا اسی کا (تھپڑ مارنے کا) عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا رخسار حاضر ہے اس کو تھپڑ ماردو اس نے تھپڑ مار دیا اور ان کا راستہ چھوڑ دیا پھر اس نے حواری سے کہا میں تجھ کو اس وقت تک نہیں گذرنے دوں گا یہاں تک کہ میں تجھ کو تھپڑ ماروں گا آپ کے ساتھی نے اسے ایسا کرنے کی اجازت نہ دی جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس بات کو دیکھا تو اپنا دوسرا رخسار اس کے سامنے کردیا پھر اس نے آپ کو ایک تھپڑ مارا اور ان دونوں کا راستہ چھوڑ دیا (پھر) عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے اللہ ! اگر یہ ہو آپ کی رضا کے لیے تو مجھ کو نواز دے اپنی رضا سے اور اگر یہ ہو آپ کی ناراضگی کے لیے تو بلاشبہ آپ معاف کرنے کے زیادہ لائق ہیں۔ (72) عبد اللہ ابنہ نے حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا ہے کہ اس درمیان کے عیسیٰ (علیہ السلام) اپنے ساتھیوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت پاس سے گذری ایک ساتھی نے اس عورت کی طرف دیکھا تو ایک ساتھ نے دیکھنے والے سے کہا کہ تو نے (آنکھ کا) زنا کیا ہے عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا تم بتاؤ اگر تو روزہ دار ہوتا اور تیرے پاس سے کوئی بھنی ہوئی چیز کر گذرتا تو اس کو سونگھ لیتا تو کیا تیرا روزہ ٹوٹ جاتا تو اس نے کہا (روزہ نہ ٹوٹتا) ۔ (73) احمد نے عطاء (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ کسی بستی میں داخل نہیں ہوا مگر یہ کہ بستی کے رہنے والوں نے وہاں سے نکالنا چاہا تو مجھے انہوں نے نکال ہی دیا اور عیسیٰ علیہ السلا اپنی جوتی درخت کی چھال سے بنا لیتے تھے اور اسی سے اس کے تسمے بھی بنا لیتے۔ (74) احمد نے سعید بن عبد العزیز (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ایسا نہیں ہے جیسے میں ارادہ کرتا ہوں لیکن ایسا ہے جیسے تو ارادہ کرتا ہے اور ایسا نہیں ہوتا جیسے میں چاہتا ہوں اور ایسا ہوتا ہے جیسے تو چاہتا ہے۔ (75) احمد نے سعید بن عبد العزیز (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ عیسیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب یہ تھا کہ ان کو مسکین کہا جائے۔ شیطان مال کے ساتھ دھوکہ دیتا ہے (76) ابنہ نے ابن حلیس (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ شیطان دنیا کے ساتھ ہے اور اس کا دھوکہ دینا مال کے ساتھ ہے نفس کی خواہش کو زینت دیتا ہے اور اس کا پورا ہونا (یعنی زینت کا) شہوات کے وقت ہوتا ہے۔ (77) ابن ابی شیبہ واحمد نے جعفر بن برقان (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے اے اللہ ! بیشک میں نے صبح کی اس حال میں کہ نہیں طاقت رکھتا اس چیز کو روکنے کی جس کو میں ناپسند کرتا ہوں اور میں اس نفع کا مالک نہیں ہوں جس کی میں امید رکھتا ہوں اور کام میرے علاوہ غیر کے قبضہ میں ہے اور میں نے صبح کی اپنے عمل کے ساتھ رہن رکھا ہوا ہوں اور مجھ سے زیادہ کوئی فقیر نہیں میرے دشمنوں کو میرے ساتھ نہ ہنسا میری وجہ سے تکلیف نہ دے میرے دوست کو اور میرے دین کے لیے میری مصیبت نہ بنا دے اور مجھ پر ایسے آدمی کو مسلط نہ کر جو مجھ پر رحم نہ کرے۔ (78) احمد نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ آپ نے حواریوں کے مکتوبات میں فرمایا جب تجھے کسی مصیبت کے راستہ پر چلایا جائے تو جان لے کہ تجھے انبیاء اور صالحین کے راستہ پر چلا گیا ہے اور جب تجھے خوشحال لوگوں کے راستہ پر چلایا جائے تو جان لے کہ تجھے ان کے راستے کے علاوہ دوسرا راستہ پر چلایا گیا اور تیرے ساتھ ان کے طریقے سے مخالفت کی گئی۔ (79) احمد نے مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا بلاشبہ میں تم کو بھیجتا ہوں سو تم نہ ہوجانا بھوکے بھیڑیوں کی طرح جو لوگوں کو اچک لیتے ہیں اور تم پر لازم ہے حفاظت کرنا ان بچھڑوں کا تمہارا کیا حال ہوگا کہ تم (یعنی سوؤروں) کے دل (کی طرح) ہیں بادشاہوں کے لباس پہنوا پنے دلوں کو للہ کے ڈر سے نرم کرو اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے آدم کے بیٹے ! نیک عمل کر۔ یہاں تک کہ تیرا عمل آسمان تک پہنچ جائے اگر عمل اللہ کی محبت میں نہ ہوگا تو تجھ کو ذرا بھی کام نہیں آئے گا اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں سے فرمایا کہ ابلیس ارادہ کرتا ہے کہ تم کو بخل میں ڈال دے پس تم بخل میں نہ پڑنا۔ (80) احمد نے حسن بن علی صنعانی (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے حواریوں کی جماعت اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ مجھ پر موت آسان ہوجائے پھر عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یقینی طور پر میں موت سے ایسا ڈرتا ہوں جیسے موت موت سے ڈرتی ہے۔ (81) احمد نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ایک قبر پر کھڑے ہوئے ان کے ساتھ حواری بھی تھے اور قبر والا دفن کیا جا رہا تھا تو حواریوں نے قبر کے اندھیرے کو اور اس کی وحشت کو اور اس کی تنگی کا ذکر کیا تو عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تم اس سے پہلے ماؤں کے رحموں میں اس سے بھی زیادہ تنگ جگہ میں تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ چاہیں گے کہ وہ کشادہ ہوجائے تو وہ کشادہ ہوجائے گی۔ (82) احمد نے وھب (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اللہ کے ذکر کی کثرت کرو اس کی حمد بیان کرو اور اس کی پاکی بھی بیان کرو اور اس کی اطاعت کرو تم میں سے ہر ایک کے لیے دعا کافی ہے اگر اللہ تعالیٰ اس پر راضی ہے (تو یوں دعا کرے) اے اللہ ! میری خطاؤوں کو معاف کر دے اور میری زندگی کی اصلاح کر دے اور مجھے ناگوار چیزوں سے عافیت میں رکھ اے میرے معبود !۔ (83) احمد نے ابو الجعد (رح) سے روایت کیا ہے کہ (عیسیٰ (علیہ السلام) نے حواریوں سے فرمایا) میں تم کو سچی بات کہتا ہوں نہ تم دنیا کا ارادہ اور نہ آخرت کا ارادہ حواریوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس بات کو ہم سے کھول کر بیان کیجئے ہم دیکھ رہے ہیں ہم میں سے (ہر) ایک ان دونوں (دنیا وآخرت) میں سے ہر ایک کا ارادہ کرتا ہے آپ نے فرمایا اگر تم نے دنیا کا ارادہ کیا ہوتا تو تم نے دنیا کے رب کی اطاعت کی ہوتی کہ جس کے ہاتھ اس دنیا کے خزانوں کی چابیاں ہیں سو اس نے تمہیں عطا کردیا ہوتا اور اگر تم نے آخرت کا ارادہ کیا تو تم نے آخرت کے رب کی اطاعت کی ہوتی جو آخرت کا مالک ہے وہ تم کو عطاء فرما دیتا ہے لیکن تم نے نہ تو اس دنیا کا ارادہ کیا ہے اور نہ اس کا (یعنی آخرت کا) ۔ جو کی روٹی اور سبزیاں (84) احمد نے ابو عبیدہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ حواریوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہا ہم کیا کھائیں فرمایا تم جو کی روٹی کھاؤ اور جنگل کی سبزیاں کھاؤ لوگوں نے کہا کیا چیزیں پیں فرمایا صاف اور خالص پانی پیؤ لوگوں نے کہا ہم کس چیز سے تکیہ لگائیں فرمایا زمین کا تکیہ بنا لو لوگوں نے کہا ہم آپ نہیں دیکھتے کہ آپ ہم کو سخت چیزوں کا حکم دیتے ہیں آپ نے فرمایا اسی کے ذریعہ تم نجات پاؤ گے اور تم آسمانوں کے بادشاہ تک نہیں پہنچ سکتے جب تک تم میں سے ہر ایک اس وقت تک یہ کام نہ کرے جب تک اس کی شدید خواہش نہ ہو لوگوں نے کہا یہ کسی طرح ہوسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا کیا تم نے نہیں دیکھا کہ آدمی جب بھوکا ہوتا ہے تو اس کے نزدیک ایک ٹکڑا (روٹی کا) زیادہ محبوب ہوتا ہے اگرچہ جو کا ہو اگر اس کو پیاس لگی ہو تو اس کے نزدیک پانی سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے اگرچہ وہ سادہ پانی ہو اور جب (کسی جگہ) قیام لمبا ہوجائے تو اس کو زمین سے ٹیک لگانا زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ (85) احمد نے عطاء سے روایت کیا ہے کہ ان کو یہ بات پہنچی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا لوگوں کو بلا فصاحت کے ساتھ اور بیدار ہو غفلت کے اوقات میں اور تم فیصلہ کرو ذہانت کے ساتھ ناکارہ پھینکی ہوئی چیز نہ بنو اور تو زندہ ہے سانس لینے والا۔ (86) ابن ابی شیبہ واحمد نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے اے حواریوں کی جماعت اپنے گھروں کو عارضی ٹھکانہ بناؤ اور مسجدوں کو ٹھہرنے کی جگہ بناؤ اور جنگل کی سبزیوں میں سے کھاؤ اور سلامتی کے ساتھ دنیا سے نکل جاؤ۔ (87) احمد نے ابراہیم التیمی (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اپنے خزانوں کو آسمانوں میں بناؤ کیونکہ آدمی کا دل اس کے خزانہ کے پاس ہے۔ (88) ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن سعید جعفی (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میرا گھر مسجد ہے میری خوشبو پانی ہے، میرا سالن بھوک ہے، میرا شعار خوف ہے، میری سواری میری ٹانگیں ہیں، اور سردی میں میری انگیٹھی سورج کی کرنیں ہیں اور رات کو میرا چراغ چاند ہے۔ اور میرے ہم نشین اپاہج اور مساکین ہیں، اور میری شام اس حال میں ہوتی ہے کہ میرے لیے کوئی چیز نہیں ہوتی اور صبح اس حال میں ہوتی ہے کہ میرے لیے کوئی چیز نہیں ہوتی اور میں خیر سے ہوں پس کون مجھ سے زیادہ غنی ہے۔ (89) ابن ابی الدنیا نے فضیل بن عیاض (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تمہارے لیے دنیا بچھا دی گئی اور تم اس کی پیٹھ پر بیٹھتے ہو پس نہ جھگڑا کریں گے تم سے مگر بادشاہ اور عورتیں لیکن بادشاہ سو ان سے تم جھگڑا نہ کرو دنیا کے بارے میں کیونکہ وہ تمہارے لیے اپنی دنیا کو پیش نہیں کریں گے لیکن عورتیں سو ان سے روزہ اور نماز کے ذریعہ بچو۔ (90) ابن عساکر نے سفیان ثوری (رح) سے روایت کیا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) نے فرمایا بلاشبہ تم طلب کرتے ہو دنیا کو تاکہ تم اس کی مدد سے نیکی کرو لیکن اس کو چھوڑنا زیادہ نیکی ہے۔ (91) ابن عساکر نے شعب بن صالح (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم نے فرمایا اللہ کی قسم ! کسی دل میں نہیں جگہ پکڑتی دنیا کی محبت مگر اس کے دل میں تین چیزیں آجاتی ہیں ایسا مشغلہ جو اس کے دل سے جدا نہ ہو اور (ایسا) فقر کہ جس سے اپنی مالداری کو نہیں پائے اور (ایسی) آرزو جس کی انتہاء نہ پائی جاسکے طالب بھی ہے اور مطلوب بھی ہے سو آخرت کا طالب اس کو دنیا طلب کرتی ہے یہاں تک کہ اس میں وہ اپنے رزق کو پورا کرتا ہے اور دنیا کا طالب اس کو آخرت طلب کرتی ہے یہاں تک کہ موت آجاتی ہے اور اس کی گردن پکڑ لیتی ہے۔ (92) ابن عساکر نے یزید بن میسرہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) نے فرمایا جتنا تم تواضع اختیار کرو گے اتنا ہی تم بلند کئے جاؤ گے (یعنی اتنا ہی بلند مقام ملے گا) اور جتنا تم رحم کرو گے اتنا تم رحم کئے جاؤ گے اور جتنا تم لوگوں کی ضروریات پوری کرو گے اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہاری ضروریات پوری فرمائیں گے۔ (93) احمد، ابن عساکر نے شعبی (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) نے فرمایا یہ احسان نہیں ہے کہ تو اس کے ساتھ احسان کرے جو تیرے ساتھ احسان کرتا ہے یہ تو برابری ہے احسان یہ ہے کہ تو اس کے ساتھ احسان کرے جو تیرے ساتھ برائی کرے۔ گالی دینے والے کے ساتھ حسن سلوک (94) ابن عساکر نے ابن مبارک (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) ایک قوم کے پاس سے گذرے انہوں نے ان کو گالیاں دیں اور انہوں نے (ان سے) خیر کی بات کی پھر دوسرے لوگوں کے پاس سے گذرے انہوں نے ان کو اور زیادہ گالیاں دیں اور انہوں نے ان کو اور زیادہ خیر کے کلمات کہے تو حواریوں میں سے ایک نے کہا وہ جب آپ کے ساتھ زیادہ سختی کرتے ہیں آپ اتنا ہی زیادہ ان سے اچھا سلوک کرتے ہیں گویا آپ ان کو ایسا طرز عمل اپنانے پر آمادہ کرتے ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ہر انسان وہی کچھ دیتا ہے جو اس کے پاس ہوتا ہے۔ (95) ابن ابی الدنیا نے مالک بن انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک خنزیر عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس سے گذرا آپ نے فرمایا گذر جا سلامتی کے ساتھ ان سے کہا گیا اے روح اللہ ! اس خنزیر کے لیے آپ نے یوں فرمایا آپ نے فرمایا میں اس بات کو ناپسند کرتا ہوں کہ میری زبان کو بری بات کرنے کی عادت پڑجائے۔ (96) ابن ابی الدنیا نے سفیان ؓ سے روایت کیا ہے کہ لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کیا ہم کو ایسا عمل بتا دیجئے جو ہم کو جنت میں داخل کر دے آپ نے فرمایا بالکل نہ بولو انہوں نے عرض کیا ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے پھر فرمایا تم نہ بولو انہوں نے عرض کیا ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے پھر فرمایا تم نہ بولو مگر خیر کے ساتھ۔ (97) الخرائطی نے ابراہیم نخعی (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا حق کو لے لو باطل والوں سے اور باطل کو نہ لو (حق والوں سے اور ہوجاؤ کلام کے پرکھنے والے) تاکہ فضول کلام تم پر غالب نہ آجائے۔ (98) ابن ابی الدنیا و بیہقی نے زہد میں زکریا بن عدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) نے فرمایا اے حواریوں کی جماعت ! راضی ہوجاؤ دنیا کی ذلت پر دین کی سلامتی کے ساتھ جیسے راضی ہوجاتے ہیں دنیا والے دین کی ذلت اور رسوائی پر دنیا کی سلامتی کے ساتھ۔ (99) ابن عساکر نے مالک بن دینار (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) جو کی روٹی راکھ کے ساتھ کھانا اور کتوں کے ساتھ گوبر کے ڈھیر پر سونا البتہ کم ہے جنت الفردوس کو طلب کرنے سے۔ کوئی بندہ دو مالک راضی نہیں کر سکتا (100) ابن عساکر نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کوئی بندہ نہیں طاقت رکھتا کہ اس کے لیے دو مالک ہوں ان دونوں میں سے ایک کو راضی کرے گا تو دوسرا ناراض ہوگا اور اگر ان دونوں میں سے ایک کو ناراض کرے گا تو دوسرے کو راضی کرے گا اور اسی طرح کوئی بندہ نہیں طاقت رکھتا کہ ایک دنیا کا خادم ہو اور آخرت کے لیے عمل کرے بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو بڑا پیدا نہیں فرمایا اس کے رزق سے اور اس کے جسم کو بڑا نہیں بنایا اس کے لباس سے پس عبرت حاصل کرو۔ (101) ابن عساکر نے معتبری (رح) سے روایت کیا ہے کہ ان کو یہ بات پہنچی ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) فرمایا کرتے تھے اے ابن آدم ! جب تو نیک کام کرے تو اس سے غافل ہوجا کیونکہ وہ ایسی ذات کے پاس ہے جو اس کو ضائع نہیں کرے گا اور جب تو کوئی برا کام کرے تو اس کو اپنے سامنے رکھ۔ (102) ابن عساکر نے سعید بن ابی ہلال (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ حرص اس کے رزق کو زیادہ کر دے گا قومیں اپنی لمبائی چوڑائی عمارتوں کی تعداد میں اور اپنے رنگ کو تبدیل کرنے میں اضافہ کرے خبردار ! بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا اور مخلوق کو اس کے لیے پیدا فرمایا جس کے لیے اس کو پیدا فرمایا پھر رزق کو تقسیم فرمایا جس کے لیے رزق تقسیم کیا گیا اس کے لیے رزق جاری ہے دنیا اس کو کوئی چیز دینے والی نہیں جو اس کی نہ ہو اور نہ ہی اس چیز کو روکنے والی ہے جس تمہاری ہو تم پر لازم ہے اپنے رب کی عبادت کرنا بلاشبہ تم اس کے لیے پیدا کئے گئے ہو۔ (103) ابن عساکر نے عمران بن سلیمان (رح) سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) نے اپنے اصحاب سے فرمایا اگر تم میرے بھائی اور میرے ساتھ ہو تو اپنی جانوں کو آمادہ کرو دشمنی پر اور بغض پر لوگوں سے۔ (104) احمد اور بیہقی نے عبد العزیز بن ظیبان (رح) سے روایت کیا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) نے فرمایا جس شخص نے علم سیکھا اور عمل کیا اور (پھر) (لوگوں کو) سکھایا وہ عظیم پکارا جاتا ہے آسمانوں کی بادشاہت میں۔ (105) ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) بنی اسرائیل میں کھڑے ہوئے اور فرمایا اے حواریوں کی جماعت ! بیان کرو حکمت (کی باتوں) کو ان لوگوں کے پاس جو اس کے لائق نہ ہو (اگر تم ایسا کرو گے) تو تم اپنے اوپر ظلم کرو گے اور نہ روکو اس کو ان لوگوں سے جو اس کے لائق ہوں۔ (اگر تم ایسا کرو گے) تو تم ان لوگوں پر ظلم کرو گے اور کام تین قسم پر ہیں ایک وہ کام جس کا ہدایت ہونا واضح ہو تو اس کی تابعداری کرو دوسرا وہ کام جس کی گمراہی واضح ہو تو اس سے بچو اور تیسرا وہ کام جس میں تم پر اختلاف کیا گیا ہو تو اس کے علم کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرو۔ (106) ابن عساکر نے عمرو بن قیس الملائی (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) نے فرمایا اگر تم نے حکمت کو روک دیا اس کے اہل سے تو تو نے جہالت کی اور اگر تو نے اس کو دے دیا کسی غیر اہل کو تو تو نے جہالت کی اس طبیب کی مانند ہوجا اگر وہ دوا کا موقعہ دیکھتا ہے تو دوائی دیتا ہے ورنہ دوائی سے رک جاتا ہے۔ (107) عبد اللہ بن احمد نے الزھد میں اور ابن عساکر نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) نے اپنے حواریوں سے فرمایا اے حواریوں کی جماعت ! موتیوں کو خنزیر کی طرف ڈالو کیونکہ خنزیر موتیوں کے ساتھ کچھ بھی کام نہیں لیتا اور حکمت نہ دو اس شخص کی طرف جو اس کا ارادہ نہیں کرتا ہو کیونکہ حکمت موتیوں سے بہتر ہے اور جو شخص اس (حکمت) کا ارادہ نہیں کرتا وہ خنزیر سے بھی برا ہے۔ (108) ابن عساکر نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اے برے علماء ! تم بیٹھے ہو جنت کے دروازوں پر نہ خود تم اس میں داخل ہوتے ہو اور نہ تم مسکینوں کو داخل ہونے دیتے ہو کہ وہ اس میں داخل ہوجائیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں میں سے برا وہ عالم ہے جو دنیا کو اپنے علم کے ذریعہ سے طلب کرتا ہو۔ (109) ابن ابی شیبہ نے سالم بن ابی جعد (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ بن مریم (علیہما السلام) نے فرمایا نفس کا بات کرنا گناہ کے ساتھ ایسا ہے جیسا مثال دھوئیں کی گھر میں کہ اس کو نہیں جلاتا ہے لیکن اس کی ہوا کو بد بودار بنا دیتا ہے اور اس کے رنگ کو بدل دیتا ہے۔ قولہ تعالیٰ : والتورۃ والانجیل : (110) ابن جریر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) تورات اور انجیل پڑھا کرتے تھے۔
Top