Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 59
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ١ؕ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
اِنَّ : بیشک مَثَلَ : مثال عِيْسٰى : عیسیٰ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک كَمَثَلِ : مثال جیسی اٰدَمَ : آدم خَلَقَهٗ : اس کو پیدا کیا مِنْ : سے تُرَابٍ : مٹی ثُمَّ : پھر قَالَ : کہا لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : سو وہ ہوگیا
بلاشبہ اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال ایسی ہے جیسے آدم کی مثال، پیدا فرمایا ان کو مٹی سے پھر ان سے فرما دیا ہوجا پس ان کی پیدائش ہوگئی۔
عیسیٰ (علیہ السلام) آدم (علیہ السلام) کے مشابہ ہیں (1) ابن جریر وابن ابی حاتم نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے اہل نجران میں سے ایک جماعت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی ان میں السید اور العاقب بھی تھے انہوں نے آپ کو آکر عرض کیا آپ کو کیا ہوا کے آپ ہمارے صاحب کے بارے میں ایسا ایسا کہتے ہو۔ آپ نے فرمایا تمہارا صاحب کون ہے ؟ انہوں نے کہا عیسیٰ (علیہ السلام) تمہارا خیال ہے کہ وہ اللہ کا بندہ ہے آپ نے فرمایا ہاں ! وہ اللہ کا بندہ ہے انہوں نے کہا کیا آپ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے مثل کوئی دیکھا ہے یا آپ کو اس کے متعلق کوئی خبر دی گئی ہے پھر وہ آپ سے چلے گئے تو آپ کے پاس جبرئیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا اگر وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کو فرمادیجئے لفظ آیت ” ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم “ (یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم (علیہ السلام) کی طرح ہے) ۔ (2) عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ اہل نجران کے سردار اور ان کے علماء السید اور العاقب نبی اکرم ﷺ سے ملے ان دونوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ ہر آدمی کا باپ ہوتا ہے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ ان کا کوئی باپ نہیں ؟ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لفظ آیت ” ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم “۔ (3) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو اللہ پاک نے نبوت عطا فرمائی تو اہل نجران نے سنا اور ان کے علماء میں سے ان کے چار آدمی آئے ان میں السید العاقب ماسر جس اور مابحر تھے انہوں نے سوال کیا کہ آپ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ اللہ کا بندہ ہے اس کی روح ہے اور اس میں کلمہ انہوں نے کہا وہ ایسا نہیں ہے لیکن وہ اللہ ہے جو اپنے ملک سے نازل ہو کر مریم کے پیٹ میں داخل ہوا پھر اس میں سے نکل آیا اس نے ہمیں اپنی قدرت اور اپنا معاملہ دکھایا کیا آپ نے کسی انسان کو دیکھا کبھی بھی جو بغیر باپ کے پیدا ہوا یہ (اس پر) اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا لفظ آیت ” ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم “ (4) ابن جریر نے عکرمہ ؓ سے اس آیت ” ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم “ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت نجران میں سے العاقب اور السید کے بارے میں نازل ہوئی۔ (5) ابن جریر وابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو یہ بات پہنچی کہ نجران کے نصاری کا ایک وفد نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا ان میں السید اور العاقب بھی تھے اور وہ دونوں ان دنوں اہل نجران کے سردار تھے انہوں نے (آکر) کہا اے محمد ! ﷺ تم کیوں ہمارے صاحب کو برا بھلا کہتے ہو ؟ آپ نے فرمایا تمہارا صاحب کون ہے ؟ انہوں نے کہا عیسیٰ بن مریم ! (اور) تم یہ خیال کرتے ہو کہ وہ بندہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں بلاشبہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور اس کا کلمہ ہیں جو اس نے مریم کی طرف ڈالا تھا اور اس کی طرف سے روح ہیں (یہ سن کر) وہ غضبناک ہوگئے اور کہنے لگے اگر تو سچا ہے تو ہم کو ایسا بندہ دکھا جو مردوں کو زندہ کرتا ہو مادر زاد اندھے کو بینا کرتا ہو اور مٹی سے پرندے کی شکل بنا کر اس میں پھونک مار کر اڑا دیتا ہو لیکن وہ اللہ ہے (جو ایسے کام کرتا ہے) آپ خاموش ہوگئے یہاں تک کہ جبرئیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا اے محمد ﷺ لفظ آیت ” لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ھو المسیح ابن مریم “ (سورۃ المائدۃ 17) (یعنی کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ وہی مسیح بن مریم) پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے جبرئیل ! ان لوگوں نے مجھ سے سوال کیا ہے میں ان کو مثل عیسیٰ کے بارے میں بتاؤں (کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح پیدائش میں کون اس طرح کا ہوسکتا ہے) تو جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا لفظ آیت ” ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون “ جب صبح ہوئی تو وہ لوگ لوٹے آپ نے ان پر یہ آیتیں پڑھیں۔ (6) ازرق بن قیس (رح) سے روایت کیا ہے کہ نجران سے اسقف اور عاقب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے آپ نے ان کو اسلام پیش کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو آپ سے پہلے ہی مسلمان ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تم نے جھوٹ کہا تم میں تین باتیں ہیں تمہارا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد بنا لی ہے اور تمہارا صلیب کو سجدہ کرنا ہے اور تمہارا خنزیر کے گوشت کو کھانا انہوں نے کہا ( اچھا بتاؤ) عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ کون ہے ؟ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائیں لفظ آیت ” ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم “ سے لے کر ” بالمفسدین “ تک جب یہ آیات نازل ہوئیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو مباہلہ کی طرف بلایا انہوں نے کہا اگر وہ نبی ہیں تو ہم کو نہیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے پر لعنت کریں (اس لیے) انکار کردیا پھر انہوں نے کہا اس کے علاوہ آپ ہم پر کیا پیش کرتے ہیں آپ نے فرمایا اسلام یا جزیہ یا جنگ تو انہوں نے جزیہ دینے کا اقرار کرلیا۔ (7) عبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” الحق من ربک فلا تکن من الممترین “ سے مراد ہے یعنی آپ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں شک نہ کیجئے بلاشبہ وہ مثل آدم کے اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں۔ (8) ابن المنذرنے شعبی (رح) سے روایت کیا ہے نجران کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور انہوں نے کہا آپ ہم کو عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بتائیے آپ نے فرمایا وہ اللہ کے رسول ہیں اور اس کا کلمہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کو مریم (علیہا السلام) کی طرف القاء کیا انہوں نے کہا عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تو اس سے بڑھ کر مقام ہونا چاہئے تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں لفظ آیت ” ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم “ پھر کہنے لگے عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے یہ بات لائق نہیں کہ وہ آدم کی مثل ہوں (پھر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی لفظ آیت ” فمن حاجک فیہ من بعد ما جاءک من العلم فقل تعالوا ندع ابناء نا وابناء کم ونساء نا ونساء کم وانفسنا وانفسکم “۔ (9) ابن جریر نے عبد اللہ بن الحرث بن جزاء الزبیدی ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کاش کہ میرے اور اہل نجران کے درمیان کوئی پردہ ہوتا نہ میں ان کو دیکھتا اور نہ وہ مجھ کو دیکھتے اس وجہ سے جو انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے سخت جھگڑے کیے۔ عیسائیوں کو دعوت ایمان (10) بیہقی نے دلائل میں سلمہ بن عبد یشوع (رح) سے روایت کیا ہے اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے ” سورة طس “ نازل ہونے سے پہلے اہل نجران کی طرف خط لکھا : ” بسم اللہ الہ ابراہیم واسحق و یعقوب من محمد رسول اللہ الی اسقف نجران اوھل نجران ان اسلتمتم فانی احمد الیکم اللہ الہ ابراہیم واسحق و یعقوب اما بعد فانی ادعوکم الی عبادۃ اللہ من عبادۃ العباد وادعوکم الی ولایۃ العباد فان ابیتکم فالجزیۃ وان ابیتم فقد اذنتکم بالحرب والسلام : ترجمہ : ساتھ نام اس اللہ کے جو معبود ہے ابراہیم کا اسحاق کا اور یعقوب کا محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اسقف نجران اور اہل نجران کی طرف اگر تم مسلمان ہوجاؤ تو بہتر ہے بلاشبہ میں تمہاری طرف اس اللہ کی تعریف کرتا ہوں جو معبود ہے ابراہیم اسحاق اور یعقوب کا اما بعد میں تم کو اللہ کی عبادت کی طرف بلاتا ہوں بندوں کی عبادت سے اور میں تم کو اللہ کی بادشاہت کی طرف بلاتا ہوں بندوں کی حکمرانی سے اگر تم انکار کرو (میری دعوت کا) تو جزیہ ادا کرو اور تم اس کا بھی انکار کرو تو پھر میں تمہارے ساتھ اعلاد جنگ کرتا ہوں۔ ” والسلام “۔ جب اسقف نے اس خط کو پڑھا تو وہ اس کی وجہ سے مشکل میں پڑگیا اور سخت خوف زدہ ہوگیا اس نے اہل نجران میں سے ایک آدمی کو بلایا جس کو شرجیل بن وراعہ کہا جاتا تھا اس نے نبی اکرم ﷺ کا خط اس کو دیا اس نے اس کو پڑھا اور اسقف نے اس کو کہا تیری کیا رائے ہے ؟ شرجیل نے کہا تو جانتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) سے وعدہ فرمایا تھا اسماعیل کی اولاد میں سے نبوت عطا فرمائے گا سو لوگ ایمان لائیں گے اگر یہ وہی آدمی ہے نبوت کے بارے میں میری کوئی رائے نہیں اگر دنیا کے کام میں رائے ہوتی تو میں اس بارے میں تجھ کو مشورہ دیتا اور تیرے لیے کوشش کرتا اسقف نے اہل نجران کی طرف باری باری پیغام بھیجا تو ہر ایک نے شرجیل کی طرح جواب دیا آخر سب کی رائے یہ ہوئی کہ شرجیل بن وراعۃ عبد اللہ بن شرجیل اور جبار بن فیض کو بھیجو تاکہ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خبر لے آئیں یہ وفد روانہ ہوا یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آگیا آپ نے ان سے سوال کیا اور انہوں نے آپ سے کہا آپ عیسیٰ بن مریم کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آج ان کے بارے میں میرے پاس کوئی چیز نہیں تم (میرے پاس) ٹھہرے رہو یہاں تک کہ میں تم کو کل صبح تک بتادوں گا جو کچھ مجھے ان کے بارے میں بتایا جائے گا تو (اس پر) اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) نازل فرمائی لفظ آیت ” ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم خلقہ من تراب “ سے لے کر ” فنجعل لعنت اللہ علی الکذبین “ تک تو انہوں نے اس (آیت) کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جب رسول اللہ ﷺ نے کل (پھر) صبح فرمائی ان کو یہ خبر دینے کے بعد آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے حسن اور حسین ؓ آپ کی چادر مبارک میں تھے اور فاطمہ ؓ آپ کے پیچھے چل رہی تھیں اس طرح آنے کا مقصد ملاغتہ کرنے کا تھا اس دن (آپ کے نکاح میں) کئی عورتیں تھیں شرجیل نے اپنے ساتھیوں سے کہا میں تو ایک لازمی امر دیکھتا ہوں اگر یہ آدمی نبی بھیجا ہوا ہے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اور ہم نے اس کے ملاغتہ کیا تو زمین پر ہم میں سے کوئی بال اور ناخن باقی نہیں رہے گا مگر وہ ہلاک ہوجائے گا دونوں نے اس سے پوچھا اب تیری اس بارے میں کیا رائے ہے اس نے کہا میری رائے تو یہ ہے کہ ہم اس کا حکم مان لیں) تو شرجیل نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی اور عرض کیا میں نے آپ سے معاملہ کرنے سے بہتر رائے پائی ہے آپ نے فرمایا وہ کیا ہے ؟ اس نے کہا آپ مجھے مہلت دے دیں ایک دن اور ایک رات کی (اس کے بعد) جو بھی آپ ہمارے درمیان فیصلہ فرمائیں گے وہ ہمیں منظور ہوگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واپس لوٹ آئے ان سے مباہلہ نہیں فرمایا اور ان سے جزیہ (ٹیکس پر) صلح کرلی۔ (11) بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی ابو نعیم نے دلائل میں حذیفہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ عاقب اور السید دونوں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے تو آپ نے ان سے لعان کرنے کا ارادہ فرمایا ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا ان سے مباہلہ نہ کرو اللہ کی قسم اگر یہ (سچے) نبی ہیں (اور ہم نے اس نے لعان کرلیا تو نہ ہم کامیاب ہوں گے) فلاح نہیں پائی گے اور نہ ہمارے پیچھے آنے والے تو انہوں نے آپ سے کہا کہ ہم کو وہ چیزیں دیں گے جو آپ نے فرمایا تو آپ ﷺ نے فرمایا اے ابو عبیدہ کھڑے ہوجاؤ جب وہ کھڑے ہوگئے تو آپ نے فرمایا یہ اس امت کے امین ہیں۔ العاقب اور السید کی دعوت اسلام (12) حاکم نے اس کو صحیح کہا ابن مردویہ ابو نعیم نے دلائل میں حضرت جابر ؓ سے روایت کیا ہے کہ العاقب اور السید نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے آپ نے ان کو اسلام کی طرف بلایا تو انہوں نے کہا ہم اسلام (پہلے ہی سے) لے آئے ہیں آپ نے فرمایا تم نے جھوٹ کہا اگر تم چاہو تو میں تم کو بتاتا ہوں ان چیزوں کے بارے میں جس نے منع کیا ہے تم دونوں کو اسلام سے انہوں نے کہا بتائیے آپ نے فرمایا (تمہارا) صلیب سے محبت کرنا شراب پینا اور خنزیر کا گوشت کھانا (پھر) حضرت جابر ؓ نے فرمایا آپ نے ان دونوں کو مباہلہ کی طرف بلایا تو انہوں نے کل کا وعدہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے جب صبح کو (اس حال میں) تشریف لائے کہ حضرت علی فاطمہ اور حسن حسین ؓ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا ان لوگوں کو کہلوا بھیجا تو انہوں نے آنے سے انکار کردیا ان کو آیات پڑھ کر سنائیں اور فرمایا اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر وہ وہ ایسا کرلیتے تو ان پر وادی آگ سے بھر جاتی جابر ؓ نے فرمایا ان کے بارے میں یہ آیت ” فقل تعالوا ندع ابناء نا وابناء کم ونساء نا ونساء کم “ نازل ہوئی حضرت جابر ؓ نے فرمایا لفظ آیت ” وانفسنا وانفسکم “ سے مراد رسول اللہ ﷺ وحضرت علی ؓ ہیں اور ” ابناء کم “ سے مراد حسن اور حسین ؓ ہیں اور ” ونساء نا ونساء کم “ سے مراد فاطمہ ؓ ہیں۔ (13) حاکم نے اس کو صحیح کہا اور حضرت جابر ؓ سے روایت کیا ہے کہ نجران کا ایک وفد نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور انہوں نے کہا آپ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ اللہ کی روح ہے اس کا کلمہ ہے اللہ کا بندہ ہے اور اس کا رسول ہے انہوں نے آپ سے عرض کیا کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ مباہلہ کریں کہ وہ اس طرح نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیا یہ بات تم کو پسند ہے ؟ انہوں نے کہا ! آپ نے فرمایا جب تم چاہوتو ٹھیک ہے آپ تشریف لائے اس حال میں کہ آپ نے اپنی اولاد حسن اور حسین ؓ کو جمع فرمایا ان کے رئیس نے کہا اس آدمی کے ساتھ لعان نہ کرو اللہ کی قسم ! اگر ہم نے ان کے ساتھ لعان کیا تو البتہ ایک فریق ان دونوں میں دھنس جائے گا تو وہ آئے اور کہنے لگے اے ابو القاسم ہمارے بیوقوفوں نے آپ کے ساتھ مباہلہ کا ارادہ کیا ہے اور ہم اس بات کو پسند کرتے کہ ہم کو معاف فرمادیں آپ نے فرمایا میں نے تم کو معاف کردیا پھر فرمایا کہ بلاشبہ عذاب نجران والوں پر آچکا تھا۔ (14) ابو نعیم نے دلائل میں کلبی کے طریق سے ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نجران کے نصاری کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور یہ ان کے سردار تھے اور وہ چودہ آدمی تھے ان میں السید تھا اور وہ (ان میں) سب سے بڑا تھا اور (دوسرا) العاقب تھا جو اس کے بعد تھا اور ان کے رائے دینے والوں میں سے تھا رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں سے فرمایا مسلمان ہوجاؤ انہوں نے کہا ہم (پہلے ہی سے) مسلمان ہیں آپ نے فرمایا تم مسلمان نہیں ہو انہوں نے کہا بلکہ ہم تو آپ سے پہلے ہی اسلام لا چکے ہیں آپ نے فرمایا تم نے جھوٹ کہا منع کیا تم کو اسلام لانے سے تین چیزوں نے جو تمہارے اندر ہیں تمہارا صلیب کی عبادت کرنا اور تمہارا خنزیر کو کھانا اور تمہارا یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ کے لیے بیٹا ہے۔ (یہ باتیں اسلام میں منع ہیں جن کو تم کرتے ہو) اور یہ آیات نازل ہوئیں لفظ آیت ” ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون “ جب ان پر یہ آیتیں پڑھیں تو انہوں نے کہا ہم نہیں جانتے کہ آپ کیا کہتے ہیں پھر نازل ہوا لفظ آیت ” فمن حاجک فیہ من بعد ما جاءک من العلم “ فرمایا جو جھگڑا کریں آپ سے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بعد اس کے آپ کے پاس قرآن میں سے علم آچکا (تو ان سے کہو) ” فقل تعالوا “ سے لے کر ” ثم نبتھل “ تک یعنی ہم دعا کریں گے کہ بلاشبہ وہ دین جو محمد ﷺ لے کر آئے وہ حق ہے اور وہ دین جو وہ کہتے ہیں باطل ہے پھر آپ نے ان سے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ کو حکم فرمایا کہ اگر تم اس کو قبول نہ کرو تو میں تم سے مباہلہ کروں تو ان لوگوں نے کہا اے ابو القاسم ! بلکہ ہم لوٹ جاتے ہیں اور اپنے معاملہ میں غور کریں گے پھر آپ کے پاس آئیں گے اس کے بعد ان میں سے بعض نے بعض سے مشورہ کیا اور انہوں نے اس معاملہ میں آپس میں تصدیق کی سید نے عاقب سے کہا اللہ کی قسم تم جانتے ہو کہ یہ آدمی نبی مرسل ہے اگر تم اس سے لعان کروگے تو تم جڑ سے اکھیڑ دئیے جاؤ گے اور جو قوم کسی نبی سے مباہلہ کرتی ہے تو نہ ان کے بڑے باقی رہتے اور نہ ان کے چھوٹے اگر تم نے اس کی تابعداری نہ کی اور تم نے انکار کیا تو تمہارا دین لپیٹ دیا جائے گا (یعنی ختم کردیا جائے گا) ان سے وعدہ کرلو اور اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ اور صبح کو رسول اللہ ﷺ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ کے ساتھ حضرت علی حسن و حسین اور فاطمہ ؓ تھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میں دعا کروں تو تم آمین کہنا تو انہوں نے آپ سے مباہلہ کرنے سے انکار کردیا اور آپ سے جزیہ دینے پر صلح کرلی۔ (15) ابو نعیم نے دلائل میں عطا کے طریق سے اور ضحاک نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ آٹھ عرب کے علماء اہل نجران میں سے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ان میں العاقب اور السید بھی تھے اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” فقل تعالوا ندع ابناء نا “ سے لے کر ” ثم نبتھل “ تک اللہ تعالیٰ نے ان کو جھوٹے لعنت کرنے کے لیے بلانے کا ارادہ فرمایا تو انہوں نے کہا ہم کو تین دن کی مہلت دیجئے تو یہ لوگ بنی قریظہ بنو نضیر اور بنی قینقاع کے پاس گئے اور ان سے مشورہ کیا تو انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ ان سے صلح کرلیں اور لعان نہ کریں کیونکہ وہ وہی نبی ہیں جن کو ہم تورات میں لکھا ہوا پاتے ہیں تو ان لوگوں نے نبی اکرم ﷺ سے صلح کرلی صفر کے مہینہ میں ایک ہزار جوڑے کپڑوں کے اور رجب میں بھی ایک ہزار جوڑے اور درہم پر۔ (16) عبد بن حمید ابن جریر اور ابو نعیم نے دلائل میں قتادہ (رح) سے روایت کیا لفظ آیت ” فمن حاجک فیہ “ یعنی جنہوں نے جھگڑا کیا عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں لفظ آیت ” فقل تعالوا ندع ابناء نا “ یعنی آجاؤ ہم بلاتے ہیں اپنے بیٹوں کو تو نبی اکرم ﷺ نے نجران کے وفد کو بلایا اور وہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جھگڑا کر رہے تھے تو وہ لوگ (مباہلہ کرنے سے) رک گئے اور انکار کردیا ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اہل نجران پر عذاب نازل ہوا چاہتا تھا اگر وہ ایسا کرلیتے تو زمین سے ان کی جڑ کاٹ دی جاتی (یعنی ان سب کو ہلاک کردیا جاتا) ۔ (17) ابن ابی شیبہ و سعید بن منصور وعبد بن حمید وابن جریر اور ابو نعیم نے شعبی (رح) سے روایت کیا ہے کہ اہل نجران نصاری میں سے سب سے بڑی قوم تھی عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بات کرنے کے لحاظ سے اور وہ اس بارے میں نبی اکرم ﷺ سے جھگڑا کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتار دیں جو سورة آل عمران میں ہیں لفظ آیت ” ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل ادم “ سے لے کر ” فنجعل لعنت اللہ علی الکذبین “ تو ان سے مباہلہ کرنے کا حکم فرمایا انہوں نے کل کا وعدہ کیا رسول اللہ ﷺ کل کو تشریف لائے اس حال میں کہ آپ کے ساتھ علی حسن حسین اور فاطمہ ؓ تھے تو انہوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیا اور جزیہ پر صلح کرلی نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میرے پاس اہل نجران کی ہلاکت کی خبر دینے والا (یعنی جبرئیل (علیہ السلام) آچکا تھا حتی کہ پرندے بھی درختوں پر مرجاتے۔ (18) عبد الرزاق، بخاری، ترمذی، نسائی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور ابو نعیم نے دلائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے اگر اہل نجران رسول اللہ ﷺ سے مباہلہ کرلیتے تو اس حال میں لوٹتے کہ اپنے اہل و عیال کو اور مال کو نہ پاتے (یعنی سب ہلاک ہوجاتے) ۔ (19) مسلم، ترمذی، ابن المنذر، حاکم اور بیہقی نے اپنی سنن میں سعید بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت ” فقل تعالوا ندع ابناء نا وابناء کم “ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ اور حسن حسین ؓ کو بلایا اور فرمایا اے اللہ یہ میرے اہل ہیں۔ (20) ابن جریر نے عبد بن احمد یشکری ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت ” فقل تعالوا ندع ابناء نا وابناء کم “ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے حسن اور حسین ؓ کو بلایا اور یہودیوں کو بلایا تاکہ ان سے مباہلہ کریں یہودیوں میں سے ایک نوجوان نے کہا تمہاری ہلاکت ہو کیا کل کو تمہارا وہ زمانہ نہیں گذرا کہ تمہارے بھائی بندر اور سور بنا دئیے گئے ؟ مباہلہ نہ کرو تو وہ باز آگئے۔ (21) ابن عساکر نے جعفر بن محمد (رح) سے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں اس آیت ” فقل تعالوا ندع ابناء نا وابناء کم “ کے بارے میں کہ آپ اپنے ساتھ حضرت ابوبکر اور ان کے بیٹے حضرت عمران کے بیٹے اور حضرت عثمان ؓ اور ان کے بیٹے اور حضرت علی ؓ اور ان کے بیٹے کو۔ (22) ابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن جریج کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ثم نبتھل “ سے مراد ہے پھر ہم پوری کوشش کریں۔ (23) حاکم نے اس کو صحیح کہا اور بیہقی نے اپنی سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ اخلاص ہے یعنی اشارہ کر رہے تھے شہادت کی انگلی کے ساتھ اور فرمایا یہ دعا ہے یعنی اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا اور فرمایا یہ ابتھال ہے یعنی دونوں ہاتھوں کو اوپر اٹھائے لمبا کر کے۔ (24) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ان ھذا لھو القصص الحق “ سے مراد ہے کہ یہ جو ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کہا ہے وہ حق ہے۔ (25) عبد بن حمید نے قیس بن سعد ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ اور ایک دوسرے شخص کے درمیان کچھ جھگڑا تھا تو انہوں نے یہ آیت پڑھی : ” تعالوا ندع ابناء نا وابناء کم ونساء نا ونساء کم وانفسنا وانفسکم ثم نبتھل “ تو آپ نے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور رکن یمانی کا استقبال کرتے ہوئے یہ پڑھا ” فنجعل لعنت اللہ علی الکذبین “ (پھر اللہ تعالیٰ جھوٹوں پر لعنت کرے) ۔
Top